٭۔روزے
کی افادیت جدید میڈیکل سائنس کی روشنی میں:۔
٭۔مرتبہ ۔۔نسیم عباس
نسیمی
انتساب
قبلہ و کعبہ! عزت مآب !! والد گرامی
!!! مولانا
غلام اکبر بلوچ (رح) کے نام
! جن
کی علم دوستی صحرائے زیست میں میرے لئے زادِ راہ بنی۔
نسیم عباس نسیمی
03320591769
Naseemathar14@gmail.com
ہماری زندگی میں ایک بار
پھر اللہ کے فضل و کرم سے ماہِ رمضان کی برکتوں رحمتوں ، اور مغفرتوں کی برسات
جاری وساری ہے۔ امید ہے آپ سب اس مہینے کی با سعادت گھڑیوں میں سے اپنی اپنی ہمت
و توفیق کے مطابق اپنا حصہ وصول کرنے میں مصروف ہونگے۔یہ ماہِ مقدس اللہ کی
خوشنودی و رضا اور مغفرتِ بے بہا کا پیغام بر تو ہے ہی لیکن صحت و تن درستی کا
بہترین ذریعہ بھی ہے۔ رمضان الکریم میں عام طور پر لوگوں کا عبادات کی طرف رجحان
قدرتی طور پر بڑھ جاتا ہے۔جوان،بچے اور بوڑھے سبھی بڑے شوق و ذوق سے دن میں روزہ
رکھنے کا اہتمام کرتے ہیں۔
پنجگانہ نماز کی ادائیگی باقاعدہ کی جاتی ہے۔حصول ثواب اور قربِ ذات کے
لیے ہر مسلمان وفورِ جذبات کے ہاتھوں دوسروں سے سبقت لے جانے کی کوشش میں ہوتا ہے۔
اگر چہ نماز و روزہ اللہ کی خوشنودی کا صدیوں سے ذریعہ چلا آرہا ہے لیکن جدید
سائنسی اور طبی تحقیقات نے ان عبادات کی بدنی افادیت کو بھی ثابت کردیا ہے۔ روزہ
ایک ایسی عبادت ہے جس میں انسانی جسم اور روح دونوں ہی شامل ہو تے ہیں۔روزہ محض
بھوکے پیاسے رہنے کا نام نہیں ہے بلکہ فطرت کے اصولوں پر عمل پیرا ہونے کی عملی
مشق ہے۔ آج اگر بغور جائزہ لیا جائے تو یہ حقیقت اظہر من الشمس ہے کہ سائنسی
ارتقاء اور اسبابِ دنیوی کی فراوانی سے انسان کے روحانی و جسمانی مسائل میں کئی
گنا اضافہ ہو گیا ہے۔روپے پیسے کی ریل پیل سے اس نے اپنے طرزِ رہن سہن اور لباس و
خوراک میں غیر فطری عوامل کو شامل کرکے اپنے جسمانی اور صحت و تن درستی کے کئی ایک
عوارض کو دعوت دے رکھی ہے۔ذہنی انتشار اور بدنی خلفشار کی بہتات کے اس دور میں
روزے سے بڑی کوئی نعمت ہو ہی نہیں سکتی۔روزہ صرف روحانی عبادت کا نام ہی نہیں ہے
بلکہ یہ بدنی کسرت کا بہترین ذریعہ بھی ہے۔ روزے کی مددسے موجودہ دور کے کئی
خطرناک امراض سے چھٹکارا حاصل کیا جا سکتا ہے۔
فی زمانہ بلڈ پریشر،یورک
ایسڈ،کو لیسٹرول، موٹاپہ، جوڑوں کا درد ،بواسیر اور شوگر جیسے موذی اور خطرناک
امراض کے ہاتھوں انسانیت نہ صرف خوفزدہ ہے بلکہ اکثریت اس کے نرغے میں پھنس بھی
چکی ہے۔ اسلام کی دستوری کتاب قرآنِ پاک ہے۔اللہ تعالیٰ نے اپنے کلامِ پاک میں فرمادیا
کہ’’اور خوب کھائو اور پیو اور حد سے نہ نکلو،بے شک اللہ حد سے نکلنے والوں کو
پسند نہیں کرتا۔‘‘ (الاعراف31 )اسی طرح شارع اسلام اور حکیم ِاعظم حضرت محمدﷺ نے
بھی اپنے پیرو کارو ں کو بتادیا کہ’’معدہ بیماری کا گھر ہے اور پرہیز ہر دوا کی
بنیاد ہے اور ہر جسم کو وہی کچھ دو جس کا وہ عادی ہے‘‘۔ روزہ پرہیز کے حوالے سے
ہمیں بہترین مواقع فراہم کرتا ہے ۔روزے جہاں رحمت و مغفرت کی برسات لاتے ہیں وہیں
صحت و تن درستی کا باعث بھی بنتے ہیں۔ سارا دن بھوک و پیاس معدے میں جمع ہونے والے
فاضل مادوں کو جلا کر جسم کو ان کے نقصانات سے محفوظ کر دیتی ہے۔طبی ماہرین کے
مطابق روزہ بدن کی زکوٰۃ ہے۔ روزہ رکھنے سے انسان میں ضبطِ نفس کی صلاحیتیں پروان
چڑھتی ہیں۔صبر،استقامت اور حوصلے کے جذبات پیدا ہوتے ہیں۔روزے سے نفسانی و شہوانی
خواہشات کمزور پڑ جاتی ہیں یوں انسان غلبئہ شہوت کی فتنہ انگیزیوں سے محفوظ ہو
جاتا ہے۔ جس طرح مالی زکوٰۃ مال کو آلائشوں سے پاک کرتی ہے با لکل اسی طرح روزہ
جسم کو غیر ضروری اور مضر مادوں سے پاک و صاف کرتا ہے۔ہائی بلڈ پریشر خون کے بڑھے
ہوئے دبائو کا نتیجہ ہو تا ہے۔ جب انسانی معدہ خالی ہوتا ہے تو وہ جسم میں پائی
جانے والی اضافی چربیوں کو پگھلا کر مفید بنا دیتا ہے۔جگر میں جمع شدہ گلائیکوجن
جس کی اضافی مقدار ٹرائیگلائسائیڈ کی شکل میں نقصان دہ ثابت ہو تی ہے بحالتِ روزہ
توانائی کی شکل میں جسم کو توانائی مہیا کرنے کا باعث بن جا تی ہے۔
اسلام ایک مکمل ضابطہ
حیات ہے۔ یوں تو اس دین کامل کے ہر حکم ہر عبادت میں حکمتیں پو شیدہ ہیں جنہیں اہل
علم نے اپنے اپنے حساب سے بیان فرمایا ہے اور اس کے ساتھ ساتھ جدید سائنس کی بدولت
بھی اسلامی احکامات کے بے پناہ فوائد سامنے آئے ہیں جواہل ایمان کے لیئے قلبی سکون
اور غیر مسلموں کے لیئے ذریعہ ہدایت ثابت ہو رہے ہیں۔ دین اسلام کے بنیادی رکن
روزے سے متعلق سائنسی حقائق کا علم بھی اللہ نے اپنے محبوب کوعطا فرمادیا تھا جس
کے متعلق رسول نے ارشاد فرمایا کہ ’ روزہ رکھو، صحتمند رہو گے‘۔رمضان المبارک کے روزے ۲ ہجری میں فرض کئے گئے۔ اسلامی سال کے نویں مہینے کا نام رمضان ہے۔ روزوں کی ابتداء رمضان کا چاند دیکھ کر اور اختتام شوال کا چاند دیکھ کر ہوتا ہے۔ صبح صادق سے غروب آفتاب تک بھوکا پیاسا رہ کر اپنے رب کی عبادت کرنے کا نام روزہ ہے۔ رب تعالیٰ کی جانب سے تو روزے فرض کئے گئے ہیں مگر جدید سائنس بھی روزے کو انسانی ضرورت قرار دیتی ہے۔
اسلام اپنے ماننے والوں کو زندگی کے ہر پہلو بارے
مکمل آگاہی فراہم کرتا ہے۔ معاشرت،معیشت،تجارت سیاست، حکومت اور صحت سے متعلق
رہنمائی مہیا کرتا ہے۔ ارکانِ اسلام جہاں ہمیں روحانی طور پر راحت و سرور پہنچاتے
ہیں وہیں جسمانی لحاظ سے بھی صحت وتن درستی کا ذریعہ بھی بنتے ہیں۔پنجگانہ نماز ہو
یا ماہِ رمضان کے روزے یہ ہمارے لیے روحانی پاکیزگی کے ساتھ ساتھ جسمانی آسودگی
کا ذریعہ بھی بنتے ہیں۔ نماز کی ادائیگی نہ صرف برائیوں سے روکتی ہے بلکہ جسمانی
ورزش کا بہتری موقع بھی فراہم کرتی ہے۔خاص کر موجودہ مصروف دور میں مصروف زندگی
گزارنے والوں کے لیے تو جسمانی فٹنس کے حوالے سے نعمتِ بے بہا ہے۔اسی طرح روزہ بھی
اپنے اندر صبر واستقامت،تزکیہ نفس اور ایثار وہمدردی کے ساتھ ساتھ بدنِ انسانی سے
ان گنت بیماریوں کو دور کرنے کا قدرتی ذریعہ بھی ہے۔انسانی جسم کو کئی ایک آلائشوں
سے پاک کرنے کا بہترین سبب اور جسم سے زہریلے مادوں کو خارج کرنے کا باعث بھی ہے۔
حکیم ِاعظم حضرت محمدﷺ کا ایک فرمان ہے : ’’معدہ بیماری کا گھر ہے اور پرہیز ہر
دوا کی بنیاد ہے اور ہر جسم کو وہی کچھ دو جس کا وہ عادی ہے‘‘۔ روزہ پرہیز کے
حوالے سے ہمیں بہترین مواقع فراہم کرتا ہے ۔روزے کی مددسے موجودہ دور کے کئی
خطرناک امراض سے چھٹکارا حاصل کیا جا سکتا ہے۔ فی زمانہ بلڈ پریشر،یورک ایسڈ،کو
لیسٹرول، موٹاپہ،جوڑوں کا درد ،بواسیر اور شوگر جیسے موذی اور خطرناک امراض کے
ہاتھوں انسانیت نہ صرف خوفزدہ ہے بلکہ اکثریت اس کے نرغے میں پھنس بھی چکی ہے۔روزے
جہاں رحمت و مغفرت کی برسات لاتے ہیں وہیں صحت و تن درستی کا باعث بھی بنتے ہیں۔
روزہ ایک
عظیم الشان عبادت ہے، اس کے روحانی اثرات سے ہم سب واقف ہیں۔ آخرت میں ملنے والے
نتائج، برکات و ثمرات ہم سب کے ذہن نشین ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ ہرمسلمان کی کوشش ہوتی
ہے کہ وہ ماہِ رمضان میں روزہ رکھے۔ رمضان کے احکامات صحت مندوں کے لیے ہیں،
اورمریضوں کو اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید میں ایک حد تک رخصت دی ہے، مگرمریضوں کی
بھی یہ خواہش ہوتی ہے کہ وہ رمضان میں روزے کا اہتمام کریں۔
رب العالمین نے رمضان میں روزے،
سحری، افطار، نوافل، قیام اللیل اور اعتکاف کے جو احکامات دیے ہیں ان کے نہ صرف
روحانی اثرات ہیں بلکہ ان کے طبی اثرات بھی ہیں۔ میڈیکل سائنس جوں جوں ترقی کر رہی
ہے یہ بات عیاں ہوتی جا رہی ہے کہ روزے کے طبی اثرات بھی عظیم الشان ہیں۔
اسلام
دین فطرت ہے اور ہرشعبۂ زیست میں راہِ اعتدال کی تعلیم دیتا ہے۔ آج مغرب میں بھی
خوردونوش میں زیادتی کوناپسند کیا جاتا ہے اور اسے صحتِ انسانی کے لیے مضر گردانا
جاتا ہے۔ اللہ تعالیٰ جل شانہ نے اپنے محبوب مکرم نبی معظم رسول اکرم صلی اللہ
علیہ وسلم پر یہ وحی نازل فرمائی:
وَّ کُلُوْا وَ اشْرَبُوْا وَ لَا تُسْرِفُوْا اِنَّہٗ
لَا یُحِبُّ الْمُسْرِفِیْنَ o (اعراف ۷:۳۱)
اور کھائو اور پیو اور حد سے نہ بڑھو، بے شک حد سے
بڑھنے والے اسے پسند نہیں۔
حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے کھانے پینے میں
اسراف سے منع فرمایا ہے۔حضرت ابوذرؓ سے روایت ہے کہ رسولؐ اللہ نے ارشاد فرمایا:
کھائو، پیو اور پہنو اور خیرات کرو بغیر فضول خرچی اور
تکبر کے۔ (بخاری، کتاب اللباس، باب ۴۵۴۰،
پہلی حدیث)
ڈاکٹر محمد عثمان نجاتی لکھتے ہیں کہ کھانے میں اسراف
صحت کے لیے مضر ہے اور بسیار خوری کی وجہ سے جسم موٹا ہوجاتا ہے جس سے بہت سے
امراض پیدا ہوجاتے ہیں۔ واقعہ یہ ہے کہ انسان کو کھانے کی صرف تھوڑی مقدار کی
ضرورت ہے، جو انسانی جسم میں اتنی توانائی پیدا کرسکے جتنی توانائی انسانی زندگی
کے لیے ضروری ہے اور جس سے اس کی صحت اچھی رہ سکے اور وہ اپنی روز مرہ کی ذمہ
داریاں پوری کرسکے۔ انسانی جسم کو جتنے کھانے کی ضرورت ہے، اس سے زائد جسم میں
داخل ہونے والا کھانا چربی بن جاتا ہے جس کی وجہ سے انسان کا وزن بڑھ جاتاہے، اس کی
رفتار سُست ہوجاتی ہے اور انسان بہت جلد درماندگی اور تکان کا احساس کرنے لگتا ہے،
نیز انسانی جسم بہت سے امراض کا شکار ہوجاتا ہے۔ اس تفصیل سے یہ بات معلوم ہوتی ہے
کہ کھانے میں اسراف سے قرآن و سنت نے جو ممانعت کی ہے، اس کے پیچھے کیا حکمت
کارفرما ہے۔(حدیث نبویؐ اور علم النفس، ڈاکٹر محمد عثمانی نجاتی، ص ۵۱)
بسیارخوری سے انسان کو لاحق ہونے والی مضرت تمام طریقہ
ہاے علاج میں مسلّم ہے۔ اسی لیے اللہ تعالیٰ نے روزے فرض کیے ہیں تاکہ گیارہ ماہ
کے دوران خوردونوش کی بے احتیاطی کے مضر اثرات کا ازالہ ہوسکے۔ قرآنِ مجید میں اللہ
تعالیٰ جل شانہ نے روزے رکھنے کا حکم ان الفاظ میں دیا ہے:
یٰٓاَیُّھَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا کُتِبَ عَلَیْکُمُ
الصِّیَامُ کَمَا کُتِبَ عَلَی الَّذِیْنَ مِنْ قَبْلِکُمْ لَعَلَّکُمْ
تَتَّقُوْنَ o
(البقرہ ۲:۱۸۳)
اے ایمان والو! تم پر روزے فرض کیے گئے ہیں جیسے ان
لوگوں پر فرض کیے گئے تھے جو تم سے پہلے تھے تاکہ تم پرہیزگار بن جائو۔
قرآن کریم نے بیمار اور مسافر کے لیے روزے مؤخر کرنے
اور جو روزے نہ رکھ سکیں، ان کے لیے فدیہ ادا کرنے کا حکم دیا ہے۔ اس کے بعد روزے
کی حکمت ان الفاظ میں بیان کی گئی ہے:
وَ اَنْ تَصُوْمُوْا خَیْرٌ لَّکُمْ اِنْ کُنْتُمْ
تَعْلَمُوْنَ o
(البقرہ ۲:۱۸۴)
اور تمھارے لیے روزہ رکھنا ہی بہتر ہے اگر تم جانتے ہو۔
دراصل یہاں یہ بتایا گیا ہے کہ اگر تم حیاتیاتی علم کو
سمجھو تو تمھارے لیے بہتر یہی ہے کہ تم روزے رکھو۔ کیونکہ روزہ اپنے اندر بے شمار
روحانی، نفسیاتی اور طبی فوائد رکھتاہے۔ روزے کی طبی افادیت کی طرف نہایت مختصر
مگر بلیغ اشارہ حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ان الفاظ میں فرمایا:
صوموا تصحوا (مجمع الزوائد، ج ۵، ص ۳۴۴، کنزالعمال، رقم الحدیث ۲۳۶۰۵)
’’روزے
رکھو، تندرست ہوجائو گے‘‘۔
حکیم محمد سعید شہیدؒ لکھتے ہیں: ’’روزہ جسم میں پہلے
سے موجود امراض و آلام کا علاج بھی ہے اور حفظ ماتقدم کی ایک تدبیر بھی۔ روزہ
رکھنے والا صرف بیماریوں سے ہی نجات نہیں پاتا بلکہ ان کے لاحق ہونے کے ممکنہ
خطرات سے بھی محفوظ ہوجاتا ہے۔ اس کا طبی سبب یہ ہے کہ روزے سے قوتِ مدافعت بڑھ
جاتی ہے‘‘۔(حکیم محمد سعید، عرفانستان، کراچی ہمدرد فائونڈیشن پریس، ص۱۷۵)
حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد گرامی ہے:
لکل شئی زکوٰۃ وزکاۃ الجسد الصوم (المعجم الکبیر، ۶/۲۳۸)
’’ہرشے
کی زکوٰۃ ہے اور جسم کی زکوٰۃ روزہ ہے‘‘۔
اس حدیث مبارکہ کا مفہوم یہ ہے کہ جس طرح زکوٰۃ مال کو
پاک کردیتی ہے، اسی طرح روزہ جسم کی زکوٰۃ ہے اور اس کے ادا کرنے سے جسم تمام
بیماریوں سے پاک ہوجاتا ہے، بلکہ کذب، غیبت، حسد اور بُغض جیسی باطنی بیماریوں سے
بھی نجات مل جاتی ہے۔
حافظ ابن قیم کے مطابق روزے کا شمار روحانی اور طبعی
دوائوں میں کیا جاتا ہے۔ اگر روزہ دار ان چیزوں کو ملحوظ رکھے جن کا طبعی
اور شرعی طور پر رکھنا ضروری ہے تو اس سے دل اور بدن کو بے حد نفع
پہنچے گا۔(محمد کمال الدین حسین ہمدانی، ڈاکٹر حکیم سید، اسلامی اصولِ
صحت، علی گڑھ: حی علی الفلاح سوسائٹی، اشاعت اول ۱۴۰۵ھ/۱۹۸۵ئ، ص ۴۲)
ڈاکٹر محمد عالم گیر خان سابق پروفیسر آف میڈیسن، کنگ
ایڈورڈ میڈیکل کالج، لاہور بھی روزے کو اَن گنت طبی فوائد کا سرچشمہ قرار دیتے
ہیں۔ (محمد عالم گیرخان، ڈاکٹر، اسلام اور طب جدید، ص ۱۲)۔ تُرک اسکالر ڈاکٹر ہلوک
نور باقی کے مطابق جیسے جیسے طبی علم نے ترقی کی، اس حقیقت کا بہ تدریج علم حاصل
ہوا کہ روزہ تو ایک طبی معجزہ ہے۔ (بلوک نور باقی، ڈاکٹر، قرآنی آیات اور سائنسی
حقائق، مترجم:سیدمحمد فیروز شاہ، ص ۱۰۳)
قرآن کریم میں جہاں روزہ کی فرضیت کا حکم ہے وہیں اسکے
سائنسی فوائد کی طرف بھی اشارہ ملتا ہے۔ جیسے کہ ارشاد بارتی تعالیٰ
’’روزہ رکھنا تمہارے لئے بھلا ہے اگر تم جانو‘‘
’’روزہ رکھنا تمہارے لئے بھلا ہے اگر تم جانو‘‘
اگر تم جانو‘‘ میں علوم کا ایک جہاں پوشیدہ ہے۔ اللہ نے
بنی اسرائیل کے ایک نبی کی طرف وحی بھیجی کہ اپنی قوم کو بتادو کہ جو بندہ میری
رضا مندی کے لئے روزہ رکھے گا تو اس کے جسم کو صحت بخشو ںگا اور اسے اجر عظیم
عطاکروں گا۔ جوں جوں عقل ترقی کر رہی ہے، حیرت انگیز علوم سے آشنا ہوتی جا رہی
ہے۔ میڈیکل سائنس کے حوالے سے کچھ عرصہ قبل تک یہ سمجھا جاتا تھا کہ روزے سے نظام
انہضام کو آرام ملتا ہے۔ مگر جیسے جیسے میڈیکل سائنس نے ترقی کی اس حقیقت کا
بتدریج علم ہوا کہ روزہ تو ایک حیرت انگیز طبی معجزہ ہے۔ انسانی نظام انہضام بہت
سے اعضاء پر مشتمل ہوتا ہے۔ سب پیچیدہ اعضاء خود بخود ایک کمپیوٹرائز نظام کی طرح
کام کرتے ہیں ۔ جیسے ہی ہم کچھ کھانا شروع کرتے ہیں تو یہ پورا نظام حرکت میں
آجاتا ہے۔ اور ہر عضو اپنا مخصوص کام شروع کردیتا ہے۔ یہ سارا نظام 24 گھنٹے
ڈیوٹی پر ہونے کے علاوہ اعصابی دبائو اور خوراک کی بد احتیاطی کی وجہ سے شدید
متاثرہوتا ہے۔ روزے کے ذریعے جگر کو 4 سے 6 گھنٹے آرام مل جاتا ہے۔ یہ روزے کے
بغیر قطعی نا ممکن ہے کیونکہ بے حد معمولی مقدار کی خوراک یہاں تک کہ ایک گرام کا
دسویں حصے کے برابر بھی معدہ میں داخل ہو جائے تو پورے نظام انہضام کا سسٹم اپنا
کام شروع کردیتا ہے اور جگر فوراً مصروف عمل ہو جاتا ہے۔ ماہرین کہتے ہیں کہ
سائنسی نقطہ نظر سے یہ دعویٰ کیا جاسکتا ہے کہ اسے آرام کے لئے سال میں ایک ماہ
لازم آرام دینا چاہئے۔ اس کے ذریعے جدید دور کا انسان اپنے آپ کو محفوظ سمجھنا
شروع کردیتا ہے۔ اگر جگر کو قوت گویائی حاصل ہو جائے تو وہ انسان سے کہے گا:۔
’’صرف روزے کے ذریعے تم مجھ پر احسان کرسکتے ہو‘‘
’’صرف روزے کے ذریعے تم مجھ پر احسان کرسکتے ہو‘‘
آج سے کچھ عرصہ پہلے تک یہی بات عام تھی کے روزہ رکھنے
کا طبی لحاظ سے فائدہ یہی ہے کہ اس سے انسانی نظام ہضم کو کچھ دیر کے لئے آرام
کرنے کا موقع مل جاتا ہے کیوں کہ انسانی نظام ہضم بھی ایک طرح کی مشین کا کام سر
انجام دیتا ہے اور اگر یہ مشین مسلسل کام ہی کرتی رہے تو اس میں مختلف طرح کی
خرابیاں پیدا ہونے کا اندیشہ موجود رہتا ہے اس لئے اگر سال میں ایک بار کچھ دنوں
کے لئے اس کو آرام کرنے کا موقع مل جائے تو ان خرابیوں کا خطرہ کم ہو جاتا ہے اور
اس سے انسانی جسم بیماریوں سے محفوظ رہتا ہے . مگر جدید دور میں میڈیکل سائنس کی
تحقیق سے یہ بات سامنے آ چکی ہے کہ روزہ تو ایک حیران کن معجزہ ہے جو انسانی جسم
کے لئے بہت زیادہ مفید ہے اور مزے کی بات یہ ہے کہ یہ چیز آج سے چودہ سو سال پہلے
سے موجود ہے جب میڈیکل سائنس کے نام سے بھی کوئی واقف نہیں تھا . روزہ ایک ایسی
عالمگیر آفاقی حقیقت ہے جو قرآن مجید میں بیان کی گئی ہے . قرآن میں ارشاد ہوتا ہے
کہ " اے
ایمان والو تم پر روزے فرض کئے گئے جیسا کہ تم سے پہلے لوگوں پر کئے گئے تھے تا کہ
تم تقویٰ حاصل کرو اور تمہارے لئے یہی بہتر ہے کہ روزے رکھو
" یہ
آیات سورہ البقرہ سے لی گئی ہیں اور ان میں بھی روزہ رکھنے کا حکم دیا گیا ہے خاص
طور پر آخری حصے میں بتایا گیا ہے کہ روزہ بے حد فائدہ مند چیز ہے اور اس کے بہت
سے فائدے ہیں جو کہ میڈیکل سائنس کی رو سے بھی ثابت ہیں
روزے کا انسانی نظام ہضم پر گہرا اثر
ہوتا ہے . انسانی ہضم کا نظام خاصا پیچیدہ ہے اور بہت سے اعضا پر مشتمل ہے جن میں
گلا ، زبان ، معدہ اور وہ نالی جو خوراک کو معدہ تک لیکر جاتی ہے اور آنتیں اور
جگر وغیرہ شامل ہیں . یہ پورا نظام ایک دوسرے سے پیوست ہے اور خود کارانہ طور پر
عمل کرتا ہے جب بھی ہم کوئی خوراک کھاتے ہیں تو یہ پورا نظام خود ہی حرکت میں آ
جاتا ہے اور اپنا کام سر انجام دینے لگتا ہے . اس طرح اس نظام کو بہت زیادہ کام
کرنا پڑتا ہے اور مسلسل مشقت سے یہ تمام اعضا تھک جاتے ہیں اور وقت گزرنے کے ساتھ
ساتھ ان کی کارکردگی پہلے جیسی نہیں رہتی . اس لئے روزہ فائدہ مند ہے کیوں کہ اس
ایک ماہ کے دوران ان اعضا کو کم کام کرنا پڑتا ہے اور اس طرح سے ان کو آرام کرنے
کا موقع مل جاتا ہے . روزے سے جگر
کو بہت زیادہ فائدہ پہنچتا ہے کیوں کہ انسانی جگر ہر وقت مصروف عمل رہتا ہے چاہے
آپ نے ایک چمچ بھر چیز ہی کیوں نہ کھائی ہو . اس طرح روزے کی وجہ سے جگر کو ١٠ سے
١٢ گھنٹے کا آرام مل جاتا ہے جو انسانی صحت کے لئے نعمت سے کم نہیں
اسی طرح انسانی معدے پر روزے کے بہت مفید اثرات ہوتے
ہیں . جب میں ہم کچھ کھاتے ہیں تو معدہ اس غذا کو ہضم کرنے کرنے کے لئے فوری طور
پر رطوبتیں پیدا کرنا شروع کر دیتا ہے اور جب روزے کی وجہ سے ان رطوبتوں کے پیدا
ہونے کے عمل میں بھی توازن پیدا ہو جاتا ہے اس کے ساتھ ساتھ معدے میں تیزابیت پیدا
ہونے کی مقدار بھی کم ہو جاتی ہے چونکہ اس عمل سے تیزابیت اور رطوبت پیدا کرنے
والے خلیوں کو آرام ملتا ہے اس طرح معدے کا عمل زیادہ بہتر ہو جاتا ہے اور شام کو
روزہ افطار کرنے کے بعد معدہ اپنا عمل زیادہ اچھی طرح انجام دیتا ہے . روزہ رکھنے
سے نظام ہضم کے اہم جزو آنتوں کو بھی خاصی دیر آرام کرنے کا موقع مل جاتا ہے کیوں
ان میں ١٠ سے لاکر ١٢ گھنٹے تک کوئی غذا داخل نہیں ہوتی اس طرح آنتوں کو بھی سکون
ملتا ہے . روزے کی وجہ سے انسانی جسم ان بیماریوں سے محفوظ رہتا ہے جو نظام ہضم کی
وجہ سے پیدا ہوتی ہیں
ہمارا جسم اللہ کا دیا ہوا بیش
بہا تحفہ ہے اور اس کا خیال رکھنا اور اس کو صحت مند رکھنا ہم سب کا فرض ہے کیوں
کی صحت ایک ایسی نعمت ہے جس کا بدل ملنا نا ممکن ہے . سارے دن میں جو بھی غذا ہم
استعمال کرتے ہیں اس کا اثر براہ راست ہمارے جسم پر پڑتا ہے . اسلام میں زیادہ
کھانے کو نا پسند کیا گیا ہے کیوں کہ اس سے کئی طرح کی بیماریاں جنم لیتی ہیں اور
اس کے ساتھ ساتھ جسم کا نظام بھی خراب ہوتا ہے جس کا اثر ہمارے جسم کے ساتھ ساتھ
ہمارے رویے پر
بھی ہوتا ہے . زیادہ کھانے والے انسان کا جسم سست اور آرام طلب ہو جاتا ہے جس کے
وجہ سے اس میں بیماریوں کے خلاف قوت مدافعت بھی کم ہو جاتی ہے . اس طرح کا جسم
بیماریوں کا گھر بن جاتا ہے اور ہر گزرتے دن کے ساتھ نت نئے روگ جنم لیتے ہیں . رمضان کے مہینے میں انسان
اپنی زیادہ کھانے والی عادت پر قابو پا سکتا ہے اور اس طرح جسم بھی ٹھیک رہتا ہے .
. روزہ
رکھنے کا ایک اور بڑا فائدہ یہ بھی ہے کہ اس سے دل کو کافی حد تک آرام کرنے کا
موقع مل جاتا ہے اس کی وجہ یہ ہے کہ دن کے وقت روزہ رکھنے سے خون کی مقدار پہلے کی
نسبت خاصی کم ہو جاتی ہے اور اس طرح دل کو آرام کرنے کا مفید موقع میسر آجاتا ہے .
روزے کی وجہ سے دل کے پٹھوں پر بہت کم دباؤ پڑتا ہے جو صحت کی بہتری کے لئے خاصا
فائدہ مند ہے
اس کے علاوہ آج کل کی مشینی زندگی انسانی اعصاب پر بری طرح
اثر انداز ہو رہی ہے . لوگ پہلے کی نسبت زیادہ چڑچڑے ہوتے جا رہے ہیں کیوں کہ
زیادہ کام اور پریشانیوں کی وجہ سے ان کو اعصابی
تناؤ کی شکایت ہونے لگتی ہے . رمضان کے مہینے میں ٣٠ دن کے روزے
انسانی ذہن سے اس دباؤ کو کم کرنے میں کافی مدد گار ثابت ہوتے ہیں . زیادہ کھانے
کی عادت کی وجہ سے جو شریانیں دل کو خون مہیا کرتی ہیں ان کی کارکردگی سست پڑنے
لگتی ہے کیوں کہ اس طرح ان کو زیادہ کام کرنا پڑتا ہے اس لئے روزہ رکھنے کا عمل دل
کے لئے بہت فائدہ مند ثابت ہوتا ہے کیوں کہ انسان دل کی خطرناک بیماریوں سے بچا
رہتا ہے . گردے
بھی خون کے نظام کا ایک حصہ ہی ہوتے ہیں اور روزے کے اوقات کے دوران ان کو بھی کم
کام سر انجام دینا پڑتا ہے اس طرح سے روزے کی وجہ سے جسم کے یہ خاص اعضاء تندرست
حالت میں رہتے ہیں
روزے کے دوران چونکہ لوگوں کو کافی دیر تک بھوکا اور
پیاسا رہ کے گزارہ کرنا پڑتا ہے تو اس وجہ سے کچھ لوگ بیزاری اور چڑچڑے پن
کا شکار ہو جاتے ہیں مگر یہ چیز اعصابی
نظام کی وجہ سے نہیں ہوتی ایسا عام طور پر انا پسند اور سخت طبیعت
لوگوں میں ہی ہوتا ہے . اعصابی نظام تو روزے کے دوران بہت زیادہ آرام دہ حالت میں
رہتا ہے . نماز اور دیگر عبادات کی وجہ سے ہمارے قلب و ذہن کو تسکین حاصل ہوتی ہے
اور جب ہم پورے سکون و اطمینان کے ساتھ خدا کے حضور سجدہ ریز ہوتے ہیں تو ہماری
بہت ساری پریشانیاں ختم ہو جاتی ہیں . روزے کے اور بھی بہت سارے فائدے ہیں جن میں
سے ایک اہم فائدہ خون
کا پیدا ہونا ہے . خون کی تشکیل ہڈیوں
کے گودے
میں ہوتی ہے جب بھی جسم کو خون کی کمی کا سامنا ہوتا ہے تو یہ
ہڈیوں کا گودا اپنا کام شروع کر دیتا ہے اور خون پیدا ہونے لگتا ہے . روزہ رکھنے
کی وجہ سے خون میں غذائیت کی مقدار کم ہوتی ہے تو ہڈیوں کا گودا زیادہ خون پیدا
کرتا ہے . اس طرح سے روزے کی بہت سی خوبیوں میں سے ایک یہ بھی ہے کہ اس سے کوئی
شخص چاہے تو اپنا وزن بڑھا بھی سکتا ہے اور کوئی چاہے تو کم بھی کر سکتا ہے.
ارشاد باری تعالیٰ ہے کہ(یٰاَیُّھَاالَّذِیْنَ آمَنُوْا کُتِبَ
عَلَیْکُمُ الصِّیَامُ کَمَا کُتِبَ عَلٰی الَّذِیْنَ مَنْ قَبْلِکُمْ لَعَلَّکُمْ
تَتَّقُوْنَ) ''
اے ایمان والو! تم پر روزے فرض کر دیے گئے ہیں جیسا کہ تم سے پہلے لوگوں پر فرض کیے گئے' تاکہ تم پرہیز گار بن جائو۔ (البقرة : ١٨٤)ایک اور آیت میں ہے کہ ''جو شخص اس مہینے میں موجود ہو وہ اس کے روزے رکھے۔'' (البقرة : ١٨٥)
حدیث نبوی ہے کہ'' جب تم اسے (یعنی ہلال رمضان کو) دیکھ لوتو روزے رکھو۔'' (بخاری (١٩٠٠)
ایک اور حدیث میں ہے کہ روزہ ارکان اسلام میں سے ایک ہے ۔(بخاری (٨)
اے ایمان والو! تم پر روزے فرض کر دیے گئے ہیں جیسا کہ تم سے پہلے لوگوں پر فرض کیے گئے' تاکہ تم پرہیز گار بن جائو۔ (البقرة : ١٨٤)ایک اور آیت میں ہے کہ ''جو شخص اس مہینے میں موجود ہو وہ اس کے روزے رکھے۔'' (البقرة : ١٨٥)
حدیث نبوی ہے کہ'' جب تم اسے (یعنی ہلال رمضان کو) دیکھ لوتو روزے رکھو۔'' (بخاری (١٩٠٠)
ایک اور حدیث میں ہے کہ روزہ ارکان اسلام میں سے ایک ہے ۔(بخاری (٨)
٭۔روزہ :انسانی جسم کا عمدہ محافظ:۔۔۔۔
زندگی اللہ رب العزت کے تحت گذاری جائے تو زندگی ہے ورنہ اس کا مفہوم ہی ختم ہوجاتا ہے اس طرح حيوانات ،پرندے اور درندے پیدا ہونے کے بعد اپنی طبعی زندگی گذار کر ختم ہو جاتے ہیں مگر انسانوںکے لئے یہ زندگی ایک ضابطہ کے تحت گذارنے کا حکم ہے انسان کے لئے اٹھنے بھنےنی سے لے کر کھانے پینے حتیٰ کہ سونے تک کا ایک نظام مقرر ہے جب اس نظام میں حد سے زیادہ تجاوز بر تا جائے تو انسانی جسم لاتعداد عوارضات کا شکار ہو جاتا ہے ۔چونکہ انسان کی جسمانی رہنمائی کے لئے اقرار توحید ورسالت کے بعد اس کی نفس کی تربیت کے پیش نظر پانچ بار نماز پابندی سے ادا کرنے کا حکم دیا ہے تاکہ سرکش انسان یہ نہ بھول سکے کہ کچھ پابندیاں اور کچھ فرائض بھی اس کے ذمے ہیں اس کے ساتھ ہی اہم ذمہ داری رمضان المبارک کے بابرکت روزوں کی ادائیہ ہے اور روزہ زکوٰة کو دین اسلام میں نفس کی اصلاح اور جسم کے لئے خصوصی اہمیت حاصل ہے ۔
رمضان المبارک سب سے اہم اور متبرک مہینہ ہے اس ماہ مبارک میں ہر طرف برکتوں کا نزول ہوتا ہوا محسوس ہوتا ہے رحمت خداوندی ہر پل کائنات پر سایہ فگن رہتی ہے ۔ایسے میں وہ خوش قسمت لوگ جو شب کی پچھلے پہر کی تنہائی میں اپنے خالق کے حضور سجدہ بائے نانز پیش کرنے کی سعادت حاصل کرتے ہیں وہ اپنے پروردگار کے قرب کو کچھ اس قدر محسوس کرتے ہیں کہ ”نحن اقرب اليه من حبل الوريدا “(ذات خدا وندی انسانی شاہ رگ سے بھی زیادہ قریب ہے )کا فرمان بالکل صادق دکھائی دیتا ہے۔ ذات خداوندی جب پہلے آسمان پر اتر کر یہ دعوت دے رہی ہو کہ ”ہے کوئی سائل کہ میں اس کی دعا کو شرف قبولیت سے نواز دوں ”تو ان ہی لوگوں کی خوش بختی پر رشک ہوتا ہے۔جو ان سنہری لمحات کو اپنے وجود کاایک حصہ بنا لے د ہیں۔ جب یہ لمحات وجود انسانی کا ایک حصہ بن جاتے ہیں تو اس کا نا تواں جسم جہاں تمام آلائشوں سے پاک ہو جاتا ہے وہیں وہ ایسی قوت کے خزانے کا مالک بن جاتا ہے جس کے سامنے ماسواءاللہ دنیا کی ہر چیز ہیچ ہو جاتی ہے یہ طاقت روحانی بھی ہوتی ہے جسمانی اور نفسیاتی بھی۔جسمانی اعتبار کے لحاظ سے روزہ انسانی صحت کے محافظ کا کردار ادا کرتا ہے وہ انسان کے جملہ نظاموں کی خرابی کی اصلاح کرکے ان کے افعال کو درست کرتا ہے جس کی بدولت اس میں ایک ایسی نئی قوت جنم لیتی ہے جو امراض کا دفاع کرکے انسانی جسم کو پروان چڑھاتی ہے۔
نفسیاتی اعتبار سے روزہ انسانی اخلاق ،کردار ،گفتار اور حسن سلوک پر بہت عمدہ اثر ڈالتا ہے اس سے انسانوں میں باہمی بھائی چارگی اور محبت کی فضاءقائم ہوتی ہے اس کی وجہ یہ ہے کہ انسان روزہ فقط اللہ کی رضا کے لئے رکھتا ہے اور ظاہر ہے کہ اس کی ادائیے۔ کے سلسلے میں اس کدءئییہوئے احکامات کو نظر انداز کرنا بھی ممکن نہیں رہتا اور انسان ان احکامات پر ہر ممکن عمل کرنے کی پوری کوشش کرتا ہے۔زبان درازی ،گالی گلوچ،دوسروں پرزیادتی اور بد اخلاقی سے روزہ دارپرہیزکرتا ہے چونکہ دین اسلام کا مقصد انسان کو ایک اعلیٰ زندگی پر گامزن کرنا ہے اس لئے روزہ اس کا تربیتی کورس بن جاتا ہے ۔غرض یہ کہ روزہ ایک ایساامتیازی عمل ہے جو اللہ کے خوف کے حصول کاذریعہ ہے اس سے انسان میں عاجزی وانکساری ،تونگری ،سخاوت ،شجاعت ،ہمدردی اور خود اعتمادی کی صفات پیداا ہوتی ہیں ۔
٭۔روزہ اور خود اعتمادی :۔۔
اسلام نے
انسانی فکر وعمل کیپاکیزگی اور تندرستی کئےا جو عبادات وشعائر مقرر کئے ہیں
ان میں روزے کو بڑی اہمیت ہے ۔اسلام جو دین فطرت ہے فطرت انسانی کی کمزوری سے
بخوبی آگا ہ ہے اس نے روزے کو فرض قرار دے کر عادتوں کے مقابلے میں ہماری خود
اعتمادی کو مضبوط بنانا چاہا روزے کی پہلی ضرب ہماری عادتوں پر پڑتی ہے وہ ہمارے
سونے جاگنے کے اوقات تبدیل کرتا ہے کھانے پینے پر اوردوسری ضروریات پرپابندی عائد
کرتا ہے یہ نہیں ہے کہ کوئی چیز ہماری دست رس سے باہر کردی جاتی ہے اور ہم مجبور
اً اس کیبغیرگذار ا کرتے ہیں بلکہ اس کے برعکس کھانے پینے کا سارا سامان اور دوسری
طبعی ضروریات ہمارے سامنے ہوتی ہیں لیکن ہم ان کی طرف آنکھ اٹھا کر بھی نہیں
دیکھتے ہم کوئی عادت پوری نہیں کرتے او رنہ ہی کسی عادت کا حکم مانتے ہیں اور پورا
ایک مہینہ اس طرح گزارتے ہیں گویا ان عادتوں کے کبھی محکوم تھے ہی نہیں ۔
اسطرح ہرگیارہ مہینے کے بعد ایک مہینہ ہم اپنی عادتوں کو یکسر بدل دیےے ہیں ہم نداد کی زنجیروں کو توڑتے ہیں پیاس کے شد ید مطالبے کو ردکرتے ہیں بھوک کی تکلیف کو نظر انداز کرتے ہیں نفسانی خواہشات کے سامنے سر جھکانے سے انکار کرتے ہیں پھر اگر ہمیں روزے کے حقیقی مقصد یعنی تقوی،کا پاس ہو تو ہم ہر قسم کے فواحش ومنکرات سے بھی پرہیزکرتے ہیں جس سے ہمیں محسوس ہوتا ہے کہ ہم زندہ قوت ارادی کے مالک ہیں عادتوں کے ہم غلام نہیں بلکہ عادتیں ہماری غلام ہیں۔مضر عادتوں کو چھوڑ کر ہم مفید اور نئی عادتیں اختیار کر سکتے ہیں اپنے اخلاق وکردار کے لئے بہتر سانچے تلاش کرکے ان میں ڈھل سکتے ہیں عادتوں کی اس تبدیلی سے ہم میں اعتماد نفس کا جو ہر پیداہوتا ہے اگر ہم اس جوہر کو زندہ محفوظ رکھیں تو آئندہ زندگی کے دوسرے کئی مسائل پر ہم فتح حاصل کر سکتے ہیں ۔
روزہ کے تربیتی کورس کی مدت ایک مہینہ مقرر کی گئی ہے جس کے لئے ثابت قدمی اور استقلال کی ضرورت ہے جو شخص شروع سے آخر تک روزے کے تمام قواعد و شرائط کی پابندی کرے گا اس میں خود بخود یہ احساس پیدا ہوگا کہ وہ صبر آزما حالات سے مقابلے کی صلاحیت بھی رکھتا ہے اور جب کبھی کوئی کٹھن مرحلہ پیش آئے تو مستقل مزاجی اور پامردی کا ثبوت دے سکتا ہے ۔
ہمیں اس بات کا خاص خیال رکھنا چاہےو کہ رمضان المبارک میں ہمیں جو قوت ارادی ،خود اعتمادی اور مستقل مزاجی کی دولت مرتو آئی ہے وہ کسی صورت ضائع نہ ہونے پائے مگر افسوس یہ ہے کہ اکثر حالتوں میں اخلاقی اوصاف کا یہ نہایت مفپیدا موقع ضائع کر دیا جاتا ہے اس صورت حال کی ذمہ داری روزے پر تو ہر حال میں عائد نہیں ہو سکتی بلکہ در حقیقت وہ نقطہ نگا ہ ہی اس حالت کا ذمہ دار ہے جو روزے کے متعلق عوام میں پایا جاتا ہے وہ سمجھتے ہیں کہ صبح سے شام تک بھوکا پیاسا رہنے سے روزے کا مقصد پورا ہوجاتا ہے اس کے برعکس قرآن حکما نے واضح طور پر بتا دیا کہ روزہ وہ ہے جس سے انسان میں تقویٰ (پرہزر گاری )پیداا ہو دوسرے لفظوں میں روزہ ایک ”ذریہے ہے اورپرہیزگاری اس کا مقصد مگر ہم نیذریعہکو مقصد سمجھ لاک اور مقصد کی طرف کوئی توجہ نہیں دی نتیچہ ظاہر ہے ہم تسر دن بھوکے پاک سے بھی رہتے ہیں نماز قرآن مجپیدا کی تلاوت بھی پابندی سے کرتے ہیں اور جب یہ مبارک مہینہ گذر جاتا ہے تو ہمارے ظاہر وباطن میں کوئی تبدیلی واقع نہیں ہوتی اور پھر شوال میں ہم بالکل ویےد ہی ہوتے ہیں جےار شعبان میں تھے ۔
آج ضرورت ہے کہ ہم روزے کے متعلق اپنا نظریہ بدلں اگر ہم اپنے طرز فکر کی اصلاح کرلں اور ہمارا اعتقاد ہوکہ رمضان پر ہز گاری کی مشق کا مہینہ ہے اور اس مشق کے جو نتائج حاصل ہوں وہ ہمیں برقرار رکھنا ہیں تو اس میں کوئی شک نہیں کہ ہمیں حقیقی فوائد حاصل ہوں گے اور ہماری خود اعتمادی میں چار چاند لگ جائںئ گے ساتھ ہی ہمارے ذہن اور اعمال میں پاکزن گی بھی پیداا ہوگی ۔
روزہ کے بارے میں اب تک یہی خیال کان جاتا تھا کہ روزہ بجز اس کے اور کچھ نہیں کہ اس سے نظام ہضم کو آرام ملتا ہے مگر جے ہ جےزہ سائنس اور علم طب نے ترقی کی اس حقیقت کا بتدریخ علم حاصل ہوا کہ روزہ تو ایک طبعی معجزہ ہے۔ قرآن حکمہ میں سورة بقرہ کی آیات ۱۸۳سے ۱۸۷ تک دین کے اہم رکن روزہ کا حکم دیا گاو ہے اور تمام تفصیلات بتائی گئی ہیں۔آیت نمبر ۱۸۴ آخری حصہ میں بتایا گار ہے کہ روزہ ایک اچھی چیز ہے جس سے بہت سے فوائد حاصل ہوتے ہیں اس امر کا بھی اعلان کان گائ کہ ہم اس سے حاصل کردہ رحمتوں کو سمجھ سکتے ہیں اگر ہم سچ کو پہچان سکںا تو قارئنب آئےہ ہم سائنس کے نظریہ سے دیکھتے ہیں کہ روزہ کس طرح ہماری صحت مند میں مدد دیتا ہے اور صحت کا محافظ ہے۔
اسطرح ہرگیارہ مہینے کے بعد ایک مہینہ ہم اپنی عادتوں کو یکسر بدل دیےے ہیں ہم نداد کی زنجیروں کو توڑتے ہیں پیاس کے شد ید مطالبے کو ردکرتے ہیں بھوک کی تکلیف کو نظر انداز کرتے ہیں نفسانی خواہشات کے سامنے سر جھکانے سے انکار کرتے ہیں پھر اگر ہمیں روزے کے حقیقی مقصد یعنی تقوی،کا پاس ہو تو ہم ہر قسم کے فواحش ومنکرات سے بھی پرہیزکرتے ہیں جس سے ہمیں محسوس ہوتا ہے کہ ہم زندہ قوت ارادی کے مالک ہیں عادتوں کے ہم غلام نہیں بلکہ عادتیں ہماری غلام ہیں۔مضر عادتوں کو چھوڑ کر ہم مفید اور نئی عادتیں اختیار کر سکتے ہیں اپنے اخلاق وکردار کے لئے بہتر سانچے تلاش کرکے ان میں ڈھل سکتے ہیں عادتوں کی اس تبدیلی سے ہم میں اعتماد نفس کا جو ہر پیداہوتا ہے اگر ہم اس جوہر کو زندہ محفوظ رکھیں تو آئندہ زندگی کے دوسرے کئی مسائل پر ہم فتح حاصل کر سکتے ہیں ۔
روزہ کے تربیتی کورس کی مدت ایک مہینہ مقرر کی گئی ہے جس کے لئے ثابت قدمی اور استقلال کی ضرورت ہے جو شخص شروع سے آخر تک روزے کے تمام قواعد و شرائط کی پابندی کرے گا اس میں خود بخود یہ احساس پیدا ہوگا کہ وہ صبر آزما حالات سے مقابلے کی صلاحیت بھی رکھتا ہے اور جب کبھی کوئی کٹھن مرحلہ پیش آئے تو مستقل مزاجی اور پامردی کا ثبوت دے سکتا ہے ۔
ہمیں اس بات کا خاص خیال رکھنا چاہےو کہ رمضان المبارک میں ہمیں جو قوت ارادی ،خود اعتمادی اور مستقل مزاجی کی دولت مرتو آئی ہے وہ کسی صورت ضائع نہ ہونے پائے مگر افسوس یہ ہے کہ اکثر حالتوں میں اخلاقی اوصاف کا یہ نہایت مفپیدا موقع ضائع کر دیا جاتا ہے اس صورت حال کی ذمہ داری روزے پر تو ہر حال میں عائد نہیں ہو سکتی بلکہ در حقیقت وہ نقطہ نگا ہ ہی اس حالت کا ذمہ دار ہے جو روزے کے متعلق عوام میں پایا جاتا ہے وہ سمجھتے ہیں کہ صبح سے شام تک بھوکا پیاسا رہنے سے روزے کا مقصد پورا ہوجاتا ہے اس کے برعکس قرآن حکما نے واضح طور پر بتا دیا کہ روزہ وہ ہے جس سے انسان میں تقویٰ (پرہزر گاری )پیداا ہو دوسرے لفظوں میں روزہ ایک ”ذریہے ہے اورپرہیزگاری اس کا مقصد مگر ہم نیذریعہکو مقصد سمجھ لاک اور مقصد کی طرف کوئی توجہ نہیں دی نتیچہ ظاہر ہے ہم تسر دن بھوکے پاک سے بھی رہتے ہیں نماز قرآن مجپیدا کی تلاوت بھی پابندی سے کرتے ہیں اور جب یہ مبارک مہینہ گذر جاتا ہے تو ہمارے ظاہر وباطن میں کوئی تبدیلی واقع نہیں ہوتی اور پھر شوال میں ہم بالکل ویےد ہی ہوتے ہیں جےار شعبان میں تھے ۔
آج ضرورت ہے کہ ہم روزے کے متعلق اپنا نظریہ بدلں اگر ہم اپنے طرز فکر کی اصلاح کرلں اور ہمارا اعتقاد ہوکہ رمضان پر ہز گاری کی مشق کا مہینہ ہے اور اس مشق کے جو نتائج حاصل ہوں وہ ہمیں برقرار رکھنا ہیں تو اس میں کوئی شک نہیں کہ ہمیں حقیقی فوائد حاصل ہوں گے اور ہماری خود اعتمادی میں چار چاند لگ جائںئ گے ساتھ ہی ہمارے ذہن اور اعمال میں پاکزن گی بھی پیداا ہوگی ۔
روزہ کے بارے میں اب تک یہی خیال کان جاتا تھا کہ روزہ بجز اس کے اور کچھ نہیں کہ اس سے نظام ہضم کو آرام ملتا ہے مگر جے ہ جےزہ سائنس اور علم طب نے ترقی کی اس حقیقت کا بتدریخ علم حاصل ہوا کہ روزہ تو ایک طبعی معجزہ ہے۔ قرآن حکمہ میں سورة بقرہ کی آیات ۱۸۳سے ۱۸۷ تک دین کے اہم رکن روزہ کا حکم دیا گاو ہے اور تمام تفصیلات بتائی گئی ہیں۔آیت نمبر ۱۸۴ آخری حصہ میں بتایا گار ہے کہ روزہ ایک اچھی چیز ہے جس سے بہت سے فوائد حاصل ہوتے ہیں اس امر کا بھی اعلان کان گائ کہ ہم اس سے حاصل کردہ رحمتوں کو سمجھ سکتے ہیں اگر ہم سچ کو پہچان سکںا تو قارئنب آئےہ ہم سائنس کے نظریہ سے دیکھتے ہیں کہ روزہ کس طرح ہماری صحت مند میں مدد دیتا ہے اور صحت کا محافظ ہے۔
٭۔طب کی جدید اور قدیم تحقیقات کی روشنی میں امساک [کھانے پینے سے
پرہیز]:۔۔
طب کی جدید اور قدیم تحقیقات کی
روشنی میں امساک [کھانے پینے سے پرہیز] بہت سی بیماریوں کے علاج کیلئے معجزانہ اثر
رکھتا ہے جو قابل انکار نہیں ہے۔ شاید ہی کوئی حکیم ہو جس نے اپنی مشروح تالیفات
اور تصنیفات میں اس حقیقت کی طرف اشارہ نہ کیا ہو کیونکہ ہم جانتے ہیں کہ بہت سی
بیماریاں زیادہ کھانے سے پیدا ہوتی ہیں۔ چونکہ اضافی مواد بدن میں جذب نہیں ہوتا
لہذا مزاحم اور مجتمع چربیاں پیدا ہوتی ہیں یا اضافی شوگر کا باعث بنتا ہے۔ عضلات
کا یہ اضافی مواد درحقیقت بدن میں ایک متعفن بیماری کے جراثیم کی پرورش کیلئے
گندگی کا ڈھیر بن جاتا ہے۔
ایسے میں ان بیماریوں کا مقابلہ کرنے کیلئے بہترین حل یہ ہے کہ گندگی کے ان ڈھیروں کو امساک اور روزے کے ذریعے ختم کر دیا جائے۔ روزہ ان اضافی غلاضتوں اور بدن میں جذب نہ ہونے والے مواد کو جلا دیتا ہے۔ درحقیقت روزہ بدن کو صفائی شدہ مکان بنا دیتا ہے۔ علاوہ ازیں روزے سے معدے کو ایک نمایاں آرام ملتا ہے اور اس سے ہاضمے کی مشینری کی سروس ہو جاتی ہے۔ چونکہ یہ انسانی بدن کی حساس ترین مشینری ہے جو سارا سال کام کرتی رہتی ہے لہذا اس کیلئے ایسا آرام بہت ضروری ہے۔ یہ واضح ہے کہ احکام اسلامی کی رو سے روزے دار کو اجازت نہیں ہے کہ وہ سحری اور افطاری کی غذا میں افراط اور زیادتی سے کام لے۔ یہ اس لئے ہے تاکہ اس حفظان صحت اور علاج سے مکمل نتیجہ حاصل کیا جا سکے ورنہ ممکن ہے کہ مطلوبہ نتائج حاصل نہ کئے جا سکیں۔
ایک روسی دانشور الکسی سوفرین لکھتا ہے: "روزہ ان بیماریوں کے علاج کیلئے خاص طور پر مفید ہے جو خون کی کمی، انتڑیوں کی کمزوری، التہاب زائدہ [Appendicitis]، خارجی و داخلی قدیم پھوڑے، تپ دق، ٹی بی، اسکلیروز، نقرس، استسقار، جوڑوں کا درد، نوراستنی، عرق النساء، خراز، امراض چشم، شوگر، امراض جلد، امراض گردہ، امراض جگر کی وجہ سے ہوتی ہیں۔ امساک اور روزے کے ذریعے علاج صرف مندرجہ بالا بیماریوں سے ہی مخصوص نہیں بلکہ وہ بیماریاں جو انسانی بدن کے اصول سے مربوط ہیں اور جسم کے خلیوں سے چمٹی ہوتی ہیں مثلاً سرطان، سفلین اور طاعون وغیرہ کیلئے بھی شفا بخش ہے۔
غذا کے ماہرین سائنسی بنیادوں پر کہتے ہیں کہ انسان خوراک کے بغیر اکیس دن زندہ رہ سکتا ہے جب کہ پانی کے بغیر تقریباً سات دن۔
ایسے میں ان بیماریوں کا مقابلہ کرنے کیلئے بہترین حل یہ ہے کہ گندگی کے ان ڈھیروں کو امساک اور روزے کے ذریعے ختم کر دیا جائے۔ روزہ ان اضافی غلاضتوں اور بدن میں جذب نہ ہونے والے مواد کو جلا دیتا ہے۔ درحقیقت روزہ بدن کو صفائی شدہ مکان بنا دیتا ہے۔ علاوہ ازیں روزے سے معدے کو ایک نمایاں آرام ملتا ہے اور اس سے ہاضمے کی مشینری کی سروس ہو جاتی ہے۔ چونکہ یہ انسانی بدن کی حساس ترین مشینری ہے جو سارا سال کام کرتی رہتی ہے لہذا اس کیلئے ایسا آرام بہت ضروری ہے۔ یہ واضح ہے کہ احکام اسلامی کی رو سے روزے دار کو اجازت نہیں ہے کہ وہ سحری اور افطاری کی غذا میں افراط اور زیادتی سے کام لے۔ یہ اس لئے ہے تاکہ اس حفظان صحت اور علاج سے مکمل نتیجہ حاصل کیا جا سکے ورنہ ممکن ہے کہ مطلوبہ نتائج حاصل نہ کئے جا سکیں۔
ایک روسی دانشور الکسی سوفرین لکھتا ہے: "روزہ ان بیماریوں کے علاج کیلئے خاص طور پر مفید ہے جو خون کی کمی، انتڑیوں کی کمزوری، التہاب زائدہ [Appendicitis]، خارجی و داخلی قدیم پھوڑے، تپ دق، ٹی بی، اسکلیروز، نقرس، استسقار، جوڑوں کا درد، نوراستنی، عرق النساء، خراز، امراض چشم، شوگر، امراض جلد، امراض گردہ، امراض جگر کی وجہ سے ہوتی ہیں۔ امساک اور روزے کے ذریعے علاج صرف مندرجہ بالا بیماریوں سے ہی مخصوص نہیں بلکہ وہ بیماریاں جو انسانی بدن کے اصول سے مربوط ہیں اور جسم کے خلیوں سے چمٹی ہوتی ہیں مثلاً سرطان، سفلین اور طاعون وغیرہ کیلئے بھی شفا بخش ہے۔
غذا کے ماہرین سائنسی بنیادوں پر کہتے ہیں کہ انسان خوراک کے بغیر اکیس دن زندہ رہ سکتا ہے جب کہ پانی کے بغیر تقریباً سات دن۔
ہم سال کے گیارہ ماہ اپنی جسمانی ضرورتوں کو اس کائنات
میں پیدا ہونے والی اشیاء سے پورا کرتے رہتے ہیں اور اپنے جسم کو تندرست و توانا
رکھتے ہیں۔مگر روح کی غذائی ضرورت کو پورا کرنے کی غرض سے ہمیں پورے سال میں ایک
مہینہ ہی میسر آتا ہے جو رمضان المبارک ہے۔
دنیا کے ایک ارب
سے زائد مسلمان اسلامی و قرآنی احکام کی روشنی میں بغیر کسی جسمانی و دنیاوی فائدے کاطمع کئے تعمیلاًروزہ
رکھتے ہیں تاہم
روحانی تسکین کے ساتھ ساتھ روزہ رکھنے سے جسمانی صحت پر بھی مثبت اثرات مرتب ہوتے
ہیں۔
حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہٗ سے روایت ہے کہ
رسول کریم ﷺ نے فرمایا ’’روزہ رکھا کرو تندرست رہا کرو گے۔‘‘ (طبرانی)
٭۔ڈاکٹر
ایمرسن کے نزدیک فاقہ کی بہترین صورت:۔۔
ڈاکٹر
ایمرسن اپنی تحقیق کی روشنی میں کہتے ہیں کہ فاقے کی بہترین صورت وہ روزہ ہے جو
اہل اسلام کے طریق سے رکھا جاتا ہے۔ میں یہ مشورہ دوں گا کہ جب کسی کو فاقہ کرنے
کی ضرورت پڑے وہ اسلامی طریق سے روزہ رکھے اور ڈاکٹر جس طریق سے فاقہ کراتے ہیں وہ
بالکل غلط ہے۔
٭۔فاقے
(روزے) کے اثرات: ۔۔
بعض لوگ فاقے کے پہلے یا دوسرے دن اپنے آپ کو بیمار
محسوس کرتے ہیں لیکن آہستہ آہستہ ان کی طبیعت بحال ہونے لگتی ہے اور وہ اپنے آپ
کو پہلے سے بھی بہتر محسوس کرنے لگتے ہیں۔ صفائی اور تنقیہ کی دوسری علامات کی طرح
یہ بیماری بھی بالکل عارضی ہوتی ہے اور بالآخر انسان اپنے آپ کو بہت ہلکا پھلکا
اور شاداں وفرحاں محسوس کرتا ہے۔
٭۔فاقہ
اور صحت:۔۔
ایک
طبی ماہر کا کہنا ہے کہ روزے میں اچھی صحت کا راز پوشیدہ ہے۔ اس ماہر نے اپنے
تجربے کی بنیاد پر یہ نتائج اخذ کیے ہیں کہ صحت کے بعض کہنہ مسائل جن کی کوئی خاص
وجہ معلوم نہیںہوتی اکثر فاقہ کرنے سے حل ہوجاتے ہیں۔
٭۔کم خوری
اور متوازن غذا:۔۔
طبی تحقیق نے ثابت کر دیا ہے کہ دل کی
زیادہ تر بیماریاں معدے سے جنم لیتی ہیں۔ کوئی شخص جتنی زیادہ غذا کھاتا ہے اُتنی
ہی زیادہ بیماریوں کو مول لیتا ہے جبکہ زائد کھانے سے اِجتناب دل کے اَمراض سے بچاؤ
میں بہت مُمِد ثابت ہوتا ہے۔ زیادہ خوراک کھانے کی عادت اِنسانی صحت پر بری طرح
اثرانداز ہوتی ہیں۔ اِسی لئے اِسلام نے ہمیشہ بھوک رکھ کر کھانے اور متوازن غذا
کھانے کے متعلق سختی سے اَحکامات صادِر فرمائے ہیں۔
ایک وقت میں خوراک کی زیادہ مقدار کھا
جانا یا ہر روز بھاری ناشتہ کرنا یا روزانہ دوپہر کا بھرپور کھانا، شام کا بھرپور
کھانا، اچھی صحت کے لئے ضروری خوراک سے کافی زیادہ ہے۔ روزانہ دن میں تین وقت کا
بھرپور کھانا، خاص طور پر زیادہ کیلوریز پر مشتمل خوراک اور سیرشدہ چکنائیاں نہ
صرف صحت کے لئے سخت نقصان دِہ ہیں بلکہ اَمراضِ قلب اور دُوسری بہت سی خطرناک
بیماریوں مثلاً ہائی بلڈ پریشر اور شوگر وغیرہ کا سبب بھی بنتا ہے۔
قرآنِ مجید نے متوازن غذا کی عادت کو
برقرار رکھنے کے لئے خوراک کے زائد اِستعمال سے دُور رہنے کی سختی سے تلقین کی ہے۔
اِرشادِ باری تعالیٰ ہے :
كُلُواْ وَاشْرَبُواْ وَلاَ
تُسْرِفُواْ إِنَّهُ لاَ يُحِبُّ الْمُسْرِفِينَO
(الاعراف، 7 : 31)
کھاؤ اور پیؤ اور ضائع مت کرو اور
اللہ اِسراف کرنے والوں کو پسند نہیں کرتاo
قرآنِ مجید اِفراط و تفریط سے بچا کر
معتدل خوراک کی بات کر رہا ہے۔ رسولِ اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اِسی بات کو
تشبیہاً اِس انداز میں بیان فرمایا ہے :
إنّ المؤمنَ يأکلُ في معيٍ واحدٍ، وَ
الکافر يأکلُ في سبعة أمعاء.
(صحيح البخاري، 2 : 812)
(جامع الترمذي، 2 : 4)
(سنن الدارمي، 2 : 25)
(جامع الترمذي، 2 : 4)
(سنن الدارمي، 2 : 25)
مومن ایک آنت میں کھاتا ہے اور کافر
سات آنتوں میں کھاتا ہے۔
حضور علیہ الصلوۃُ والسلام نے یہاں
اِستعارے کی زبان اِستعمال کرتے ہوئے کتنے خوبصورت انداز میں زیادہ کھانے کو کفّار
کا عمل قرار دے کر اُس سے باز رہنے کی تلقین فرمائی۔ ایک اور حدیثِ مبارکہ میں
بسیارخوری کو اللہ کی ناپسندیدگی قرار دیتے ہوئے فرمایا :
إنّ اﷲَ يبغض الأ کلَ فوق شبعه.
(کنزالعمال : 44029)
اللہ تعالیٰ بھوک سے زیادہ کھانے والے
کو نفرت کی نگاہ سے دیکھتا ہے۔
بسیارخوری بیماری کی جڑ ہے اِس لئے
اِس کا مکمل خاتمہ ضروری ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اِسلام نے اِسے سختی سے ناپسند کیا ہے۔
تاجدارِ حکمت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا فرمان ہے :
أکثر الناسِ شبعاً في الدُّنيا أطولهم
جوعاً يومَ القيامةِ.
(سنن ابن ماجه : 248)
جو شخص دُنیا میں جتنی زیادہ شکم
پروری کرے گا قیامت کے روز اُسے اُتنا ہی لمبا عرصہ بھوکا رہنا پڑے گا۔
اِسی طرح نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ
وسلم نے مزید اِرشاد فرمایا :
حسب الآٰدمي لقيمات، يقمن صلبه، فإنْ
غلبت الآٰدمي نفسه فثلاث للطعامِ و ثلاث للشراب و ثلاث للنفس.
(سنن ابن ماجه : 248)
اِنسان کی کمر سیدھی رکھنے کے لئے چند
لقمے ہی کافی ہیں اور اگر زیادہ کھانے کو دل چاہے تو یاد رکھو کہ معدہ کا ایک
تہائی حصہ کھانے کے لئے اور ایک تہائی مشروبات کے لئے (اِستعمال کرو) اور ایک
تہائی سانس لینے میں آسانی کے لئے چھوڑ دو۔
کثرتِ طعام ذیابیطس جیسے مہلک مرض کا
باعث بھی بنتی ہے، جس کی اصل وجہ لبلبے کے ہارمون یعنی اندرونی رطوبت انسولین کی
کمی ہے۔ زیادہ خوراک کھانے کی وجہ سے لبلبے کو زیادہ کام کرنا پڑتا ہے اور بار بار
ایسا ہونے سے لبلبے کے خلیے تھک جاتے ہیں اور کام کرنا چھوڑ دیتے ہیں۔ انسولین کی
کمی کا ایک بڑا سبب بسیارخوری بھی ہے۔ ذیابیطس اُم الامراض ہے جس کی موجودگی میں
بڑے اَمراض بلڈپریشر، فالج اور اَمراضِ قلب کے حملہ آور ہونے کا تناسب بڑھ جاتا
ہے۔
٭۔روزے
اور ڈاکٹروں کی تحقیق:۔۔
ڈاکٹروں
نے یہ تحقیق کی ہے کہ ایک مہینے کے روزے رکھنے سے بہت سی بیماریاں انسان کے جسم سے
خودبخود دور ہوجاتی ہیں۔ روزوں کا جسمانی طور پر بھی فائدہ ہے اور روحانی طور پر
بھی… کئی بندے وہ بھی ہوتے ہیں کہ جن کے گھر کا غسل خانہ غریب آدمی کے گھر سے بھی
زیادہ مہنگا ہوتا ہے اور پورا سال وہ اپنی مرضی سے کھاتے پیتے ہیں اگر رمضان
المبارک کے روزے نہ ہوتے تو ہوسکتا ہے انہیں یہ پتہ ہی نہ چلتا کہ جو غریب آدمی
اپنے گھرمیں بچوں کے ساتھ بھوکا ہے اس کے ساتھ کیا گزرتی ہے؟ اللہ تعالیٰ نے روزے
فرض کرکے ہمارے اوپر احسان کیا۔ انسان جب سارا دن کچھ نہ کھائے کچھ نہ پیے تب خیال
آتا ہے کہ جو بھوکا رہتا ہوگا اس کا کیا حال ہوتا ہوگا؟روزہ اور روسی ماہرین کی
ریسرچ: روسی ماہر الابدان پروفیسر وی این نکٹین نے لمبی عمر سے متعلق اپنی ایک
اکسیردوا کے انکشاف کے سلسلہ میں لندن میں 22مارچ 1940 کو بیان دیتے ہوئے کہا کہ
اگر ذیل کے تین اصول زندگی اپنالیے جائیں تو بدن کے زہریلے مواد خارج ہوکر بڑھاپا
روک دیتے ہیں۔اول: خوب محنت کیا کرو‘ ایک ایسا پیشہ جو انسان کو مشغول رکھے جسم کے
رگ و ریشہ میں تروتازگی پیدا کرتا ہے جس سے خلیے پیدا ہوتے ہیں بشرطیکہ ایسا شغل
ذہنی طور پر بھی قوت
بخش ہو۔ اگر تمہیں اپنا کام پسند نہیں تو فوراً ترک
کردینا چاہیے۔دوئم: کافی ورزش کیا کرو‘ بالخصوص زیادہ چلنا پھرنا چاہیے۔سوئم: غذا
جو تم پسند کرو کھایا کرو لیکن ہر مہینہ میں کم از کم فاقہ ضرور کیا کرو۔
ملائشیا کی ہومیو پیتھک فیکلٹی نے روزے پر با
قاعدہ ریسرچ کے بعد نتیجہ اخذ کیا ہے کہ روزہ نہ صرف نظام ہضم اور مرکزی نروس سسٹم
کو آرام دیتا ہے بلکہ میٹابولزم کو بھی معمول پر لاتا ہے۔
روزوں کے کے کچھ سائنسی فوائد درج زیل ہیں:
انسان دوپہر کا کھانا نا کھائے تو ہلکا پھلکا محسوس کرتا ہے ، روزے کا بھی یہی فائدہ ہے کہ انسان ہلکا پھلکا محسوس کرتا ہے۔
کم کھانا کھانا طبی لحاظ سے فائدہ مند ہے، روزے میں ذہن ذیادہ اچھا کام کرتا ہے۔
روزے میں وزن کم ہوتا ہے جو طبی لحاظ سے بہتر ہے۔
روزے میں جسم کی چربی کم ہوتی ہے۔
دوران خون بہتر ہوتا ہے ۔
دل کے امراض میں کمی ہوتی ہے۔
روزہ رکھنے سے کولیسٹرول کم ہوتا ہے۔
روزہ رکھنے سے معدے کی بیماریاں اور تکالیف دور ہو جاتی ہیں۔
آجکل کے دور میں جہاں جدید سہولتیں سامنے آرہی ہیں وہیں عجیب اور پیچیدہ بیماریاں بھی پروان چڑھ رہی ہیں جنکا علاج طویل فاقہ کشی کے ذریعے کیا جاسکتا ہے۔
روزوں کے کے کچھ سائنسی فوائد درج زیل ہیں:
انسان دوپہر کا کھانا نا کھائے تو ہلکا پھلکا محسوس کرتا ہے ، روزے کا بھی یہی فائدہ ہے کہ انسان ہلکا پھلکا محسوس کرتا ہے۔
کم کھانا کھانا طبی لحاظ سے فائدہ مند ہے، روزے میں ذہن ذیادہ اچھا کام کرتا ہے۔
روزے میں وزن کم ہوتا ہے جو طبی لحاظ سے بہتر ہے۔
روزے میں جسم کی چربی کم ہوتی ہے۔
دوران خون بہتر ہوتا ہے ۔
دل کے امراض میں کمی ہوتی ہے۔
روزہ رکھنے سے کولیسٹرول کم ہوتا ہے۔
روزہ رکھنے سے معدے کی بیماریاں اور تکالیف دور ہو جاتی ہیں۔
آجکل کے دور میں جہاں جدید سہولتیں سامنے آرہی ہیں وہیں عجیب اور پیچیدہ بیماریاں بھی پروان چڑھ رہی ہیں جنکا علاج طویل فاقہ کشی کے ذریعے کیا جاسکتا ہے۔
٭۔قوت
ارادی:۔۔
ہر
سلیم الفطرت آدمی اچھی اور بری چیز کو جانتا ہے لیکن بہت سے لوگوں کے ارادے کی
کمزوری پر خطرلذت کشی کا سبب بنتی ہے خواہشات کا طوفان روکنے کیلئے ارادے کی پختگی
بہت ضروری ہے۔ روزہ ارادے کی تقویت کیلئے بہترین عملی مشق ہے‘ آدمی کا دیر تک
کھانے پینے سے رکا رہنا اسے محنت و مشقت برداشت کرنے کا عادی بناتا ہے۔زندگی کوئی
باغ جنت نہیں ہے بلکہ یہ ایک ایسا میدان ہے جس میں مقاصد کی تکمیل کیلئے پیہم
مقابلہ جاری ہے اس میں رکاوٹیں بھی پیش آتی ہیں اس میں عمل پیہم اور جہد مسلسل کی
ضرورت پڑتی ہے۔ یہ چیز طاقت و ارادے کے بغیر ممکن نہیں‘ روزے میں قوت ارادی کا
امتحان ہوتا ہے کیونکہ یہ ایک حقیقت ہے کہ بھوک اور پیاس کی شدت سے خواہش اور عقل
کے درمیان ایک معرکہ برپا ہوجاتا ہے جس سے قوت ارادی کو تقویت ملتی ہے۔
جرمنی عالم جیہمارڈٹ نے قوت ارادی پر ایک کتاب لکھی ہے‘
انہوں نے روزے کو قوت ارادی پیدا کرنے کیلئے ایک بنیادی عمل قرار دیا‘ اس کے ذریعے
ابھرنے والی خواہشات پر قابو حاصل ہوتا ہے‘ نیز اس کی سالانہ تکرار سے ارادے کی
کمزوری سے حفاظت ہوتی ہے پختگی حاصل ہوتی ہے‘ انہوں نے ان لوگوں کی مثال دی جنہوں
نے سگریٹ نوشی چھوڑی‘ سب سے پہلے انہیں پورے دن سگریٹ چھوڑنے پر مجبور کیاگیا جس
سے ان میں ہمیشہ کیلئے چھوڑنے کا جذبہ پیدا ہوا‘ چنانچہ انہوں نے ہمیشہ کیلئے اسے
چھوڑ دیا۔
دنیاکے
ہر مذہب میں کسی نہ کسی شکل میں روزہ رکھنے کی ہدایت کی گئی ہے۔ مذہب اسلام میں
روزہ فرض ہے۔ اسلام ایک مکمل دین ہے۔ اس کی روشنی میں اگر غور کیا جائے توروزہ کے
روحانی اور جسمانی فوائد کی اہمیت اور بھی بڑھ جاتی ہے۔ ہر مسلمان کے اوپر روزہ
رکھنا فرض ہے ، ہاں اگر کسی کے پاس شرعی عذر ہوتو اس کو روزہ نہ رکھنے کی اجازت
ہے۔ اللہ تعالیٰ کی رضا اور معرفت حاصل کرنے کے لےے لازمی ہے کہ ہر مسلمان اس کی
پابندی کرے۔ فی الحال ہم یہاں روزہ کے طبی فائدے پر غور کریں گے جس کی وجہ سے شرعی
پابندی کے ساتھ ساتھ بہتر صحت کی معلومات کے سبب اور بھی ہماری رغبت بڑھ جاتی ہے۔
وہ حضرات جو بدہضمی و معدہ کی دیگر خرابی ، جگر کی خرابی، ہائی بلڈ پریشر، موٹاپا
اور جسم میں چربی کی زیادتی خاص طور سے کولسٹرول کے بڑھنے جیسے امراض میں مبتلا
ہوں، ان کے لےے یہ مہینہ اپنے آپ کو فٹ کرنے کے لےے بڑی نعمت ثابت ہوسکتا ہے۔
روحانی اور جسمانی طور پر صحت یاب رہنے کے لےے اللہ تعالیٰ نے رمضان شریف کا مہینہ
روزے کی شکل میں ہمیں عنایت کیا ہے۔ یقینا اس میں اللہ تعالیٰ کی کریمانہ حکمت
عملی شامل ہے۔ اعضاءرئیسہ خاص طور سے دل و دماغ اور جگر کو روزہ رکھنے سے تقویت
ملتی ہے اور ان کے افعال میں درستگی پیدا ہوتی ہے۔ اس کے علاوہ استحالہ کا عمل (Metabolic
Function) بھی ترتیب میں آجاتا ہے، جسے سائنسدانوں نے
بارہا ثابت کیا ہے اور اس کی رپورٹ نیشنل/ انٹرنیشنل میڈیکل جرنلوں میں شائع ہوچکی
ہے۔ روزہ رکھنے سے اضافی چربی ختم ہو جاتی ہے۔ روزہ ذہنی تنائو کو ختم کرنے
میں ہم ادا رول کرتاہے۔ وقت پر سحر اور افطار کرکے موٹاپا کے شکار لوگ اپنا وزن کم
کر سکتے ہیں۔ وہ عورتیں جو موٹاپا کا شکار ہیں اور اولاد سے محروم ہیں ان کے لئے
روزہ نہایت ہی فائدہ مند ثابت ہو سکتا ہے کیونکہ جدید میڈیکل سائنس کا ماننا ہے کہ
وزن کم ہونے کے بعد بے اولاد خواتین کے یہاں اولاد کی پیدائش کے امکانات میں کافی
اضافہ ہوتاہے۔ جب ہم روزہ رکھتے ہیں تو ہمارے معدے کے فاسد مادے زائل ہو جاتے ہیں۔
روزہ کا ایک اہم فائدہ یہ بھی ہے کہ جولوگ منشیات ، شراب اور تمباکو نوشی جیسی بری
عادتوں کے عادی ہوچکے ہیں وہ روزہ کی مدد سے اس ان عادتوں پر قابو پاسکتے ہیں۔
تجربات بتاتے ہیں کہ روزہ رکھنے کی وجہ سے انسان کی زندگی میں اضافہ ہوتا ہے۔ روزہ
رکھنے کی وجہ سے ہمارا دل نظام ہضم میں اپنی توانائی صرف کرنے سے آزاد ہوجاتاہے
اور وہ اس توانائی کوگلوبن پیدا کرنے پر صرف کرتا ہے ۔ گلوبن ہمارے جسم کی حفاظت
کرنے والے مدافعتی نظام کو تقویت پہنچاتاہے۔ روزہ قوت مدافعت کے نظام کو بہتر
بناتا ہے۔ روزہ رکھنے کی وجہ سے دماغی خلیات کو فاضل مادوں سے نجات مل جاتی ہے اور
اسی طرح سے دماغی صلاحیتیوں کو جلا ملتی ہے۔ روزہ کی اہمیت وافادیت کا اندازہ
پروفیسر نیکولای کے اس بیان ہوتا ہے جو انہوں نے اپنی کتاب”صحت کی خاطر بھوک “ میں
ذکر کیا ہے وہ لکھتے ہیں”ہر انسان، خاص طور پر بڑے شہروں میں رہنے والے کے لئے
ضروری ہے کہ وہ سال میں تین چار ہفتہ تک کھانا کھانے سے باز رہے تاکہ وہ پوری
زندگی صحت یاب رہے“۔
٭۔روزے کا
اثر پورے سال:۔۔۔
روزہ سے پیدا
ہونے والی یہ نفسیاتی قوت ماہ رمضان کے ختم ہونے سے ختم نہیں ہوتی کیونکہ یہ ماہ
روحانی بیداری کا سیزن ہے‘ اس کا اثر بعد میں بھی باقی رہتا ہے انسان جب اس طویل
مدتی روحانیت کے راستے پر گامزن ہوتا ہے تو روزے کا زمانہ ختم ہونے کے بعد بھی وہ
اس کے ان اثرات سے مستفیض ہوتا رہتا ہے جنہوں نے اس کی روح کو حیات نو بخشی تھی وہ
عبادت کی لذت سے محظوظ ہوتا ہے۔ اپنے اندر ایک لامحدود قوت محسوس کرتا ہے یہ کافی
نہیں ہے کہ لوگ آپ پراعتماد کریں اور آپ کا باطن اضطراب کا شکار ہو‘ یہ’’خارجی
اعتماد‘‘ آپ کے کس کام کا؟ ’’داخلی اعتماد‘‘ سے ہی آپ کو ذمہ داریوں سے عہدہ
برآ ہونے میں ہمت و حوصلہ ملے گا۔ پختہ ایمان اس اعتماد کا سرچشمہ ہے‘ اگر ہر
مسلمان دینی تعلیمات کا پابند ہوتا ہے تو اس سے اس کے داخلی اعتماد میں پختگی
آتی ہے‘ ایمان کے شعائر کی تکمیل اس اعتماد
کیلئے مددگار ثابت ہوتی ہے۔ تجربہ یہ بتاتا ہے کہ روزے کے اثرات پورے سال ختم
نہیں ہوتے ہیں‘ اگر روزے دار کے دل میں رمضان میں خیر کی رغبت پیدا ہوتی
ہے تو رمضان کے بعد یہ کیفیت ختم نہیں ہوتی بلکہ خون کی طرح اس کی رگ و پے میں
سرایت کرجاتی ہے جس سے اس کے اندر جوش و ولولہ پیدا ہوتا ہے‘ یہی ’’داخلی اعتماد‘‘
ہے جس کا سرچشمہ باطن ہے
٭۔روزے کے انسانی جسم پر اثرات :۔۔
روزہ جہاں ہماری اخلاقی
اقدار کوعمدہ اور بہتر بنانے کے مواقع مہیا کرتا ہے، وہاں ہماری صحت کو بھی اچھا
بنانے کا ضامن ہے۔ اگرچہ رمضان کے علاوہ دنوں میں بھی ہمیں دینِ اسلام صحت کاخیال
رکھنے اور اصول حفظانِ صحت پرعمل کرنے کی تاکید کرتا ہے۔
روزہ
اور تندرستی: ۔۔
پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے فرمایا:
"اغزوا تغنموا و صوموا تصحوا سافروا تستغنوا"
جنگ و جہاد کرو اور غنیمت حاصل کرو، روزہ رکھو تاکہ سلامت رہو اور سفر کرو تاکہ بے نیاز اور غنی ہو جاو۔
پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے فرمایا:
"اغزوا تغنموا و صوموا تصحوا سافروا تستغنوا"
جنگ و جہاد کرو اور غنیمت حاصل کرو، روزہ رکھو تاکہ سلامت رہو اور سفر کرو تاکہ بے نیاز اور غنی ہو جاو۔
روزہ جسمانی صحت کے لیے
مفید بحارالانوار ج۵۹
ص۲۹۰
میں ہے کہ حضور سرورِ کائنات صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم فرماتے ہیں:
’’اَلْمِعْدَۃُ بَیْتُ کُلِّ دَآءٍ وَ الْحِمْیَۃُ رَأْسُ کُلِّ دَوَآءٍ‘‘ معدہ
ہر بیماری کا گھر ہے اور پرہیز ہر دوا کی اصل ہے۔ اسی طرح حضرت امام موسیٰ کاظم
علیہ السلام سے بھی اسی سے ملتی جلتی حدیث اسی کتاب میں نقل کی گئی ہے اور جناب
رسالت مآب صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم بیماری سے بچاؤ اور صحت کے اصول کا بہترین
ذریعہ روزے کو قرار دیتے ہیں۔ چنانچہ مستدرک الوسائل ج۷ ص۵۰۲ میں ہے کہ آپ ؑ فرماتے
ہیں: ’’صُوْمُوْا
تَصِحُّوا‘‘روزہ رکھو تندرست رہو گے۔
سائنسی
تحقیقات کے ذریعے یہ پتا چلا ہے کہ صبح سے شام تک روزہ رکھنے اور بھوکا پیاسا رہنے
سے انسان کے جسم میں کیا تبدیلیاں رْونما ہوتی ہیں، اور یہ تبدیلیاں جسم، دماغ،
صحت، قوتِ مدافعت اور اس کی بیماری پرکون سے قلیل المدت اور طویل المدت اثرات مرتب
کرتی ہیں۔ ان کو سمجھنے کے لیے سب سے پہلے یہ سمجھنا ضروری ہے کہ ۴۲گھنٹے کے دوران میں
انسانی جسم کی ضروریات کیا ہوتی ہیں، اس کو کتنی غذا،کتنا پانی اور کتنی توانائی
درکار ہوتی ہے۔ جب ہم یہ جان لیں گے تو یہ سمجھنا آسان ہوگا کہ روزہ رکھنے کی صورت
میں وہ ضروریات کس طرح پوری ہوتی ہیں۔
انسان کی پہلی ضرورت غذا کی صورت میں کیلوریز (حراروں) کی ہوتی ہے۔ انسانی جسم کو یومیہ اوسطاً دو سے تین ہزار کیلوریز کی ضرورت ہوتی ہے، لیکن اس کا انحصار انسان کی فعالیت پر ہے۔ بہت زیادہ فعّال لوگوں کو یومیہ ۳سے ۴ہزار کیلوریز کی ضرورت ہوتی ہے۔ بستر پر بیمار پڑے لوگوں کی ضروریات ۲ہزار کیلوریز ہوتی ہیں اور یہ کیلوریز غذا کے ذریعے پوری ہوتی ہیں۔ اگر ۴۲گھنٹے کے دوران ایک یا دو وقت غذا پہنچ جائے تو بھی انسانی جسم کی ضرورت پوری ہو جاتی ہے۔
اسی طرح انسانی جسم کو یومیہ ڈیڑھ سے تین لیٹر پانی کی ضرورت ہوتی ہے۔ اس کا بھی انحصار اس بات پر ہے کہ انسان کتنا فعّال ہے، اور بیرونِ خانہ سرگرمیوں میں کتنا مصروف ہے۔ بالعموم گھر کے اندر موجود رہنے والے فرد کی پانی کی ضرورت ڈیڑھ سے دو لیٹر ہوتی ہے۔ گھر کے باہر دھوپ اور گرمی میں کام کرنے والے فرد کی ضرورت تین سے چار لیٹر پانی کی ہوتی ہے۔ اگر اتنا پانی ۴۲گھنٹے میں انسان کے جسم میں پہنچ جائے تو یہ ضرورت پوری ہو جاتی ہے، لیکن جب ایک فرد روزہ رکھتا ہے، اور علی الصبح سے بھوکا رہنا شروع کرتا ہے تو اس کے جسم میں بہت سی تبدیلیاں پیدا ہونا شروع ہو جاتی ہیں۔ جسم خود کو برقرار رکھنے اور اپنی توانائی کو استعمال کرنے کے لیے بہت سی تبدیلیاں کرتا ہے۔ بہت سے ہارمونز (hormones) جسم کے اندر توانائی برقرار رکھنے کے لیے خارج اور استعمال ہوتے ہیں۔ جسم کے اندر بہت سے کیمیائی مادے جو نیورو ٹرانسمیٹرز کہلاتے ہیں، اس کام کو سر انجام دیتے ہیں۔ اس کے نتیجے میں انسان کا جسم اس قابل ہوتا ہے کہ روزے کے ثمرات اور فوائد کو طبی ثمرات میں تبدیل کر سکے۔
انسانی جسم میں سب سے نمایاں تبدیلی یہ پیدا ہوتی ہے کہ انسانی جسم پانی کو محفوظ کرنا شروع کر دیتا ہے۔ خون میں ایسے ہارمونز خارج ہوتے ہیں جو پانی کو محفوظ کرتے ہیں، جسم کے اندر خون کی گردش کو فعّال بناتے ہیں اور جسمانی توانائی کی ضروریات کو پورا کرنے کے عمل کو کنٹرول کرتے ہیں۔ انسانی جسم اور دماغ کو متحرک رکھنے کے لیے توانائی درکار ہوتی ہے۔ یہ توانائی چربی، کاربوہائیڈریٹ اور پروٹین کی شکل میں ہر وقت جسم کے اندر موجود ہوتی ہے۔ سحری میں لی گئی غذا جزوِ بدن بن کر توانائی میں تبدیل ہوتی ہے اور روزے کے دوران جسم میں استعمال ہوتی رہتی ہے۔
پہلے یہ غلط فہمی عام تھی کہ روزہ رکھنے سے جسمانی کمزوری واقع ہو جاتی ہے، یا اعصاب کمزور پڑ جاتے ہیں، یا جسم کو کوئی ایسی کمزوری لاحق ہو جاتی ہے جو نقصان پہنچاتی ہے۔ سائنسی تحقیق نے ثابت کیا ہے کہ روزہ رکھنے سے ایسی کوئی کمزوری واقع نہیں ہوتی بلکہ حیرت انگیز طور پر جسم کو توانائی حاصل ہوتی ہے، توانائی کے دوسرے ذرائع پیدا ہوتے ہیں جو اپنا کام انجام دینا شروع کرتے ہیں۔ درحقیقت روزہ رکھنا انسانی جسم کے لیے توانائی کا باعث بنتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ آج پوری دنیا میں روزے پر تحقیق ہو رہی ہے۔ مختلف بیماریوں میں روزے کو بطور ایک طریق? علاج استعمال کیا جا رہا ہے جن میں لوگ کمزور ہو جاتے ہیں، خواہ وہ آنتوں کی بیماری ہو یا سانس کی، دل و دماغ کی بیماری ہو یا شریانوں کی۔ تحقیق نے ثابت کیا ہے کہ روزہ خود ایک طریق? علاج ہے۔
روزہ رکھنے سے انسانی جسم میں گلوکوز کی سطح گر جاتی ہے۔ جسم کو گلوکوز کی متواتر ضرورت ہوتی ہے، اور جب جسم کو یہ باہر سے نہیں ملتا تو جسم اپنے اندر از خود گلوکوز بنانا شروع کر دیتا ہے۔ جسم کے اندر محفوظ چربی، کاربوہائیڈریٹ اور پروٹین گلوکوز میں تبدیل ہونا شروع ہو جاتے ہیں۔ جسم کے اندر کیمیائی تبدیلیوں کا عمل (metabolism) شروع ہو جاتا ہے۔جسم گلوکوز جمع کرنا شروع کرتا ہے، لیکن جن لوگوں کے خون میں شوگر کی مقدار زیادہ ہوتی ہے، روزے سے ان میں شوگر کی سطح کم ہوجاتی ہے۔ اس کے نتیجے میں جسم کے اندر شوگر کی سطح متوازن ہو کر نارمل ہو جاتی ہے۔
روزے کے نتیجے میں دوسری تبدیلی یہ ہوتی ہے کہ بلڈ پریشر کم ہونا شروع ہو جاتا ہے۔ بلڈ پریشر کو قابو میں رکھنے کے لیے پانی چاہیے ہوتا ہے۔ جب جسم کو دو چار گھنٹے پانی نہیں ملتا تو اس کے بلڈ پریشر میں کمی آنا شروع ہوتی ہے۔ اس کمی کو پورا کرنے کے لیے جسم میں ایسے ہارمونز خارج ہونے لگتے ہیں جو بلڈ پریشر کے اس عمل کو بہتر کرتے ہیں۔ لیکن جن لوگوں کا بلڈ پریشر زیادہ ہوتا ہے ان کو روزہ رکھنے کا یہ فائدہ ہوتا ہے کہ ان کا بلڈ پریشر قابو میں آ جاتا ہے۔ دنیا میں یہ مستند طریق? علاج ہے کہ جن لوگوں کا بلڈ پریشر زیادہ ہو اور کنٹرول نہ ہو رہا ہو، ان کو روزہ رکھنے کا مشورہ دیا جاتا ہے۔
انسانی جسم میں تیسری بڑی تبدیلی چربی کی سطح میں رونما ہوتی ہے۔ جسم میں محفوظ چربی عموماً استعمال نہیں ہو رہی ہوتی کیونکہ انسان مطلوبہ توانائی اپنی غذا سے حاصل کر رہا ہوتا ہے۔ روزے کی حالت میں بڑا فرق یہ واقع ہوتا ہے کہ چربی کا ذخیرہ توانائی میں تبدیل ہونا شروع ہو جاتا ہے، چنانچہ جسم کے اندر چربی کم ہونا شروع ہو جاتی ہے، اور کولیسٹرول کم ہونے لگتا ہے۔ ہم جانتے ہیں کہ چربی انسانی جسم کے اندر بیماریاں پیدا کرتی ہے۔ چربی سے جسم میں کولیسٹرول بڑھتا ہے، موٹاپا بڑھتا ہے، خون کی نالیاں سکڑ جاتی ہیں۔ یہ روزے کے اثرات ہی ہیں جن کی وجہ سے چربی پگھلتی ہے، کولیسٹرول کم ہو جاتا ہے اور زائد چربی کے نتیجے میں ہونے والے نقصانات سے بھی بچا جا سکتا ہے۔
سائنسی تحقیق نے ثابت کیا ہے کہ روزہ رکھنے سے جسم میں زہریلے مادے ختم ہونے کا عمل شروع ہو جاتا ہے۔ جسم میں طرح طرح کے مادے پیدا ہوتے ہیں جن میں بعض زہریلے بھی ہوتے ہیں۔ روزے کے نتیجے میں جسم کا پورا میٹابولزم تبدیل ہو کر ایک مختلف شکل میںآ جاتا ہے، جسم کے اندر ازال? سمیّت (detoxification) کا عمل شروع ہوتا ہے۔ اس سے جسم کو اپنے بہت سے زہریلے مادّوں سے نجات حاصل کرنے کا موقع ملتا ہے اور یہ بڑی تبدیلی ہے جو انسان کو صحت مندی کی طرف لے جاتی ہے۔ روزے سے جسمانی قوتِ مدافعت بھی بڑھتی ہے، روزہ رکھنے سے مدافعت کا نظام فعّال ہو جاتا ہے۔ اس فعالیت کے نتیجے میں جسم کے اندر مدافعتی نظام میں بہتری پیدا ہوتی ہے۔ پھر خون میں ایسے مدافعتی خلیے پیدا ہوتے ہیں جو انسان کو نہ صرف بیماریوں سے بچاتے ہیں، بلکہ اگر جسم میں بیماریاں موجود بھی ہوں تو ان کو دْور کرنے میں مدد دیتے ہیں۔
ا? تعالیٰ نے روزے کے جو اوقات مقرر کیے ہیں وہ بھی سائنسی تحقیق کے مطابق انسانی جسم کو تندرست رکھنے والے ہیں۔ ڈاکٹروں کا کہنا ہے کہ بھوکا رہنے کا عمل ۴۲، ۶۳یا ۰۴گھنٹے نہیں ہونا چاہیے بلکہ ۵۱سے ۸۱گھنٹے ہونا چاہیے۔ روزہ اسی مقررہ وقت کے اندر ہوتا ہے۔ بھوکا رہنے کا عمل اس سے طویل ہو تو اس کے نتیجے میں پٹھے (muscles) کمزور ہونا شروع ہو جاتے ہیں اور انسانی جسم کے اندر نقصان دہ سرگرمیاں شروع ہو جاتی ہیں۔ا? رب العالمین نے روزہ فرض کرتے ہوئے روزے کے جو اوقات مقرر کیے ہیں وہ ہماری صحت کے لیے مفید ثابت ہوتے ہیں۔ مسلم ملکوں میں اور یورپ اور امریکا میں بھی روزے پر بڑے پیمانے پر تحقیق ہو رہی ہے۔
انسان کی پہلی ضرورت غذا کی صورت میں کیلوریز (حراروں) کی ہوتی ہے۔ انسانی جسم کو یومیہ اوسطاً دو سے تین ہزار کیلوریز کی ضرورت ہوتی ہے، لیکن اس کا انحصار انسان کی فعالیت پر ہے۔ بہت زیادہ فعّال لوگوں کو یومیہ ۳سے ۴ہزار کیلوریز کی ضرورت ہوتی ہے۔ بستر پر بیمار پڑے لوگوں کی ضروریات ۲ہزار کیلوریز ہوتی ہیں اور یہ کیلوریز غذا کے ذریعے پوری ہوتی ہیں۔ اگر ۴۲گھنٹے کے دوران ایک یا دو وقت غذا پہنچ جائے تو بھی انسانی جسم کی ضرورت پوری ہو جاتی ہے۔
اسی طرح انسانی جسم کو یومیہ ڈیڑھ سے تین لیٹر پانی کی ضرورت ہوتی ہے۔ اس کا بھی انحصار اس بات پر ہے کہ انسان کتنا فعّال ہے، اور بیرونِ خانہ سرگرمیوں میں کتنا مصروف ہے۔ بالعموم گھر کے اندر موجود رہنے والے فرد کی پانی کی ضرورت ڈیڑھ سے دو لیٹر ہوتی ہے۔ گھر کے باہر دھوپ اور گرمی میں کام کرنے والے فرد کی ضرورت تین سے چار لیٹر پانی کی ہوتی ہے۔ اگر اتنا پانی ۴۲گھنٹے میں انسان کے جسم میں پہنچ جائے تو یہ ضرورت پوری ہو جاتی ہے، لیکن جب ایک فرد روزہ رکھتا ہے، اور علی الصبح سے بھوکا رہنا شروع کرتا ہے تو اس کے جسم میں بہت سی تبدیلیاں پیدا ہونا شروع ہو جاتی ہیں۔ جسم خود کو برقرار رکھنے اور اپنی توانائی کو استعمال کرنے کے لیے بہت سی تبدیلیاں کرتا ہے۔ بہت سے ہارمونز (hormones) جسم کے اندر توانائی برقرار رکھنے کے لیے خارج اور استعمال ہوتے ہیں۔ جسم کے اندر بہت سے کیمیائی مادے جو نیورو ٹرانسمیٹرز کہلاتے ہیں، اس کام کو سر انجام دیتے ہیں۔ اس کے نتیجے میں انسان کا جسم اس قابل ہوتا ہے کہ روزے کے ثمرات اور فوائد کو طبی ثمرات میں تبدیل کر سکے۔
انسانی جسم میں سب سے نمایاں تبدیلی یہ پیدا ہوتی ہے کہ انسانی جسم پانی کو محفوظ کرنا شروع کر دیتا ہے۔ خون میں ایسے ہارمونز خارج ہوتے ہیں جو پانی کو محفوظ کرتے ہیں، جسم کے اندر خون کی گردش کو فعّال بناتے ہیں اور جسمانی توانائی کی ضروریات کو پورا کرنے کے عمل کو کنٹرول کرتے ہیں۔ انسانی جسم اور دماغ کو متحرک رکھنے کے لیے توانائی درکار ہوتی ہے۔ یہ توانائی چربی، کاربوہائیڈریٹ اور پروٹین کی شکل میں ہر وقت جسم کے اندر موجود ہوتی ہے۔ سحری میں لی گئی غذا جزوِ بدن بن کر توانائی میں تبدیل ہوتی ہے اور روزے کے دوران جسم میں استعمال ہوتی رہتی ہے۔
پہلے یہ غلط فہمی عام تھی کہ روزہ رکھنے سے جسمانی کمزوری واقع ہو جاتی ہے، یا اعصاب کمزور پڑ جاتے ہیں، یا جسم کو کوئی ایسی کمزوری لاحق ہو جاتی ہے جو نقصان پہنچاتی ہے۔ سائنسی تحقیق نے ثابت کیا ہے کہ روزہ رکھنے سے ایسی کوئی کمزوری واقع نہیں ہوتی بلکہ حیرت انگیز طور پر جسم کو توانائی حاصل ہوتی ہے، توانائی کے دوسرے ذرائع پیدا ہوتے ہیں جو اپنا کام انجام دینا شروع کرتے ہیں۔ درحقیقت روزہ رکھنا انسانی جسم کے لیے توانائی کا باعث بنتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ آج پوری دنیا میں روزے پر تحقیق ہو رہی ہے۔ مختلف بیماریوں میں روزے کو بطور ایک طریق? علاج استعمال کیا جا رہا ہے جن میں لوگ کمزور ہو جاتے ہیں، خواہ وہ آنتوں کی بیماری ہو یا سانس کی، دل و دماغ کی بیماری ہو یا شریانوں کی۔ تحقیق نے ثابت کیا ہے کہ روزہ خود ایک طریق? علاج ہے۔
روزہ رکھنے سے انسانی جسم میں گلوکوز کی سطح گر جاتی ہے۔ جسم کو گلوکوز کی متواتر ضرورت ہوتی ہے، اور جب جسم کو یہ باہر سے نہیں ملتا تو جسم اپنے اندر از خود گلوکوز بنانا شروع کر دیتا ہے۔ جسم کے اندر محفوظ چربی، کاربوہائیڈریٹ اور پروٹین گلوکوز میں تبدیل ہونا شروع ہو جاتے ہیں۔ جسم کے اندر کیمیائی تبدیلیوں کا عمل (metabolism) شروع ہو جاتا ہے۔جسم گلوکوز جمع کرنا شروع کرتا ہے، لیکن جن لوگوں کے خون میں شوگر کی مقدار زیادہ ہوتی ہے، روزے سے ان میں شوگر کی سطح کم ہوجاتی ہے۔ اس کے نتیجے میں جسم کے اندر شوگر کی سطح متوازن ہو کر نارمل ہو جاتی ہے۔
روزے کے نتیجے میں دوسری تبدیلی یہ ہوتی ہے کہ بلڈ پریشر کم ہونا شروع ہو جاتا ہے۔ بلڈ پریشر کو قابو میں رکھنے کے لیے پانی چاہیے ہوتا ہے۔ جب جسم کو دو چار گھنٹے پانی نہیں ملتا تو اس کے بلڈ پریشر میں کمی آنا شروع ہوتی ہے۔ اس کمی کو پورا کرنے کے لیے جسم میں ایسے ہارمونز خارج ہونے لگتے ہیں جو بلڈ پریشر کے اس عمل کو بہتر کرتے ہیں۔ لیکن جن لوگوں کا بلڈ پریشر زیادہ ہوتا ہے ان کو روزہ رکھنے کا یہ فائدہ ہوتا ہے کہ ان کا بلڈ پریشر قابو میں آ جاتا ہے۔ دنیا میں یہ مستند طریق? علاج ہے کہ جن لوگوں کا بلڈ پریشر زیادہ ہو اور کنٹرول نہ ہو رہا ہو، ان کو روزہ رکھنے کا مشورہ دیا جاتا ہے۔
انسانی جسم میں تیسری بڑی تبدیلی چربی کی سطح میں رونما ہوتی ہے۔ جسم میں محفوظ چربی عموماً استعمال نہیں ہو رہی ہوتی کیونکہ انسان مطلوبہ توانائی اپنی غذا سے حاصل کر رہا ہوتا ہے۔ روزے کی حالت میں بڑا فرق یہ واقع ہوتا ہے کہ چربی کا ذخیرہ توانائی میں تبدیل ہونا شروع ہو جاتا ہے، چنانچہ جسم کے اندر چربی کم ہونا شروع ہو جاتی ہے، اور کولیسٹرول کم ہونے لگتا ہے۔ ہم جانتے ہیں کہ چربی انسانی جسم کے اندر بیماریاں پیدا کرتی ہے۔ چربی سے جسم میں کولیسٹرول بڑھتا ہے، موٹاپا بڑھتا ہے، خون کی نالیاں سکڑ جاتی ہیں۔ یہ روزے کے اثرات ہی ہیں جن کی وجہ سے چربی پگھلتی ہے، کولیسٹرول کم ہو جاتا ہے اور زائد چربی کے نتیجے میں ہونے والے نقصانات سے بھی بچا جا سکتا ہے۔
سائنسی تحقیق نے ثابت کیا ہے کہ روزہ رکھنے سے جسم میں زہریلے مادے ختم ہونے کا عمل شروع ہو جاتا ہے۔ جسم میں طرح طرح کے مادے پیدا ہوتے ہیں جن میں بعض زہریلے بھی ہوتے ہیں۔ روزے کے نتیجے میں جسم کا پورا میٹابولزم تبدیل ہو کر ایک مختلف شکل میںآ جاتا ہے، جسم کے اندر ازال? سمیّت (detoxification) کا عمل شروع ہوتا ہے۔ اس سے جسم کو اپنے بہت سے زہریلے مادّوں سے نجات حاصل کرنے کا موقع ملتا ہے اور یہ بڑی تبدیلی ہے جو انسان کو صحت مندی کی طرف لے جاتی ہے۔ روزے سے جسمانی قوتِ مدافعت بھی بڑھتی ہے، روزہ رکھنے سے مدافعت کا نظام فعّال ہو جاتا ہے۔ اس فعالیت کے نتیجے میں جسم کے اندر مدافعتی نظام میں بہتری پیدا ہوتی ہے۔ پھر خون میں ایسے مدافعتی خلیے پیدا ہوتے ہیں جو انسان کو نہ صرف بیماریوں سے بچاتے ہیں، بلکہ اگر جسم میں بیماریاں موجود بھی ہوں تو ان کو دْور کرنے میں مدد دیتے ہیں۔
ا? تعالیٰ نے روزے کے جو اوقات مقرر کیے ہیں وہ بھی سائنسی تحقیق کے مطابق انسانی جسم کو تندرست رکھنے والے ہیں۔ ڈاکٹروں کا کہنا ہے کہ بھوکا رہنے کا عمل ۴۲، ۶۳یا ۰۴گھنٹے نہیں ہونا چاہیے بلکہ ۵۱سے ۸۱گھنٹے ہونا چاہیے۔ روزہ اسی مقررہ وقت کے اندر ہوتا ہے۔ بھوکا رہنے کا عمل اس سے طویل ہو تو اس کے نتیجے میں پٹھے (muscles) کمزور ہونا شروع ہو جاتے ہیں اور انسانی جسم کے اندر نقصان دہ سرگرمیاں شروع ہو جاتی ہیں۔ا? رب العالمین نے روزہ فرض کرتے ہوئے روزے کے جو اوقات مقرر کیے ہیں وہ ہماری صحت کے لیے مفید ثابت ہوتے ہیں۔ مسلم ملکوں میں اور یورپ اور امریکا میں بھی روزے پر بڑے پیمانے پر تحقیق ہو رہی ہے۔
جسم کی قوت مدافعت:۔
حقیقت یہ ہے کہ قدرتی علاج کی ہر صورت اس حقیقت پر مبنی ہے کہ قدرت کاملہ نے جسم کے اندر قوت مدافعت پیدا کی ہے جسے آپ جسم کا دفاعی نظام بھی کہہ سکتے ہیں۔ قدرتی علاج کی صورت میں وہ تدابیر اختیار کرنی چاہئیں جو قوت مدافعت کو مدد دینے والی ہوں اور ان باتوں سے بچنا چاہیے جو اسے کمزور کردیں۔ قوت مدافعت کو مدد دینے والی تدبیروں میں سے ایک تدبیر یہ ہے کہ کبھی کبھار کھانا پینا چھوڑ دینا چاہیے۔ اس حقیقت سے روزے کی طبی افادیت پر مہرتصدیق ثبت ہوجاتی ہے۔ یہ بات یوں سمجھ میں آسکتی ہے کہ ترک غذا سے بدن کی وہ قوت جوغذا ہضم کرنے میں ہر وقت صرف ہوتی رہتی ہے‘ جمع رہتی ہے اور قوت مدافعت کے ساتھ ہوکر امراض کو بدن سے نکالنے میں لگ جاتی ہے۔
٭۔جسم اور دماغ میں ہم آہنگی:۔۔
اردن کے یونیورسٹی ہسپتال کے ڈاکٹر سلیمان نے مردوں اور خواتین کامشاہدہ کیا۔ رمضان کے دوران ان کا اوسطاً دو کلو گرام وزن کم ہوگیا۔ تہران یونیورسٹی کے ڈاکٹر عزیز کی تحقیق کے مطابق رمضان کے دوران عام افراد میں چار کلو گرام تک وزن میں کمی نوٹ کی گئی۔سلمنگ سنٹر میں جانے والوں میں عام مشاہدہ کیا گیا ہے کہ فاقوں کے بعد ان کا وزن دوبارہ بڑھ جاتا ہے بلکہ بعض لوگوں کا پہلے سے بھی زیادہ بڑھ جاتا ہے دماغ کا حصہ انسان کا وزن کنٹرول کرتا ہے اگر کوئی شخص فاقے کرتا ہے تو فاقوں کے بعد یہ حصہ تیزی سے عمل کرتا ہے اور وزن دوبارہ بڑھ جاتا ہے۔ روزے کے دوران حیرت انگیز طور پر یہ حصہ تیزی سے کام نہیں کرتا۔
حقیقت یہ ہے کہ قدرتی علاج کی ہر صورت اس حقیقت پر مبنی ہے کہ قدرت کاملہ نے جسم کے اندر قوت مدافعت پیدا کی ہے جسے آپ جسم کا دفاعی نظام بھی کہہ سکتے ہیں۔ قدرتی علاج کی صورت میں وہ تدابیر اختیار کرنی چاہئیں جو قوت مدافعت کو مدد دینے والی ہوں اور ان باتوں سے بچنا چاہیے جو اسے کمزور کردیں۔ قوت مدافعت کو مدد دینے والی تدبیروں میں سے ایک تدبیر یہ ہے کہ کبھی کبھار کھانا پینا چھوڑ دینا چاہیے۔ اس حقیقت سے روزے کی طبی افادیت پر مہرتصدیق ثبت ہوجاتی ہے۔ یہ بات یوں سمجھ میں آسکتی ہے کہ ترک غذا سے بدن کی وہ قوت جوغذا ہضم کرنے میں ہر وقت صرف ہوتی رہتی ہے‘ جمع رہتی ہے اور قوت مدافعت کے ساتھ ہوکر امراض کو بدن سے نکالنے میں لگ جاتی ہے۔
٭۔جسم اور دماغ میں ہم آہنگی:۔۔
اردن کے یونیورسٹی ہسپتال کے ڈاکٹر سلیمان نے مردوں اور خواتین کامشاہدہ کیا۔ رمضان کے دوران ان کا اوسطاً دو کلو گرام وزن کم ہوگیا۔ تہران یونیورسٹی کے ڈاکٹر عزیز کی تحقیق کے مطابق رمضان کے دوران عام افراد میں چار کلو گرام تک وزن میں کمی نوٹ کی گئی۔سلمنگ سنٹر میں جانے والوں میں عام مشاہدہ کیا گیا ہے کہ فاقوں کے بعد ان کا وزن دوبارہ بڑھ جاتا ہے بلکہ بعض لوگوں کا پہلے سے بھی زیادہ بڑھ جاتا ہے دماغ کا حصہ انسان کا وزن کنٹرول کرتا ہے اگر کوئی شخص فاقے کرتا ہے تو فاقوں کے بعد یہ حصہ تیزی سے عمل کرتا ہے اور وزن دوبارہ بڑھ جاتا ہے۔ روزے کے دوران حیرت انگیز طور پر یہ حصہ تیزی سے کام نہیں کرتا۔
٭۔روزہ کے دل پر اثرات:۔۔
روزہ کی حالت میں صبح
صادق سے غروبِ آفتاب تک چونکہ کچھ کھایا پیا نہیں جاتا جبکہ دوسری طرف روزمرہ کے
امور میں مصروف ہونے، محنت کرنے سے توانائی بھی صرف ہورہی ہوتی ہے۔ نتیجتاً جب
توانائی استعمال ہوگی تو خون میں کمی بھی آئے گی جس طرح مشینوں کے چلنے سے ایندھن بھی
استعمال ہوتا ہے۔ یہ اثر دل کے لئے نہایت مفید اور اسے آرام پہنچانے کا باعث ہے۔
اس کی وجہ یہ ہے کہ خلیات کے درمیان مائع کی مقدار میں کمی کی وجہ سے دل کے Tissues پر دبائو کم ہوجاتا ہے اور پٹھوں پر یہ کم دبائو دل کے لئے نہایت
اہمیت کا حامل ہوتاہے۔ روزے کے دوران یہ دبائو کم سطح پر ہوتا ہے یعنی اس صورت میں
دل مکمل طور پر آرام کی حالت میں ہوتا ہے۔ اس لئے کہ اُسے خون کو تمام جسم میں
پہنچانے، اسے صاف کرنے اور پورے جسم سے واپس دل میں لانے کے لئے کم سے کم قوت صرف
کرنی پڑتی ہے۔
آج کے دور میں ہر شخص
کسی نہ کسی وجہ سے شدید دباؤ اور Tension کا شکار ہے۔ اس ذہنی دبائو کا علاج اور شفا یابی کا راز روزے میں
موجود ہے۔ رمضان المبارک کے ایک ماہ کے مسلسل روزے بطورخاص دل کے پٹھوں پر دبائو
کوکم کرکے انسان کو بے شمار فوائد پہنچاتے ہیں۔
روزے کا سب سے اہم اثر
پورے جسم میں خون کے بہائو کے دوران دل سے صاف خون لے کر پورے جسم میں اس خون کو
پہچانے والی شریانوں پر دیکھنے میں آتا ہے۔ شریانوں کا سکڑ جانا خون کے بہائو میں
رکاوٹ کا باعث بنتا ہے اور شریانوں کے سکڑنے اور کمزور ہونے کی اہم ترین وجوہات
میں سے ایک وجہ خون میں باقی ماندہ مادے کا پوری طرح تحلیل نہ ہوسکنا ہے۔ جب ہم
روزہ رکھتے ہیں تو افطار کے وقت تک خون میں موجود غذائیت کے تمام ذرات تحلیل ہوچکے
ہوتے ہیں۔ اس طرح خون کی شریانوں کی دیواروں پر چربی یا دیگر اجزاء کولیسٹرول (Colistrol) وغیرہ جم نہیں پاتے اور یہ شریانیں سکڑنے سے محفوظ رہتی ہیں۔
پس شریانوں کی
دیوار کی سختی، ان کا سکڑنا اور کمزور ہونے کی شکل میں انتہائی شدید مرض سے بچنے
کے لئے روزہ ایک انعام خداوندی ہے۔ چونکہ روزے کے دوران گردے جنہیں دوران خون کا
ایک حصہ سمجھا جاتا ہے، آرام کی حالت میں ہوتے ہیں لہذا انسانی جسم کے اس عضو کی
بحالی بھی روزے کی برکت سے بحال ہوجاتی ہے۔
دن میں روزہ کے دوران خون کی مقدار میں کمی ہوجاتی ہے۔ یہ اثر دل کو نہایت فائدہ مند آرام مہیا کرتا ہے۔ زیادہ اہم یہ بات ہے کہ خلیوں کے درمیان (Inter Celluler) مائع کی مقدار میں کمی کی وجہ سے خلیوں کے عمل میں بڑی حد تک سکون پیدا ہوجاتا ہے۔ لعاب دار جھلی کی بالائی سطح سے متعلق خلیے جنہیں ایپی تھیلیل سیل کہتے ہیں اور جو جسم کی رطوبت کے متواتر اخراج کے ذمہ دار ہوتے ہیں ان کو بھی صرف روزے کے ذریعے آرام اور سکون ملتا ہے جس سے ان کی صحت مندی میں اضافہ ہوتا ہے۔ روزے کے دوران ڈائسٹالک پریشر ہمیشہ کم سطح پر ہوتا ہے۔ یعنی اس وقت دل آرام یا ریسٹ کی صورت میں ہوتا ہے۔ مزیدبرآں آج کا انسان جدید دور کے مخصوص حالات کی بدولت شدید تناؤ یا ہائپرٹینشن کا شکار ہے۔ رمضان کے ایک ماہ کے روزے بطور خاص ڈائسٹالک پریشر کو کم کرکے انسان کو بے پناہ فائدہ پہنچاتے ہیں۔
روزے کا سب سے اہم اثر دوران خون پر اس پہلو سے ہے کہ یہ دیکھا جائے کہ اس سے خون کی شریانوں پر کیا اثر ہوتا ہے۔ اس حقیقت کا علم اب عام ہے کہ خون کی شریانوں کی کمزوری اورفرسودگی کی اہم ترین وجوہات میں سے ایک وجہ خون میں باقی ماندہ مادے کا پوری طرح تحلیل نہ ہوسکنا ہے جبکہ دوسری طرف روزے میں بطور خاص افطار کے وقت کے نزدیک خون میں موجود غذائیت کے تمام ذرے تحلیل ہوچکے ہوتے ہیں اور ان میں سے کچھ بھی باقی نہیں بچتا۔ اس طرح خون کی شریانوں کی دیواروں پر چربی یا دیگر اجزاء جم نہیں پاتے یوں شریانیں سُکڑنے سے محفوظ رہتی ہیں۔
٭۔روزہ اور نظام ہضم :۔۔
دن میں روزہ کے دوران خون کی مقدار میں کمی ہوجاتی ہے۔ یہ اثر دل کو نہایت فائدہ مند آرام مہیا کرتا ہے۔ زیادہ اہم یہ بات ہے کہ خلیوں کے درمیان (Inter Celluler) مائع کی مقدار میں کمی کی وجہ سے خلیوں کے عمل میں بڑی حد تک سکون پیدا ہوجاتا ہے۔ لعاب دار جھلی کی بالائی سطح سے متعلق خلیے جنہیں ایپی تھیلیل سیل کہتے ہیں اور جو جسم کی رطوبت کے متواتر اخراج کے ذمہ دار ہوتے ہیں ان کو بھی صرف روزے کے ذریعے آرام اور سکون ملتا ہے جس سے ان کی صحت مندی میں اضافہ ہوتا ہے۔ روزے کے دوران ڈائسٹالک پریشر ہمیشہ کم سطح پر ہوتا ہے۔ یعنی اس وقت دل آرام یا ریسٹ کی صورت میں ہوتا ہے۔ مزیدبرآں آج کا انسان جدید دور کے مخصوص حالات کی بدولت شدید تناؤ یا ہائپرٹینشن کا شکار ہے۔ رمضان کے ایک ماہ کے روزے بطور خاص ڈائسٹالک پریشر کو کم کرکے انسان کو بے پناہ فائدہ پہنچاتے ہیں۔
روزے کا سب سے اہم اثر دوران خون پر اس پہلو سے ہے کہ یہ دیکھا جائے کہ اس سے خون کی شریانوں پر کیا اثر ہوتا ہے۔ اس حقیقت کا علم اب عام ہے کہ خون کی شریانوں کی کمزوری اورفرسودگی کی اہم ترین وجوہات میں سے ایک وجہ خون میں باقی ماندہ مادے کا پوری طرح تحلیل نہ ہوسکنا ہے جبکہ دوسری طرف روزے میں بطور خاص افطار کے وقت کے نزدیک خون میں موجود غذائیت کے تمام ذرے تحلیل ہوچکے ہوتے ہیں اور ان میں سے کچھ بھی باقی نہیں بچتا۔ اس طرح خون کی شریانوں کی دیواروں پر چربی یا دیگر اجزاء جم نہیں پاتے یوں شریانیں سُکڑنے سے محفوظ رہتی ہیں۔
٭۔روزہ اور نظام ہضم :۔۔
نظام ہضم ایک دوسرے سے قریبی طور پر ملے ہوئے بہت سے
اعضا پر مشتمل ہوتا ہے اہم اعضا جیسے منہ اور جبڑے میں لعابی غدود، زبان، گلا،
مقوی نالی )
limentary Canal( یعنی گلے سے معدہ تک خوراک لے جانے
والی نالی۔ معدہ، بارہ انگشتی آنت، جگر اور لبلبہ اور آنتوں سے مختلف حصے وغیرہ
تمام اعضا اس نظام کا حصہ ہیں۔ جیسے ہی ہم کچھ کھانا شروع کرتے ہیں یا کھانے کا
ارادہ ہی کرتے ہیں یہ نظام حرکت میں آجاتا ہے اور ہر عضو اپنا مخصوص کام شروع
کردیتا ہے۔
ظاہر ہے کہ ہمارے موجودہ لائف اسٹائل سے یہ سارا نظام
چوبیس گھنٹے ڈیوٹی پر ہونے کے علاوہ اعصابی دباؤ ' جنک فوڈزاور طرح طرح کے مضر صحت
الم غلم کھانوں کی وجہ سے متاثر ہوجاتا ہے۔ روزہ اس سارے نظام ہضم پر ایک ماہ کا
آرام طاری کر دیتا ہے اس کا حیران کن اثر بطور خاص جگر پر ہوتا ہے کیونکہ جگر نے
نظام ہضم میں حصہ لینے کے علاوہ پندرہ مزید عمل بھی سرانجام دینے ہوتے ہیں۔ روزے
کے ذریعے جگر کو چار سے چھ گھنٹوں تک آرام مل جاتا ہے۔ یہ روزے کے بغیر قطعی
ناممکن ہے کیونکہ بے حد معمولی مقدار کی خوراک یہاں تک کہ ایک گرام کے دسویں حصہ
کے برابر بھی، اگر معدہ میں داخل ہوجائے تو پورا کا پورا نظام ہضم اپنا کام شروع
کردیتا ہے اور جگر فورا مصروف عمل ہوجاتا ہے۔ جگر کے انتہائی مشکل کاموں میں ایک
کام اس توازن کو برقرار رکھنا بھی ہے جو غیر ہضم شدہ خوراک اور تحلیل شدہ خوراک کے
درمیان ہوتا ہے۔ اسے یا تو ہر لقمے کو سٹور میں رکھنا ہوتا ہے یا پھر خون کے ذریعے
اس کے ہضم ہوکر تحلیل ہوجانے کے عمل کی نگرانی کرنا ہوتی ہے جبکہ روزے کے ذریعے
جگر توانائی بخش کھانے کے سٹور کرنے کے عمل سے بڑی حد تک آزاد ہوجاتا ہے۔ اسی طرح
جگر اپنی توانائی خون میں گلوبلن( Globulin)جو جسم کے محفوظ رکھنے
والے مدافعتی نظام کو تقویت دیتا ہے' کی پیداوار پر صرف کرتاہے۔
رمضان المبارک میں موٹاپے کے شکار افراد کا نارمل سحری
اور افطاری کرنے کی صورت میں آٹھ سے دس پاؤنڈ وزن کم ہوسکتا ہے جبکہ روزہ رکھنے سے
اضافی چربی بھی ختم ہوجاتی ہے ۔ وہ خواتین جواولاد کی نعمت سے محروم ہیں اور
موٹاپے کا شکار ہیں وہ ضرور روزے رکھیں تاکہ ان کا وزن کم ہوسکے۔یا د رہے کہ جدید
میڈیکل سائنس کے مطابق وزن کم ہونے سے بے اولاد خواتین کو اولاد ہونے کے امکانات
کئی گنا بڑھ جاتے ہیں۔روزے سے معدے کی رطوبتوں میں توازن آتا ہے ۔نظامِ ہضم کی
رطوبت خارج کرنے کا عمل دماغ کے ساتھ وابستہ ہے۔عام حالت میں بھوک کے دوران یہ
رطوبتیںزیادہ مقدار میں خارج ہوتی ہیں جس سے معدے میں تیزابیت بڑھ جاتی ہے۔جبکہ
روزے کی حالت میں دماغ سے رطوبت خارج کرنے کا پیغام نہیں بھیجا جاتا کیونکہ دماغ
میں خلیوں میں یہ بات موجود ہوتی ہے کہ روزے کے دوران کھانا پینا منع ہے ۔یوں
نظامِ ہضم درست کام کرتاہے۔روزہ نظام ہضم کے سب سے حساس حصے گلے اور غذائی نالی کو
تقویت دیتا ہے اس کے اثر معدہ سے نکلنے والی رطوبتیں بہتر طور پر متوازن ہو جاتی
ہیں جس سے تیزابیت
(Acidity)جمع نہیں ہوتی اس کی پیداوار رک جاتی ہے ۔معدہ
کے ریاحی دردوں میں کافی افاقہ ہوتا ہے قبض کی شکایت رفع ہو جاتی ہے اور پھر شام
کو روزہ کھولنے کے بعد معدہ زیادہ کامیابی سے ہضم کا کام انجام دیتا ہے ۔روزہ
آنتوں کو بھی آرام اور توانائی فراہم کرتا ہے۔ یہ صحت مند رطوبت کے بننے اور معدہ
کے پٹھوں کی حرکت سے ہوتا ہے۔ آنتوں کے شرائین کے غلاف کے نیچے محفوظ رکھنے والے
نظام کا بنیادی عنصر موجود ہوتا ہے۔ جیسے انتڑیوں کا جال، روزے کے دوران ان کو نئی
توانائی اور تازگی حاصل ہوتی ہے۔ اس طرح ہم ان تمام بیماریوں کے حملوں سے محفوظ
ہوجاتے ہیں جو ہضم کرنے والی نالیوں پر ہوسکتے ہیں۔
نظامِ انہضام (digestive system)مختلف اعضا پر
مشتمل ہے جن میں ایلیمنٹری کینال (alimentary canal)اور ہاضمے کے غدود (digestive glands) شامل
ہیں۔ ایلیمنٹری کینال منہ سے شروع ہوکر مقعد پر اختتام پذیر ہوتی ہیں۔ اس میں جوف
دہن، ایسوفیگس، معدہ اور آنتیں شامل ہیں۔ جگر اور لبلبہ ہاضمے کے غدود ہیں جن کی
رطوبتیں خوراک میں شامل ہوکر اس کو ہضم کرنے میں مدد دیتی ہیں۔ جب ہم کھانا کھاتے
ہیں تو پورا نظامِ انہضام اس کو ہضم کرنے میں لگ جاتا ہے۔
انسان کو آرام کی بہت ضرورت ہے اور نیند اس کا بڑا
ذریعہ ہے لیکن سونے کی حالت میں بھی بہت سے جسمانی افعال رواں دواں رہتے ہیں،
مثلاً دل، پھیپھڑے، نظامِ ہضم میں معدہ، آنتیں، جگر، بہت سے ہارمون اور رطوبت،
گردہ وغیرہ۔ یہ بھی حقیقت ہے کہ یہ سب نظام ایک دوسرے کے ساتھ منسلک ہیں اور خوراک
ان کی محرک ہے۔ اگر ہم اپنے روزمرہ معمولات کا بغور مطالعہ کریں
تو ظاہر ہوگا کہ جسم کے ان شعبوں کو بہت کم آرام ملتا ہے۔ رات کے کھانے کو
ہضم کرتے کرتے صبح کے ناشتے کا وقت ہوجاتا ہے اور جو لوگ دیر سے سوتے ہیں وہ رات
کے کھانے کے بعد کچھ نہ کچھ کھاتے پیتے رہتے ہیں(محمد عالم گیر خان، ڈاکٹر، اسلام
اور طبِ جدید، ص۱۳)۔
روزے سے معدہ، آنتوں، جگر اور گردوں کو آرام کا موقع ملتا ہے اور سال کے دوران ایک
ماہ کا آرام ان کی کارکردگی میں خاطرخواہ بہتری کا موجب بنتا ہے۔ (محمد فاروق
کمال، سیرتِ محمدؐ رسول اللّٰہ، ص ۵۸۰)
ڈاکٹر ہلوک نور باقی نے نظامِ انہضام پر روزے کے اثرات
کا تفصیل سے مطالعہ کیا ہے، جس کا خلاصہ پیش کیا جاتا ہے:روزے کا حیران کن اثر خاص
طور پر جگر
(liver) پر ہوتا ہے، کیونکہ جگر کے کھانا ہضم کرنے
کے علاوہ ۱۵
مزید افعال بھی ہوتے ہیں۔ یہ اس طرح تکان کا شکار ہوجاتا ہے، جیسے ایک چوکیدار
ساری عمر کے لیے پہرے پر کھڑا ہو۔ روزہ کے ذریعے جگر کو چار سے چھے گھنٹوں تک آرام
مل جاتا ہے۔ یہ روزے کے بغیر قطعی ناممکن ہے۔ جگر پر روزے کی برکات کا مفید
اثر پڑتا ہے، جیسے جگر کے انتہائی مشکل کاموں میں ایک کام اس توازن کو برقرار
رکھنا ہے جو غیرہضم شدہ خوراک اور تحلیل شدہ خوراک کے مابین ہوتا ہے۔ اسے یا تو
ہرلقمے کو سٹور میں رکھنا ہوتا ہے یا پھر خون کے ذریعے اس کو ہضم ہوکر تحلیل
ہوجانے کے عمل کی نگرانی کرنا پڑتی ہے۔ روزے کے ذریعے جگر توانائی بخش کھانے کے
سٹور کرنے کے عمل سے بڑی حد تک آزاد ہوجاتا ہے اور اپنی توانائی (globulins) پیدا
کرنے پر صَرف کرتا ہے، جو جسم کے مدافعاتی نظام (immune system) کی تقویت کا باعث ہے۔
انسان معدے پر روزے کے انتہائی مثبت اثرات مرتب ہوتے
ہیں۔ روزے سے معدے سے خارج ہونے والے (gastric juice) کی پیداوار اور اخراج میں
مثبت تبدیلی آتی ہے۔ روزے کے دوران تیزابیت نہیں ہوتی کیونکہ گیسٹرک جوس خارج نہیں
ہوتا جس میں موجود ہائیڈرو کلورک ایسڈ تیزابیت کا باعث بنتا ہے۔ روزہ آنتوں کو بھی
آرام فراہم کرتا ہے۔
حکیم ہمدانی اشتہا پر روزے کے اثرات کا جائزہ لیتے ہوئے
رقم طراز ہیں: ’’دن بھر کھاتے پیتے رہنے کی صورت میں اشتہاے صادق شاذونادر محسوس
ہوتی ہے اور بغیر اشتہاے صادق محسوس ہوئے وقتِ مقررہ پر غذا استعمال کرلی جاتی ہے،
جس سے سوء ہضم، نفخ، ڈکار، قبض، اسہال، قے وغیرہ جیسے امراض پیدا ہوجاتے ہیں۔ لیکن
بحالت روزہ دن بھر کی بھوک و پیاس کے بعد اشتہاے صادق بلکہ اشتہاے شدید محسوس ہوتی
ہے، اور جب وقت افطار غذا استعمال کی جاتی ہے تو اس کا انہضام و
انجذاب جسم میں تیزی سے ہوتا ہے اور ہضم بھی قوی ہوجاتا ہے‘‘۔ (اسلامی اصولِ صحت،
ص ۴۳-۴۴)
ایلن کاٹ (Allan Cott) نے ۱۹۷۵ء میں اپنی تحقیق کے بعد
یہ نتیجہ نکالا: روزے سے نظامِ ہضم اور مرکزی عصبی نظام کو مکمل طور پر نفسیاتی
سکون ملتا ہے اور یہ میٹابولزم کے نظام کو نارمل کردیتا ہے۔ (Islamic Medicine، شاہد اختر،ص ۱۴۸)
٭۔نظام ہضم پر روزہ کے اثرات :۔۔
نظام ہضم ہمارے جسم کا سب
سے اہم نظام ہے اس کے اہم اعضاء لعابي غدود ، زبان ، گلا ، غذائي نالي ،
(limentary
Canal) یعنی گلے سے معدہ تک خوراک لے جانے والی
نالی ، معدہ ، بڑي آنت، چھوٹي آنت، مري ، جگر اور لبلب معدہ، بارہ انگشتی آنت، جگر
اور لبلبہ اور آنتوں سے مختلف حصے وغیرہ تمام اعضاء اس نظام کا حصہ ہیں۔ اس نظام
کا اہم حصہ یہ ہے کہ یہ سب سے پیچیدہ اعضاء خود بخود ایک کمپیوٹری نظام سے عمل
پذیر ہوتے ہیں۔ یہ خود بخودايک نظام سے عمل پذير ہوتے ہيں جيسے
ہي ہم کچھ کھاتے ہيں يہ خود کار نظام حرکت ميں آجاتا ہے اور اس کا ہر عضو اپنا
مخصوص کام شروع کر ديتا ہے اور ظاہر ہے يہ سارا نظام چوبيس گھنٹے مصروف عمل رہتا
ہے تو اعصابي دباو اور غلط قسم کي خوراک کي وجہ سے يہ گھس جاتا ہے تب روزہ
اسکے لئے ترياق ثابت ہوتاہے اور ايک ماہ تک اس سارے نظام پر آرام طاري کر ديتا ہے
مگر روزہ کا سب سے حيرتناک اثر جگر پر يہ ہوتا ہے کہ اسے روزانہ چھ گھنٹوں تک آرام
کرنے کا موقع مل جاتا ہے توانائي بخش کھانے کے اسٹور کرنے کے عمل سے بڑي حد تک
آزاد ہو جاتا ہے اور اپني توانائي خون ميں گلوبےولين (جو جسم کو محفوظ رکھنے والے
مناعتي نظام کو طاقت ديتاہے ) ۔
روزہ ایک طرح اس سارے نظام ہضم پر ایک ماہ کا
آرام طاری کر دیتا ہے۔ مگر درحقیقت اس کا حیران کن اثر بطور خاص جگر پر ہوتا ہے
کیونکہ جگر کے کھانا ہضم کرنے کے علاوہ پندرہ مزید عمل بھی ہوتے ہیں۔ یہ اس طرح
تھکان کا شکار ہوجاتا ہے۔ جیسے ایک چوکیدار ساری عمر کے لئے پہرے پر کھڑا ہو۔ اسی
کی وجہ سے صفرا کی رطوبت جس کا اخراج ہاضمہ کے لئے ہوتا ہے مختلف قسم کے مسائل
پیدا کرتی ہے اور دوسرے اعمال پر بھی اثر انداز ہوتی ہے۔
دوسری طرف روزے کے ذریعے
جگر کو چار سے چھ گھنٹوں تک آرام مل جاتا ہے۔ یہ روزے کے بغیر قطعی ناممکن ہے کیونکہ
بے حد معمولی مقدار کی خوراک یہاں تک کہ ایک گرام کے دسویں حصہ کے برابر بھی، اگر
معدہ میں داخل ہوجائے تو پورا کا پورا نظام ہضم اپنا کام شروع کردیتا ہے اور جگر
فوراً مصروف عمل ہوجاتا ہے۔ سائنسی نکتہ نظر سے یہ دعویٰ کیا جاسکتا ہے کہ اس آرام
کا وقفہ ایک سال میں ایک ماہ توہونا ہی چاہئے۔
جدید دور کا انسان جو
اپنی زندگی کی غیر معمولی قیمت مقرر کرتا ہے متعدد طبی معائنوں کے ذریعے اپنے آپ
کو محفوظ سمجھنا شروع کردیتا ہے۔ لیکن اگر جگر کے خلیے کو قوت گویائی حاصل ہوتی تو
وہ ایسے انسان سے کہتا کہ ’’مجھ پر ایک عظیم احسان صرف روزے کے ذریعے سے ہی کرسکتے
ہو‘‘۔
روزہ نظام ہضم کے سب سے حساس حصے گلے اور غذائي نالي کو
تقويت ديتا ہے اس کے اثر معدہ سے نکلنے والي رطوبتيں بہتر طور پر متوازن ہو جاتي
ہيں جس سے تيزابيت
(Acidity) جمع نہيں ہوتي اس کي پيداوار رک جاتي ہے -
معدہ کے رياحي دردوں ميں کافي افاقہ ہوتا ہے قبض کي شکايت رفع ہو جاتي ہے اور پھر
شام کو روزہ کھولنے کے بعد معدہ زيادہ کاميابي سے ہضم کا کام انجام ديتا ہے -
آنتوں پر روزہ کے بہت مفيد اثرات ظاہر ہوتے ہيں يہ آنتوں کو توانائي بخشتا ہے
انٹريوں کے جال کو نئي توانائي اور تازگي عطا کرتا ہے آنتوں کے ہاضم رسوں کي خرابي
کو دور کرتا ہے اس طرح ہم روزہ رکھ کر ان تمام بيماريوں کے حملے سے محفوظ ہو جاتے
ہيں جو ہضم کرنے والي ناليوں پر ہوتے ہيں -
٭۔روزہ اور معدہ :۔۔
حضرت پیغمبراسلام ﷺ فرماتے ہیں:
المعدة بیت کل داء والحمئة راس کل دواء) 11۔ بحارالانوار، ج ۹۶، ص ۳۴۱۔)
معدہ ہردرد اور بیماری کامرکزہے اور نامناسب اور زیادہ غذاؤں سے پرہیزہردواء کی بنیادہے جس طرح نفسانی اور روحانی بیماریوں کی علت غلط اور منحرف افکارگناہ وغیرہ ہیںاسی طرح معدہ بھی تمام بیماریوں کاگھرہے یہ روزہ بھی کھانے پینے میں ایک منظم اور معین پروگرام پیش کرکے کچھ حدیں مشخص کرتاہے اور اس کے معدے اور ہاضمہ کی مشین کوپختہ کردیتاہے اور اس کے ساتھ ساتھ افکارکوکنٹرول کرکے اس کوگناہوں سے بھی دورکرتاہے یہ روزہ انسان کے بدن میں اضافی مواد اور بے کاراشیاء کوجلادیتاہے، درواقع بدن کوپاک وصاف کردیتاہے کہ شایداسی لیے پیغمبراسلامﷺ نے فرمایا :
” صومواتصحوا“ روزہ رکھوتاکہ صحت مندہوجاؤ 12۔( پرسش وپاسخھا، ص ۳۲۲۔)
المعدة بیت کل داء والحمئة راس کل دواء) 11۔ بحارالانوار، ج ۹۶، ص ۳۴۱۔)
معدہ ہردرد اور بیماری کامرکزہے اور نامناسب اور زیادہ غذاؤں سے پرہیزہردواء کی بنیادہے جس طرح نفسانی اور روحانی بیماریوں کی علت غلط اور منحرف افکارگناہ وغیرہ ہیںاسی طرح معدہ بھی تمام بیماریوں کاگھرہے یہ روزہ بھی کھانے پینے میں ایک منظم اور معین پروگرام پیش کرکے کچھ حدیں مشخص کرتاہے اور اس کے معدے اور ہاضمہ کی مشین کوپختہ کردیتاہے اور اس کے ساتھ ساتھ افکارکوکنٹرول کرکے اس کوگناہوں سے بھی دورکرتاہے یہ روزہ انسان کے بدن میں اضافی مواد اور بے کاراشیاء کوجلادیتاہے، درواقع بدن کوپاک وصاف کردیتاہے کہ شایداسی لیے پیغمبراسلامﷺ نے فرمایا :
” صومواتصحوا“ روزہ رکھوتاکہ صحت مندہوجاؤ 12۔( پرسش وپاسخھا، ص ۳۲۲۔)
روزہ کی حالت میں انسانی معدہ پر بھی دل کی طرح مفید
اثرات مرتب ہوتے ہیں۔ روزہ کی وجہ سے معدہ سے نکلنے والی رطوبات متوازن ہوجاتی
ہیں۔ اگرچہ عام قسم کی بھوک سے معدہ کی تیزابیت میں اضافہ ہوجاتا ہے مگر روزہ کی
حالت میں معدہ سے نکلنے والی رطوبات کے متوازن ہونے سے معدہ میں تیزابیت (Acidity) جمع نہیں ہوتی۔ اس
کی وجہ یہ ہے کہ روزہ کے دوران معدہ کے اعصاب و رطوبات پیدا کرنے والے خلیے رمضان
کے مہینے میں آرام کی حالت میں ہوتے ہیں اور ایک صحت مند معدہ افطار کے بعد زیادہ
کامیابی سے ہضم کرنے کا کام سرانجام دیتا ہے۔
معدے کو صرف اس قدر پُرکریں کہ بآسانی ہضم ہو سکے۔
آقائے نامدارﷺ کا توارشاد مبارک ہے کہ ’’پیٹ کو ایک تہائی خالی رہنے دو تاکہ ہضم
بآسانی ہو‘‘۔ کام کاج اور عبادات بآسانی ہو سکیں اور اس طرح کوئی بیماری قریب
بھی نہ پھٹکے گی۔
٭۔روزہ کے انسانی معدہ پر اثرات:۔
انسانی معدہ روزہ کے ذریعے جو بھی اثرات حاصل کرتا ہے
وہ بے حد فائدہ مند ہوتے ہیں۔ اس ذریعہ سے معدہ سے نکلنے والی رطوبتیں بھی بہتر
طور پر متوازن ہوجاتی ہیں۔۔
روزہ کے دوران تیزابیت (Acid) کم جنم لیتی ہے، اگرچہ
عام قسم کی بھوک بڑھ جاتی ہے۔ روزے کی نیت اور مقصد کے تحت ہی تیزابیت کی پیداوار
رکتی ہے۔ یوں معدے کے پٹھے اور معدے میں رطوبت پیدا کرنے والے خلیے دوران ماہِ
رمضان آرام کی حالت میں چلے جاتے ہیں۔ جو لوگ روزہ نہیں رکھتے، ان کے دعوئوں کے
برخلاف یہ ثابت ہو چکا کہ ایک صحت مند معدہ شام کو روزہ کھولنے کے بعد زیادہ
کامیابی سے ہضم کا کام انجام دیتا ہے۔
یہ صحت مند رطوبت کے بننے
اور معدہ کے پٹھوں کی حرکت سے ہوتا ہے۔ آنتوں کے شرائین کے غلاف کے نیچے محفوظ رکھنے
والے نظام کا بنیادی عنصر موجود ہوتا ہے۔ جیسے انتڑیوں کا جال، روزے کے دوران ان
کو نئی توانائی اور تازگی حاصل ہوتی ہے۔ اس طرح ہم ان تمام بیماریوں کے حملوں سے
محفوظ ہوجاتے ہیں جو ہضم کرنے والی نالیوں پر ہوسکتے ہیں۔
٭۔روزہ کے آنتوں پر اثرات:۔۔
روزہ آنتوں کو آرام اور توانائی فراہم کرتا ہے۔ یہ فائدہ صحت مند رطوبت
کے بننے اور معدے کے پٹھوں کی حرکت سے ملتا ہے۔چھ سات گھنٹے جب آنتوں میں کھانا
داخل نہ ہو، تو انھیں خودبخود سکون مل جاتا ہے۔
آنتوں کی شریانوں کے غلاف کے نیچے Endothelium محفوظ رکھنے والے
مدافعتی نظام کا بنیادی عنصر موجود ہوتا ہے جیسے انتڑیوں کا جال۔ روزے کے دوران
صحت مند رطوبت بننے اور معدہ کے پٹھوں کی حرکت سے ان کو نئی توانائی اور تازگی
حاصل ہوتی ہے۔ اس طرح روزہ دار ہضم کرنے والی نالیوں کی تمام بیماریوں سے محفوظ
ہوجاتے ہیں۔
٭۔روزہ اورنظام ِ دوران خون :۔۔
روزوں کے جسم پر جو مثبت اثرات مرتب ہوتے ہیں ان میں سب
سے زیادہ قابل ذکر خون کے روغنی مادوں میں ہونے والی تبدیلیاں ہیں خصوصاًدل کے لئے
مفید چکنائی'' ایچ ڈی ایل ''کی سطح میں تبدیلی بڑی اہمیت کی حامل ہے کیونکہ اس سے
دل اور شریانوں کو تحفظ حاصل ہوتا ہے اسی طرح دو مزید چکنائیوں ''ایل ڈی ایل''اور
ٹرائی گلیسر ائیڈ کی سطحیں بھی معمول پر آ جاتی ہیں اس سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ
رمضان المبارک ہمیں غذائی بے اعتدالیوں پر قابو پانے کا بہترین موقع فراہم کرتا ہے
اور اس میں روزوں کی وجہ سے چکنائیوں کے استحالے (میٹا بولزم )کی شرح بھی بہت بہتر
ہو جاتی ہے۔یاد رہے کہ دوران رمضان چکنائی والی اشیا ء کا کثرت استعمال ان فوائد
کو مفقود کر سکتا ہے۔
دن میں روزے کے دوران خون کی مقدار میں کمی ہوجاتی ہے
یہ اثر دل کو انتہائی فائدہ مند آرام مہیا کرتا ہے سب سے اہم بات یہ ہے کہ روزے کے
دوران بڑھا ہوا خون کا دباؤہمیشہ کم سطح پر ہوتا ہے ۔شریانوں کی کمزوری اور
فرسودگی کی اہم ترین وجوہات میں سے ایک وجہ خون میں باقی ماندہ مادے (Remnanuls)کا
پوری طرح تحلیل نہ ہو سکنا ہے جبکہ دوسری طرف روزہ بطور خاص افطار کے وقت کے نزدیک
خون میں موجود غذائیت کے تمام ذرے تحلیل ہو چکے ہوتے ہیں اس طرح خون کی شریانوں کی
دیواروں پر چربی یا دیگر اجزاجم نہیں پاتے جس کے نتیجے میں شریانیں سکڑنے سے محفوظ
رہتی ہیں چنانچہ موجودہ دور کی انتہائی خطرناک بیماری شریانوں کی دیواروں کی سختی (Arteriosclerosis)سے
بچنے کی بہترین تدبیر روزہ ہی ہے ۔روزے کے دوران جب خون میں غذائی مادے کم ترین
سطح پر ہوتے ہیں تو ہڈیوں کا گودہ حرکت پذیر ہو جاتا ہے اور خون کی پیدائش میں
اضافہ ہو جاتا ہے اس کے نتیجے میں کمزور لوگ روزہ رکھ کر آسانی سے اپنے اندر زیادہ
خون کی کمی دورکر سکتے ہیں۔
روزے سے نظامِ دورانِ خون (circulatory system) پر مرتب ہونے والے
فائدہ مند اثرات کے بارے میں ترکی کے معروف اسکالر ڈاکٹر ہلوک نور باقی رقم طراز
ہیں: ’’دن میں روزے کے دوران خون کی مقدار میں کمی واقع ہوجاتی ہے۔ یہ
اثر دل کو انتہائی فائدہ مند آرام مہیا کرتا ہے۔ زیادہ اہم یہ بات ہے کہ خلیات کے
درمیان
(intercellular) مائع کی مقدار میں کمی کی وجہ سے
ٹشوز، یعنی پٹھوں پر دبائو کم ہوجاتا ہے۔ پٹھوں پر دبائو یا ڈائسٹالک پریشر ہمیشہ
کم سطح پر ہوتا ہے، یعنی اس وقت دل آرام یا ریسٹ کی صورت میں ہوتا ہے۔ مزیدبرآں دل
آج کل ماڈرن زندگی کے مخصوص حالات کی بدولت شدید تنائو یا hypertension کا شکار ہے۔ رمضان کے ایک
ماہ کے روزے بطور خاص ڈائسٹالک پریشر کو کم کرکے انسان کو بے پناہ فائدہ پہنچاتے
ہیں۔ روزے کا سب سے اہم اثر دورانِ خون پر اس پہلو سے ہے کہ اس سے خون کی شریانوں
پر اس کے اثر کا جائزہ لیا جائے۔ اس حقیقت کا علم عام ہے کہ خون کی شریانوں کی
کمزوری اور فرسودگی کی اہم ترین وجہوں میں سے ایک وجہ خون میں باقی ماندہ مادے (remnants) کا
پوری طرح تحلیل نہ ہوسکنا ہے، جب کہ دوسری طرف روزے میں بطور خاص افطار کے وقت خون
میں موجود غذائیت کے تمام ذرّے تحلیل ہوچکے ہوتے ہیں۔ ان میں سے کچھ بھی باقی نہیں
بچتا۔ اس طرح خون کی شریانوں کی دیواروں پر چربی یا دیگر اجزا جم نہیں پاتے۔ اور
شریانیں سکڑنے سے محفوظ رہتی ہیں۔ چنانچہ موجودہ دور کی انتہائی خطرناک بیماریوں
جن میں شریانوں کی دیواروں کی سختی (arteriosclerosis) نمایاں ترین ہے،
سے بچنے کی بہترین تدبیر روزہ ہی ہے‘‘۔ (قرآنی آیات اور سائنسی حقائق، ص۱۰۵-۱۰۶)
خون ہڈیوں کے گودے میں بنتا ہے۔جب کبھی جسم کو خون کی
ضرورت پڑتی ہے ایک خودکار نظام ہڈی کے گودے کو حرکت پذیر (stimulate) کردیتا ہے۔ کمزور اور
لاغر لوگوں میں یہ گودہ بطور خاص سست حالت میں ہوتا ہے۔ روزے کے دوران جب
خون میں غذائی مادے کم ترین سطح پر ہوتے ہیں، ہڈیوں کا گودہ حرکت پذیر ہوجاتا ہے۔
اس کے نتیجے میں لاغر لوگ روزہ رکھ کر آسانی سے اپنے اندر خون پیدا کرسکتے ہیں۔
چونکہ روزے کے دوران جگر کو ضروری آرام مل جاتا ہے، یہ ہڈی کے گودے کے لیے ضرورت
کے مطابق اتنا مواد مہیا کردیتا ہے جس سے بآسانی اور زیادہ مقدار میں خون پیدا
ہوسکے۔(ایضاً، ص ۱۰۷-۱۰۸)
فارماسسٹ محمد فاروق کمال نے لکھا ہے: ’’سائنسی تحقیق
کے مطابق روزے کے دوران بھوک کی وجہ سے اور خون میں غذائیت کی کمی کے باعث ہڈیوں
کے گودے خون بنانے کا عمل تیز کردیتے ہیں۔ یوں خون بنانے کے سسٹم کی اوور ہالنگ
ہوجاتی ہے‘‘۔(سیرتِ محمدؐ رسول اللّٰہ، ص ۵۸۱)
حکیم محمد سعید شہیدؒ نے روزے کی افادیت بیان کرتے ہوئے
لکھا ہے: ’’آج جدید سائنس نے ثابت کردیا ہے کہ روزہ کولیسٹرول کو ضائع کرتا ہے۔ یہ
وہی خون کا کولیسٹرول ہے جو دل کی بیماریوں کا سب سے بڑا سبب ہے۔ آج کی دنیا میں
اس سائنسی انکشاف کے لحاظ سے روزہ ایک برکت ہے۔ جو بات آج سائنس دانوں کو معلوم
ہوئی ہے ، اس کا ادراک ذات ختم الرسل ؐ کو تھا اور ضرور تھا۔ اسی لیے آں حضور صلی
اللہ علیہ وسلم نے روزے کو جسم و روح کے لیے باعثِ خیروبرکت قرار دیا۔(عرفانستان،
ص ۱۶۹-۱۷۰)
محمد فاروق کمال ایم فارمیسی (لندن یونی ورسٹی) کے
مطابق جسم میں وقتی طور پر پانی کی کمی بلڈپریشر کو کم کر کے دل کو آرام کا موقع
دیتی ہے اور اس کی طاقت بحال کرنے میں مددگار ثابت ہوتی ہے۔ بھوک سے جسم میں چربی
کم ہوتی ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ خون میں اور نالیوں میں بھی چربی کی مقدار کم ہونے کا
عمل شروع ہوجاتا ہے۔ (سیرت محمدؐ رسول اللّٰہ، ص ۵۸۰-۵۸۱)
عبداللہ اے ، العثمان نے اپنے ایک مضمون میں لکھا ہے:
’’رمضان کے روزے کولیسٹرول کی سطح میں واضح کمی کا باعث ہیں‘‘(جنرل آف اسلامک
سائنس، جلد۲۸،
عدد ۱،
ص۵)۔اس
محقق نے جو معلومات جمع کی ہیں، ان سے روزے کے دوران جسم کے وزن، پلازما کولیسٹرول
اور ٹرائی گلیسرائیڈ کے کنٹرول کرنے کی نشان دہی ہوتی ہے۔ حکیم کمال الدین ہمدانی
بھی روزے کو بلڈپریشر کے لیے مفید قرار دیتے ہیں(اسلامی اصولِ صحت، ص ۴۴)۔ ڈاکٹر شاہد اطہر ایم ڈی
ایسوسی ایٹ پروفیسر انڈیانا یونی ورسٹی اسکول آف میڈیسن لکھتے ہیں کہ وہ
رمضان کے آغاز اور اختتام پر اپنا بلڈگلوکوز، کولیسٹرول اور ٹرائی گلیسرائیڈ خود
چیک کرتے ہیں تاکہ وہ روزے رکھنے کے بعد فرق معلوم کرسکیں۔ وہ لکھتے ہیں کہ
رمضان کے آخر میں واضح بہتری سامنے آتی ہے۔(Islamic Medicine، شاہد اختر، ص ۱۵۰)
٭۔روزہ اور خون کی تشکیل:۔۔
خون ہڈیوں کے گودے (Bone Merrow) میں تشکیل پاتا ہے۔ جسم انسانی کو جب خون کی ضرورت ہوتی ہے تو
ایک خود کار نظام ہڈی کے گودے کو حرکت میں لاتا ہے۔ حتی کہ انتہائی کمزور و نحیف
لوگوں میں بھی یہ گودا بطور خاص سست حالت میں ہوتا ہے۔ روزے کے دوران جب غذائی
مادے کم ترین سطح پر ہوتے ہیں تو Bone
Merrow حرکت میں آجاتا ہے۔ اس طرح کمزور و لاغر لوگ روزہ رکھ کر با آسانی
اپنے اندر زیادہ خون پیدا کرسکتے ہیں۔
بہرحال یہ تو ظاہر ہے کہ
کوئی شخص اگر خون کی پیچیدہ بیماری میں مبتلا ہے تو اسے طبی معائنہ اور ڈاکٹر کی
تجویز کو ملحوظ خاطر رکھنا ہی پڑے گا۔ روزے کے دوران جگر کو ضروری آرام مل جاتا
ہے۔
٭۔روزے کے دوران خون پر فائدہ مند اثرات:۔۔
دن میں روزے کے دوران خون کی مقدار میں کمی ہوجاتی
ہے۔یہ اثر دل کو انتہائی فائدہ مند آرام مہیا کرتا ہے۔ زیادہ اہم بات یہ ہے کہ
سیلوں کے
(Intercellular) درمیان مائع کی مقدار میں کمی کی وجہ
سے ٹشو یعنی پٹھوں پر دباؤ کم ہوجاتا ہے۔ پٹھوں پر دباؤ یا عام فہم ڈائسٹالک (Diastolic) دباؤ
دل کے لئے انتہائی اہمیت کا حامل ہوتا ہے۔ روزے کے دوران ڈائسٹالک پریشر ہمیشہ کم
سطح پر ہوتا ہے یعنی اس وقت دل آرام یا ریسٹ کی صورت میں ہوتا ہے۔ مزید براں، آج
کا انسان ماڈرن زندگی کے مخصوص حالات کی بدولت شدید تناؤ یا ہائی پرٹینشن (Hypertension) کا
شکار ہے۔ رمضان کے ایک ماہ کے روزے بطور خاص ڈائسٹالک پریشر کو کم کرکے انسان کو
بے پناہ فائدہ پہنچاتے ہیں۔ روزے کا سب سے اہم اثر دوران خون پر اس پہلو سے ہے کہ
یہ دیکھا جائے کہ اس سے خون کی شریانوں پر کیا اثر ہوتا ہے۔ اس حقیقت کا علم عام
ہے کہ خون کی شریانوں کی کمزوری اور فرسودگی کی اہم ترین وجوہات میں سے ایک وجہ
خون میں باقی ماندہ مادے (Remnants) کا پوری طرح تحلیل نہ
ہوسکنا ہے۔ جبکہ دوسری طرف روزے میں بطور خاص افطار کے وقت کے نزدیک خون میں موجود
غذائیت کے تمام ذرے تحلیل ہوچکے ہوتے ہیں۔ ان میں سے کچھ بھی باقی نہیں بچتا۔ اس
طرح خون کی شریانوں کی دیواروں پر چربی یا دیگر اجزاء جم نہیں پاتے۔ اس طرح
شریانیں سکڑنے سے محفوظ رہتی ہیں۔ چنانچہ موجودہ دور کی انتہائی خطرناک بیماریوں
جس میں شریانوں کی دیواروں ( صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم rterioscleresis) کی
سختی نمایاں ترین ہے سے بچنے کی بہترین تدبیر روزہ ہی ہے کیونکہ روزے کے دوران
گردے جنہیں دوران خون ہی کا ایک حصہ سمجھا جاسکتا ہے۔ آرام کی حالت میں ہوتے ہیں
تو انسانی جسم کے ان اہم اعضاء کی بحالی بھی روزے کی برکت سے بحال ہوجاتی ہے۔
روزے کے دوران بڑھا ہوا خون کا دباو ہميشہ کم سطح
پر ہوتا ہے - شريانوں کي کمزوري اور فرسودگي کي اہم ترين وجوہات ميں سے ايک وجہ
خون ميں باقي ماندہ مادے (Remnanuls) کا پوري طرح تحليل نہ ہو
سکنا ہے جبکہ دوسري طرف روزہ بطور خاص افطار کے وقت کے نزديک خون ميں موجود غذائيت
کے تمام ذرے تحليل ہو چکے ہوتے ہيں اس طرح خون کي شريانوں کي ديواروں پر چربي يا
ديگر اجزاء جم نہيں پاتے جس کے نتيجے ميں شريانيں سکڑنے سے محفوظ رہتي ہيں چنانچہ
موجودہ دور کي انتہائي خطرناک بےماري شريانوں کي ديواروں کي سختي (Arteriosclerosis) سے
بچنے کي بہترين تدبےر روزہ ہي ہے - اس کے علاوہ انساني جسم کے اہم اعضاء کي بحالي
بھي روزے کي برکت سے بحال ہو جاتي ہے -
روزے کے دوران جب خون ميں غذائي مادے کم ترين سطح پر
ہوتے ہيں تو ہڈيوں کا گودہ حرکت پذير ہو جاتا ہے اس کے نتيجے ميں کمزور لوگ روزہ
رکھ کر آساني سے اپنے اندر زيادہ خون پيدا کر سکتے ہيں اس طرح روزے سے متعلق بہت
سي اقسام کي حياتياتي برکات کے ذريعے ايک دبلا پتلا شخص اپنا وزن بڑھا سکتا ہے اور
موٹے لوگ روزے کي عمومي برکات کے ذريعے اپنا وزن کم کر سکتے ہيں -
٭۔روزہ اور خون کے روغني مادے:۔۔
ہم سب جانتے ہيں کہ رمضان المبارک کے دوران ہمار ي
غذائي عادتيں بدل جاتي ہيں روزوں کے جسم پر جو مثبت اثرات مرتب ہوتے ہيں ان ميں سب
سے زيادہ قابل ذکر خون کے روغني مادوں ميں ہونے والي تبديلےاں ہيں خصوصاً دل کے
لئے مفيد چکنائي -ايچ- ڈي - ايل -کي سطح ميں تبديلي بڑي اہميت کي حامل ہے کيونکہ
اس سے دل اور شريانوں کو تحفظ حاصل ہوتا ہے اسي طرح دو مزيد چکنائیوں -ايل -ڈي-ايل
-اور ٹرائي گلیسر ائيڈ کي سطحيں بھي معمولي پر آ جاتي ہيں اس سے يہ ثابت
ہوتا ہے کہ رمضان المبارک ہميں غذائي بے احتياطوں پر قابو پانے کا بہترين موقع
فراہم کرتا ہے اور اس ميں روزوں کي وجہ سے چکنائيوں کے استحالے (ميٹا بولزم )کي
شرح بھي بہت بہتر ہو جاتي ہے
٭۔خون
کی تشکیل اور روزے کی لطافتیں:۔۔
خون ہڈیوں کے گودے میں بنتا ہے جب کبھی جسم کو خون کی
ضرورت پڑتی ہے ایک خود کار نظام ہڈی کے گودے کو حرکت پذیر (Stimulate) کردیتا ہے اور لاغر لوگوں
میں یہ گودہ بطور خاص سست حالت میں ہوتا ہے۔
روزے کے دوران جب خون میں غذائی مادے کم ترین سطح پر
ہوتے ہیں۔ ہڈیوں کا گودہ حرکت پذیر ہوجاتا ہے۔ اس کے نتیجے میں لاغر لوگ روزہ رکھ
کر آسانی سے اپنے اندر زیادہ خون پیدا کرسکتے ہیں۔ بہر حال یہ تو ظاہر ہے کہ جو
شخص خون کی پیچیدہ بیماری میں مبتلا ہو اسے طبی معائنہ اور ڈاکٹر کی تجویز کو
ملحوظ خاطر رکھنا ہی پڑے گا چونکہ روزے کے دوران جگر کو ضروری آرام مل جاتا ہے یہ
ہڈی کے گودے کے لئے ضرورت کے مطابق اتنا مواد مہیا کر دیتا ہے جس سے آسانی سے اور
زیادہ مقدار میں خون پیدا ہوسکے۔
اس طرح روزے سے متعلق بہت سی اقسام کی حیاتیاتی برکات
کے ذریعے ایک پتلا و دبلا شخص اپنا وزن بڑھا سکتا ہے اسی طرح موٹے اور فربہ لوگ
بھی صحت پر روزے کی عمومی برکات کے ذریعے اپنا وزن کم کرسکتے ہیں۔
٭۔روزہ رکھنے سے جسم کو نئے سفید خون کے خلیات بنانے کی تحریک ملتی ہے:۔۔
میڈیکل
سائنس کے حوالے سے کچھ عرصے پہلے تک یہی خیال کیا جاتا تھا کہ روزہ نظام انہضام کو
آرام پہنچانے کا ایک مفید ذریعہ ہو سکتا ہے۔ لیکن جدید طب سے وابستہ ماہرین
اس حقیقت سے پردہ اٹھانے میں کامیاب ہو گئے ہیں کہ روزہ ایک حیرت انگیز طبی علاج
ہے جو نہ صرف انسان کے مدافعتی نظام کو نئی توانائی فراہم کر سکتا ہے بلکہ پورے
مدافعتی نظام کو دوبارہ سے تخلیق کر سکتا ہے۔امریکی سائنسدانوں نے اس مطالعے کو
تحقیق کی دنیا میں ایک قابل ذکر پیش رفت قرار دیا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ صرف تین دن
تک لگاتار روزے کی حالت میں رہنے سے جسم کا مدافعتی نظام پورا کا پورا نیا ہو سکتا
ہے۔ کیونکہ روزہ سے جسم کو نئے سفید خون کے خلیات بنانے کی تحریک ملتی
ہے۔ سائنس دانوں کے بقول روزہ مدافعتی نظام کی ازسرنو تخلیق کا ایک بٹن ہے جس
کے دبانے سے اسٹیم خلیات کو سفید خون کے خلیات بنانے کا اشارہ ملتا ہے جن کی بدولت
انسان بیماریوں اور انفیکشن کے خلاف مزاحمت کرتا ہے۔ یونیورسٹی آف سدرن کیلی
فورنیا سے تعلق رکھنے والے سائنسدانوں نے کہا ہے کہ ان کی دریافت کینسر کے مریضوں
اور غیر موثر مدافعتی نظام میں مبتلا افراد کے لیے فائدہ مند ثابت ہو سکتی ہے اور
خاص طور پر معمر افراد جن کا مدافعتی نظام زیادہ عمر کی وجہ سے غیر موثر ہو جاتا
ہے اور ان میں معمولی بیماریوں سے لڑنے کی طاقت بھی نہیں رہتی ہے، یہ مشق ان کے
لیے بے حد مفید ہو سکتی ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ سرطان میں مبتلا افراد یا معمر
ہونے کی وجہ سے غیر موثر مدافعتی نظام کو روزہ ایک نئے مدافعتی نظام میں تبدیل کر
سکتا ہے ۔انھوں نے کہا کہ جب آپ بھوکے ہوتے ہیں تو یہ نظام توانائی بچانے کی کوشش
کرتا ہے اور روزے دارکا بھوکا جسم ذخیرہ شدہ گلوکوز اور چربی کو استعمال کرنے پر
مجبور ہوجاتا ہے۔ لیکن اس کے ساتھ ساتھ توانائی محفوظ کرنے کے لیے مدافعتی نظام کے
خلیات کا بھی استعمال کرتا ہے جس سے سفید خلیات کا ایک بڑا حصہ بھی ٹوٹ پھوٹ جاتا
ہے۔ کیلی فورنیا یونیورسٹی کے شعبہ جیروئنٹولوجی ایند بائیولوجیکل سائنسز سے منسلک
پروفیسر والٹر لونگو نے کہا کہ طویل روزوں کی حالت میں جسم میں ایک اینزائم پی کے
اے (PKA) کی
کمی واقع ہوتی ہے جس کا تعلق بزرگی یا سرطان کے ٹیومر کی افزائش کا سبب بننے والے
ہارمون سے ہے۔ جبکہ اسٹیم سیلز تخلیق نو کا مرحلہ تبھی شروع کر سکتا ہے جب پی
کے اے جین کا بٹن سوئچڈ آف ہو۔ بنیادی طور پر روزہ اسٹیم سیلز کو OK کا
سگنل بھجتا ہے کہ وہ ری سائیکلنگ کا عمل شروع کرے اور پورے مدافعتی نظام کی مرمت
کر کے اسے پھر سے نیا بنادے۔اچھی خبر یہ ہے کہ روزے کی حالت میں جسم کو مدافعتی
نظام کے نقصان دہ، ناکارہ اور غیر فعال حصوں سے بھی چھٹکارہ مل جاتا
ہے۔ محققین نے ایک تجربے کے دوران لوگوں سے چھ ماہ کے دوران دو سے چار بار
فاسٹنگ (روزے) کے لیے کہا۔ پروفیسر لونگو کے مطابق ہم نے انسانوں اور جانوروں
پر کئے جانے والے تجربات میں یہ دیکھا کہ طویل روزوں سے جسم میں سفید خون کے خلیات
کی تعداد میں کمی ہونی شروع ہو گئی مگر جب روزہ کھولا گیا تو یہ خلیات پھر سے واپس
آگئے اور تبھی سائنسدانوں نے یہ سوچنا شروع کیا کہ آخر یہ واپس کہاں سے آتے ہیں
۔ بقول پروفیسر لونگو طویل روزوں کی حالت کے دوران جسم میں سفید خون کے خلیات
کی کمی سے پیدا ہونے والی حوصلہ افزا تبدیلیاں اسٹیم سیلز کے تخلیق نو کے خلیہ کو
متحرک بناتی ہیں۔ اس کا مطلب ہے کہ جب انسان روزے کے بعد کھانا کھاتا ہے تو
اس کا جسم پورے نظام کی تعمیر کے لیے اسٹیم خلیات کو سگنل بھجتا ہے اور توانائی
محفوظ کرنے کے لیے مدافعتی نظام خلیات کے ایک بڑے حصے کو ری سائیکل کرتا ہے جن کی
یا تو ضرورت نہیں ہوتی ہے یا جو ناکارہ ہو چکے ہوتے ہیں۔ تحقیق کے معاون
مصنف پروفیسر تانیا ڈورف نے کہا کہ اگرچہ کمیو تھراپی کا عمل زندگی بچانے کے کام
آتا ہے لیکن 72 گھنٹوں کا روزہ کمیو تھراپی کے زہریلے اثرات کے خلاف کینسر
کے مریضوں کی حفاظت کر سکتا ہے۔ لیکن اس بات کی ضرورت ہے کہ کسی طبی معالج کے زیر
نگرانی اس نوعیت کی غذائی پابندیاں کی جانی چاہئیں۔ تحقیق کے نتیجے کے حوالے سے
پروفیسر لونگو نے کہا کہ ایسے شواہد نہیں ملے جن کی وجہ سے فاسٹنگ کو خطرناک قرار
دیا جائے بلکہ اس کے فائدہ مند ہونے کے حوالے سے ٹھوس شواہد سامنے آئے
ہیں۔ محققین نے کہا کہ وہ ان امکانات کی بھی تحقیقات کر رہے ہیں کہ آیا روزے
کے مفید اثرات صرف مدافعتی نظام کی بہتری کے لیے ہیں یا پھر اس کے اثرات دیگر
نظاموں اور اعضاء پر بھی لاگو ہوتے ہیں۔ یہ تحقیق ‘سیل پریس جرنل’ کے جون کے
شمارے میں شائع ہوئی ہے۔
٭۔روزہ اور نظامِ اخراج:۔۔
ڈاکٹر محمد عالم گیر خان لکھتے ہیں: سحری و افطار کے
وقت پانی عام مقدار سے زیادہ پیا جاتا ہے، جس سے صبح و شام گردوں کی دھلائی ہوتی
رہتی ہے۔ اگر ریت کے ذرات گردوں میں اکٹھے ہوجائیں تو وہ بھی پیشاب کی زیادتی کی
وجہ سے نکل جاتے ہیں۔(اسلام اور طب جدید، ص ۱۳)
ہمدرد فائونڈیشن کے مؤسس حکیم محمد سعید کے یہ الفاظ
بھی لائقِ مطالعہ ہیں:طبی نقطۂ نظر سے روزہ اس لیے ضروری ہے کہ ترکِ غذا سے انسان
کے جسم میں جمع شدہ اجزاے زائد اور مواد غیرضروری خارج ہوجاتے ہیں اور
خون اور اعضاے جسم کی ایسی صفائی ہوجاتی ہے کہ وہ نئی
توانائیوں کے ساتھ قبولِ غذا اور افعالِ معمولہ کے لیے تیار ہوجاتے ہیں۔ روزے سے
ایک فائدہ یہ بھی حاصل ہوتا ہے کہ اعضاے رئیسہ، یعنی دل و دماغ اور جگر کو آرام مل
جاتا ہے اور اس آرام سے ان کی کارکردگی میں بہتری اور اضافہ ہوجاتاہے۔(عرفانستان،
ص ۱۷۲)
٭۔روزہ اور نظامِ تولید:۔۔
نظامِ تولید (reproductive system)نسلِ انسانی کے
تسلسل کا ذریعہ ہے۔ اللہ تعالیٰ نے مخالف جنس میں کشش پیدا کر
کے اس کو فطرت سے ہم آہنگ کردیا ہے لیکن مرد اور عورت کی باہمی کشش کو نکاح کے
ضابطے سے مشروط کر دیا۔ جنسی محرک ان فطری محرکات میں سے ہے جو اپنی تکمیل کے لیے
انسان پر بہت زیادہ دبائو ڈالتے ہیں۔ روزہ جنسی محرک کے دبائواور اس سے پیدا ہونے
والی نفسیاتی کش مکش کو کم کرنے میں اہم کردار ادا کرتا ہے۔ روزے کی وجہ سے جنسی
محرک کمزور پڑ جاتا ہے۔ ایک طرف توغذا کی قلت کی وجہ سے اور دوسری طرف روزے کے
دوران اللہ کی عبادت، ذکر وتسبیح میں مشغول ہونے کی وجہ سے، اس کا ذہن جنسی موضوع
پر غوروفکر سے ہٹ جاتا ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے نوجوانوں کو شادی کی
ترغیب دی ہے اور جن نوجوانوں میں شادی کی استطاعت نہ ہو، انھیں روزے کی ترغیب دی
ہے۔(حدیث نبویؐ اور علم النفس، ڈاکٹر محمد عثمان نجاتی،ص ۵۳)
حضرت عبداللہ بن مسعودؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی
اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:
’’اے
نوجوانوں کی جماعت! تم میں سے جو لوگ اخراجاتِ نکاح کی طاقت رکھتے ہوں، وہ نکاح
کرلیں، کیونکہ نکاح سے نگاہ اور شرم گاہ دونوں کی حفاظت ہوتی ہے، اور جن میں
اخراجاتِ نکاح کا تحمل نہ ہو وہ روزہ رکھیں، کیونکہ روزہ ان کی شہوت پر کنٹرول کرے
گا‘‘۔(بخاری، حدیث ۵۰۶۵،
ابوداؤد، حدیث ۲۰۴۶،
مسنداحمد، حدیث ۱:۴۴۷)
یہاں اس امر کا تذکرہ بھی ضروری ہے کہ روزہ رکھنے سے
انسان کے جنسی نظام پر کسی قسم کے مضر اثرات مرتب نہیں ہوتے۔ اس سے جنسی محرک کو
کنٹرول کرنے میں مدد ضرور ملتی ہے لیکن نظامِ تولید میں کسی قسم کا
نقص پیدا نہیں ہوتا۔ یونی ورسٹی آف میڈیکل سائنسز تہران میں ڈاکٹر ایف عزیزی اور
ان کے رفقا نے روزے کے اثرات کے سائنسی مطالعے سے یہ نتیجہ اخذ کیا ہے کہ اس سے
تولیدی ہارمون پر کسی قسم کے منفی اثرات ظاہر نہیں ہوتے۔ (Islamic Medicine، شاہد اختر، ص ۱۴۸-۱۴۹)
٭۔روزہ اور نظام اعصاب :۔۔
روزہ کے دوران بعض لوگوں کو غصے اور چڑ چڑے پن کا
مظاہرہ کرتے دیکھا گیا ہے مگر اس بات کو یہاں پر اچھی طرح سمجھ لینا چاہیے کہ ان
باتوں کا روزہ اور اعصاب سے کوئی تعلق نہیں ہوتا اس قسم کی صورت حال انانیت (egotistic)یا
طبیعت کی سختی کی وجہ سے ہوتی ہے دوران روزہ ہمارے جسم کا اعصابی نظام بہت پر سکو
ن اور آرام کی حالت میں ہوتا ہے نیز عبادات کی بجا آواری سے حاصل شدہ تسکین ہماری
تمام کدورتوں اور غصے کو دور کردیتی ہیں اس سلسلے میں زیادہ خشوع وخضوع اور اللہ
کی مرضی کے سامنے سرنگوں ہونے کی وجہ سے تو ہماری پریشانیاں بھی تحلیل ہو کر ختم
ہو جاتی ہیں۔روزہ کے دوران چونکہ ہماری جنسی خواہشات علیحدہ ہوجاتی ہیں چنانچہ اس
وجہ سے بھی ہمارے اعصابی نظام پر کسی قسم کے منفی اثرات مرتب نہیں ہوتے ۔
روزہ اور وضو کے مشترکہ اثر سے جو مضبوط ہم آہنگی پیدا
ہوتی ہے اس سے دماغ میں دوران خون کا بے مثال توازن قائم ہو جاتا ہے جو کہ صحت مند
اعصابی نظام کی نشاندہی کرتا ہے اس کے علاوہ انسانی تحت الشعورجو رمضان کے دوران
عبادات کی مہربانیوں کی بدولت صاف شفاف اور تسکین پذیر ہو جاتا ہے اعصابی نظام سے
ہر قسم کے تناؤاور الجھن کو دور کرنے میں مدد کرتا ہے ۔
جسمِ انسانی ایک نہایت پیچیدہ اور متحرک دنیا ہے جس میں
کروڑوں ذی حس خلیات اپنے اپنے کاموں میں مشغول رہتے ہیں۔ ہزاروں کمپیوٹر مستعدی سے
برسرِکار ہیں، بہت سی فیکٹریاں چل رہی ہیں۔ لاتعداد اجزاے خوراک، رطوبتیں، لعاب
اور ہارمون، جسمانی صحت کے تقاضے پورے کر رہے ہیں۔ قسم قسم کی شریانیں نہروں کی
طرح رواں دواں ہیں۔ حواسِ خمسہ کے لیے برقی تار جسم کے گوشے گوشے میں پھیلے ہوئے
ہیں۔ درحقیقت انسانی جسم خداوند تعالیٰ کا ایک بڑا کرشمہ ہے اور اس کی ذات اور
صفتِ خلاقیت کا بیّن اور لاریب ثبوت ہے۔ ان سب پیچیدہ کارگزاریوں کا کنٹرول ہمارے
دماغ کے خلیات میں ہے جن کااپنا ضبط و نسق ذہنِ انسانی کی ذمہ داری ہے۔ ثابت ہوا
کہ ذہن انسانی ہی اصل کلیدِ صحت ہے۔ ذہن بہت سے جذبات سے متاثر ہوتا ہے، مثلاً
خوشی، غم، غصہ، نفرت، بے چینی، سکون، مایوسی اور فکر وغیرہ۔ جن لوگوں کی قوتِ
ارادی مضبوط ہوتی ہے اور ان کو صبر کی عادت ہوتی ہے، وہ ان جذبات کا اثر بہت حد تک
ذہن تک ہی محدود رکھتے ہیں۔ جسم کے خلیات پر ان جذبات کو اثرانداز نہیں ہونے دیتے۔
متلون مزاج اور حد سے زیادہ حساس افراد میں ان جذبات کا اثر بہت سے خلیات کے افعال
پر منتقل ہوتا رہتا ہے اور پھربیش تر امراض کا موجب بن جاتا ہے، مثلاً معدے، چھوٹی
و بڑی آنت کے زخم، دمہ، جوڑوں کی سوزش، فالج و دل کے دورے وغیرہ۔ روزبروز اس فہرست
میں اضافہ ہوتا رہتا ہے۔ نہ صرف یہ بلکہ ہربیماری میں ذہنی اثرات مزید پیچیدگیاں
پیدا کردیتے ہیں۔ قوتِ ارادی و صبر ان بیماریوں کے بچائو میں اور ہربیماری کے علاج
میں جسمانی قوت مدافعت کو استوار کرتے ہیں۔ روزہ ان دونوں خوبیوں کو انسان میں
پیدا کرتا ہے اور سال بہ سال ان کی افزایش کرتا ہے۔(اسلام اور طب جدید، ڈاکٹر محمد
عالم گیرخان،ص ۱۲-۱۳)
ڈاکٹر ہلوک نور باقی کے مطابق روزے کے دوران ہماری جنسی
خواہشات چونکہ علاحدہ ہوجاتی ہیں، اس وجہ سے بھی ہمارے اعصابی نظام پر منفی اثرات
مرتب نہیں ہوتے۔ روزے سے دماغ میں دورانِ خون کابے مثل توازن قائم ہوجاتا ہے جو
صحت مند اعصابی نظام کی نشان دہی کرتا ہے۔ اندرونی غدود کو جو آرام اور سکون ملتا
ہے، وہ پوری طرح سے اعصابی نظام پر اثرانداز ہوتاہے۔ انسانی تحت الشعور جورمضان کے
دوران عبادت کی بدولت صاف، شفاف اور تسکین پذیر ہوجاتا ہے اعصابی نظام سے ہرقسم کے
تنائو اور اُلجھن کو دُور کرنے میں مدد دیتا ہے۔ (قرآنی آیات اور سائنسی حقائق، ص ۱۰۷)
٭۔روزے
کا اعصابی نظام پر اثر:۔۔
اس حقیقت کو پوری طرح سمجھ لینا چاہئے کہ روزے کے دوران
چند لوگوں میں چڑ چڑا پن اور بے دلی کا اعصابی نظام سے کوئی تعلق نہیں ہوتا۔ اس
قسم کی صورت حال ان انسانوں کے اندر انانیت (Egotistic) یا طبیعت کی سختی کی وجہ
سے ہوتی ہے۔ اس کے برخلاف روزے کے دوران اعصابی نظام مکمل سکون اور آرام کی حالت
میں ہوتا ہے۔ عبادات کی بجا آوری سے حاصل شدہ تسکین ہماری تمام کدورتوں اور غصے کو
دور کردیتی ہے۔ اس سلسلے میں زیادہ خشوع و خضوع اور اللہ کی مرضی کے سامنے سرنگوں
ہونے کی وجہ سے تو ہماری پریشانیاں بھی تحلیل ہوکر ختم ہوجاتی ہیں۔ اس طرح آج کے
دور کے شدید مسائل جو اعصابی دباؤ کی صورت میں ہوتے ہیں تقریباً مکمل طور پر ختم
ہوجاتے ہیں۔
روزے کے دوران ہماری جنسی خواہشات چونکہ علیحدہ ہوجاتی
ہیں چنانچہ اس وجہ سے بھی ہمارے اعصابی نظام پر منفی اثرات مرتب نہیں ہوتے۔
روزہ اور وضو کے مشترکہ اثر سے جو مضبوط ہم آہنگی پیدا
ہوتی ہے اس سے دماغ میں دوران خون کا بے مثال توازن قائم ہوجاتا ہے جو صحت مند
اعصابی نظام کی نشاندہی کرتا ہے جیسا کہ میں پہلے بیان کرچکا ہوں۔ اندرونی غدودوں
کو جو آرام اور سکون ملتا ہے وہ پوری طرح سے اعصابی نظام پر اثر پذیر ہوتا ہے جو
روزے کا اس انسانی نظام پر ایک اور احسان ہے۔
انسانی تحت الشعور جو رمضان کے دوران عبادت کی
مہربانیوں کی بدولت صاف شفاف اور تسکین پذیر ہوجاتا ہے اعصابی نظام سے ہر قسم کے
تناؤ اور الجھن کو دور کرنے میں مدد دیتا ہے۔
٭۔روزہ اور جسم کے خلیات:۔۔
روزے کا سب سے اہم اثر خلیوں کے درمیان اور خلیوں کے
اندرونی سیال مادوں کے درمیان توازن کو قائم پذیر رکھنا ہے۔ چونکہ روزے کے دوران
مختلف سیال مقدار میں کم ہوجاتے ہیں۔ خلیوں کے عمل میں بڑی حد تک سکون پیدا ہوجاتا
ہے۔ اسی طرح لعاب دار جھلی کی بالائی سطح سے متعلق خلیے جنہیں ایپی تھیلیل (Epithelial)سیل
کہتے ہیں اور جو جسم کی رطوبت کے متواتر اخراج کے ذمہ دار ہوتے ہیں ان کو بھی صرف
روزے کے ذریعے بڑی حد تک آرام اور سکون ملتا ہے جس کی وجہ ان کی صحت مندی میں
اضافہ ہوتا ہے۔ خلیاتیات کے علم کے نکتہ نظر سے یہ کہا جاسکتا ہے کہ لعاب بنانے
والے غدود گردن کے غدود تیموسیہ اور لبلبہ (Pencreas)کے غدود شدید بے چینی سے
ماہ رمضان کا انتظار کرتے ہیں تاکہ روزے کی برکت سے کچھ سستانے کا موقع حاصل
کرسکیں اور مزید کام کرنے کے لئے اپنی توانائیوں کو جلا دے سکیں۔
ڈاکٹر ہلوک نور باقی کے مطابق روزے کا سب سے اہم اثر
خلیوںاور ان کے اندرونی مادوں کے درمیان توازن کو قائم پذیر رکھنا ہے۔ چونکہ روزے
کے دوران مختلف سیال مقدار میں کم ہوجاتے ہیں، اس لیے خلیوںکے عمل میں بڑی حد تک
سکون پیدا ہوجاتاہے۔ اس طرح لعاب دار جھلی کی بالائی سطح پر متعلق خلیے جنھیں ایپی
تھیلیل
(epithelial) سیل کہتے ہیں اور جو جسم کی رطوبت کے
متواتر اخراج کے ذمہ دار ہوتے ہیں ان کو بھی روزے کے ذریعے بڑی حد تک آرام و سکون
ملتا ہے جس کی وجہ سے ان کی صحت مندی میں اضافہ ہوتا ہے۔ علمِ خلیاتیات کے نقطۂ
نظر سے یہ کہا جاتا ہے کہ لعاب بنانے والے (pituitary) غدود، گردن کے غدود
تیموسیہ
(thyroid) اور لبلبہ (pancreas) کے غدود شدید بے چینی سے
ماہِ رمضان کا انتظار کرتے ہیں تاکہ روزے کی برکت سے کچھ سستانے کا موقع حاصل
کرسکیں اور مزید کام کرنے کے لیے اپنی توانائیوں کو جلا دے سکیں۔(قرآنی آیات اور
سائنسی حقائق، ص۱۰۶)
٭۔خلیات (Cells) رمضان المبارک کا بے چيني
سے انتظار کرتے ہيں
:۔۔
روزہ کا سب سے اہم اثر جسماني خليوں کے درميان اور
اندورني سيال مادوں کے درميان توازن کو قائم رکھنا ہوتا ہے چونکہ روزہ کے دوران
مختلف سيال مقدار ميں کم ہوجاتے ہيں جس سے خليوں کے عمل ميں بڑي حد تک سکون پيدا
ہو جاتا ہے اسي طرح
Epithelial Cells جو جسم کي رطوبت کے متواتر اخراج کے
ذمہ دار ہوتے ہيں ان کو بھي صرف روزہ کے ذريعے بڑي حد تک آرام اور سکون ملتا ہے جس
کي وجہ سے ان کي صحت مندي ميں اضافہ ہوتا ہے -علم خلياتيات کے نقطہ نظر سے يہ کہا
جا سکتا ہے کہ لعاب بنانے والے غدود ، گردن کے غدود تيموسيہ اور لبلبہ کے غدود
شديد بے چيني سے ماہ رمضان کا انتظار کرتے ہيں تاکہ روزہ کي برکت سے انہيں کچھ
سستانے کا موقع مل جائے اور آئندہ مزيد کام کرنے کے لئے اپني توانائيۆں
کو اکھٹا کر سکيں-
٭۔خلیہ،
سیل
(Cell) پر روزے کا اثر:۔۔
روزے کا سب سے اہم اثر خلیوں کے درمیان اور خلیوں کے
اندرونی سیال مادوں کے درمیان توازن کو قائم پذیر رکھنا ہے۔ چونکہ روزے کے دوران
مختلف سیال، مقدار میں کم ہوجاتے ہیں۔ خلیوں کے عمل میں بڑی حد تک سکون پیدا
ہوجاتا ہے۔ اسی طرح لعاب دار جھلی کی بالائی سطح سے متعلق خلیے جنہیں ایپی تھیلیل (Epithelial) سیل
کہتے ہیں اور جو جسم کی رطوبت کے متواتر اخراج کے ذمہ دار ہوتے ہیں ان کو بھی صرف
روزے کے ذریعے بڑی حد تک آرام اور سکون ملتا ہے جس کی وجہ ان کی صحت مندی میں
اضافہ ہوتا ہے۔ خلیاتیات کے علم کے نکتہ نظر سے یہ کہا جاسکتا ہے کہ لعاب بنانے
والے غدود گردن کے غدود تیموسیہ اور لبلبہ (Pencreas) کے غدود شدید بے چینی سے
ماہ رمضان کا انتظار کرتے ہیں تاکہ روزے کی برکت سے کچھ سستانے کا موقع حاصل
کرسکیں اور مزید کام کرنے کے لئے اپنی توانائیوں کو جلا دے سکیں۔
٭۔روزہ کے جگر پر اثرات:۔۔
روزہ جگر پر حیران کن حد
تک اثر انداز ہوتا ہے اس کی وجہ یہ ہے کہ جگر تقریباً پندرہ طرح کے کام سرانجام
دیتا ہے۔ ان کاموں کی ادائیگی سے بالآخر یہ تھکن کا شکار ہوجاتا ہے۔ جس طرح انسان
مسلسل کئی گھنٹے کام میں مصروف رہنے سے لاغر و نڈھال ہوجاتا ہے۔
پس روزہ کے ذریعے جگر کو
چار پانچ گھنٹوں کے لئے آرام میسر آتا ہے جو کہ بغیر روزہ کے ممکن نہیں کیونکہ بہت
ہی معمولی خوراک یہاں تک کہ 100 گرام کے برابر بھی خوراک معدہ میں داخل ہوجائے تو
مکمل نظام ہضم اپنا کام شروع کردیتا ہے اور جگر فوری مصروف عمل ہوجاتا ہے۔ طبی
نقطہ نظر سے یہ کہا جاتا ہے کہ ایک سال میں جگر کو ان مصروفیات سے کم از کم ایک
ماہ کے لئے سہولت و آرام ملنا ضروری ہے۔
جگر کے انتہائی مشکل
کاموں میں سے ایک کام غیر ہضم شدہ خوراک اور تحلیل شدہ خوراک کے درمیان توازن
برقرار رکھنا بھی ہے اور دوسرا کام خون کے ذریعے ہضم ہوجانے کے عمل کی نگرانی کرنا
بھی ہے۔ روزہ کے ذریعے جگر توانائی پہنچانے والی غذا کو جمع کرنے سے بھی بڑی حد تک
آزاد ہوجاتا ہے اور اپنی توانائی جسم کی قوت مدافعت کو تقویت دینے پر صرف کرسکتا
ہے۔
روزے کے ذریعے ہمارے جسم میں گلے اور خوراک کی حساس
نالی کو بھی آرام نصیب ہوتا ہے جو کسی اور صورت میں ممکن نہیں۔
جگر پر روزہ کی برکات میں سے ایک وہ ہے جو خون کے
کیمیائی عمل پر اثر اندازی سے متعلق ہے۔ جگر کے انتہائی مشکل کاموں میں ایک کام اس
توازن کو برقرار رکھنا بھی ہے جو غیر ہضم شدہ خوراک اور تحلیل شدہ خوراک کے درمیان
ہوتا ہے۔ اسے یا تو ہر لقمے کو سٹور میں رکھنا ہوتا ہے یا پھر خون کے ذریعے اس کے
ہضم ہوکر تحلیل ہوجانے کے عمل کی نگرانی کرنا ہوتی ہے جبکہ روزے کے ذریعے جگر
توانائی بخش کھانے کے سٹور کرنے کے عمل سے بڑی حد تک آزاد ہوجاتا ہے۔ اسی طرح جگر
اپنی توانائی خون میں گلوبلن (Globulin) (جو جسم کے محفوظ رکھنے
والے
Immune سسٹم کو تقویت دیتا ہے) کی
پیداوار پر صرف کرسکتا ہے۔ روزے کے ذریعے گلے کو اور خوراک کی نالی کو جو بے حد
حساس حصے ہیں جو آرام نصیب ہوتا ہے اس تحفے کی کوئی قیمت ادا نہیں کی جاسکتی۔
جدید دور
کا انسان متعدد طبی معائنوں (ٹیسٹوں) کے ذریعے اپنے آپ کو محفوظ بنانے کی سعی
کرتا ہے۔ لیکن اگر جگر کے خلیے کو قوت گویائی حاصل ہوتی تو وہ ایسے انسان سے کہتا
’’تم مجھ پر ایک عظیم احسان صرف روزے کے ذریعے ہی کر سکتے ہو۔
٭۔روزہ اور انسانی نفسیات:۔۔
نفسیاتی طور پر انسان پر روزے کا بہت ہی اچھا اثر پڑتا
ہے۔ روزہ اللہ تعالیٰ سے مستقل و مسلسل لگائو کا ذریعہ ہے۔ سارا وقت اللہ کا تصور
انسان کے ذہن میں رہتا ہے جو اسے تنہائی میں بھی کھانے پینے اور برائی سے مانع
ہوتا ہے۔ یہ ہمہ وقت تصورِ الٰہی انسان میں اعتماد اور اُمید پیداکرتا ہے اور
انسان خود کو اکیلا نہیں بلکہ ہمیشہ اللہ رحیم و رحمن کی معیت میں محسوس کرتا ہے
اور اپنی مشکلات کے لیے پریشان نہیں رہتا بلکہ اللہ پر بھروسا اسے
ذہنی سکون مہیاکرتا ہے۔(سیرتِ محمدؐ رسول اللّٰہ، محمد فاروق کمال، ص ۵۸۱)
ایک حدیث مبارکہ میں روزے کو ڈھال قراردیا گیا ہے:
الصوم جنۃ (مسلم مع نووی، ج۲، حدیث ۱؍۱۲۱۶)۔
ڈاکٹر محمد عثمان نجاتی کے مطابق ڈھال ہونے کا مطلب یہ
ہے کہ روزہ خواہشاتِ نفس سے بچاتا ہے۔روزے دار اپنی خواہشات پر کنٹرول کرتا ہے، نہ
کھاتا ہے، نہ پیتا ہے، نہ جماع کرتا ہے اور اپنے طرزِ زندگی پر بھی کنٹرول کرتا
ہے۔ وہ نہ فحش گوئی کرتا ہے، نہ شوروغل مچاتا ہے اور نہ سب و شتم ہی کرتا ہے، نہ
کوئی ایسا کام کرتا ہے جواللہ تعالیٰ کو غضب ناک کرے۔ روزوں میں خواہشات اور
تاثرات پر قابو پانے کی مشق ہوجاتی ہے اور نفس کے فاسد میلانات اور خواہشات پر
غلبہ پانے کے سلسلے میں عزم و ارادے کو قوت پہنچتی ہے۔(حدیث نبویؐ اور علم النفس،
ص ۳۴۹)
معروف مصری اسکالر محمد قطب روزے کو شعوری انضباط کی
بہترین مثال قرار دیتے ہیں۔ انھوں نے لکھا ہے کہ عملِ انضباط ایک نفسیاتی ورزش ہے
جو متعدد پہلوئوں میں جسمانی ورزش سے مشابہت رکھتی ہے۔ دونوں ہی قسم کی ورزشیں
ابتداً دشوار محسوس ہوتی ہیں مگر عادت ہوجانے پر ان کی مشقت کم ہوتی چلی جاتی ہے،
اور اگر شروع سے عادت ڈال لی جائے تو نہ صرف یہ کہ سہل ہوجاتی ہے بلکہ اس سے پوری
پوری قدرت بھی حاصل ہوجاتی ہے۔ اسی لیے اسلام چاہتا ہے کہ بچے کو ابتدائی سالوں ہی
سے تربیت دی جائے اور اسے خواہشوں کے ضبط کرنے کی عادت ڈالی جائے۔(اسلام اور جدید
مادی افکار، ص ۱۷۵-۱۷۶)
بعض لوگ انتہائی آرام طلب ہوتے ہیں۔ وہ جسم کو تکلیف
دینا پسند نہیں کرتے اور بھوک، پیاس اور جنسی خواہشات کی تکمیل لازم سمجھتے ہیں۔
حالانکہ انضباط سے جو تکلیف پہہنچتی ہے، انسانی طاقت سے ہرگز ماورا نہیں ہوتی بلکہ
انسان اس کو پسند نہیں کرتا۔ ماہرین نفسیات کہتے ہیں کہ انسانی نفس میں الم و
مصیبت برداشت کرنے بلکہ اس سے لطف اندوز ہونے کا مادہ ہے۔ اس لیے انسان روزے کے
دوران بھوک، پیاس، یا ضعف بدن سے ایک خاص لذت محسوس کرتا ہے۔ روزہ احساسِ گناہ (guilt complex) اور
اس سے پیدا ہونے والے قلق و اضطراب کا بھی مفید علاج ہے۔چوں کہ قرآن پاک میں روزے
کا بنیادی مقصد ہی تقویٰ بتایا گیا ہے، اس لیے یہ انسان کو خوف اور حزن سے پیدا
ہونے والے نفسیاتی عوارض سے بھی محفوظ رکھتا ہے۔ روزے رکھنے سے گناہ معاف ہوتے ہیں
اور آخرت کی زندگی کے بارے میں خوف کے بجاے اُمید پیدا ہوجاتی ہے، جس سے ایک
مسلمان کو قلبی سکون کی دولت میسر آتی ہے۔ حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے
ارشادات کے مطابق روزہ گناہوں سے مغفرت کا ذریعہ ہے۔ حضرت ابوہریرہؓ سے روایت ہے
کہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:
’’جس
شخص نے رمضان کے روزے حالتِ ایمان میں خالص اللہ کی رضاجوئی کے لیے رکھے، اس کے
پچھلے گناہ بخش دیے جاتے ہیں‘‘۔(بخاری، کتاب الصوم، باب من صام رمضان ایمانا
واحتسابا ونیۃ، حدیث ۱۹۰۱)
٭۔روزہ قیام صحت کا ایک بے نظیر طریقہ:۔۔
اللہ تعالیٰ نے ہر جاندار کے جسم کا ایسا نظام بنایا ہے
کہ جب تک اسے آب و دانہ مناسب مقدار میں بروقت حاصل نہ ہو اس کی زندگی کا قیام
مشکل ہوتا ہے۔ جس نسبت سے اس کی خوراک میں کمی بیشی واقعہ ہوگی اسی نسبت سے اس کی
صحت متاثر ہوگی۔ ادنی حیوانات تو اپنی خوراک میں اپنے شعور کے ماتحت اعتدال کے
پابند رہتے ہیں۔ لیکن انسان اشرف المخلوقات اور ذی عقل ہوتے ہوئے بھی ادنی حیوانات
کے طریق کے برعکس حد اعتدال سے بالعموم تجاوز کرجاتا ہے اور اپنے بدنی نظام کے
بگاڑنے اور اس میں کئی نقائص بالفاظ دیگر امراض پیدا کرنے کا خود باعث ہوتا ہے۔
یہی وجہ ہے کہ دوسرے حیوانات کے امراض انسانی امراض سے کوئی نسبت ہی نہیں رکھتے۔
مگر انسان اپنی خداداد عقل کے ذریعہ اپنے امراض کے
مقابلہ یا بطور حفظ ماتقدم کئی ذرائع، طریق اور علاج اختیار کرتا ہے۔ ان نقائص و
امراض کے لئے سب سے بہتر حفظ ماتقدم جو اب تک تجویز کرسکا ہے یہ ہے کہ کبھی کبھی
کچھ عرصہ کے واسطے وہ کھانا پینا بند کرکے اپنے معدہ کو جس پر تمام بدن کی صحت و
ثبات کا انحصار ہوتا ہے خالی رکھے تاکہ بھوک سے اس کے مواد فاسدہ جل کر اسے صاف
کردیں اور پھر وہ اپنا کام صحیح طو رپر کرسکے۔
علاوہ روحانی اور اخلاقی فوائد کے اسلامی روزہ معدی
امراض اور بدن کے گندے مواد کے لئے جھاڑو کا کام دیتا ہے۔ ضبط نفس، بھوک اور پیاس
کی شدت کے مقابلہ کی طاقت پیدا کرتا ہے اور روزہ کھولتے وقت کھانے پینے سے جس طرح
ایک روزہ دار لطف اندوز ہوتا ہے وہ بیان نہیں کیا جاسکتا۔
اطباء اور موجودہ زمانہ کے ڈاکٹر اسلامی طریق روزہ داری
کی قیام صحت کے لئے اہمیت و افادیت کا اعتراف کرتے ہیں بلکہ بعض امراض میں علاج
تجویز کرتے ہوئے اسلامی طریق کا روزہ رکھنے کا مشورہ دیا کرتے ہیں۔
روسی ماہر الابدان پروفیسر وی۔ این نکیٹن نے لمبی عمر
سے متعلق اپنی ایک اکسیر د وا کے انکشاف کے سلسلہ میں لندن میں 22 مارچ 1960ء کو
بیان دیتے ہوئے کہا کہ اگر ذیل کے تین اصول زندگی میں اپنالئے جائیں تو بدن کے
زہریلے مواد خارج ہوکر بڑھاپا روک دیتے ہیں۔ اول خوب محنت کیا کرو۔ ایک ایسا پیشہ
جو انسان کو مشغول رکھے جسم کے رگ و ریشہ میں ترو تازگی پیدا کرتا ہے۔ جس سے خلیے
پیدا ہوتے ہیں۔ بشرطیکہ ایسا شغل ذہنی طور پر بھی قوت بخش ہو۔ اگر تمہیں اپنا کام
پسند نہیں تو فوراً ترک کردینا چاہئے۔
دوئم۔ کافی ورزش کیا کرو بالخصوص زیادہ چلنا پھرنا
چاہئے۔
سوئم۔ غذا جو تم پسند کرو کھایا کرو لیکن ہر مہینہ میں
کم از کم ایک مرتبہ فاقہ ضرور کیا کرو۔
حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم علاوہ سال کے
ایک ماہ مسلسل روزوں کے ہر ماہ از خود تین نفلی روزے رکھا کرتے اور فرمایا کرتے
صوموا تصحوا روزے رکھا کرو صحت مند رہو گے۔
حضور اقدس صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنی مرض الموت
میں حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کو جو تین وصیتیں فرمائیں ان میں سے ایک ہر ماہ
میں تین روزے رکھنے کی تاکید تھی۔
٭۔روزہ اور تندرست افراد کی جسمانی کارگزاری:۔۔
عصرِحاضر میں کچھ لوگ بالکل تندرست ہونے کے باوجود روزے
نہیں رکھتے، حالانکہ تندرست افراد کی جسمانی کارگزاری پر روزے کے کسی قسم کے منفی
اثرات کسی طبی مطالعے میں سامنے نہیں آئے، البتہ مثبت اثرات کاپتا چلا ہے۔ ڈاکٹر
سیدمحمداسلم لکھتے ہیں کہ تندرست افراد میں روزے کے دوران جسم کی اندرونی توازن
رکھنے والی کارگزاری پر کوئی قابلِ ذکر اثر نہیں پڑتا اور پیشاب کے نمکیات،
تیزاب اور القلی کا میزان اور نائٹروجن کا اخراج معمول کی حدود میں رہتا ہے۔ روزے
کے دوران ٹوٹ پھوٹ کے عمل سے خون میں یوریا اور یورک تیزاب کی مقدار میں اضافہ
ہوجاتا ہے۔ یہ تبدیلیاں گوشت خوروں میں زیادہ نمایاں ہوتی ہیں۔ اگررمضان المبارک
میں افطار کے وقت زیادہ شکر، روٹیاں، چاول وغیرہ کھایا جائے تو اس کا اثر مختلف
ہوگا، یعنی خون میں شکر کم ہوسکتی ہے، لیکن اگرغذا معمول کے مطابق رکھی جائے اور
سحری اچھی طرح کی جائے تو خون میں تفریطِ شکر کا کوئی امکان نہیں۔(صحت سب کے لیـے،
ڈاکٹر سیداسلم، ص ۴۲۵-۴۲۶)
گذشتہ زمانے میں لوگ بہت زیادہ جسمانی مشقت کرتے تھے
لیکن موجودہ دور کے انسان میں اس صفت میں کمی آگئی ہے، جس کے باعث موٹاپے نے متمول
افراد کو اپنی لپیٹ میں لے لیا ہے۔ چکنائی اور نشاستہ دار غذائوں کا بے ہنگم
استعمال عام ہوگیا ہے جو بغیر جسمانی مشقت کے غیراستعمال شدہ حالت میں جسم میں جمع
ہوتی رہتی ہیں اور وزن بڑھتا چلاجاتا ہے۔ جو افراد مختلف جدید طریقوں سے وزن کم
بھی کرلیتے ہیں، وہ جب نارمل زندگی گزارنے لگتے ہیں تو وزن پھر بڑھ جاتاہے۔
دراصل انسانی دماغ کے ہائیپوتھیلمس (hypothalamus) میں ایک سنٹر ہوتا ہے جسے
لپوسٹیٹ
(lipostat) کہتے ہیں۔ یہ انسان کی جسامت کو کنٹرول
کرتا ہے۔ جب بھی خوراک کی انتہائی کمی سے وزن تیزی سے کم کیا جاتا ہے تو یہ سنٹر
اس تبدیلی کو قبول نہیں کرتا اور جسم کے وزن کو دوبارہ معمول کی خوراک لینے سے
پہلے والی سطح پر واپس لے آتاہے (Islamic Medicine، شاہد اختر، ص ۱۴۹)۔ اس لیے یہ ضروری ہے
کہ موٹاپا دُور کرنے کے لیے وزن آہستہ آہستہ کم کیا جائے تاکہ لپوسٹیٹ اسے قبول
کرلے اور ایسا ماہِ رمضان کے دوران ایک ماہ کے روزے رکھنے سے بآسانی کیا جاسکتا
ہے۔
۱۹۹۴ء
میں
Health and Ramadan کے عنوان سے
پہلی انٹرنیشنل کانگریس کیسابلانکا میں منعقد ہوئی جس میں اس موضوع پر ۵۰تحقیقی
مقالات پیش کیے گئے۔
(ملاحظہ کیجیے: www.islam.usa.com)
٭۔روزہ اور بیماری:۔۔
قرآن پاک میں بیمار اور مسافر کو روزہ قضا کرنے کی
اجازت دی گئی ہے اور جو روزہ رکھنے کی بالکل طاقت نہ رکھتا ہو، خواہ بڑھاپے کے
باعث یا مستقل بیماری کی وجہ سے، اسے فدیہ دینے کا حکم دیا گیا ہے۔ چنانچہ قرآن
پاک میں اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا:
فَمَنْ کَانَ مِنْکُمْ مَّرِیْضًا اَوْ عَلٰی سَفَرٍ
فَعِدَّۃٌ مِّنْ اَیَّامٍ اُخَرَ ط وَعَلَی الَّذِیْنَ یُطِیْقُوْنَہٗ فِدْیَۃٌ
طَعَامُ مِسْکِیْنٍط (البقرہ ۲:۱۸۴)
پھر جو تم میں سے بیمار ہو یا سفر میں ہو تو اتنے روزے
اور دنوں میں رکھ لے اور جو لوگ اسے بہت مشکل سے ادا کرسکیں، وہ ایک مسکین کا
کھانا فدیہ دیں۔
قرآن مجید نے قیامت تک آنے والے مسائل کا حل پیش کیا ہے
یا پھر ایسے راہنما اصول وضع کردیے ہیں جن کے ذریعے تمام اَدوار کے پیش آمدہ مسائل
کا حل تلاش کیا جاسکے۔ روزے سے متعلق بھی احکامِ خداوندی میں بتایا گیا کہ روزہ
رکھو، یہ تمھاری بہت سی جسمانی و نفسیاتی بیماریوں کا علاج ہے یا ان امراض کے خلاف
جسمانی قوت ِ مدافعت بڑھاتا ہے۔ پھر یہ حکم دیا کہ جنھیں عارضی مسئلہ درپیش ہے،
جیسے اگر سفر پر جانا ہے یا پھر کوئی جسمانی عارضہ لاحق ہے تو اس عارضی رکاوٹ کے
ختم ہونے کے بعد روزے پورے کرلو۔ یہی حکم خواتین کے مخصوص ایام کے متعلق بھی ہے۔
لیکن اگر کوئی شخص انتہائی بڑھاپے اور کمزوری کے باعث یا پھر کسی ایسی بیماری کے
باعث جو بخار وغیرہ کی طرح وقتی نہیں ہے بلکہ مستقلاً انسان کو لگ گئی ہے اور روزہ
رکھنے سے اس میں شدت کا اندیشہ ہے تو ایک مسکین کو کھانا بطور فدیہ دینا ہوگا۔
موجودہ دور میں سائنس نے بہت ترقی کرلی ہے۔ طبی تحقیقات
کے باعث ہرقسم کی بیماری کو کم یا زیادہ کرنے والے عوامل سامنے آچکے ہیں۔ اس لیے
مختلف بیماریوں میں مبتلا افراد کو ماہرین طب کے مشورے پر عمل کرنا چاہیے۔ ڈاکٹر
سیداسلم اور ڈاکٹر شاہد اطہر نے مختلف بیماریوں کے روزے رکھنے یا نہ رکھنے کے بارے
میں تفصیلاً بتایا ہے جس کا خلاصہ یہ ہے:
۱- ذیابیطس کے مریض جو انسولین استعمال کرتے ہیں، انھیں روزے
نہیں رکھنے چاہییں کیونکہ ان کی ذیابیطس کو قابو میں رکھنا مشکل ہوجائے گا۔ اس کے
برعکس انسولین نہ لینے والے مریضوں کو ان مشکلات کاسامنا نہیں کرنا پڑتا۔ ایسے
مریض جو صرف خوراک سے ذیابیطس کو کنٹرول کر رہے ہیں، وہ روزہ رکھ سکتے ہیں۔
ان کے مرض پر روزہ اچھے اثرات مرتب کرتا ہے۔
۲- دمے کے مریض جن کا مرض معمولی ہے، وہ تکلیف کی صورت میں
بغیر روزہ توڑے سانس کے ساتھ والی ادویہ (inhaler) استعمال
کرسکتے ہیں یا دیرپا اثر والی دوائیں افطار کے بعد اور سحری سے قبل لے سکتے ہیں۔
۳- بلند فشار خون (high blood pressure) اور دل کے ایسے مریض، جو خون پتلا کرنے والی ادویہ استعمال کرتے ہیں، ان کے
لیے طویل الاثر دوا کفایت کرسکتی ہے اور وہ روزہ رکھ سکتے ہیں، کیونکہ روزے
سے وزن میں کمی واقع ہوگی اور بلڈپریشر بھی کم رہے گا۔ تاہم ان مریضوں کو ڈاکٹر کے
مشورے سے روزہ رکھنا چاہیے۔ لیکن شدید ہائیپر ٹینشن اور امراضِ قلب میں مبتلا
مریضوں کو روزہ نہیں رکھنا چاہیے۔
۴- جن لوگوں کے گردوں کے فعل میں کمی آگئی ہے ، ان میں روزہ
رکھنے سے پانی کی کمی ہوسکتی ہے۔ جن مریضوں کے گردے خراب ہوچکے ہیں اور ان کے خون
کی ڈیالیسس
(dialysis) ہوتی رہتی ہے، ان میں
دو ڈایالیسس کے درمیانی وقفہ میں پوٹاشیم میں اضافہ اور وزن میں زیادتی ہوسکتی ہے،
جسم کے تیزاب میں بھی اضافے کا امکان ہے۔ اگر یہ لوگ رات کو زیادہ کھالیں گے تو
وزن بڑھ کر نقصان دہ ہوسکتا ہے۔ ان افراد کو روزے نہیں رکھنے چاہیں۔ جن کا گردہ
تبدیل ہوچکا ہے اور اس کا فعل درست ہے، ان کو روزے سے کوئی ضرر نہیں پہنچتا لیکن
انھیں اپنے معالج سے مشورہ کرلینا چاہیے۔
۵- مرگی کے مریضوں کو روزہ نہ رکھنے کا مشورہ دیا جاتا ہے۔
۶- درد گردہ اور معدے کے السر میں مبتلا افراد کے لیے روزے
رکھنا مناسب نہیں، کیونکہ پانی کی کمی کے باعث گردے میں درد ہونے کا احتمال ہے۔
اسی طرح السر کے مریض بھی خالی معدے کی حالت میں زیادہ تکلیف سے دوچار ہوسکتے ہیں۔
۷- بوڑھے افراد جو دماغ کی رگوں کے مرض میں مبتلا ہیں، ان میں
روزے سے اشیا کو شناخت کرنے کی صلاحیت گھٹ سکتی ہے۔
0-
حاملہ اور دودھ پلانے والی عورتیں روزے نہ رکھیں کیونکہ
حاملہ خواتین میں خون کی گلوکوز اور انسولین میں کمی ہوجاتی ہے۔ دودھ پلانے والی
خواتین کے جسم میں پانی کی کمی ہوسکتی ہے۔ نمک اور یورک ایسڈ میں اضافہ ہوجاتا ہے۔
ماں کے دودھ کی لیکٹوز (شکر)، سوڈیم اور پوٹاشیم میں تبدیلی آجاتی ہے۔ اس لیے بچے
کی صحت قائم رکھنے کے لیے روزہ نہ رکھا جائے.
٭۔روزہ کینسر، امراض قلب اور بڑھاپے سے بچاتا ہے:۔۔
روزہ کینسر، امراض قلب
اور بڑھاپے سے بچاتا ہے، امریکی ماہرین
کیلی فورنیا: ماہرین
کے مطابق اگر ایک ماہ میں پانچ مرتبہ جسم کو دی جانے والی کیلریز کی نصف
مقدار استعمال کی جائیں تو کینسر، ذیابیطس اور امراضِ قلب کے خطرے میں نمایاں کمی
ہوتی ہے۔
روزہ رکھنے سے دل، امراضِ
قلب اور کینسر کے علاوہ کئی چھوٹے بڑے امراض سے محفوظ رہا جاسکتا ہے۔ اسی طرح کم
ازکم چھ گھنٹے تک صرف پانی پراکتفا کرنے سے بھی صحت پرغیرمعمولی اثرات مرتب ہوتے
ہیں بشرطیکہ اس پر ایک ماہ میں کئ بار پابندی سے عمل کیا جائے۔ دوسری جانب بین
الاقوامی ماہرین روزے کے درج ذیل فوائد بیان کرتے ہیں۔
وزن اور چکنائی میں کمی :
کئی اداکار اور کھلاڑی
ہفتے میں ایک دو مرتبہ فاقہ کرتے ہیں یا پھر صرف پانی پر گزارہ کرتے ہیں جس
سے وزن گھٹانے اور جسم میں چکنائی کم کرنے میں مدد ملتی ہے۔
انسولین کی حساسیت میں
بہتری :
فاقہ کرنےسے جسم
میں انسولین کی حساسیت بہترہوتی ہے۔ اس کے علاوہ نظام ہاضمہ میں بہت بہتری پیدا
ہوتی ہے اور بدن میں استحالہ ( میٹابولزم) کا عمل بھی بہترہوتا ہے۔
روزے سے عمر میں اضافہ :
مختلف تہذیب اور معاشروں
کا مطالعہ کیا گیا ہے جس کے بعد انکشاف ہوا ہے کہ کم کھانے سے ایک تو بڑھاپے کا
عمل سست ہوتا ہے اور دوسرا فاقہ کشی کرنے والے افراد طویل عمر پاتے ہیں۔ اس کی وجہ
یہ ہے کہ کبھی کبھی کبھار کم کھانے سے نظام ہاضمہ پرزور نہیں پڑتا اور خلیات میں
ٹوٹ پھوٹ کا عمل سست ہوتا ہے۔
روزہ اور دماغی صلاحیت
میں بہتری :
ماہرین کا کہنا ہے کہ
فاقے سے دماغی افعال میں بہت بہتری پیدا ہوتی ہے۔ روزہ رکھنے سے دماغ میں بی ڈی
این ایف نامی ایک پروٹین کی پیداوار بڑھ جاتی ہے۔ اس سے دماغ میں نئے خلیات پیدا
ہوتے ہیں اور دماغ کے لیے مفید کیمکلز کی پیداوار میں اضافہ ہوتا ہے۔ اس کے علاوہ
پارکنسن اور الزائیمر جیسے امراض کا راستہ بھی رک جاتا ہے۔
فاقے سے کینسر اور
ذیابیطس میں کمی :
یونیورسٹی آف سدرن
کیلیفورنیا کے ماہرین نے معلوم کیا ہے کہ اگر ایک ماہ میں پانچ دفعہ فاقے کی کیفیت
سے گزرا جائے یا خوراک میں موجود کیلریز کی مقدار آدھی کردی جائے تو اس سے کینسر،
ذیابیطس اور دیگر موذی امراض کا خطرہ کم کیا جاسکتا ہے۔
ماہرین نے رضاکاروں کو 3
ماہ تک اس پروگرام پرعمل کرانے کے بعد ان کا جائزہ لیا تو ان میں امراض قلب،
کینسراورعمررسیدگی کے اثرات کم دیکھے گئے۔ ماہرین کا خیال ہے کہ اس کی وجہ یہ ہے
کہ نظام ہاضمہ کو آرام دینے سے بدن میں کئی اہم تبدیلیاں واقع ہوتی ہیں جو کئی
بیماریوں سے بچاتی ہیں۔
٭۔ذیابیطس
کے مریض اور رمضان کے روزے:۔۔
ذیابیطس کے
مریضوں کے لئے ضروری ہے کہ وہ رمضان میں اپنے معالج کی ہدایات پر سختی سے عمل
کریں۔
کراچی: بیسویں
صدی تک عام خیال تھا کہ ذیابیطس اور دل کے مریض روزہ نہیں رکھ سکتے لیکن پاکستان
سمیت دنیا کے 13 ممالک میں ایپیڈار ( ایپڈیمولوجی آف ڈائی بیٹس اینڈ رمضان)
اسٹڈی اور پاکستان میں مقامی سطحوں پر کیے گئے مطالعوں سے پتا چلا ہے کہ دل
اور شوگر کے مریض اپنے ڈاکٹروں کے مشورے اور رہنمائی سے ماہِ صیام کی برکتیں اور
رحمتیں سمیٹ سکتے ہیں۔
٭۔ذیابیطس
اور روزے کے چار چیلنج:۔
ذیابیطس کے
مریض کو روزے میں ممکنہ طور چار بنیادی مسائل کا سامنا ہوسکتا ہے ان
میں سے ایک خون میں شکر کی مقدار میں کمی ہے جسے ’’ہائپوگلائیسیمیا‘‘ کہا جاتا ہے،
ملک بھر کے مختلف اسپتالوں کی جانب سے کیے گئے مطالعات سے یہ دلچسپ بات
سامنے آئی ہے کہ عام دنوں کے برعکس رمضان میں ذیابیطس کے مریضوں میں روزہ
رکھنے کے باوجود بھی شوگر کی کمی کے واقعات زیادہ نہیں ہوتے بلکہ ان کی
تعداد عام حالات کے تحت ہی ہوتی ہے تاہم شوگر کی مقدار ان لوگوں میں زیادہ کم ہوتی
ہے جو رات کو اچھی طرح کھانا نہیں کھاتے اور سحری نہیں کرتے۔ یا سحری میں تاخیر سے
اُٹھنے پر صرف دوا کھاتے ہیں اور کھانا چھوڑ دیتے ہیں جب کہ سحری کرنا بہت
ضروری ہوتا ہے کیونکہ روزے میں غیرمعمولی مشقت سے خون میں شکر کی سطح کم
ہوجاتی ہے۔
دوسری
کیفیت میں خون میں شکر کی مقدار کا بڑھ جانا ہے جسے ’’ہائپرگلائسیمیا‘‘ کہا جاتا
ہے اس کے نتیجے میں مریض کوما میں جاسکتا ہے جب کہ ٹائپ ون کا کوما بہت
جلدی واقع ہوتا ہے۔ اس صورتحال میں ہفتہ 10دن تک شوگر بڑھتی رہتی ہے اور
کمزوری میں اضافہ ہوتا ہے جب کہ یہ بڑھتے بڑھتے اس درجے پر پہنچ جاتی ہے کہ
مریض کو ڈاکٹر سے رجوع کرنا پڑتا ہے۔
شوگر کے
مرض میں تیسری پیچیدگی کا تعلق موسم سے ہے اور اس وقت پاکستان میں موسمِ گرما ہے
جس کے باعث گرمی اور پسینے سے جسم میں پانی کی شدید کمی ہوجاتی ہے ۔گرمی میں عام
افراد کوتو پانی کی کمی کا مسئلہ درپیش ہوتا ہی ہے لیکن ذیابیطس کے مریضوں میں یہ
مسئلہ بہت جلد بڑھ جاتا ہے اس لیے ایسے افرادکو چاہیے کہ افطار کے بعد سے سحری ختم
کرنے تک اپنے جسم میں پانی کی مقدار پوری کریں۔ گرمی کے موسم میں بہت مشقت
اور پسینہ بہانے سے گریزکریں۔
شوگر کے
مرض کا چوتھا مسئلہ جسم میں خون کے لوتھڑے بننا ہے، گرمیوں اور پانی کی کمی سے
ذیابیطس کے مریضوں میں خون کے لوتھڑے بن سکتے ہیں یہ لوتھڑے دل کی
شریانوں میں جم سکتے ہیں اور ہارٹ اٹیک کے ساتھ دیگر بہت سے امراض کی وجہ
بھی بن سکتے ہیں لہٰذا اس کے لیے دو کام ضروری ہیں کہ ذیابیطس کے مریض پانی کی
مقدار پوری کریں اور خون کو پتلا کرنے والی جو دوائیں استعمال کررہے ہیں انہیں بھی
جاری رکھیں جب کہ رمضان شروع ہونے سے قبل اپنے معالج سے بات چیت کرکے اپنی
ادویات کے اوقات طے کرلیں۔
ذیابیطس
کے مریض: ۔
عام طور پر
ذیابیطس کے مریض جتنی دوا صبح کے اوقات میں لیتے ہیں اس کی ساری مقدار شام میں لے
لیتے ہیں اور سحری میں آدھی خوراک کھاتے ہیں۔ مثلاً ایک مریض ایک گولی صبح
ناشتےکے بعد اور ایک گولی شام میں لیتا ہے تو وہ رمضان میں عموماً ایک گولی روزہ
کھولتے ہی لیتا ہے جب کہ سحری میں وہ آدھی گولی لیتا ہے اس کا بہترین مشورہ یہ ہے
کہ آپ اپنے معالج سے دواؤں کے شیڈول پر مشورہ کریں اور خود سے خوراک تجویز کرنے
سے گریز کریں۔
شوگر کے مریض کا ذہنی طور پر تیار رہنا:۔
ذیابیطس کے
مریض کو ذہنی طور پر تیار رہنا چاہیے کہ اسے کسی بھی وقت روزہ کھولنا پڑ سکتا ہے
کیونکہ ذیابیطس کے مریض کی شوگر60 یا اس سے نیچے چلی جائے یا
پھر 300 یا اس سے اوپر ہوجائے تو وہ فوری طور پر روزہ کھول لے۔
ذیابیطس
اور سحری:۔
ذیابیطس کے
مریض سحری میں ایسی غذائیں کھائیں جو دیر سے ہضم ہوں، عام حالات میں ذیابیطس
کے مریض پراٹھا نہیں کھاسکتے لیکن وہ سحری میں کم تیل میں تلا ہوا پراٹھا
کھاسکتے ہیں۔ دیر سے ہضم ہونے والی غذا میں حلیم بھی شامل ہے جس میں گھر
کا حلیم بہتر تصور کیا جاتا ہے کیونکہ اس میں فائبر بہت زیادہ ہوتے ہیں جس سے ہمیں
دیر سے بھوک لگتی ہے اوربہت دیر تک پیٹ بھرے ہونے کا احساس رہتا ہے۔
ذیابیطس کے
مریضوں کو کولیسٹرول بڑھنے کے خدشات کے باعث انڈے کے استعمال سے منع کیا جاتا ہے
لیکن ایک نئی تحقیق بتاتی ہے کہ انڈے کی زردی نقصان دہ نہیں ہوتی اور اس میں
دماغ کو فائدہ پہنچانے والے اجزا ہوتے ہیں جو خون میں کولیسٹرول بڑھانے کا باعث
نہیں بنتے، انڈے میں 250 ملی گرام کولیسٹرول کی بات عام تھی لیکن اب نئی
تحقیق کے مطابق اس میں صرف 160 ملی گرام کولیسٹرول ہوتی ہے۔ شوگر کے مریض احتیاط
کے طور پر نصف زردی کھاسکتے ہیں جو 80 ملی گرام کولیسٹرول کے برابر ہوتی
ہے اوراگر تلے ہوئے انڈے سے پیاس زیادہ بڑھے تو انڈے کا شوربہ بھی بنایا
جاسکتا ہے اس کے علاوہ سبزی یا چکن کا سالن بھی بنایا جاسکتا ہے۔
ذیابیطس اور پیاس:۔
جن مریضوں
کو پیاس زیادہ لگتی ہے وہ سحری میں الائچی کا قہوہ اس طرح استعمال کریں کہ سادہ
چائے میں الائچی ابال لیں اور اس میں معمولی دودھ شامل کریں اس سے پیاس کم لگتی
ہے اور اگر مریض کو بلڈ پریشر کا مسئلہ نہ ہو تو نمکین لسی پینے سے بھی
روزے میں پیاس کم لگتی ہے۔
کھجلہ اور پھینی سے پرہیز:۔
کھجلہ اور
پھینی میں گھی اور مضر صحت تیل کا استعمال کیا جاتا ہے اس لیے اس کے استعمال سے
پرہیز کریں اور اس کے متبادل کے طور پر سویاں کھائی جاسکتی ہیں۔
افطار:
ذیابیطس کے
مریضوں کو افطار میں کھجورکھانے سے منع کیا جاتا ہے جو غلط ہے۔ تحقیق سے
ثابت ہوا کہ ایک کھجور میں 6 گرام کاربوہائڈریٹس ہوتی ہیں جس میں معدنیات، فائبر
، فاسفورس اور پوٹاشیم ہوتا ہے ۔ افطار سے قبل آخری وقتوں میں تھکاوٹ اور
بوجھل پن کی وجہ بھی پوٹاشیم میں کمی واقع ہوتی ہے جسے کھجور کھاکر فوری طور پر
دور کیا جاسکتا ہے۔
ذیابیطس کے
مریض ایک کھجور کھاسکتے ہیں اوراگر ان کی شوگر کنٹرول میں ہے تو وہ
2 کھجوریں بھی کھا سکتے ہیں، پھلوں کی چاٹ بغیر چینی اور ملک کے
کھائیں، کٹے ہوئے پھلوں میں تھوڑا سا لیموں شامل کرلیں توبہت فائدہ ہوگا۔
مشروب میں ایک گلاس لیموں پانی شامل کرلیں اور نمک چینی سے احتیاط
کریں۔ ذیابیطس کے مریض گھر کا بنا ایک سموسہ اور چند پکوڑے استعمال کرسکتے
ہیں جب کہ یہاں یہ بات ذہن نشین رہے کہ نمک،چینی اور تیل (گھی) کا ملاپ ذیابیطس کے
مریض کے لیے بہت مضر ہوتا ہے۔
روزہ اور رات کا کھانا:
شوگر کے
مریض رات کو ایک چپاتی ہلکے سالن کے ساتھ یا سلاد اور رائتہ کے ساتھ ایک
پلیٹ ابلے ہوئے چاول کھاسکتے ہیں اور سوتے وقت بھوک لگتی ہے تو ایک کپ دودھ لے
سکتےہیں۔
ازخود علاج
نہ کریں:
اگر آپ کا
کوئی دوست ذیابیطس میں مبتلا ہے تب بھی اس کے مشوروں پر سنجیدہ نہ ہوں کیونکہ ہر
مریض کی کیفیت مختلف ہوتی ہے اس لیے اپنے ڈاکٹر کے مشوروں پر سختی سے عمل کریں اور
خود سے دوا اور علاج کرنے سے دور رہیں۔
دل اور ذیابیطس کا سنگین مرض اور روزہ:۔
ایسے مریض
جن کی شوگر مسلسل بڑھی رہتی ہے اور ایسے مریض جنہیں شوگر کم ہونے پر بار بار اپنے
معالج سے رجوع کرنا پڑتا ہے وہ روزہ رکھنے سے گریز کریں اسی طرح بہت زیادہ
انسولین لینے والے بھی روزہ نہ رکھیں۔ بار بار اسپتال جانے والے دل کے مریض،
گردوں کے مرض میں مبتلا افراد اور حاملہ خواتین بھی روزہ نہ رکھیں۔
ذیابیطس کی اقسام:
ذیابیطس کے
مریض کو دو درجوں میں تقسیم کیا جاسکتا ہے جسے ٹائپ ون اور ٹائپ ٹو ذیابیطس کہا
جاتا ہے۔
ٹائپ ون ذیابیطس:
ٹائپ ون
ذیابیطس میں لبلبہ بہت ہی کم انسولین پیدا کرتا ہے جو نہ ہونے کے برابر ہوتی ہے یا
لبلبہ انسولین بنانا مکمل طور پر بند کردیتا ہے اس کی وجہ یہ ہے کہ جسم کا دفاعی
امنیاتی نظام خود لبلبے کے خلیات کو تباہ کرنا شروع کردیتا ہے۔
ٹائپ ٹو ذیابیطس:
ٹائپ ٹو
ذیابیطس مریض ایسے ہوتے ہیں جن کا لبلبہ انسولین تو پیدا کررہا ہوتا ہے لیکن وہ
کچھ کارآمد اور کچھ بے کار ہوتا ہے۔ ٹائپ ٹو ذیابیطس ہوتے ہی لبلبہ ناکارہ
انسولین بنانے لگتا ہے اور مفید انسولین بہت کم بنتی ہے اس کیفیت کو انسولین
مزاحمت (ریزسٹنس) بھی کہاجاتا ہے جو ایک بہت خطرناک عمل ہے اس میں مریض میں
دل کے امراض کا اتنا ہی خطرہ ہوتا ہے جو ایک باقاعدہ شوگر کے مریض کو ہوتا ہے اور
بعض صورتوں میں ہارٹ اٹیک تک ہوجاتا ہے اس مرض میں مریض کا وزن بڑھنا شروع ہوجاتا
ہے کیونکہ وہ زیادہ کھانے لگتا ہے اور اگلے مرحلے میں جسم میں انسولین میں تیزی سے
کمی ہونا شروع ہوجاتی ہے۔
یہاں واضح
کرنا ضروری ہے کہ پاکستان میں انرجی ڈرنکس کی وجہ سے نوجوانوں میں بھی ٹائپ ٹو
ذیابیطس کی شرح میں خطرناک اضافہ ہورہا ہے اس لیے ہر قسم کی انرجی ڈرنکس سے دور
رہنا ضروری ہے اس کی جگہ ہمارے معاشرے میں لسی، سکنجوین، ستو اور تھادل وغیرہ
قدرتی انرجی ڈرنکس ہیں جن کا استعمال توانائی فراہم کرتا ہے اور فائدہ مند بھی ہے۔
ایک اعدادو شمار کے مطابق یومیہ 2 سے 3 انرجی ڈرنکس پینے والے 20 سے 25
نوجوان روزانہ ٹائپ ٹو ذیابیطس میں مبتلا ہوتے ہیں۔
٭۔روزہ اور ذیابیطس کی روک تھام:۔۔
روزہ دنیا کا قدیم ترین
رواج رہا ہے جس کا تصور تقریبا ہر مذہب میں موجود ہے۔ اسلام سے لے کر بدھ مت اور
ہندو مت اپنے پیروکاروں کو باقاعدگی سے طویل فاقے کرنے کی ترغیب دیتے تھے۔
بحالی صحت کے سلسلے میں،
روزہ یا فاقے کے اثرات اور فوائد کےحوالے سے طبی تحقیق کا سلسلہ برسوں سے جاری ہے۔
ایک نئے مطالعے کے مطابق، روزے یا فاقے پر مشتعمل ڈائیٹ کےذریعے کولیسٹرول کی سطح
کو کم کیا جا سکتا ہے۔
محقیقین کو معلوم ہوا ہے
کہ دو روز کسی قسم کی خوراک نہ لینے کے دورانیہ میں پری ذیا بیطس یا ذیا بیطس کے
مرض سے قریب افراد میں کولیسٹرول کی سطح کم ہوئی۔
انٹرماونٹین میڈیکل
سینٹر یوٹاہ سے وابستہ تحقیق کاروں نے کہا ہےکہ روزوں کے فوائد پر کی جانے والی
تحقیق کے نتیجے میں جسم کے اس حیاتیاتی عمل کی شناخت کی گئی ہے جو چربی کے خلیات
میں سےخراب کولیسٹرول کو جلا کر توانائی میں تحلیل کرتا ہے، اس طرح فاقہ کی ڈائیٹ
ذیا بیطس کے خطرے کے عوامل کے خلاف لڑنے میں مدد کر سکتی ہے۔
محقیقین نے دیکھا کہ جب
خوراک دستیاب نہ ہونے کی وجہ سے 10 سے 12 گھنٹے کے روزے کے بعد جسم اپنی توانائی
کی ضرورت پورا کرنے کے لیے جسمانی نظام کے اندر موجود توانائی کے دیگر ذرائع کی
صفائی کا عمل شروع کر دیتا ہے اور جسمانی چربی (چربی کے خلیات) میں موجود ایل ڈی
ایل کولیسٹرول جسے خراب کولیسٹرول کہا جاتا ہے اسے جلا کر توانائی کے طور پر
استعمال کرتا ہے۔
نگراں محقیق ڈاکٹر
بینجمن نے کہا کہ روزے میں ذیا بیطس کی روک تھام کی اہم صلاحیت موجود ہے اگرچہ
روزے کے فوائد پر ہم برسوں سے تحقیق میں مصروف ہیں۔ لیکن، اب تک یہ نہیں جان سکے
کہ , روزے سے کیوں صحت کے لیے فوائد حاصل ہوتے ہیں۔ لیکن، نئی تحقیق میں ذیا بیطس
سے متعلقہ خطرات کے لیے روزے کے فوائد کا مشاہدہ کیا گیا ہے۔ یہاں پری ذیا بیطس سے
ہماری مراد خون میں موجود گلوکوز کی بلند سطح سے ہے جسے شوگر بھی کہا جاتا ہے لیکن
یہ سطح اتنی زیادہ بھی نہیں ہوتی ہے کہ اسے ذیا بیطس کا مرض کہا جا سکے۔
ذیا بیطس کا مرض ہارمون
انسولین میں بے قاعدگی کی وجہ سے ہو جاتا ہے۔ ذیا بیطس کی دو اقسام ہیں ٹائپ ون جس
میں جسم سے انسولین بالکل ختم ہو جاتی ہے جبکہ ذیا بیطس کی دوسری قسم میں انسولین
صحیح طریقے سے کام نہیں کرتی یا جسم کے خلیات انسلین کو رسپانڈ نہیں کرتے اور جسم
میں انسولین سے قوت مزاحمت پیدا ہو جاتی ہے۔
ڈاکٹر ہورن نے کہا کہ
انھوں نے صحت مند لوگوں میں روزے کے فوائد کا مطالعہ کیا ہے اور دیکھا ہے کہ دن کے
24 گھنٹوں میں ایک وقت کولیسٹرول کی سطح بلند ہوئی۔
مطالعہ کے شرکا مرد اور
خواتین پری ذیا بیطس میں مبتلا تھےجن کی عمریں 30 سے 69 برس تک تھیں ان میں سے بعض
زیادہ وزنی اور بعض لوگ زیادہ موٹے نہیں تھے۔
اگرچہ مطالعے کے دوران
شرکا نے چھ ہفتوں میں 3 پونڈ وزن کم کیا۔ لیکن، اس تحقیق کا بنیادی مقصد ذیا بیطس
کی روک تھام تھا۔
ڈاکٹر بنجمن ہورن نے کہا
ہے کہ اگرچہ روزے کے دوران شرکاء کے کولیسٹرول میں اضافہ دیکھا گیا لیکن چھ ہفتوں
میں وزن کی کمی کے ساتھ کولیسٹرول کی سطح میں بھی 12فیصد کمی ہوئی۔
ہمارا اندازا تھا کہ خراب
کولیسٹرول روزے کی حالت میں توانائی کے لیے استعمال کیا گیا جو کہ چربی کے خلیات
سے حاصل ہوا تھا اس سے ہمیں اس بات کا ثبوت ملا کہ روزہ ذیا بیطس کے لیے ایک موثر
مداخلت ثابت ہو سکتا ہے۔
ڈاکٹر ہورن کے مطابق،
چربی کے خلیات سے ایل ڈی ایل کولیسٹرول کو جلا کر توانائی حاصل کرنے کا عمل
انسولین سے مزاحمت کو روکنے میں مدد کرسکتا ہے،کیونکہ جسم میں انسولین کے خلاف
مزاحمت پیدا ہونے کی وجہ سے لبلبہ جسم کی توانائی کی ضرورت پوری کرنے کے لیے زیادہ
سے زیادہ انسولین بناتا ہے اور حتیٰ کہ یہ جسم کی ضرورت کے مطابق، مطلوبہ انسولین
بنانے کے قابل نہیں رہتا ہے اور نتیجتاً خون میں شوگر کی سطح بلند ہو جاتی ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ یہ
چربی کے خلیات دراصل جسم میں انسولین کے خلاف قوت مزاحمت پیدا کرنے میں ایک اہم
کردار ادا کرتے ہیں جو کہ ذیا بیطس ٹائپ کا باعث بنتی ہے کیونکہ روزہ چربی کے خلیات
کو توڑنے اور ختم کرنے میں مدد کرتا ہے۔ اسی لیے جسم میں انسولین کے خلاف مزاحمت
روزے کی وجہ سے سست پڑ جاتی ہے۔
انھوں نے کہا کہ صحت کے
لیے فوائد حاصل کرنے کے لیےلوگوں کو کتنا طویل اور کتنے عرصے تک روزہ رکھنا چاہیئے
یہ ایک اضافی سوال ہے فی الحال ہمارا تجزیہ ابتدائی مراحل میں ہے۔
روزہ رکھنے سے دل، امراضِ قلب اور کینسر کے علاوہ کئی چھوٹے بڑے امراض سے محفوظ رہا جاسکتا ہے۔
تحقیق سے
معلوم ہوا ہے کہ اگر ایک ماہ میں پانچ مرتبہ جسم کو دی جانے والی کیلریز کی نصف مقدار
استعمال کی جائے تو کینسر، ذیابیطس اور امراضِ قلب کے خطرے میں نمایاں کمی ہوتی
ہے۔
روزہ رکھنے سے دل، امراضِ قلب اور کینسر کے علاوہ کئی چھوٹے بڑے امراض سے محفوظ رہا جاسکتا ہے۔ اسی طرح کم ازکم چھ گھنٹے تک صرف پانی پراکتفا کرنے سے بھی صحت پرغیرمعمولی اثرات مرتب ہوتے ہیں بشرطیکہ اس پر ایک ماہ میں کئ بار پابندی سے عمل کیا جائے۔ روزے رکھنے سے جسم میں انسولین کی حساسیت بہترہوتی ہے۔ اس کے علاوہ نظام ہاضمہ میں بہت بہتری پیدا ہوتی ہے اور بدن میں استحالہ ( میٹابولزم) کا عمل بھی بہترہوتا ہے
۔روزہ رکھنے سے عمر میں اضافہ ہوتا ہے ۔مختلف تہذیب اور معاشروں کےمطالعےکے بعد یہ انکشاف ہوا ہے کہ کم کھانے سے ایک تو بڑھاپے کا عمل سست ہوتا ہے اور دوسرا فاقہ کشی کرنے والے افراد طویل عمر پاتے ہیں۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ کم کھانے سے نظام ہاضمہ پرزور نہیں پڑتا اور خلیات میں ٹوٹ پھوٹ کا عمل سست ہوتا ہے۔
روزہ دماغی صلاحیت میں بہتری لانے کا سبب بنتا ہے۔ماہرین کا کہنا ہے کہ فاقے سے دماغی افعال میں بہت بہتری پیدا ہوتی ہے۔ روزہ رکھنے سے دماغ میں بی ڈی این ایف نامی ایک پروٹین کی پیداوار بڑھ جاتی ہے۔ اس سے دماغ میں نئے خلیات پیدا ہوتے ہیں اور دماغ کے لیے مفید کیمکلز کی پیداوار میں اضافہ ہوتا ہے۔ اس کے علاوہ پارکنسن اور الزائیمر جیسے امراض کا راستہ بھی رک جاتا ہے۔ کئی اداکار اور کھلاڑی ہفتے میں ایک دو مرتبہ فاقہ کرتے ہیں یا پھر صرف پانی پر گزارہ کرتے ہیں جس سے وزن گھٹانے اور جسم میں چکنائی کم کرنے میں مدد ملتی ہے
یونیورسٹی آف سدرن کیلیفورنیا کے ماہرین نے معلوم کیا ہے کہ اگر ایک ماہ میں پانچ دفعہ فاقے کی کیفیت سے گزرا جائے یا خوراک میں موجود کیلریز کی مقدار آدھی کردی جائے تو اس سے کینسر، ذیابیطس اور دیگر موذی امراض کا خطرہ کم کیا جاسکتا ہے۔
ماہرین نے رضاکاروں کو 3 ماہ تک اس پروگرام پرعمل کرانے کے بعد ان کا جائزہ لیا تو ان میں امراض قلب، کینسراورعمررسیدگی کے اثرات کم دیکھے گئے۔ ماہرین کا خیال ہے کہ اس کی وجہ یہ ہے کہ نظام ہاضمہ کو آرام دینے سے بدن میں کئی اہم تبدیلیاں واقع ہوتی ہیں جو کئی بیماریوں سے بچاتی ہیں۔
روزہ رکھنے سے دل، امراضِ قلب اور کینسر کے علاوہ کئی چھوٹے بڑے امراض سے محفوظ رہا جاسکتا ہے۔ اسی طرح کم ازکم چھ گھنٹے تک صرف پانی پراکتفا کرنے سے بھی صحت پرغیرمعمولی اثرات مرتب ہوتے ہیں بشرطیکہ اس پر ایک ماہ میں کئ بار پابندی سے عمل کیا جائے۔ روزے رکھنے سے جسم میں انسولین کی حساسیت بہترہوتی ہے۔ اس کے علاوہ نظام ہاضمہ میں بہت بہتری پیدا ہوتی ہے اور بدن میں استحالہ ( میٹابولزم) کا عمل بھی بہترہوتا ہے
۔روزہ رکھنے سے عمر میں اضافہ ہوتا ہے ۔مختلف تہذیب اور معاشروں کےمطالعےکے بعد یہ انکشاف ہوا ہے کہ کم کھانے سے ایک تو بڑھاپے کا عمل سست ہوتا ہے اور دوسرا فاقہ کشی کرنے والے افراد طویل عمر پاتے ہیں۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ کم کھانے سے نظام ہاضمہ پرزور نہیں پڑتا اور خلیات میں ٹوٹ پھوٹ کا عمل سست ہوتا ہے۔
روزہ دماغی صلاحیت میں بہتری لانے کا سبب بنتا ہے۔ماہرین کا کہنا ہے کہ فاقے سے دماغی افعال میں بہت بہتری پیدا ہوتی ہے۔ روزہ رکھنے سے دماغ میں بی ڈی این ایف نامی ایک پروٹین کی پیداوار بڑھ جاتی ہے۔ اس سے دماغ میں نئے خلیات پیدا ہوتے ہیں اور دماغ کے لیے مفید کیمکلز کی پیداوار میں اضافہ ہوتا ہے۔ اس کے علاوہ پارکنسن اور الزائیمر جیسے امراض کا راستہ بھی رک جاتا ہے۔ کئی اداکار اور کھلاڑی ہفتے میں ایک دو مرتبہ فاقہ کرتے ہیں یا پھر صرف پانی پر گزارہ کرتے ہیں جس سے وزن گھٹانے اور جسم میں چکنائی کم کرنے میں مدد ملتی ہے
یونیورسٹی آف سدرن کیلیفورنیا کے ماہرین نے معلوم کیا ہے کہ اگر ایک ماہ میں پانچ دفعہ فاقے کی کیفیت سے گزرا جائے یا خوراک میں موجود کیلریز کی مقدار آدھی کردی جائے تو اس سے کینسر، ذیابیطس اور دیگر موذی امراض کا خطرہ کم کیا جاسکتا ہے۔
ماہرین نے رضاکاروں کو 3 ماہ تک اس پروگرام پرعمل کرانے کے بعد ان کا جائزہ لیا تو ان میں امراض قلب، کینسراورعمررسیدگی کے اثرات کم دیکھے گئے۔ ماہرین کا خیال ہے کہ اس کی وجہ یہ ہے کہ نظام ہاضمہ کو آرام دینے سے بدن میں کئی اہم تبدیلیاں واقع ہوتی ہیں جو کئی بیماریوں سے بچاتی ہیں۔
واشنگٹن
: یونیورسٹی آف سدرن کیلیفورنیا کے ماہرین کا کہنا ہے کہ روزہ رکھنے سے دل کے
امراض اور کینسر سے بچا جا سکتاہے۔
یونیورسٹی ماہرین کی
تحقیق سے یہ بات سامنے آئی ہے کہ اگر ایک ماہ میں پانچ مرتبہ کیلوریز کی نصف مقدار
استعمال کی جائے تو کینسر، ذیابیطس اور امراض قلب جیسے امراض سے بچا جا سکتا ہے۔
ماہرین کا کہنا ہے کہ کم
از کم چھ گھنٹے تک پانی پر اکتفا کرنے سے بھی صحت پر مثبت اثرات مرتب ہوتے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ روزہ رکھنے سے جسم میں انسولین کی مقدار بہتر ہوتی ہے، نظام ہضم
درست ہوتا ہے اور میٹابولزم کے عمل میں بھی بہتری آتی ہے۔
ماہرین کا مذید کہنا تھا
کہ روزہ رکھنے سے عمر میں اضافہ ہوتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ روزہ رکھنے والے ممالک
اور افراد پر تحقیق سے یہ بات سامنے آئی ہے کہ کم کھانے سے نظام ہضم پر زور نہیں
پڑتا اور خلیات میں ٹوٹ پھوٹ کا عمل سست ہو جاتا ہے جبکہ دماغی صلاحیت میں بھی
بہتری آتی ہے۔
تحقیقی ماہرین کا کہنا تھا کہ ہر ماہ میں کم از کم پانچ
روزے رکھنا انسانی صحت اور زندگی کیلئے نہایت اہمیت کا حامل ہے۔
٭۔روزہ مدافعتی نظام اور کولسٹرول بہترکرنے میں مدد دیتا ہے:۔۔
روزہ اہم
دینی فریضہ تو ہے ہی لیکن جدید سائنس نے اِس کے طبی فوائد کو بھی تسلیم کیا ہے۔
حالیہ تحقیق کے مطابق روزہ رکھنے سے جسم میں مدافعتی نظام کو بھی تقویت ملتی ہے جس
سے بیماریوں کا تدارک ممکن ہوجاتا ہے۔
رحمتوں اور برکتوں کا مہینہ رمضان نہ صرف مسلمانوں کو روحانی بالیدگی اور تقویٰ کا سبب بنتا ہے، بلکہ یہ روزہ داروں کیلئے طبی فوائد کا بھی وسیلہ ہوتا ہے۔ حالیہ تحقیق کے مطابق روزہ رکھنے سے انسانی جسم میں سفید خلیوں کی تعداد میں اضافہ ہوجاتا ہے، جس سے مدافعتی نظام مستحکم ہوجاتا ہے اور بیماریوں کے خلاف مدافعت بڑھ جاتی ہے۔
ڈاکٹروں نے خبردارکیا ہے کہ سحری اور افطاری کے اوقات میں بسیارخوری سے یہ مدافعتی قوت ضائع ہوسکتی ہے، ان کی تجویز ہے کہ کھانے پینے میں اعتدال سے کام لیا جائے تو جسم روزہ کی افادیت سے مستفید ہوجاتا ہے۔
طبی ماہرین کے مطابق ماہ رمضان کے علاوہ عام دنوں میں کھانے پینے میں احتیاط سے سفید خلیے بڑھ جاتے ہیں اور انسانی جسم بیماریوں سے محفوظ رہتا ہے
رحمتوں اور برکتوں کا مہینہ رمضان نہ صرف مسلمانوں کو روحانی بالیدگی اور تقویٰ کا سبب بنتا ہے، بلکہ یہ روزہ داروں کیلئے طبی فوائد کا بھی وسیلہ ہوتا ہے۔ حالیہ تحقیق کے مطابق روزہ رکھنے سے انسانی جسم میں سفید خلیوں کی تعداد میں اضافہ ہوجاتا ہے، جس سے مدافعتی نظام مستحکم ہوجاتا ہے اور بیماریوں کے خلاف مدافعت بڑھ جاتی ہے۔
ڈاکٹروں نے خبردارکیا ہے کہ سحری اور افطاری کے اوقات میں بسیارخوری سے یہ مدافعتی قوت ضائع ہوسکتی ہے، ان کی تجویز ہے کہ کھانے پینے میں اعتدال سے کام لیا جائے تو جسم روزہ کی افادیت سے مستفید ہوجاتا ہے۔
طبی ماہرین کے مطابق ماہ رمضان کے علاوہ عام دنوں میں کھانے پینے میں احتیاط سے سفید خلیے بڑھ جاتے ہیں اور انسانی جسم بیماریوں سے محفوظ رہتا ہے
٭۔روزہ دماغی صحت اور کارکردگی میں اضافہ کرتا ہے:۔۔
روزہ دماغ
کی صحت اور کارکردگی کو بہتر بناتا ہے۔ ایک نئی ریسرچ میں انکشاف ہوا کہ ہفتے میں
ایک یا دو بار کسی قسم کی خوراک نہ دکھانے سے دماغ الزائمر اور پارکنسن جیسی
بیماریوں کے شدید اثرات سے محفوظ رکھتا ہے۔ نیشنل انسٹی ٹیوٹ آف ریجنگ کے پروفیسر
مارک میٹسن نے کہا کہ قطر جیسے اسلامی ملک میں رہنے کے فائدے ہمیں حاصل نہیں جہاں
ماہ رمضان میں اوقات کار صرف 5 گھنٹے پر محیط ہوتے ہیں جبکہ ہمارے ہاں روزے کا
دورانیہ دگنا یعنی 19 گھنٹے ہے اور ہم یہ جانتے ہیں کہ سریبرال اثرات ہیں۔ سائنس
دانوں میں یہ یقین فروغ پا رہا ہے کہ روزہ زندگی کی طوالت میں 15 سے 30 فیصد اضافہ
کرسکتا ہے۔ نیشنل انسٹی ٹیوٹ آف ریجنگ بالٹی مور میں ریسرچرز نے کہا کہ ایسے شواہد
ملے ہیں کہ ہفتے میں ایک، دو روز کسی قسم کی خوراک نہ لینے کے دورانیے میں دماغ
الزائمر اور پارکنسن کے شدید اثرات سے تحفظ دیتا ہے۔ روزہ سیلز پر اچھے اثرات ڈاتا
ہے۔ جب لوگ روزہ رکھتے ہیں تو اس سے ایڈایٹیو سٹریس رسپانسز میں اضافہ ہوجاتا ہے
اور دماغی صحت و کارکردگی بہتر ہوتی ہے۔ سائنس دانوں کا کہنا ہے کہ جب خوراک
دستیاب نہ ہو تو پھر جگر Ketones کیٹونیس نامی کیمیکلز جسمانی چربی کو
استعمال کرتے ہوئے بنانا شروع کردیتا ہے جو ہیومن برین کے لیے انتہائی موثر ایندھن
کا کردار ادا کرتے ہیں۔ اس سے ڈی ٹاکسیفیکشن بڑھ جاتی ہے اور برین پرو ایکٹیو
اینٹی آکسیڈنٹس کی پیداوار میں اضافہ ہوجاتا ہے۔ سادہ الفاظ میں کیٹوینس آپ کو
زیادہ مستعد اور چالاک بناتے ہیں۔ رمضان میں دنیا بھر میں تمام مسلمان روزے رکھتے
ہیں۔ یہ دلچسپ بات ذہن نشین رہنی چاہیے کہ روزہ (فاسٹنگ) ہمیشہ انسانی تجربات کا
حصہ رہا ہے۔ حتیٰ کہ بنجمین فریفکلن اس کے زبردست وکیل رہے۔ اس کی ایک بڑی وجہ یہ
ہے کہ یہ دماغ کی کارکردگی میں اضافہ کرتا ہے۔ عظیم فلاسفر پلیٹو کا کہنا تھا کہ
میں جسمانی اور دماغی استعداد میں اضافہ کے لیے روزہ رکھتا ہوں۔
٭۔روزہ رکھنے سے اچھی صحت، عمر درازی:۔۔
سائنسدانوں کا کہنا ہے کہ ہفتے میں دو دن کھانے سے
پرہیز صحت کے لیے مفید ثابت ہوسکتا ہے
سائنسدانوں کا کہنا ہے کہ ایسے شواہد ملے ہیں کہ اگر
قاعدے سے روزہ رکھا جائے تو انسان کو صحت سے متعلق کئی فوائد حاصل ہو سکتے ہیں جن
میں حد سے زیادہ وزن سے نجات شامل ہے۔
سائنسدان مائکل موسلی کا کہنا ہے کہ روزہ رکھنا انہیں
کبھی پسند نہیں تھا اور وہ روزے کے دیرپا فوائد کے بھی منکر تھے۔
انہوں نے بتایا کہ جب ان سے اس پر ایک دستاویزی فلم
بنانے کے لیے کہا گیا تو انہیں بہت زیادہ خوشی نہیں ہوئی۔
انھوں نے کہا’لیکن جب ’ہورائزن‘ میگزین کے مدیر نے
انہیں یہ یقین دلایا کہ اس کے ذریعے وہ عظیم جدید سائنس سے متعارف ہونگے اور اس سے
ان کے جسم میں ڈرامائی بہتری آئے گی۔ اس لیے میں نے حامی بھر لی۔‘
انھوں نے کہا کہ ’میں مضبوط ارادے والا شخص تو نہیں ہوں
لیکن مجھے اس بات میں کافی دلچسپی رہی ہے کہ آخر کم کھانے سے لمبی عمر کا کیا تعلق
ہے اور سائنسدانوں کے مطابق اسے بغیر کسی درد کے حاصل کیا جا سکتا ہے۔
کہا جاتا ہے کہ زیادہ نہیں بلکہ بہتر غذا کھانے سے عمر
دراز ہوتی ہے۔ یہ بات کم سے کم جانوروں کے بارے میں تو سچ ثابت ہو چکی ہے اور
چوہوں پر اس کا تجربہ انیس سو تیس کی دہائی میں ہی کیا جا چکا ہے کہ جب کچھ چوہوں
کو اچھی غذائیت پر رکھا گیا تو انہوں نے دوسرے چوہوں کے مقابلے زیادہ عمر پائی۔
اس بات کے بھی وافر ثبوت موجود ہیں کہ بندروں کے معاملے
میں بھی یہ بات درست ثابت ہوئی۔
اس تحقیق کے مطابق’چوہوں کی عمر میں چالیس فی صد تک کا
اضافہ دیکھا گیا۔ اگر انسان کی عمر میں بھی یہ اضافہ ہوتا ہے تو ان کی اوسط عمر
ایک سو بیس سال ہوسکتی ہے۔‘
روزہ سے جین میں تبدیلی پیدا ہوتی ہے اور آئی جی ایف -
ون نامی ہارمون کی نشونما میں کمی ہوتی ہے جس سے بڑھاپے میں کمی آتی ہے اور بڑھاپے
سے متعلق بیماریوں کا خطرہ کم ہو جاتا ہے۔
بڑھتی عمر میں تو یہ ضروری ہوتا ہے لیکن جب انسان ضعیف
العمر ہونے لگتا ہے تو اس کے مدھم ہونے سے جسم ریپیئر موڈ یعنی مرمت موڈ میں آ
جاتا ہے۔
جنوبی کیلیفورنیا یونیورسٹی کے پروفیسر والٹر لونگو کا
کہنا ہے کہ روزہ رکھنے سے آئی جی ایف - ون کی سطح میں کمی آتی ہے اور جسم مرمت موڈ
میں آ جاتا ہے اور مرمت کرنے والے کئی جین جسم میں متحرک ہو جاتے ہیں۔
سائنسدانوں کا کہنا ہے کہ ایک دن چھوڑ کر روزہ رکھنا
زیادہ مفید ہے لیکن مائکل موزلی کا کہنا ہے کہ یہ عملی نہیں بلکہ ایک ہفتے میں دو
دن روزہ رکھنا زیادہ قابل عمل ہے۔
کہا جاتا ہے کہ جسم میں آئی جی ایف-1 کی بہت کم سطح
ہونے سے آدمی قد میں چھوٹا رہ جاتا ہے لیکن وہ عمر سے جڑی دو اہم بیماریوں کینسر
اور ذیابیطس سے محفوظ رہتے ہیں۔
شکاگو میں الونوا یونیورسٹی کی ڈاکٹر کرسٹا ویراڈی نے
دو قسم کے موٹے مریضوں پر ایک دن کے بعد ایک دن روزہ کا فارمولا اپنایا اور اس کے
اثرات کو انھوں نے اس طرح بیان کیا ’اگر آپ اپنے روزے کے دنوں کی پابندی کریں تو
آپ کو دل کی بیماریوں کا خطرہ نہیں رہتا خواہ آپ روزے نہ رکھنے کی حالت میں زیادہ
کھاتے ہیں یا کم۔‘
بہر حال انھوں نے اس بات کی جانب اشارہ کیا کہ حاملہ
عورتیں اور ذیابیطس کے مریض اس میں احتیاط رکھیں اور اعتدال سب سے اچھا راستہ ہو
خواہ کھانے میں ہو یا روزہ رکھنے میں ہو۔
٭۔روزے کے جسمانی فوائد:۔۔۔
روزے انسان کو زندگی کے
روزمرہ امور کی قید سے نجات دلاتے ہیں۔ روزوں کے بے شمار فوائد انسان میں مثبت
تبدیلی لاتے ہیں۔ قدیم طب میں روزے کو بہت اہمیت حاصل تھی۔ معروف ایرانی طبیب بو
علی سینا نے اپنی کتاب قانون کا ایک باب روزے کے ساتھ بیماریوں کا علاج کرنے کے
بارے میں لکھا ہے۔ امریکہ میں ڈاکٹر ہربرٹ ایم شلٹن نے ایک کتاب تحریر کی ہے جس کا
موضوع ہے " روزہ تمہاری زندگی کو نجات دے سکتا ہے " اس امریکی ڈاکٹر کا
کہنا ہے کہ روزوں کے ذریعے موٹاپے ، میگرین ، الرجی ، بلڈ پریشر اور جوڑوں کے
دردوغیرہ نیز جلد کی بہت سی بیماریوں کا علاج کیا جاسکتا ہے ۔ اس کتاب میں روزے کو
ایسا آپریشن قرار دیا گیا ہے جو چیرنے پھارنے والے آلات استعمال کۓ
بغیر ہی کیا جاتا ہے۔
فرانس کے محقق اور فیزیالوجسٹ ڈاکٹر الکسیس کارل کا کہنا ہے
کہ روزے کی حالت میں اپنے نفس پر قابو پانے کی کوشش کے ذریعے بدن کے اعمال میں
توازن قائم کیا جاسکتا ہے۔ سب لوگ فطری طور پر اپنے غرائز کو پورا کرنا چاہتے ہیں۔
لیکن ان خواہشات کی مکمل طور پر تکمیل نہ ہو تو انسان زوال و انحطاط کا شکار
ہوجاتا ہے۔ اس لۓ انسان کو اپنے نفس پر تسلط حاصل
کرنا چاہۓ۔ اس میں شک نہیں کہ ضرورت سے زیادہ
سونا اور کھانا کم کھانے کی نسبت زیادہ نقصان دہ ہے اور ان امور سے اپنے آپ کو بچا
کر بدن اور روح کے اعمال کے درمیان ہم آہنگی پیدا کی جاسکتی ہے ۔
روزہ مختلف بیماریوں کا
علاج کرتا ہے اور اس سے بڑھ کر یہ کہ وہ بیماریوں کی روک تھام کرتا ہے ۔ پیمغبر
اکرم ص نے فرمایا ہے کہ : " روزے رکھو تاکہ صحتمند رہو " رسول اکرم ص کے
نزدیک معدہ تمام امراض کا سرچشمہ اور پرہیز سب سے اچھی دوا ہے اور روزے رکھنا آپ
کے نزدیک پیپھڑوں کی صفائی اور بدن کی لطافت کا باعث ہوتا ہے۔ حضرت علی ع کے نزدیک
روزے جسمانی سلامتی کا بہترین سبب ہیں ۔ روزے رکھنے سے انسان کے بدن میں موجود lymphatic glands سے poisons کا خاتمہ ہوجاتا ہے ۔ فرسودہ اور بیمار خلیوں کی جگہ زندہ اور
سالم خلۓ لے لیتے ہیں جس کے نتیجے میں انسان
جوانی کا احساس کرتا ہے ۔ روزہ بہت سی بیماریوں کا راستہ روک دیتا ہے یہی وجہ ہے
کہ بعض ماہرین اور ڈاکٹر اس بات پر زور دیتے ہیں کہ انسانوں کی زندگی کے امور میں
روزے کی مشق سے استفادہ کیا جانا چاہۓ۔
نفسیاتی اور اخلاقی
اعتبار سے بھی روزے کے بہت سے فوائد ہیں ۔ بہت سی روایات میں انسان کی نفسیاتی
سلامتی ، دل کے امراض کے خاتمے ، شہوانی طاقت کے حد اعتدال میں آنے اور افسردگی کے
خاتمے کے سلسلے میں روزوں کو مؤثر کردار کا حامل قرار دیا گیا ہے ۔ محققین اس
نتیجے پر پہنچے ہیں کہ روزے رکھنے سے انسان کی ذہنی استعداد میں اضافہ ہوتا ہے اور
اس کی مختلف طرح کی باطنی صلاحیتوں میں نکھار آتا ہے۔ رمضان المبارک کے روزے رکھنے
سے انسان کے اندر ایسی طاقت پیدا ہوجاتی ہےکہ وہ مشکلات کا ڈٹ کر مقابلہ کرسکتا
ہے۔ ایک مہینے کے روزے اپنے رویۓ پر قابو پانے ، نفسیاتی
طور پر مضبوط ہونے اور اضطراب کے مواقع پر ثابت قدم رہنے کا موجب بنتے ہیں۔ روزے
قوای کو قابو میں رکھنے کا بہترین ذریعہ ہیں۔ شخصیت کی نمو کے دوران ہر شخص کو
ایسی قوت کی ضرورت ہوتی ہے جو عارضی خواہشات کے مقابلے کے موقع پر ان پر قابو
پاسکتی ہو۔
روزہ تربیت کے اسی اسلوب
کی ایک بہترین مثال ہے ۔ دن بھر کھانے پینے اور دوسری لذات سے اجتناب اس بات کا
موجب بنتا ہے کہ انسان ان چیزوں کے حصول کو التواء میں ڈال دے۔ اس التواء کے انسان
پر بہت مثبت اثرات مرتب ہوتے ہیں ۔ اس سے انسان اپنی خواہشات کو اپنے قابو میں
رکھنے کی قدرت و صلاحیت حاصل کر لیتا ہے۔ روزہ دل کو نورانی کردیتا ہے ۔ انسان
روزے کی بدولت خدا تعالی سے دعا کرنے اور اس سے ہمکلام ہونے کا ذائقہ چکھتا ہے ۔
رمضان کی عبادات کے نتیجے میں انسان اپنے آپ کو ہلکا پھلکا محسوس کرتا ہے۔ انسان
خدا تعالی اور اس کی قدرت و عظمت کی جتنی زیادہ معرفت حاصل کرتا ہے اسی قدر اس کے
اندر نیک کام انجام دینے کا جذبہ شدت اختیار کرتا جاتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ رمضان
المبارک میں ناداروں کی امداد ، انفاق، اور صلہ رحم جیسی عبادات میں اضافہ ہوجاتا
ہے اور معاشرے میں ایک خوشگوار روحانی ماحول قائم ہوجاتا ہے۔ خدا تعالی روزے دار
کی عبادت و کوشش کو تسبیح جانتا ہے اور اس کے عمل کا ثواب بڑھا کر دیتا ہے۔
حدیث نبوی ﷺ ہے کہ ''روزے رکھو صحت مند ہو جاؤگے ۔''(الترغیب والترھیب (٨٣٢)) عصرحاضر کی جدید سائنسی تحقیق یہ کہتی ہے کہ جسم انسانی پر سال بھر میں لازما کچھ وقت ایسا آنا چاہیے جس میں اس کا معدہ کچھ دیر فارغ رہے ۔کیونکہ مسلسل کھاتے رہنے سے معدے میں مختلف قسم کی رطوبتیں پیدا ہو جاتی ہیں جو آہستہ آہستہ زہر کی صورت اختیار کر لیتی ہیں ۔لیکن روزے سے یہ رطوبتیں اور ان سے پیدا ہونے والے کئی مہلک امراض ختم ہو جاتے ہیں اور نظام انہضام پہلے سے قوی تر ہو جاتا ہے ۔روزہ شوگر 'دل اور معدے کے مریضوں کے لیے نہایت مفید ہے اور مشہور ماہر نفسیات سگمنڈ نرائیڈ کا کہنا ہے کہ روزے سے دماغی اور نفسیاتی امراض کا کلی خاتمہ ہو جاتا ہے ۔(مزید تفصیل کے لیے ملاحظہ ہو : سنت نبوی اور جدید سائنس (١٦٢١))
ڈاکٹر عبد الحمید دیان (Abdul-Hamid Dian)اور ڈاکٹر احمد قاراقز (Ah

''روزہ انسان کی جسمانی 'نفسیاتی اور جذباتی بیماریوں کے لیے مؤثر علاج ہے ۔یہ آدمی کی مستقل مزاجی کو بڑھاتا ہے ' اس کی تربیت کرتا ہے اور اس کی پسند اور عادات کو شاندار بنانے میں اہم کردار ادا کرتا ہے ۔روزہ انسان کو طاقتور بناتا ہے اور اس کے اچھے اعمال کو پختہ عزم دیتا ہے ۔تاکہ وہ لڑائی وفسادات کے کاموں 'چڑچڑے پن اورجلد بازی کے کاموں سے اجتناب کر سکے ۔یہ تمام چیزیں مل کر اس کو ہوشمند اور صحت مند انسان بناتی ہیں ۔ علاوہ ازیں اس کی ترقی 'قوت مدافعت اور قابلیت کو بڑھانے میں اہم کردار ادا کرتا ہے تاکہ وہ مشکل حالات کا سامنا کر سکے ۔روزہ انسان کو کم کھانے کا عادی بناتا ہے اور اس کے موٹاپے کو کنٹرول کرتا ہے جس سے اس کی شکل وشباہت میں نکھار پیدا ہو جاتا ہے ۔
روزے کی وجہ سے انسان کی صحت پر جو اثرات وفوائد مرتب ہوتے ہیں وہ یہیں ختم نہیں ہوتے بلکہ روزہ انسان کو بہت سی مہلک بیماریوں سے بھی محفوظ رکھتا ہے جن میں اہم و قابل ذکر نظام انہضام کی بیماریاں ہیں مثلاجگر کی بیماریاں 'بدہضمی وغیرہ ۔علاوہ ازیں موٹاپا 'بلڈ پریشر 'دمہ'خناق اور ان جیسی دیگر بہت سی بیماریوں کا علاج ہے ۔ روزے کی حالت میں بھوک کی وجہ سے انسان کے جسم میں موجود خون کے خراب خلیوں کے ٹوٹنے کا عمل شروع ہو جاتا ہے او ران کی جگہ خون کے نئے خلیے بننے شروع ہو جاتے ہیں ۔''
ڈاکٹر شاہد اطہر (Shahid Athar)جو کہ امریکہ کی ایک یونیورسٹی''انڈیانا یونیورسٹی سکول آف میڈیسن'' کے ایسوسی ایٹ پروفیسر ہیں وہ فوائد رمضان کے متعلق اپنے ایک آرٹیکل :"The Spiritual and Health Benefits of Ra

''روزہ ان لوگوں کے لیے بہت مفید ہے جو نرم مزاج 'اعتدال پسند اور مثالی بننا چاہتے ہیں ۔1994ء میں ایک بین الاقوامی کانفرنس ''رمضان اور صحت ''جو کہ' کاسابلانکہ 'میں منعقد ہوئی ۔اس میں طبی حوالے سے روزے کی وسعت و پھیلاؤ کے بارے میں 50اہم نکات پر روشنی ڈالی گئی ۔جس سے نظام طب کے حوالے سے بہت سے اچھے اثرات سامنے آئے حتی کہ یہ چیز بھی سامنے آئی ہے کہ روزہ مریضوں کے لیے کسی بھی طریقے سے نقصان دہ نہیں ہے ۔جو لوگ روزہ رکھتے ہیں وہ اس میں سکون اور صبر وتحمل کا درس لیتے ہیں ۔روزہ کی حالت میں انسان کی نفسانی بیماریاں کم ہو جاتی ہیں اور انسان کئی اور دوسرے جرموں سے بچ جاتا ہے ۔''
يہ تو سبھي جانتے ہيں کہ روزہ خرابي معدہ کے مريضوں
کےلئے يا بھاري جسم والوں کے لئے بہت مفيد ہے طب يوناني کے علاوہ مغرب کے بلند
پايہ ڈاکٹر بھي روزہ کي طبي اہميت کو تسليم کرتے ہيں - غذا کے ہضم ہونے ميں بدن کي
جو قوت صرف ہوتي ہے روزہ رکھنے کي صورت ميں يہي قوت بدن سے فاسد اور ردي مادوں کو
خارج کرتي ہے جس سے جسم پاک وصاف ہو جاتا ہے پرانے امراض مثلاً دائمي نزلہ ،
ذيابيطيس ،ہائي بلڈ پريشر اور معدہ کي خرابي ميں روزہ بہت ہي مفيد اثرات مرتب کرتا
ہے اس سے بدن کي قوت مدافعت کو اس قدر طاقت ملتي ہے (قوت مدافعت جسم انساني کو
امراض وآلام سے محفوظ رکھتي ہے )کہ سال بھر تک بدن صحت مند رہتا ہے اس کے علاوہ
ايسے لوگ جو غير شادي شدہ ہيں روزہ رکھنے سے ان کے اندر ايک ڈسپيلن صبر اور ضبط
نفس پيدا ہو جاتا ہے
-
میڈیکل سائنس نے پچھلے 20-25 سال میں انسانی جسم پر روزے کے اثرات اور اس کے فوائد و ثمرات پر خاصی تحقیق کی ہے۔ اس تحقیق سے روزے کے جو ثمرات ثابت ہوئے ہیں ان میں ۵۱چیزیں نمایاں ہو کر سامنے آئی ہیں۔ سب سے پہلی چیز یہ ہے کہ روزہ زہر کو بے اثر بنانے کا عمل کرتا ہے۔ میٹا بولزم کے نتیجے میں انسانی جسم میں جو زہریلے مادے پیدا ہوتے ہیں، روزہ ان کو بے اثر بنا دیتا ہے اور خارج کرتا ہے۔ روزہ رکھنے کا یہ ایک بڑا طبی فائدہ ہے۔
روزہ رکھنے کے نتیجے میں قوت مدافعت بہتر ہو جاتی ہے۔ ہمارا جسم ایک مدافعتی نظام کے تحت چل رہا ہے۔ جسم کی قوت مدافعت بیماریوں سے بچا کر اسے صحت مند رکھتی ہے۔ اس قوت مدافعت کو بہترکرنے کے طریقوں میں سے ایک طریقہ روزہ رکھنا بھی ہے۔ انسان صبح سے شام تک بھوکا پیاسا رہتا ہے تو اس کے جسم کے اندر وہ خلیے متحرک ہوجاتے ہیں جو اس کے مدافعتی نظام کو بہتر بنا کر اس کو طرح طرح کی بیماریوں سے بچاتے ہیں۔ اگر بیماری جسم میں پہلے سے موجود ہو تو روزہ اس کے صحت یاب ہونے کے عمل میں اضافہ کر دیتا ہے۔
روزہ اینٹی الرجی (anti۔allergy) عمل کو فعّال کرتا ہے۔ جسم میں اس چیز کی گنجایش ہوتی ہے کہ اس میں الرجی کے اثرات ہوں، چاہے وہ غذا کی الرجی ہو، ہوا کی ہو یا مختلف الرجی پیدا کرنے والی بیماریاں ہوں۔ روزے سے جسم کے اندر ایسے ہارمونز خارج ہوتے ہیں جو الرجی کے عمل کو کنٹرول کر لیتے ہیں، چنانچہ الرجی کی بیماریاں کم ہو جاتی ہیں۔
روزے کا ایک اور بڑا فائدہ یہ ہے کہ یہ بلڈ شوگر کو کنٹرول کرتا ہے، یعنی معمول پر لاتا ہے۔ انسانی جسم میں شوگر کی ریگولیشن بہت اہم چیز ہے کیونکہ دماغ کے تمام افعّال کا تعلق شوگر کی سطح سے ہوتا ہے۔ جسم کے اندر شوگر کی سطح بڑھ جائے تو انسان کو شوگر کی بیماری ہو جاتی ہے۔ اگر شوگر کم ہوجائے تو ہائپو گلے سیمیا (Hypoglycemia) ہوجاتا ہے جس سے کمزوری ہو جاتی ہے اور فرد بے ہوش بھی ہو سکتا ہے اور یہ اس کی صحت اور حیات کے لیے نقصان دہ بھی ہو سکتا ہے۔ روزہ شوگر کو کم ہونے دیتا ہے نہ بلند۔ اس لیے دنیا کے بہت سے ممالک میں جن مریضوں کی شوگر کنٹرول نہیں ہوتی ان کو روزے رکھوائے جاتے ہیں۔ ان کا کھانا پینا جبراً بند کرا دیا جاتا ہے، جس سے ان کی شوگر کنٹرول میںآ جاتی ہے۔
سائنسی تحقیقات نے روزے کا ایک اور فائدہ یہ ثابت کیا ہے کہ روزے سے بلڈ پریشر کنٹرول میں رہتا ہے۔ بلڈ پریشر دنیا میں بہت عام بیماری ہے۔ خود پاکستان میں ۵۴سال سے زائد عمر کے ایک تہائی افراد کو بلڈ پریشر کی بیماری ہے۔ روزہ بلڈ پریشر کنٹرول کرنے میں مفید اور معاون ثابت ہوتا ہے۔ جب
انسانی جسم میں پانی کی مقدار کم ہوتی ہے تو بلڈ پریشر بھی کم ہو جاتا ہے۔ پھر ایسے ہارمون جسم کے اندر خارج ہوتے ہیں جو بلڈ پریشر کو کنٹرول کرنے میں معاون ہوتے ہیں اور اس کو قابو میں رکھتے ہیں۔ شوگر اور بلڈ پریشر کے کنٹرول، اور جسم کے اندر پانی کی مقدار کے کنٹرول کے نتیجے میں دل کی بیماریاں کم ہو جاتی ہیں۔ روزہ رکھنے والوں کو دل کے دورے کا امکان کم ہو جاتا ہے، ان کا ہارٹ فیل کم ہوتا ہے۔ اگر ان کو اس کا خطرہ ہو تو ان کی طبیعت روزہ رکھنے سے بہتر ہو جاتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ دل کے مریضوں کو عام طور پر بھی تھوڑا بہت فاقہ کرایا جاتا اور روزہ رکھوایا جاتا ہے۔ مغربی ممالک بالخصوص امریکا اور یورپ میں اب یہ ایک طریق? علاج بن چکا ہے۔ جن مریضوں کے ہارٹ فیل ہونے کا خدشہ ہو ان کو جبراً فاقہ کرایا جاتا ہے، اور ۸۲سے ۹۲گھنٹے بھوکا پیاسا رکھا جاتا ہے۔ اس کے نتیجے میں ان کی صحت بھی بہتر ہو جاتی ہے۔
روزے سے جسم کو ایک اور فائدہ یہ ہوتا ہے کہ اس سے ہاضمے کے نظام کو آرام ملتا ہے اور ہاضمہ درست کرنے میں بہت مدد ملتی ہے۔ لوگوں میں معدے اور آنتوں کی بیماریاں بہت عام ہیں۔ ان میں سے زیادہ تر بیماریوں کا سبب غذا کا ضرورت سے زیادہ اور بار بار استعمال ہے، یا ایسی غذاؤں کا استعمال ہے جو صحت کے لیے مفید نہیں۔ روزہ آنتوں اور معدے کو ۴۱سے ۶۱گھنٹے آرام دیتا ہے۔ اس آرام کے نتیجے میں آنتوں کو یہ موقع ملتا ہے کہ اپنے نظام کو درست کر سکیں۔
روزے کا ایک اور طبی فائدہ سوجن کم کرنے کے (anti inflammatory) اثرات ہیں۔ روزے کے نتیجے میں جو ہارمون جسم میں خارج ہوتے ہیں ان میں بالخصوص کورٹی سول (cortisol) ہارمون ہے جس سے جسم میں ورم کم ہو جاتا ہے۔ جوڑوں کے درد اور گٹھیا (arthritis) کے مریضوں کی تکلیف روزہ رکھنے سے بہتر ہو جاتی ہے۔ جن لوگوں کے پیروں پر یا جسم میں کسی اور جگہ ورم ہوتا ہے، یاfluidجمع ہوجاتا ہے انھیں روزے کے نتیجے میں افاقہ ہوتا ہے۔
دماغ کو روزے کا بہت فائدہ ہوتا ہے۔ روزہ انسانی دماغ کے اندر ایک سیلف کنٹرول اور ڈسپلن پیدا کرتا ہے۔ وہ انسان کو نظم و ضبط کا عادی بناتا ہے۔ اس کے نتیجے میں انسان کی دماغی صحت بہتر ہوتی ہے، یاسیت (ڈپریشن) سے نجات ملتی ہے۔ روزہ دماغ کے اندر سیروٹونین (serotonin) ہارمون (جو نیورو ٹرانسمیٹر ہے) کی سطح کو بڑھاتا ہے، جس سے ڈپریشن سے نجات ملتی ہے۔ جن لوگوں کو مستقل درد سرکی بیماری ، گھبراہٹ اور ڈ پریشن رہتا ہو ان کی تمام تکالیف روزے کی وجہ سے دْور ہوجاتی ہیں۔ سائنسی تحقیق نے یہ ثابت کیا ہے کہ روزہ نیند کو بہتر بناتا ہے۔ نیند نہ آنے کی بیماری عام ہے۔ اکثر لوگ بے خوابی کی شکایت کرتے ہیں، لیکن جو لوگ روزہ رکھتے ہیں ان کی نیند بہتر ہوجاتی ہے۔
روزے کے جہاں بہت سے طبی فوائد ہیں وہاں ایک بڑا فائدہ یہ ہے کہ بعض لوگوں کو کسی قسم کے نشے کی بیماری ہوتی ہے۔ روزہ ان کے جسم کے اندر ایسے ہارمونز خارج کرتا ہے جن سے نشے کو قابو میں رکھنے میں مدد ملتی ہے۔ یہ دیکھا گیا ہے کہ سگریٹ پینے کے عادی افراد رمضان کے مہینے میں بڑی آسانی کے ساتھ اس عادت کو ترک کرنے میں کامیاب ہو جاتے ہیں۔ انسان میں ذہنی طور پر یہ صلاحیت پیدا ہو جاتی ہے کہ وہ نشے کی طلب کو کنٹرول کر سکے اور اس عادت سے نجات حاصل کر سکے۔ روزے کے اس عمل کو نشے پر قابو پانے کے لیے استعمال کیا جا رہا ہے۔
روزہ حسِ ذائقہ کو بہتر کرتا ہے۔ بعض اوقات لوگ شکایت کرتے ہیں کہ زبان میں ذائقہ باقی نہیں رہا، کھانے کا مزا محسوس نہیں ہوتا۔ اس کی وجہ یہ ہوتی ہے کہ زبان کے اندر taste budsہوتے ہیں جو غیر فعّال ہو جاتے ہیں یا ان کے اندر ایسی تبدیلیاں رْونما ہو جاتی ہیں کہ غذا کا ذائقہ محسوس نہیں ہو پاتا۔ تاہم مسلسل بھوکا پیاسا رہنے سے ذائقے کی حس دوبارہ فعّال ہو جاتی ہے۔
روزے کو ایک اور فائدے کے لیے پوری دنیا میں استعمال کیا جا رہا ہے، یعنی وزن کم کرنے میں۔ ہم اچھی طرح واقف ہیں کہ روزے کا عمل جسمانی چربی کو پگھلاتا ہے اور وزن کو کم کرتا ہے، لیکن وزن میں کمی اس وقت ہو گی جب انسان اپنے حراروں کے حصول (کیلوریک انٹیک) کو ایک حد کے اندر رکھے گا۔ اگر وہ رمضان میں غذاؤں کا استعمال زیادہ کرے، چکنائی والی چیزیں زیادہ لے تو وزن کم کرنے کا فائدہ اْسے حاصل نہیں ہوگا۔ آج پوری دنیا میں وزن کم
کرنے کے لیے لوگ مکمل فاقہ (fasting) کرتے ہیں، یا انھیں مختلف غذاؤں کی fastingکرائی جاتی ہے۔
ماہرِ دندان (ڈینٹسٹ) بتاتے ہیں کہ روزہ رکھنے والوں میں دانت اور مسوڑھوں کے امراض کم ہو جاتے ہیں۔ دانتوں اور مسوڑھوں کی بیماریاں عام ہیں، ان کا تعلق بھی غذاؤں کے استعمال سے ہے۔ روزہ رکھنے کا عمل دانت اور مجموعی صحت کو بہتر کر دیتا ہے۔روزہ انسان کی جلد اور بینائی کو بھی بہتر کرتا ہے۔ روزہ جلد کو پھٹنے سے بچاتا، آنکھوں کوروشن کرتا اور بصارت کو تیز کرتا ہے۔
روزے کا بہت بڑا فائدہ یہ ہے کہ یہ انسان کی قوتِ ارادی (motivation) کو بڑھاتا ہے۔ جو لوگ قوتِ ارادی کی کمزوری کی بنا پر تھکاوٹ کا شکار رہتے ہیں، دماغی اور ذہنی کمزوری میں مبتلا ہوتے ہیں، روزہ ان کو اس قابل بناتا ہے کہ وہ اپنی زندگی میں بڑے بڑے کام کر سکیں۔
میڈیکل سائنس نے پچھلے 20-25 سال میں انسانی جسم پر روزے کے اثرات اور اس کے فوائد و ثمرات پر خاصی تحقیق کی ہے۔ اس تحقیق سے روزے کے جو ثمرات ثابت ہوئے ہیں ان میں ۵۱چیزیں نمایاں ہو کر سامنے آئی ہیں۔ سب سے پہلی چیز یہ ہے کہ روزہ زہر کو بے اثر بنانے کا عمل کرتا ہے۔ میٹا بولزم کے نتیجے میں انسانی جسم میں جو زہریلے مادے پیدا ہوتے ہیں، روزہ ان کو بے اثر بنا دیتا ہے اور خارج کرتا ہے۔ روزہ رکھنے کا یہ ایک بڑا طبی فائدہ ہے۔
روزہ رکھنے کے نتیجے میں قوت مدافعت بہتر ہو جاتی ہے۔ ہمارا جسم ایک مدافعتی نظام کے تحت چل رہا ہے۔ جسم کی قوت مدافعت بیماریوں سے بچا کر اسے صحت مند رکھتی ہے۔ اس قوت مدافعت کو بہترکرنے کے طریقوں میں سے ایک طریقہ روزہ رکھنا بھی ہے۔ انسان صبح سے شام تک بھوکا پیاسا رہتا ہے تو اس کے جسم کے اندر وہ خلیے متحرک ہوجاتے ہیں جو اس کے مدافعتی نظام کو بہتر بنا کر اس کو طرح طرح کی بیماریوں سے بچاتے ہیں۔ اگر بیماری جسم میں پہلے سے موجود ہو تو روزہ اس کے صحت یاب ہونے کے عمل میں اضافہ کر دیتا ہے۔
روزہ اینٹی الرجی (anti۔allergy) عمل کو فعّال کرتا ہے۔ جسم میں اس چیز کی گنجایش ہوتی ہے کہ اس میں الرجی کے اثرات ہوں، چاہے وہ غذا کی الرجی ہو، ہوا کی ہو یا مختلف الرجی پیدا کرنے والی بیماریاں ہوں۔ روزے سے جسم کے اندر ایسے ہارمونز خارج ہوتے ہیں جو الرجی کے عمل کو کنٹرول کر لیتے ہیں، چنانچہ الرجی کی بیماریاں کم ہو جاتی ہیں۔
روزے کا ایک اور بڑا فائدہ یہ ہے کہ یہ بلڈ شوگر کو کنٹرول کرتا ہے، یعنی معمول پر لاتا ہے۔ انسانی جسم میں شوگر کی ریگولیشن بہت اہم چیز ہے کیونکہ دماغ کے تمام افعّال کا تعلق شوگر کی سطح سے ہوتا ہے۔ جسم کے اندر شوگر کی سطح بڑھ جائے تو انسان کو شوگر کی بیماری ہو جاتی ہے۔ اگر شوگر کم ہوجائے تو ہائپو گلے سیمیا (Hypoglycemia) ہوجاتا ہے جس سے کمزوری ہو جاتی ہے اور فرد بے ہوش بھی ہو سکتا ہے اور یہ اس کی صحت اور حیات کے لیے نقصان دہ بھی ہو سکتا ہے۔ روزہ شوگر کو کم ہونے دیتا ہے نہ بلند۔ اس لیے دنیا کے بہت سے ممالک میں جن مریضوں کی شوگر کنٹرول نہیں ہوتی ان کو روزے رکھوائے جاتے ہیں۔ ان کا کھانا پینا جبراً بند کرا دیا جاتا ہے، جس سے ان کی شوگر کنٹرول میںآ جاتی ہے۔
سائنسی تحقیقات نے روزے کا ایک اور فائدہ یہ ثابت کیا ہے کہ روزے سے بلڈ پریشر کنٹرول میں رہتا ہے۔ بلڈ پریشر دنیا میں بہت عام بیماری ہے۔ خود پاکستان میں ۵۴سال سے زائد عمر کے ایک تہائی افراد کو بلڈ پریشر کی بیماری ہے۔ روزہ بلڈ پریشر کنٹرول کرنے میں مفید اور معاون ثابت ہوتا ہے۔ جب
انسانی جسم میں پانی کی مقدار کم ہوتی ہے تو بلڈ پریشر بھی کم ہو جاتا ہے۔ پھر ایسے ہارمون جسم کے اندر خارج ہوتے ہیں جو بلڈ پریشر کو کنٹرول کرنے میں معاون ہوتے ہیں اور اس کو قابو میں رکھتے ہیں۔ شوگر اور بلڈ پریشر کے کنٹرول، اور جسم کے اندر پانی کی مقدار کے کنٹرول کے نتیجے میں دل کی بیماریاں کم ہو جاتی ہیں۔ روزہ رکھنے والوں کو دل کے دورے کا امکان کم ہو جاتا ہے، ان کا ہارٹ فیل کم ہوتا ہے۔ اگر ان کو اس کا خطرہ ہو تو ان کی طبیعت روزہ رکھنے سے بہتر ہو جاتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ دل کے مریضوں کو عام طور پر بھی تھوڑا بہت فاقہ کرایا جاتا اور روزہ رکھوایا جاتا ہے۔ مغربی ممالک بالخصوص امریکا اور یورپ میں اب یہ ایک طریق? علاج بن چکا ہے۔ جن مریضوں کے ہارٹ فیل ہونے کا خدشہ ہو ان کو جبراً فاقہ کرایا جاتا ہے، اور ۸۲سے ۹۲گھنٹے بھوکا پیاسا رکھا جاتا ہے۔ اس کے نتیجے میں ان کی صحت بھی بہتر ہو جاتی ہے۔
روزے سے جسم کو ایک اور فائدہ یہ ہوتا ہے کہ اس سے ہاضمے کے نظام کو آرام ملتا ہے اور ہاضمہ درست کرنے میں بہت مدد ملتی ہے۔ لوگوں میں معدے اور آنتوں کی بیماریاں بہت عام ہیں۔ ان میں سے زیادہ تر بیماریوں کا سبب غذا کا ضرورت سے زیادہ اور بار بار استعمال ہے، یا ایسی غذاؤں کا استعمال ہے جو صحت کے لیے مفید نہیں۔ روزہ آنتوں اور معدے کو ۴۱سے ۶۱گھنٹے آرام دیتا ہے۔ اس آرام کے نتیجے میں آنتوں کو یہ موقع ملتا ہے کہ اپنے نظام کو درست کر سکیں۔
روزے کا ایک اور طبی فائدہ سوجن کم کرنے کے (anti inflammatory) اثرات ہیں۔ روزے کے نتیجے میں جو ہارمون جسم میں خارج ہوتے ہیں ان میں بالخصوص کورٹی سول (cortisol) ہارمون ہے جس سے جسم میں ورم کم ہو جاتا ہے۔ جوڑوں کے درد اور گٹھیا (arthritis) کے مریضوں کی تکلیف روزہ رکھنے سے بہتر ہو جاتی ہے۔ جن لوگوں کے پیروں پر یا جسم میں کسی اور جگہ ورم ہوتا ہے، یاfluidجمع ہوجاتا ہے انھیں روزے کے نتیجے میں افاقہ ہوتا ہے۔
دماغ کو روزے کا بہت فائدہ ہوتا ہے۔ روزہ انسانی دماغ کے اندر ایک سیلف کنٹرول اور ڈسپلن پیدا کرتا ہے۔ وہ انسان کو نظم و ضبط کا عادی بناتا ہے۔ اس کے نتیجے میں انسان کی دماغی صحت بہتر ہوتی ہے، یاسیت (ڈپریشن) سے نجات ملتی ہے۔ روزہ دماغ کے اندر سیروٹونین (serotonin) ہارمون (جو نیورو ٹرانسمیٹر ہے) کی سطح کو بڑھاتا ہے، جس سے ڈپریشن سے نجات ملتی ہے۔ جن لوگوں کو مستقل درد سرکی بیماری ، گھبراہٹ اور ڈ پریشن رہتا ہو ان کی تمام تکالیف روزے کی وجہ سے دْور ہوجاتی ہیں۔ سائنسی تحقیق نے یہ ثابت کیا ہے کہ روزہ نیند کو بہتر بناتا ہے۔ نیند نہ آنے کی بیماری عام ہے۔ اکثر لوگ بے خوابی کی شکایت کرتے ہیں، لیکن جو لوگ روزہ رکھتے ہیں ان کی نیند بہتر ہوجاتی ہے۔
روزے کے جہاں بہت سے طبی فوائد ہیں وہاں ایک بڑا فائدہ یہ ہے کہ بعض لوگوں کو کسی قسم کے نشے کی بیماری ہوتی ہے۔ روزہ ان کے جسم کے اندر ایسے ہارمونز خارج کرتا ہے جن سے نشے کو قابو میں رکھنے میں مدد ملتی ہے۔ یہ دیکھا گیا ہے کہ سگریٹ پینے کے عادی افراد رمضان کے مہینے میں بڑی آسانی کے ساتھ اس عادت کو ترک کرنے میں کامیاب ہو جاتے ہیں۔ انسان میں ذہنی طور پر یہ صلاحیت پیدا ہو جاتی ہے کہ وہ نشے کی طلب کو کنٹرول کر سکے اور اس عادت سے نجات حاصل کر سکے۔ روزے کے اس عمل کو نشے پر قابو پانے کے لیے استعمال کیا جا رہا ہے۔
روزہ حسِ ذائقہ کو بہتر کرتا ہے۔ بعض اوقات لوگ شکایت کرتے ہیں کہ زبان میں ذائقہ باقی نہیں رہا، کھانے کا مزا محسوس نہیں ہوتا۔ اس کی وجہ یہ ہوتی ہے کہ زبان کے اندر taste budsہوتے ہیں جو غیر فعّال ہو جاتے ہیں یا ان کے اندر ایسی تبدیلیاں رْونما ہو جاتی ہیں کہ غذا کا ذائقہ محسوس نہیں ہو پاتا۔ تاہم مسلسل بھوکا پیاسا رہنے سے ذائقے کی حس دوبارہ فعّال ہو جاتی ہے۔
روزے کو ایک اور فائدے کے لیے پوری دنیا میں استعمال کیا جا رہا ہے، یعنی وزن کم کرنے میں۔ ہم اچھی طرح واقف ہیں کہ روزے کا عمل جسمانی چربی کو پگھلاتا ہے اور وزن کو کم کرتا ہے، لیکن وزن میں کمی اس وقت ہو گی جب انسان اپنے حراروں کے حصول (کیلوریک انٹیک) کو ایک حد کے اندر رکھے گا۔ اگر وہ رمضان میں غذاؤں کا استعمال زیادہ کرے، چکنائی والی چیزیں زیادہ لے تو وزن کم کرنے کا فائدہ اْسے حاصل نہیں ہوگا۔ آج پوری دنیا میں وزن کم
کرنے کے لیے لوگ مکمل فاقہ (fasting) کرتے ہیں، یا انھیں مختلف غذاؤں کی fastingکرائی جاتی ہے۔
ماہرِ دندان (ڈینٹسٹ) بتاتے ہیں کہ روزہ رکھنے والوں میں دانت اور مسوڑھوں کے امراض کم ہو جاتے ہیں۔ دانتوں اور مسوڑھوں کی بیماریاں عام ہیں، ان کا تعلق بھی غذاؤں کے استعمال سے ہے۔ روزہ رکھنے کا عمل دانت اور مجموعی صحت کو بہتر کر دیتا ہے۔روزہ انسان کی جلد اور بینائی کو بھی بہتر کرتا ہے۔ روزہ جلد کو پھٹنے سے بچاتا، آنکھوں کوروشن کرتا اور بصارت کو تیز کرتا ہے۔
روزے کا بہت بڑا فائدہ یہ ہے کہ یہ انسان کی قوتِ ارادی (motivation) کو بڑھاتا ہے۔ جو لوگ قوتِ ارادی کی کمزوری کی بنا پر تھکاوٹ کا شکار رہتے ہیں، دماغی اور ذہنی کمزوری میں مبتلا ہوتے ہیں، روزہ ان کو اس قابل بناتا ہے کہ وہ اپنی زندگی میں بڑے بڑے کام کر سکیں۔
مسلم
ڈاکٹرز ایسو سی ایشن آف انگلینڈ کے مطابق نوافل بہترین ورزش ہے ۔گلوکوز کو کنٹرول کرتی ہے۔
تکنیکی طور پر روزہ تقریباً
12 گھنٹوں پر محیط ہوتا ہے۔ان 12 گھنٹوں میں جسم کے اندر کئی طرح کی کیمیائی
تبدیلیاں رونما ہوتی ہیں۔خصوصاً جب جسم میں باہر سے خوراک نہ جا رہی ہو ۔باہر سے
ملنے والی خوراک کی بندش کے دوران جسم کے اپنے وسائل حرکت میں آتے ہیں۔اس عمل کو Autolysisکہتے
ہیں۔جسم میں موجود اسٹور شدہ چربی میں توڑ پھوڑ کا عمل ہوتا ہے اور یہ چربی جسم کے
مختلف کیمیائی اعمال میں استعمال ہوتی ہے۔اس کا چارج جگر کے پاس ہوتا ہے۔اس عمل کے
ذریعے بننے والی
Ketone body پورے جسم میں پھیلتی ہے جو جتنا کم کھاتا ہے
جسم کی چربی اتنی زیادہ پگھلتی ہے۔
روزے کے دوران جسم کی فالتو جمع شدہ چربی کو کسی حد تک پگھلنے کا موقع ملتا ہے جو جسم میں Detoxification کا عمل بھی کرتی ہے۔اس عمل میں جسم کا زہریلا مواد تلف ہوتا ہے۔یہ عمل آنتوں،جگر،گردوں،پھیپھڑوں غدود اور جلد کے ذریعے جاری رہتا ہے۔انسانی چربی کا فی پاؤنڈ 3500 کیلوریز کے برابر ہے۔چربی کے یہ ذخائر اُس وقت بنتے ہیں جب خوراک کے ذریعے حاصل کی جانے والی اضافی کاربوہائیڈریٹ اور گلوکوز جسم کے روزمرّہ استعمال میں نہیں آتے۔جسم کے فاضل مادّے خارج ہونے کی بجائے چربی میں جمع ہوجاتے ہیں ۔روزے کے دوران انہی مادوں کا اخراج ہوتا ہے۔
روزے کے دوران جب نظامِ ہضم خالی رہتا ہے تو اس کے حصّے میں آنے والی عمومی توانائی یعنی انرجی جسم کے دیگر Reactions میں مصروف ہوجاتی ہے۔جیسا کہ قوت مدافعت کے نظام اور کیمیائی اعمال کے لئے انرجی زیادہ مقدار میں دستیاب ہوتی ہے۔
روزے کے دوران جسم کا مجموعی درجہء حرارت کم ہوجاتا ہے ۔جسم کا BMR بھی کم ہوجاتا ہے۔پروٹین کی زیادہ مقدار ہارمونز بننے کے عمل میں خرچ ہوتی ہے۔ماہرین کے مطابق روزے کے دوران ہیومن گروتھ ہارمون زیادہ مقدار میں خارج ہوتا ہے۔
طبّی ماہرین کے مطابق یہ بات بہت اہم ہے کہ باقاعدگی سے روزہ رکھنے والے افراد کی صحت بہتر اور عمر میں اضافہ ہوتا ہے۔
روزہ ڈائٹنگ یا بھوکا رہنے سے مختلف ہے کیونکہ روزے میں سحری اور افطاری میں پیٹ بھر کر کھانے سے کمزوری اور فاقہ نہیں ہوتا۔نہ ہی جسمانی ضرورت کی کیلوریز مکمل کم ہوجاتی ہیں۔
دماغ کے بڑے حصّے Hypothalamus کا ایک سینٹر Lipofat جو جسم میں Mass کو کنٹرول کرتا ہے ۔اگر فاقہ کشی کے ذریعے وزن کم کرنے کی کوشش کی جائے تو یہ سینٹر لائپوفیٹ کے نارمل فنکشن کو ڈسٹرب کرتا ہے لہذاٰ فاقہ کشی کے اس عمل کے بعد یہ حصّہ لائپو اسٹیٹ ہائپر ایکٹیویٹی شروع کردیتا ہے ۔بھوک لگنے کا عمل بڑھ جاتا ہے۔جس سے وزن میں دوبارہ زیادتی شروع ہوجاتی ہے۔اس لئے وزن کم کرنے کا بہترین طریقہ اعتدال اور مستقل پن ہے جو رمضان کے ایک ماہ میں کامیابی سے حاصل ہوتا ہے۔
روزے کے دوران جسم کی فالتو جمع شدہ چربی کو کسی حد تک پگھلنے کا موقع ملتا ہے جو جسم میں Detoxification کا عمل بھی کرتی ہے۔اس عمل میں جسم کا زہریلا مواد تلف ہوتا ہے۔یہ عمل آنتوں،جگر،گردوں،پھیپھڑوں غدود اور جلد کے ذریعے جاری رہتا ہے۔انسانی چربی کا فی پاؤنڈ 3500 کیلوریز کے برابر ہے۔چربی کے یہ ذخائر اُس وقت بنتے ہیں جب خوراک کے ذریعے حاصل کی جانے والی اضافی کاربوہائیڈریٹ اور گلوکوز جسم کے روزمرّہ استعمال میں نہیں آتے۔جسم کے فاضل مادّے خارج ہونے کی بجائے چربی میں جمع ہوجاتے ہیں ۔روزے کے دوران انہی مادوں کا اخراج ہوتا ہے۔
روزے کے دوران جب نظامِ ہضم خالی رہتا ہے تو اس کے حصّے میں آنے والی عمومی توانائی یعنی انرجی جسم کے دیگر Reactions میں مصروف ہوجاتی ہے۔جیسا کہ قوت مدافعت کے نظام اور کیمیائی اعمال کے لئے انرجی زیادہ مقدار میں دستیاب ہوتی ہے۔
روزے کے دوران جسم کا مجموعی درجہء حرارت کم ہوجاتا ہے ۔جسم کا BMR بھی کم ہوجاتا ہے۔پروٹین کی زیادہ مقدار ہارمونز بننے کے عمل میں خرچ ہوتی ہے۔ماہرین کے مطابق روزے کے دوران ہیومن گروتھ ہارمون زیادہ مقدار میں خارج ہوتا ہے۔
طبّی ماہرین کے مطابق یہ بات بہت اہم ہے کہ باقاعدگی سے روزہ رکھنے والے افراد کی صحت بہتر اور عمر میں اضافہ ہوتا ہے۔
روزہ ڈائٹنگ یا بھوکا رہنے سے مختلف ہے کیونکہ روزے میں سحری اور افطاری میں پیٹ بھر کر کھانے سے کمزوری اور فاقہ نہیں ہوتا۔نہ ہی جسمانی ضرورت کی کیلوریز مکمل کم ہوجاتی ہیں۔
دماغ کے بڑے حصّے Hypothalamus کا ایک سینٹر Lipofat جو جسم میں Mass کو کنٹرول کرتا ہے ۔اگر فاقہ کشی کے ذریعے وزن کم کرنے کی کوشش کی جائے تو یہ سینٹر لائپوفیٹ کے نارمل فنکشن کو ڈسٹرب کرتا ہے لہذاٰ فاقہ کشی کے اس عمل کے بعد یہ حصّہ لائپو اسٹیٹ ہائپر ایکٹیویٹی شروع کردیتا ہے ۔بھوک لگنے کا عمل بڑھ جاتا ہے۔جس سے وزن میں دوبارہ زیادتی شروع ہوجاتی ہے۔اس لئے وزن کم کرنے کا بہترین طریقہ اعتدال اور مستقل پن ہے جو رمضان کے ایک ماہ میں کامیابی سے حاصل ہوتا ہے۔
٭۔کھجور
سے افطار اور جدید سائنس:۔۔
کھجور
ایسا بابرکت ، لذیز اور شیریں پھل ہے جو کثیر الغذا ، مولد خون، مقوہ باہ ، مولد
منی، مسمن بدن اور مقوی اعصاب ہے۔ جس کا قرآن کریم میں بیس سے زائد بار ذکر آیا۔
جب کہ یہ انبیاء اور صالحین کی پسندیدہ غذا رہی ہے۔ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم
نے کھجور کے پھل کو بے حد پسند فرمایا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم اس سے روزہ افطار
کرنے کو بھی پسند فرماتے۔ حضرت سلمان بن عامر ؓ کا بیان ہے کہ حضور نبی کریمِ ﷺ نے
فرمایا : ’’ جب تم میں سے کوئی روزہ افطار کرے تو کھجور پر افطار کرے کیونکہ وہ
برکت ہے اگر کھجور نہ پائے تو پانی سے افطار کریے کیونکہ پانی بھی بندے کو پاک
کرنیوالا ہے۔ ‘‘( سنن ابن ماجہ)
پاکستان
سمیت دنیا میں ۹۰ سے زائد کھجوروں کی اقسام ہیں۔
کھجور
کا استعمال طبِ نبوی صلی اللہ علیہ وسلم میں اہم ہے۔ عجوہ کھجور میں ہر بیماری کی
شفاء ہے۔ اس کو حضوراکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے بویا تھا۔ یہ خصوصیت صرف مدینہ کی
عجوہ کھجور کو حاصل ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ کھجور کا درخت اس مٹی
سے تخلیق کیا گیا جس سے حضرت آدم علیہ السلام پیدا ہوئے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے
فرمایا کہ ’’جس گھر میں کھجور نہ ہو وہ گھر والے بھوکے ہیں۔‘‘
رمضان
المبارک میں مسلمان مذہبی ذوق و شوق سے افطار کھجور کے ساتھ کرتے ہیں، جس سے انہیں
ثواب اور غذا و توانائی حاصل ہوتی ہے۔ کھجور کے درخت کو دیگر مذاہب میں بھی اہمیت
حاصل ہے۔ ہندو اسے پوجا کے طور پر استعمال کرتے تھے، عیسائیوں میں Palim Sunday تہوار بھی منایا جاتا ہے۔ قرآن کریم کے
ساتھ اس کا ذکر کثرت سے توریت اور انجیل میں بھی آیا ہے۔
کھجور
منہ کی بد بو دور کرتی ہے۔
کھجور کی غذائیت اس کے ہر ۱۰۰ گرام حصے میں اس طرح ہوتی ہے:
غذائیت:
نمی (پانی) 15.3%، پروٹین2.0%، روغن0.4%، ریشہ3.9%، نشاستہ75.8%، کلوریز317%
نمکیات اور وٹامن:
نمکیات 2.1% ، کیلشیم 120 ملی لیٹر، فاسفورس50%، فولاد7.3%، وٹامن سی3%، وٹامن بی0.5%۔
کھجور ایک بہترین غذا ہے جو کار بوہائیدریٹس ، معدنی نمکیات، وٹامنز اور غذائی ریشہ کا اچھا ذریعہ ہے۔ کیلشیم، میگنیشیم، پوٹاشیم اور غذائی ریشہ کی موجودگی کے باعث دل کے مریضوں کے لیے بہت مفید ہے۔ کھجور میں چکنائی نہ ہونے کے برابر ہے، جب کہ کولیسٹرول بھی نہیں ہے۔
کھجور کی غذائیت اس کے ہر ۱۰۰ گرام حصے میں اس طرح ہوتی ہے:
غذائیت:
نمی (پانی) 15.3%، پروٹین2.0%، روغن0.4%، ریشہ3.9%، نشاستہ75.8%، کلوریز317%
نمکیات اور وٹامن:
نمکیات 2.1% ، کیلشیم 120 ملی لیٹر، فاسفورس50%، فولاد7.3%، وٹامن سی3%، وٹامن بی0.5%۔
کھجور ایک بہترین غذا ہے جو کار بوہائیدریٹس ، معدنی نمکیات، وٹامنز اور غذائی ریشہ کا اچھا ذریعہ ہے۔ کیلشیم، میگنیشیم، پوٹاشیم اور غذائی ریشہ کی موجودگی کے باعث دل کے مریضوں کے لیے بہت مفید ہے۔ کھجور میں چکنائی نہ ہونے کے برابر ہے، جب کہ کولیسٹرول بھی نہیں ہے۔
کھجور
پیٹ کی تمام بیماریوں کے علاوہ امراض لقوہ، فالج میں بے حد مفید
ہے۔
جسے کھجور میسر ہو وہ اس سے روزہ افطار کرے جسے وہ نہ
ملے وہ پانی سے کھول لے کیونکہ وہ بھی پاک ہے۔ (النسائی)
روزے کے بعد توانائی کم ہوجاتی ہے اس لئے افطاری ایسی
چیز سے ہونی چاہئے جو زود ہضم اور مقوی ہو۔
کھجور کا کیمیائی تجزیہ
1.
پروٹین 2.4
2.
نشاشتہ 2.0
3.
کاربوہائیڈریٹس 24.0
4.
کیلوریز 2.0
5.
سوڈیم 4.7
6.
پوٹاشیم 754.0
7.
کیلشیم 67.9
8.
میگنیشیم 58.9
9.
کاپر 0.21
10.آئرن
1.61
11.
فاسفورس 638.0
12.سلفر
51.6
13.کلورین
290.0
اس کے علاوہ اور جوہر (Peroxides) بھی پایا جاتا ہے۔ صبح
سحری کے بعد شام تک کچھ کھایا پیا نہیں جاتا اور جسم کی کیلوریز (Calories) یا
حرارے مسلسل کم ہوتے رہتے ہیں اس کے لئے کھجور ایک ایسی معتدل اور جامع چیز ہے جس
سے حرارت اعتدال میں آجاتی ہے ار جسم گونا گوں امراض سے بچ جاتا ہے۔ اگر جسم کی
حرارت کو کنٹرول نہ کیا جائے تو مندرجہ ذیل امراض پیدا ہونے کے خطرات ہوتے ہیں۔
لو بلڈ پریشر (Low Blood Pressue) فالج (Paralysis) لقوہ (Facial Paralysis) اور
سر کا چکرانا وغیرہ۔
غذائیت کی کمی کی وجہ سے خون کی کمی کے مریضوں کے لئے
افطار کے وقت فولاد
(Iron) کی اشد ضرورت ہے اور وہ کھجور میں قدرتی
طور پر میسر ہے۔
بعض لوگوں کو خشکی ہوتی ہے ایسے لوگ جب روزہ رکھتے ہیں
تو ان کی خشکی بڑھ جاتی ہے اس کے لئے کھجور چونکہ معتدل ہے اس لئے وہ روزہ دار کے
حق میں مفید ہے۔
گرمیوں کے روزے میں روزہ دار کو چونکہ پیاس لگی ہوتی ہے
اور وہ افطار کے وقت اگر فوراً ٹھنڈا پانی پی لے تو معدے میں گیس، تبخیر اور جگر
کی ورم
(Liver Inflamation) کا سخت خطرہ ہوتا ہے اگر یہی روزہ دار
کھجور کھا کر پھر پانی پی لے تو بے شمار خطرات سے بچ جاتا ہے۔
٭۔کھجور سے افطار کی حکمت:۔۔
کھجور سے افطاری اس
نقاہت و کمزوری کو ختم کرنے میں معاون ثابت ہوتی ہے۔ کھجور میں موجود کیمیائی
اجزاء خون کے اجزاء میں توازن پیدا کردیتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ
وآلہ وسلم کھجور سے افطاری کا بطور خاص اہتمام کرتے۔ حضرت انس رضی اللہ عنہ روایت
کرتے ہیں:
کَانَ
النَّبِيُ صلی الله عليه وآله وسلم يُفْطِرُ قَبْلَ اَنْ يُصَلِّيَ عَلَی
رُطَبَاتٍ فَاِنْ لَمْ تَکُنْ رُطَبَاتٌ فَتُمَيْرَاتٌ فَاِنْ لَمْ تَکُنْ
تُمَيْرَاتٌ حَسَا حَسَوَاتٍ مِنْ مَاءٍ.
’’حضور نبی
اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم (مغرب کی) نماز سے پہلے چند تازہ کھجوروں سے روزہ
افطار فرماتے، اگر تازہ کھجوریں نہ ہوتیں تو خشک کھجور سے روزہ کھولتے، اگر یہ بھی
نہ ہوتیں تو پانی کے چند گھونٹ پی لیتے‘‘۔
(جامع
الترمذی فی السنن، کتاب الصوم، باب ماجاء ما يستحب عليه الافطار، ۳/۷۹، الرقم:۶۹۶)
کھجور سے افطاری جسمانی
نقاہت کو اس طرح دور کرتی ہے کہ جب بھوک بیدار ہوتی ہے تو کھانے کی خواہش سے ہی
منہ اور معدے میں مخصوص قسم کی رطوبات (Hunger Juice)
ٹپکنے لگتی ہیں۔ افطاری کے وقت جونہی افطار کا الارم ہوتا ہے یا اذان کی آواز آتی
ہے، اس کے ساتھ ہی منہ میں Hunger
Juice ٹپکنے شروع ہوجاتے ہیں جسے Conditioned Reflex کا نام دیا گیا ہے۔
معدہ میں زیادہ تر Hydrochloric Acid پائے جاتے ہیں۔ معدہ کا اصل کام کھائی گئی خوراک کو عارضی طور پر
کچھ عرصہ کے لئے روکے رکھنا یا ذخیرہ کرنا ہے۔ ہضم کا پورا عمل چھوٹی آنت میں
انجام پاتا ہے۔ معدہ خوراک کو روک کر تھوڑی تھوڑی مقدار میں آنتوں میں بھیجتا رہتا
ہے۔ اس انتظار کے دوران Hydrochloric
Acid نشاستہ والی غذائوں کو Glucose میں تبدیل
کردیتا ہے۔
کھجور سے افطاری کرنے
میں فلسفہ یہ ہے کہ افطاری کے لئے اذان سننے یا الارم کے ساتھ ہی منہ میں رطوبات
(لعاب دہن) جمع ہوجاتی ہیں۔ جب ہم کھجورسے افطاری کرتے ہیں تو چبانے کے دوران لعاب
دہن میں موجود ایک جوہر کھجور میں موجود چند اجزاء کو Glucose
میں تبدیل کردیتا ہے جس سے فوراً توانائی کی بحالی شروع ہوجاتی ہے۔
روزمرہ کی ضروریات کے
لئے خون میں گلوکوز کی ایک مقررہ مقدار گردش کرتی رہتی ہے۔ فاقہ یا روزہ کے دوران
خون میں 80 ملی گرام سے 120 ملی گرام گلوکوز ہمہ قت موجود رہتا ہے جبکہ کھانا
کھانے کے بعد یہ مقدار 120 ملی گرام سے 180 ملی گرام خون کے 100 ملی لیٹر میں پائی
جاتی ہے۔
خوراک میں مٹھاس کم ہوتو
یہ مقدار کم رہتی ہے۔ اگر بہت کم ہوجائے تو یہ صورت حال Hypoglycaemiaکہلاتی ہے۔ جس میں ٹھنڈے
پسینے آتے اور دل ڈوبنے لگتا ہے۔
٭۔کھجور۔ ۔ ۔ ایک صحت بخش غذا بھی،
دوا بھی:۔
خالقِ کائنات نے انسان کے لئے اس دنیا
میں انواع و قسام کی نعمتوں کو عام کیا ہے۔ ۔ ان میں سے ایک بڑی نعمت کھجور ہے جو
نبی علیہ السلام کی من پسند غذا تھی۔ ۔۔
حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ سے
روایت ہے کہ ہم میں سے کچھ لوگ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں بیٹھے
تھے۔ ۔ کہ کھجور کا گھابھا آیا۔ ۔ آپ نے ہم سے فرمایا۔ ۔ "درختوں میں سے ایک
درخت ایسا ہے جسے اللہ تعالٰی نے ایسی برکت دی ہے جیسے وہ مسلمان ہے۔" میں نے
گمان کیا کہ آپﷺ کی مراد کھجور کے درخت سے ہے۔ اور میرا ارادہ ہوا کہ میں جواب میں
عرض کروں کہ یا رسول اللہ ﷺ یہ درخت کھجور کا ہے مگر مجبوراً اس لئے چپ رہا کہ
اتنے لوگوں میں سب سے چھوٹا تھا۔ ۔۔ پھر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے خود ہی
ارشاد فرمایا کہ "وہ درخت کھجور کا ہے۔۔"
(بخاری و مسلم شریف)
(بخاری و مسلم شریف)
ایسی کونسی چیز کھجور کے اندر ہے جس
سے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم ایک کھجور اور اس کی گھٹلی پر سارا دن گزار دیتے تھے۔
۔ ۔ کھجور کو اگر طبعی طور پر دیکھا جائے تو اس کے سینکڑوں فوائد سامنے آتے ہیں۔ ۔
۔
٭۔کھجور سے روزہ
افطاری سنت رسولﷺ ہے۔ ۔
مسلمانوں کو کھجور سے روزہ افطار کی ہدایت فرمائی گئی ہے۔ ۔ لیکن کیا آپ نے کبھی سوچا دن بھر بھوک اور پیاس کی مشقت برداشت کرنے کے بعد روزہ دار کو کھجور ہی سے روزہ افطار کرنے کی ترغیب کیوں دی گئی ہے۔ ۔ ۔؟ دراصل روزہ رکھنے کی وجہ سے جسمانی قوتوں میں کمی پیدا ہو جاتی ہے۔ ۔ ۔ دوسرے، دن بھر کچھ نہ کھانے کی وجہ سے معدے میں تیزابی رطوبتیں اکٹھی ہو جاتی ہیں۔ ۔ ۔ اس لئے افطار ایسی شے سے کرنا چاہیے جو ان دو کیفیات میں مفید ثابت ہوں۔ ۔ ۔ کھجور میں قدرت نے ایسے اہم غذائی اجزاء شامل کر دیئے ہیں جن کی ہمارے جسم کو ضرورت ہوتی ہے۔ ۔ دوسری اہم بات یہ ہے کہ کھجور میں پائے جانے والے نمکیات اور معدنیات معدہ کی بڑھی ہوئی تیزابیت کو اعتدال میں لے آتے ہیں۔ ۔ ۔ اسکے علاوہ ان کی وجہ سے معدہ اور آنتوں پر مسکن (سکون دینے والے) اثرات مرتب ہوتے ہیں۔ ۔ خاص طور پر وہ افراد جو زخم معدہ (السر) کے مریض ہوں، ان کے لئے تو ایسے عالم میں کھجور بے حد مفید ثابت ہوتی ہے۔ ۔۔
مسلمانوں کو کھجور سے روزہ افطار کی ہدایت فرمائی گئی ہے۔ ۔ لیکن کیا آپ نے کبھی سوچا دن بھر بھوک اور پیاس کی مشقت برداشت کرنے کے بعد روزہ دار کو کھجور ہی سے روزہ افطار کرنے کی ترغیب کیوں دی گئی ہے۔ ۔ ۔؟ دراصل روزہ رکھنے کی وجہ سے جسمانی قوتوں میں کمی پیدا ہو جاتی ہے۔ ۔ ۔ دوسرے، دن بھر کچھ نہ کھانے کی وجہ سے معدے میں تیزابی رطوبتیں اکٹھی ہو جاتی ہیں۔ ۔ ۔ اس لئے افطار ایسی شے سے کرنا چاہیے جو ان دو کیفیات میں مفید ثابت ہوں۔ ۔ ۔ کھجور میں قدرت نے ایسے اہم غذائی اجزاء شامل کر دیئے ہیں جن کی ہمارے جسم کو ضرورت ہوتی ہے۔ ۔ دوسری اہم بات یہ ہے کہ کھجور میں پائے جانے والے نمکیات اور معدنیات معدہ کی بڑھی ہوئی تیزابیت کو اعتدال میں لے آتے ہیں۔ ۔ ۔ اسکے علاوہ ان کی وجہ سے معدہ اور آنتوں پر مسکن (سکون دینے والے) اثرات مرتب ہوتے ہیں۔ ۔ خاص طور پر وہ افراد جو زخم معدہ (السر) کے مریض ہوں، ان کے لئے تو ایسے عالم میں کھجور بے حد مفید ثابت ہوتی ہے۔ ۔۔
اسی طرح یہ بات واضح ہے کہ کھجور سے
روزہ افطار، نہ صرف باعث ثواب ہے بلکہ طبی اعتبار سے بھی نہایت اہمیت کا حامل ہے۔
۔۔ کھجور صرف روزہ افطار کرنے کی صورت میں ہی مفید نہیں۔ بلکہ اس کے اور بہت سے
فوائد ہیں۔ ۔ غذائیت کے لحاظ سے یہ ایک بہترین اور مقوی غذا ہے۔ ۔ چند ہی چیزیں
ایسی ہوں گی جو کم مقدار کے باوجود جسم کو قوت حرارت فراہم کرنے میں کھجور کے ہم
پلّہ ہوں گی۔ ۔ لیکن کھجور کو اس اعتبار سے برتری حاصل ہے کہ یہ بہت جلد ہضم ہو
جاتی ہے۔ ۔ کھجور کی غذائی اہمیت کا اندازہ اس سے ہو سکتا ہے کہ کھجور میں فولاد
کی مقدار 6ء20 فیصد ہوتی ہے۔ ۔ جبکہ پالک میں یہ مقدار 0ء5 فیصد ہوتی ہے۔ ۔ سیب
میں 7ء1 فیصد، امرود میں ایک فی صد اور انار میں 3ء0 فی صد ہوتی ہے۔ ۔
اسکے علاوہ وٹامن اے، بی اور سی بھی مناسب مقدار میں پائے جاتے ہیں۔ ۔ پوٹاشیم، میگنیشیم، تانبا، جست، آرسینگ اور آیوڈین جیسے اہم عناصر بھی موجود ہیں۔ ۔ ۔
یہی وجہ ہے کہ کھجور کو خون پیدا کرنے کا خزانہ کہا گیا ہے۔ ۔ ۔
اسکے علاوہ وٹامن اے، بی اور سی بھی مناسب مقدار میں پائے جاتے ہیں۔ ۔ پوٹاشیم، میگنیشیم، تانبا، جست، آرسینگ اور آیوڈین جیسے اہم عناصر بھی موجود ہیں۔ ۔ ۔
یہی وجہ ہے کہ کھجور کو خون پیدا کرنے کا خزانہ کہا گیا ہے۔ ۔ ۔
حضرت عمامہ بن سعد رضی اللہ عنہ بن
ابی وقاص اپنے والد سے روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ فرمایا کرتے تھے۔ ۔ "جس
نے صبح اٹھتے ہی عجوہ کھجور کے سات دانے کھا لئے اس دن اسے جادو اور زہر بھی نقصان
نہ دے سکیں گے۔ ۔"
(مسلم، بخاری، ابو داؤد)
رسول اللہ ﷺ نے فرمایا۔ "جس گھر میں چھوہارے نہ ہوں اس گھر کے لوگ بھوکے ہیں۔" (مسلم)۔
(مسلم، بخاری، ابو داؤد)
رسول اللہ ﷺ نے فرمایا۔ "جس گھر میں چھوہارے نہ ہوں اس گھر کے لوگ بھوکے ہیں۔" (مسلم)۔
عجوہ کھجور درمیانے سائز اور سیاہی
مائل رنگت کی اور ذائقے میں بے حد لذیذ ہوتی ہے۔ ۔
حضور پاک صلی اللہ علیہ وسلم خربوزہ اور کھجور، ککڑی اور کھجور، تربوز اور کھجور اور کھجور اور مکھن ملا کر کھایا کرتے تھے۔ ۔ ۔
حضور پاک صلی اللہ علیہ وسلم خربوزہ اور کھجور، ککڑی اور کھجور، تربوز اور کھجور اور کھجور اور مکھن ملا کر کھایا کرتے تھے۔ ۔ ۔
کھجور کے بارے میں جدید تحقیق سے یہ
بات ثابت ہوگئی ہے کہ کھجور میں زہر کو بے ضرر بنانے کی خاصیت موجود ہے۔ ۔ وہ زہر
کو ایسی کیمیائی شکل دے دیتی ہے جو جسم کے لئے نقصان دہ نہیں ہوتی۔ ۔ ساتھ ہی یہ
جسم میں ایسا ماحول بھی پیدا کرتی ہے جس سے زہر کے خلاف جسم میں مدافعت کی قوت بڑھ
جاتی ہے۔ ۔ ۔
فوائد:
*کھجور بلغم اور سردی کے اثر سے پیدا ہونے والی بیماریوں میں
کھانا مفید ہے۔ ۔
*کھجور مقوی دماغ ہے یادداشت بڑھاتی ہے۔ ۔
*اسہال بند کرتا ہے اور حرارت کو تسکین دیتا ہے۔ ۔
*دانتوں کی کمزوری اور درد کو تسکین دیتی ہے اور پائیوریا کو دفع کرتی ہے۔ ۔
*کھجور کے استعمال کا ایک فائدہ یہ ہے کہ اس طرح خون میں کولیسٹرول کی مقدار نہیں بڑھتی۔ ۔
*دماغ کے کام کرنے والوں کے لئے کھجور ایک بے نظیر تحفہ ہے۔ ۔ اس میں موجود لحمیات، حیاتین اور معدنی نمکیات دماغ اور اعصاب کو طاقت بخشتے ہیں۔ ۔
*اس کے متواتر استعمال سے نسیان (بھولنے کی بیماری) سے بھی نجات مل جاتی ہے۔ ۔
*حاملہ عورتوں کے لئے سود مند ہے۔ ۔
*کجھور بلغم کو خارج کرکے کھانسی میں فائدہ پہنچاتی ہے۔ ۔
*اس کے استعمال سے کمر اور گردوں کو تقویت ملتی ہے۔ ۔
*کھجور مقوی دماغ ہے یادداشت بڑھاتی ہے۔ ۔
*اسہال بند کرتا ہے اور حرارت کو تسکین دیتا ہے۔ ۔
*دانتوں کی کمزوری اور درد کو تسکین دیتی ہے اور پائیوریا کو دفع کرتی ہے۔ ۔
*کھجور کے استعمال کا ایک فائدہ یہ ہے کہ اس طرح خون میں کولیسٹرول کی مقدار نہیں بڑھتی۔ ۔
*دماغ کے کام کرنے والوں کے لئے کھجور ایک بے نظیر تحفہ ہے۔ ۔ اس میں موجود لحمیات، حیاتین اور معدنی نمکیات دماغ اور اعصاب کو طاقت بخشتے ہیں۔ ۔
*اس کے متواتر استعمال سے نسیان (بھولنے کی بیماری) سے بھی نجات مل جاتی ہے۔ ۔
*حاملہ عورتوں کے لئے سود مند ہے۔ ۔
*کجھور بلغم کو خارج کرکے کھانسی میں فائدہ پہنچاتی ہے۔ ۔
*اس کے استعمال سے کمر اور گردوں کو تقویت ملتی ہے۔ ۔
٭۔پانی سے افطاری کی حکمت:۔۔
احادیث مبارکہ کی روشنی
میں افطاری کے لئے جن افضل چیزوں کا ذکر آیا ہے ان میں کھجور اور پانی سرفہرست
ہیں۔
اللہ رب العزت نے زندگی
کو زمین پر پانی سے نمودیا۔ ارشاد فرمایا:
وَجَعَلْنَا
مِنَ الْمَآءِ کُلَّ شَيْئٍ حَیٍّ اَفَـلَا يُؤْمِنُوْنَ.
(الانبياء:۳۰)
’’اور ہم
نے (زمین پر) پیکرِ حیات (کی زندگی) کی نمود پانی سے کی، تو کیا وہ (قرآن کے بیان
کردہ اِن حقائق سے آگاہ ہو کر بھی) ایمان نہیں لاتے‘‘۔
اس کرہ ارض پہ جتنے بھی
جاندار ہیں ان کی زندگی پانی سے ہے۔ جسم انسانی میں پانی کثیر مقدار میں موجود ہے
مگر جسم انسانی سے اپنی اصلی ہیئت میں پانی کہیں سے بھی برآمد نہیں ہوتا بلکہ یہ
نامیاتی مرکب کی صورت میں ہوتا ہے۔ جس طرح خون کا 95 فیصد حصہ پانی پر مشتمل ہوتا
ہے لیکن اس کے ساتھ لحمیات خون کے خلیات اور نمکیات ہوتے ہیں۔ اس طرح لعاب دہن،
آنسو اور معدہ کی رطوبات سبھی پانی ہی ہوتے ہیں۔ پسینہ اور دیگر خارج ہونے والی
چیزوں کے ذریعے پانی کی کثیر مقدار جسم سے نکل جاتی ہے۔ ضرورت اس بات کی رہتی ہے
کہ جسم میںپانی کی آمد و رفت کے درمیان ایک باقاعدہ تناسب موجود رہے۔ اگر کسی
بیماری، پانی کی کم فراہمی یا عدم دستیابی کے باعث جسم میں پانی کی کمی (Dihydration) ہوجائے تو خون گاڑھا اور پیشاب کا اخراج کم یا مفقود ہوجاتا ہے۔
اس طرح گردوں میں ورم کے
باعث یوریا (Urea) کریٹانین (Creatanin) جیسے زہریلے اجزاء خون میں شامل ہوکر تمام جسم میں سرایت کرجاتے
ہیں جس سے بہت سی پیچیدگیاں پیدا ہوجاتیں اور زندگی خطرے میں پڑجاتی ہے۔
پانی کی کمی سے خون
گاڑھا ہوجاتا ہے اور دل اسے پمپ کرکے دوران خون جاری رکھنے کے قابل نہیںہوتا اور
یہ گاڑھا خون شریانوں میں کبھی داخل نہیں ہوسکتا۔ نتیجتاً ہمارے جسم کا نظامِ
دوران خون مکمل نہیں ہوسکتا۔ وہ شریانیں جس کے ذریعے دل پورے جسم میں خون بھجواتا
ہے، ان کا جسم میں ایک وسیع و پیچیدہ جال (Net Work) ہے۔ ایک
تخمینہ کے مطابق ایک انسان کے جسم میں پانچ ارب عروق شعریہ ہوتی ہیں۔ اگر ان کی
لمبائی جمع کی جائے تو ان کی کل طوالت تقریباً 950 کلومیٹر ہوگی۔ کیونکہ خون کو ان
بال سے باریک رگوں میں سے گزرنا ہوتا ہے۔ گاڑھا ہونے کی صورت میں نظام دوران خون
مکمل طور پر ناکارہ ہوجاتا ہے۔
روزوں کے دوران جسم میں
عام دنوں کی نسبت پانی کی کم مقدار داخل ہونے سے خون میں گاڑھا پن آجانا فطری ہے
اور بعض اوقات کمزور اشخاص کو دل کے بھی جھٹکے محسوس ہونے لگتے ہیں۔ ایسی حالت میں
پانی سے افطاری کرنے سے یہ کیفیت پیدا نہیں ہوتی۔ جب روزہ دار پانی سے افطاری کرتا
ہے تو منہ کی خشکی دور ہوگی، پیاس کی شدت میں کمی محسوس ہوگی اور فوراً بعد ہی اسے
Vitality محسوس ہوگی۔
روزہ کی حالت میں دن بھر
پانی استعمال نہ ہونے اور پسینہ وپیشاب وغیرہ کے اخراج سے جسم میں پانی کی یہ کمی
امراض گردہ یا امراض جگر پیدا کردیتی ہے اور بعض اوقات پانی کی یہ کمی موت کا سبب
بھی بن جاتی ہے۔ پانی سے افطاری کی وجہ سے پانی کی مذکورہ کمی دور ہوکر جسم میں
نئی زندگی کی لہر پیدا ہوجاتی ہے۔ احتیاط رہے کہ پانی کو گھونٹ گھونٹ کرکے پیا
جائے۔ ایک ہی سانس میں پانی پینے میں خرابیاں ہیں۔
اللہ
تعاليٰ نے روزہ کی شکل میں مسلمانوں کو جو نعمت عطا فرمائی ہے اصل میں یہ سال بھر
کے لئے جسم انسانی کے لئے ٹیوننگ کا کام دیتی ہے۔ جس طرح ہم اپنے زیر استعمال
گاڑیوں، موٹر سائیکلوں کی ایک مقررہ مدت کے بعد ٹیوننگ کرواتے ہیں تاکہ گاڑی کے
تمام پرزے صحیح کام کرتے رہیں۔ اس طرح اللہ نے روزوں کے ذریعے بھی اس قدرتی ٹیوننگ
کا اہتمام کیا ہے۔ نیز اس ٹیوننگ کے دوران بھی ہمیں اعضائے جسم کے لئے جن مفید
اشیاء (کھجور/پانی) کی طرف متوجہ کیا وہ بھی اپنے اندر صحت اور تندرستی کا ایک
خزانہ لئے ہوئے ہے۔ افطاری کے لئے جن اشیاء کو اولیت اور فوقیت حاصل ہے طبی لحاظ
سے وہی صحت کے لئے مفید ہیں۔
٭۔پانی کب اور کتنا لیں؟
سحری میں liquid کم لیں کیونکی اس کی وجہ سے پیشاب بہیت آنے کی وجہ سے نمکیات ضا ئع ہو جا تے ہیں ۔پانی پینے کابہترین وقت
یہ ہے کہ نوافل اور سونے کے دوران دس گلاس پانی لے لیں تاکہ پانی کی کمی نہ ہو۔
سحری میں liquid کم لیں کیونکی اس کی وجہ سے پیشاب بہیت آنے کی وجہ سے نمکیات ضا ئع ہو جا تے ہیں ۔پانی پینے کابہترین وقت
یہ ہے کہ نوافل اور سونے کے دوران دس گلاس پانی لے لیں تاکہ پانی کی کمی نہ ہو۔
٭۔حالت روزہ میں کمزوری کیوں؟
دن بھر روزہ گزار لینے
کے بعد افطاری سے کچھ دیر قبل عموماً جسم میں ہلکی سی نقاہت (Weekness) کا احساس ہوتا ہے۔ ایسا کیوں ہوتا ہے؟ آیئے اس کا جائزہ لیتے
ہیں۔
- روزہ دار کے خون میں پوٹاشیم کی پیداوار میں اضافہ ہوجاتا ہے اور پوٹاشیم کی زیادتی، کمزوری اور سستی کا موجب بنتی ہے۔
- خون میں شکر کی سطح (Blood Sugar Level) کے تناسب میں قدرے کمی کی وجہ سے تھکن اور کمزوری محسوس ہوتی ہے۔ روزہ کی حالت میں اس کمزوری کا سبب خون کے خلیات کی توڑ پھوڑ یا شکستگی نہیں بلکہ اسکا اصل سبب پوٹاشیم کی زیادتی اور خون میں شکر کی سطح کا نارمل سے کم ہوجانا ہے۔
خوراک میں مٹھاس کم ہو
تو یہ مقدار کم رہتی ہے اور اگر انتہائی کم ہوجائے تو یہ صورت حال (Hypoglycaemia) کہلاتی ہے جس میں ٹھنڈے پسینے آتے اور دل ڈوبنے لگتا ہے۔
٭۔روزہ اور غیر مسلموں کے انکشافات :۔
اسلام نے روزہ کو مومن کے لئے شفاقرار دیا اور جب سائنس
نے اس پر تحقیق کی تو سائنسی ترقی چونک اٹھی اور اقرار کیا کہ اسلام ایک کامل مذہب
ہے ۔-فرانس ميں آج بھي يہودي ايک پروجيکٹ کے تحت کام کر رہے ہيں جس کا کام يہ
تحقيق کرنا ہے کہ اسلام کے اندر کيا کيا اچھائياں ہيں تو ہم بن کہے اسلام قبول
کرليں گے چنانچہ اس پر عمل کرتے ہوئے يہودي باقاعدہ مہينہ بھر روزہ رکھتے ہيں
مسواک کرتے ہيں وضو کرتے ہيں نماز اور تلاوت کي پابندي کرتے ہيں باقاعدہ اعتکاف
ميں بيٹھتے ہيں سحري وافطاري کرتے ہيں اور عيد کي نماز بھي پڑھتے ہيں –
مغربي ماہرين سائنس ، ماہرين طب اور ماہرين نفسيات نے
مل کر اسلامي زندگي پر تحقيق اور ريسرچ کا نيا ياب کھولا ہے کيونکہ مغرب موجودہ
طرز زندگي سے تنگ ہے اور اس وقت سب سے زيادہ خودکشي ، عصمت دري ، ہم جنس پرستي ،
اغواء، قتل ، انتقامي کاروائياں ، بم دھماکے ، اجتماعي قتل ، ناجائز اولاد ،
طلاقيں وغيرہ جيسے مہلک خطرناک اور دنيا کو تباہي کے گڑھے ميں ڈالنے و الے حادثات
کي طرف يورپ اور مغربي معاشرہ گامزن ہے اب وہ اس دلدل سے نکلنا چاہتے ہيں وہ بخوبي
سمجھنے لگے ہيں کہ ان تمام سے نجات کا واحد راستہ صرف اور صرف اسلام ہي ہے -
مستشرقين
اس وقت اسلامي تعليمات کو کھنگال کر ان ميں اپنے لئے اصلاحي راستے اور ترقي کي
راہيں تلاش کر رہے ہيں آج يورپ پھر پھرا کر واپس اسلام کي طرف لوٹ رہا ہے اور ہم
ہيں کہ يورپ کي تقليد ميں اندھے دوڑے چلے جار ہے ہيں - روزہ کے بارے ميں يورپي
ماہرين آج بھي تحقيق کر رہے ہيں حتيٰ کي وہ اس بات کو تسليم کر چکے ہيں کہ روزہ
جہاں جسماني زندگي کو نئي روح اور توانائي بخشتا ہے وہاں اس سے بے شمار معاشي
پريشانےاں بھي دور ہوتي ہيں کيونکہ جب امراض کم ہوں گے تو ہسپتال بھي کم ہوں گے
اور ہسپتال کا کم ہونا ہي معاشرہ کے پر سکو ن ہونے کي علامت ہے-
٭۔مشہور فلاسفر سقراط:
جس کا زمانہ 470 سال قبل مسیح ہے جب
اسے کسی اہم موضوع پر غوروفکر کرنا ہوتا تو وہ دس دن روزے رکھ لیتا تھا ۔
٭۔ بقراط :
کو اس حیثیت سے اولیت حاصل ہے کہ اس
نے روزہ کے طبی فوائد پر سیرحاصل بحث کی ہے‘ لہٰذا اپنی تحقیق کے پیش نظر وہ
مریضوں کو روزہ رکھنے کی ہدایت کرتا اور کہا کرتا تھا کہ ہر انسان کے اندر ایک
ڈاکٹر ہے اور یہ ضروری ہے کہ ہم اپنے اندرونی ڈاکٹر کی معاونت کریں تاکہ وہ کماحقہ
اپنی ڈیوٹی انجام دےسکے
٭۔سکند اعظم اور ارسطو:
دونوں یونانی لیڈر اپنے فیلڈ کے ماہر ہیں ،انہوں نے فاقہ اور پھر سلسل فاقہ کو جسم کی توانائی کے لئے ضروری قرار دیا ہے.
سکندر اعظم کہتا ہے کہ میری زندگی مسلسل تجربات اور حوادث میں گزری ہے جو آدمی صبح وشام کھانے پر اکتفا کرتا ہے وہی ایسی زندگی گزارسکتا ہے جس میں کسی قسم کی لچک نہ ہو.
میں نے ہندوستانی سر زمین پر گرمی کے ایسے خطے پائے ہیں جہاں سبزہ جل گیا تھا لیکن وہیں میں صبح وشام تک کچھ نہ کھایا نہ پیا تو میں نے اپنے اندر ایک تازگی اور توانئی محسوس کی .( سکندر اعظم محفوظ الرحمٰن اختر دہلوی)
٭۔چندر گپت موریہ اور چانکیہ جی مہاراج:
چندر گپت موریہ کے وزیر با تدبیر چانکیہ جس کی مشہور تصنیف "ارتھ شاشتر " میں اس کا قول ہے کہ "میں نے بھوکا رہ کر جینا سیکھا ہے اور بھوکا رہ کر اڑنا سیکھا ہے .میں نے د شمنوں کی تدبیروں کو بھوکے پیٹ سے الٹا کیا ہے. (سکندر اعظم)
٭۔گاندھی جی کی خواہش:
گاندھی جی کے فاقے مشہور ہیں . فیروز راز نے گاندھی جی کی زندگی کے حالات میں یہ بات لکھی ہے کہ گاندھی جی روزے کے قائل تھے .
"کہا کرتے تھے کہ انسان کھا کھا کر اپنے جسم کو سست کر لیتا ہے اور کاہل ،کسل مند نہ دنیا کا اور نہ ہی مہاراج کا .
اگر تم جسم کو گرم اور متحرک رکھنا چاہتے ہو تو جسم کو کم ازکم خوراک دو، اور روزے رکھو سارا دن جاپ الاپو اور پھر شام کو بکری کے دودھ سے روزہ کھولو.
دونوں یونانی لیڈر اپنے فیلڈ کے ماہر ہیں ،انہوں نے فاقہ اور پھر سلسل فاقہ کو جسم کی توانائی کے لئے ضروری قرار دیا ہے.
سکندر اعظم کہتا ہے کہ میری زندگی مسلسل تجربات اور حوادث میں گزری ہے جو آدمی صبح وشام کھانے پر اکتفا کرتا ہے وہی ایسی زندگی گزارسکتا ہے جس میں کسی قسم کی لچک نہ ہو.
میں نے ہندوستانی سر زمین پر گرمی کے ایسے خطے پائے ہیں جہاں سبزہ جل گیا تھا لیکن وہیں میں صبح وشام تک کچھ نہ کھایا نہ پیا تو میں نے اپنے اندر ایک تازگی اور توانئی محسوس کی .( سکندر اعظم محفوظ الرحمٰن اختر دہلوی)
٭۔چندر گپت موریہ اور چانکیہ جی مہاراج:
چندر گپت موریہ کے وزیر با تدبیر چانکیہ جس کی مشہور تصنیف "ارتھ شاشتر " میں اس کا قول ہے کہ "میں نے بھوکا رہ کر جینا سیکھا ہے اور بھوکا رہ کر اڑنا سیکھا ہے .میں نے د شمنوں کی تدبیروں کو بھوکے پیٹ سے الٹا کیا ہے. (سکندر اعظم)
٭۔گاندھی جی کی خواہش:
گاندھی جی کے فاقے مشہور ہیں . فیروز راز نے گاندھی جی کی زندگی کے حالات میں یہ بات لکھی ہے کہ گاندھی جی روزے کے قائل تھے .
"کہا کرتے تھے کہ انسان کھا کھا کر اپنے جسم کو سست کر لیتا ہے اور کاہل ،کسل مند نہ دنیا کا اور نہ ہی مہاراج کا .
اگر تم جسم کو گرم اور متحرک رکھنا چاہتے ہو تو جسم کو کم ازکم خوراک دو، اور روزے رکھو سارا دن جاپ الاپو اور پھر شام کو بکری کے دودھ سے روزہ کھولو.
( داستان گاندھی .خاص نمبر رسالہ دہلی)
٭۔روسی ماہر الابدان پروفیسری این نکٹین:
اپنی طبوی عمر کے راز سے
متعلق کہتے ہیں : “تین اصؤل
زندگی میں اپنا لیے جائیں تو بدن کے زہریلے
مواد خارج ہو کر
بڑھاپا روک دیتے ہیں ،اول خوب محںت کیا کرو۔۔۔ دوم کافی
ورزش کیا کرو بالخصوص زیادہ چلنا پھرنا چاہیے ،سوم
غذا جو تم پسند کرتے ہو کھایا کرو لیکن ہر مہینہ
میں کم از کم ایک مرتبہ فاقہ ضرور کیا کرو ۔”
٭…آکسفورڈیونیورسٹی کے مشہور پروفیسر مورپالڈ:
اپنا قصہ اس طرح بیان
کرتے ہیں کہ میں نے اسلامی علوم کا مطالعہ کیا اور جب روزے کے باب پر پہنچا تو میں
چونک پڑا کہ اسلام نے اپنے ماننے والوں کو اتنا عظیم فارمولہ دیا ہے اگر اسلام
اپنے ماننے والوں کو اور کچھ نہ دیتا صرف روزے کا فارمولہ ہی دے دیتا تو پھر بھی
اس سے بڑھ کر ان کے پاس اورکوئی نعمت نہ ہوتی میں نے سوچا کہ اس کو آزمانا چاہئے
پھر میں نے روزے مسلمانو ں کے طرز پر رکھنا شروع کئے میں عرصہ دراز سے ورم معدہ (Stomach
Inflammation)میں مبتلا تھا کچھ دنوں بعد ہی میں نے
محسوس کیا کہ اس میں کمی واقعی ہو گئی ہے میں نے روزوں کی مشق جاری رکھی کچھ عرصہ
بعد ہی میں نے اپنے جسم کو نارمل پایا اور ایک ماہ بعد اپنے اندر انقلابی تبدیلی
محسوس کی ۔(رسالہ نئی دنیا)
٭…
پوپ ایلف گال کا تجربہ:
(P E G S A Analysis)
(P E G S A Analysis)
ہالینڈ کے
سب سے بڑے پادری گذرے ہیں روزے کے متعلق اپنے تجربات کچھ اس طرح بیان کرتے ہیں کہ
میں اپنے روحانی پیروکاروں کو ہر ماہ تین روزے رکھنے کی تلقین کرتا ہوں میں نے اس
طریقہ کار کے ذریعے جسمانی اور وزنی ہم آہنگی محسوس کی میرے مریض مسلسل مجھ پر زور
دیتے ہیں کہ میں انہیں کچھ اور طریقہ بتاؤں لیکن میں نے یہ اصول وضع کر لیا ہے کہ
ان میں وہ مریض جو لا علاج ہیں ان کو تین روز کے نہیں بلکہ ایک مہینہ تک روزے
رکھوائے جائیں ۔میں نے شوگر'دل کے امراض اور معدہ میں مبتلا مریضوں کو مستقل ایک
مہینہ تک روزہ رکھوائے ۔شوگرکے مریضوں کی حالت بہتر ہوئی ا ن کی شوگر کنٹرول ہو
گئی ۔دل کے مریضوں کی بے چینی اور سانس کا پھولنا کم ہوگیا سب سے زیادہ افاقہ معدہ
کے مریضوں کو ہوا ۔
٭…فارما
کولوجی کے ماہر ڈاکٹر لوتھر جیم:
نے روزے دار شخص کے معدے
کی رطوبت لی اور پھر اس کا لیبارٹری ٹیسٹ کروایا اس میں انہوں نے محسوس کیا کہ وہ
غذائی متعفن اجزا(food
particles septic)جس سے معدہ تیزی سے امراض قبول کرتا
ہے بالکل ختم ہو جاتے ہیں ڈاکٹر لوتھر کا کہنا ہے کہ روزہ جسم اور خاص طور معدے کے
امراض میں صحت کی ضمانت ہے ۔
٭…مشہور
ماہر نفسیات سگمنڈ فرائیڈ:
فاقہ اور روزے کا قائل
تھا اس کا کہنا ہے کہ روزہ سے دماغی اور نفسیاتی امراض کا مکمل خاتمہ ہو جاتا ہے
روزہ دار آدمی کا جسم مسلسل بیرونی دباؤکو قبول کرنے کی صلاحیت پالیتا ہے روزہ دار
کو جسمانی کھینچاؤ اور ذہنی تناؤسے سامنا نہیں پڑتا۔
٭۔شگمنڈ ٹرائیڈ:۔
مشہور ماہر نفسیات ہے اور اسکی تھیوری نفسیاتی ماہرین (Pisycologist) کے لئے نشانِ راہ ہے . موصوف فاقہ اور روزے کا قائل تھا اس کا کہنا ہے کہ روزے سے دماغی اور نفسیاتی ( Mental And Psycological) امراض کا کلی خاتمہ ہوتا ہے جسم انسانی میں مختلف ادوارآتے ہیں لیکن روزہ دارآدمی کا جسم مسلسل بیرونی دباؤ کو قبول کرنے کی صلاحیت پالیتا ہے .روزہ دار کو جسمانی کھنچاؤ اور ذہنی ڈپریشن سے سامنا نہیں ہوتا
مشہور ماہر نفسیات ہے اور اسکی تھیوری نفسیاتی ماہرین (Pisycologist) کے لئے نشانِ راہ ہے . موصوف فاقہ اور روزے کا قائل تھا اس کا کہنا ہے کہ روزے سے دماغی اور نفسیاتی ( Mental And Psycological) امراض کا کلی خاتمہ ہوتا ہے جسم انسانی میں مختلف ادوارآتے ہیں لیکن روزہ دارآدمی کا جسم مسلسل بیرونی دباؤ کو قبول کرنے کی صلاحیت پالیتا ہے .روزہ دار کو جسمانی کھنچاؤ اور ذہنی ڈپریشن سے سامنا نہیں ہوتا
.
٭۔ ڈاکٹر Razeen Mahrof :۔۔
٭۔ ڈاکٹر Razeen Mahrof :۔۔
جو آکسفورڈمیں Anesthetistہیں‘کہتے
ہیں کہ غذا اور صحت کا تعلق بہت مضبوط ہے۔ گو کہ رمضان وزن کم کرنے والوں کے لئے
ایک زبردست
Opportunity ہے لیکن اس سے کہیں زیادہ اس کے روحانی فائدے
ہیں۔ بیک وقت ہم جسمانی اور روحانی فائدے حاصل کر سکتے ہیں۔
۔ سویڈن کے ریسرچ اسکالرز :۔
کہتے ہیں کہ روزہ رکھنے سے ایسے افراد کی جماعت جو
تھوڑے فربہی مائل ہوں، کم ہونے لگتی ہیں، جب کہ جو افراد دبلے پتلے ہوں ان کی صحت
میں اضافہ ہونے لگتا ہے۔
٭۔”الکسی سوفرین“ ایک روسی دانشور لکھتا ہے:
روزہ ان بیماریوں کے علاج کے لئے خاص طور پر مفید ہے: خون کی کمی، انتڑیوں کی کمزوری، التہاب زائدہ (Appendicitis) اندرونی اور بیرونی قدیم پھوڑے، تپ دق (T.B) اسکلیروز، نقرس، استسقاء،(جلندر کی بیماری جس میں بہت زیادہ پیاس لگتی ہے اور پیٹ دن بدن بڑھتا جاتا ہے) جوڑوں کا درد، نور استنی، عرق النساء (چڈوں سے ٹخنوں تک پہنچنے والا درد)، خزاز (جلد کا گرنا) امراض چشم، شوگر، امراض جلد، امراض جگر اور دیگر بیماریاں ۔ امساک اور روز ہ کے ذریعہ علاج صرف مندرجہ بالا بیماریوں سے مخصوص نہیں ہے بلکہ وہ بیماریاں جو جسمِ انسان کے اصول سے متعلق ہیں اور جسم کے خلیوں سے چمٹی ہوئی ہیں مثلاً سرطان، سفلیس، سل اور طاعون کے لئے بھی شفا بخش ہے۔( روزہ روش نوین برای درمان بیماریہا، صفحہ ۶۵،طبع اول)
٭…جرمنی'امریکہ
'انگلینڈ کے ماہر ڈاکٹروںکی ایک ٹیم :۔۔
نے
رمضان المبارک میں تمام مسلم ممالک کا دورہ کیا اور یہ نتیجہ اخذ کیا کہ رمضان
المبارک میں چونکہ مسلمان نماز زیادہ پڑھتے ہیں جس سے پہلے وہ وضو کرتے ہیں اس سے
ناک'کان'گلے کے امراض بہت کم ہو جاتے ہیں کھانا کم کھاتے ہیں جس سے معدہ وجگر کے
امراض کم ہو جاتے ہیں چونکہ مسلمان دن بھر بھوکا رہتا ہے اس لئے وہ اعصاب اور دل
کے امراض میں بھی کم مبتلا ہوتا ہے ۔
غرضیکہ روزہ انسانی صحت کیلئے انتہائی فائدہ مند
ہے۔روزہ شوگر لیول 'کولیسٹرول اوربلڈ پریشر میں اعتدال لاتا ہے اسٹریس و اعصابی
اور ذہنی تناؤختم کرکے بیشتر نفسیاتی امراض سے چھٹکارا دلاتاہے روزہ رکھنے سے جسم
میں خون بننے کا عمل تیز ہوجاتا ہے اور جسم کی تطہیر ہوجاتی ہے۔روزہ انسانی جسم سے
فضلات اور تیزابی مادوں کا اخراج کرتا ہے روزہ رکھنے سے دماغی خلیات بھی فاضل مادوں
سے نجات پاتے ہیںجس سے نہ صرف نفسیاتی و روحانی امراض کا خاتمہ ہوتا ہے بلکہ اس سے
دماغی صلاحیتوں کو جلامل کر انسانی صلاحیتیں بھی اجاگر ہوتی ہیںروزہ موٹاپا اورپیٹ
کو کم کرنے میں مفید ہے خاص طور پر نظام انہضام کو بہتر کرتا ہے علاوہ ازیں مزید
بیسیوں امراض کا علاج بھی ہے ۔
پیرا سائکا لوجی:۔
(Research Of Psychollgy)
مادے کی زندگی اور مادیت کے تعلق کے بعد بے سکون ہو کر خود کشی کی طرف مائل آج کی انسانیت پھر سے سکون کے پھولوں کی تلاش میں ایک باغ لگا رہی ہے ۔جسے پیرا سائکا لوجی کہتے ہیں۔
مغربی ماہرین سائنس(Europeoon scientists)ماہرین طب (medical experts)اور ماہرین نفسیات(psycologists) نے مل کر اسلامی زندگی پر تحقیق اور ریسرچ کا نیا باب کھولا ہے کیونکہ مغرب موجودہ زندگی سے تنگ ہے اور اس وقت سے سب سے زیادہ خود کشی ،اقدام قتل ، ٹریفک حادثات ، عصمت دری ، ہم جنس پرستی ،اغوا ، قتل انتقامی کا روائیاں ، بم دھاماکے ، اجتماعی قتل ،نا جائز اولاد ، طلاقیں وغیرہ جیسے مہلک ، خطر ناک اور عالم کو تباہی کے گڑھے میں ڈالنے والے حادثات کی طرف یورپ اور مغربی معاشرہ گامزن ہے ۔
اب وہ دلدل سے نکلنا چاہتے ہیں اوروہ سمجھتے ہیں کہ نجات کا راستہ صرف اسلام ہے ۔
"ایک نو مسلم خاتون نے جب گلبرگ ، ڈیفنس اور لبرٹی جیسے مغرب زدہ معاشرے کو دیکھا تو فورا "بولی" اے کاش میں جس معاشرے کو تھوک کر آرہی ہوں آج غلیظ معاشرے کو یہ لوگ چاٹ رہے ہیں "
کیسی وزنی اور اہم بات ہے ۔ غور فر مائیں ۔ ع :شاید کی اتر جائے تیرے دل میں میری بات
مستشرقین اس وقت اسلامی تعلیمات کو کھنگال کر ان میں اپنے لئے اصلاحی راستے اور ترقی کی راہیں تلاش کر رہے ہیں ۔
روزہ کے بارے میں یورپین ماہرین مسلسل تحقیق کر رہے ہیں حتیٰ کہ وہ اس بات کو تسلیم کر چکے ہیں کہ روزہ جہاں جسمانی زندگی کو نئی روح اور توانائی بخشتا ہے وہاں اس سے بے شمار معاشی پریشانیاں بھی دور ہو جاتی ہیں ۔ کیونکہ جب امراض کم ہو نگے تو ہسپتال بھی کم ہو نگے ہسپتال کا کم ہونا پُر سکون معاشرے کی علامت ہے۔
آج یورپ پھر پھرا کر واپس اسلام کی طرف لوٹ رہا ہے اور ہم یورپ کی تقلید میں اندھے ہوتے چلے جارہے ہیں ۔
ایک مشہور عالمی کر کٹر نے کیا خوب بات کہی ہے کہ آج جس یورپ کو نمونہ سمجھ رہے ہو میں نے اس کو دیکھ لیا ہے سلامتی چاہتے ہو تو اسلام کی طرف لوٹ آؤ۔
مشہور فلمی ادا کا ر عابد بٹ کی زندگی اس بات کا نمونہ ہے کہ جب وہ اسلامی زندگی کی طرف آیا تو پھر اس کا لباس سنت کے مطابق ، عصا اتباع سنت میں ، سیاہ پگڑی ، زلفیں اور داڑھی دیکھ کر معلوم ہوتا ہے کہ یہ کوئی پرانے بزرگ ہیں حالانکہ اس کی سابقہ زندگی پورا عالم جانتا ہے ۔
آج بھی موقع ہے کہ ہم پھر سے سنت کی زندگی کی طرف لوٹ آئیں اور ہمارا مقصود اور مطلوب حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی ہو۔ اگر ہم نے سائنس کو مان کر سنت نبوی ﷺ پر عمل کیا تو پھر حضور صلی اللہ علیہ وسلم کو کیامنہ دکھائیں گے ۔ مزید یہ کہ اگر سائنس کو مان کر ان طریقوں کو اختیار کی جو آپ ﷺ نے بتائے تو اس سے دنیوی فوائد کا مل جانا ممکن ہے لیکن دینی فوائد یا اجر کی امید رکھنا بیوقوفی ہے ۔
آپﷺ کے فر مان کے لئے کسی دلیل یا وکیل کی ضرورت نہیں ۔
(Research Of Psychollgy)
مادے کی زندگی اور مادیت کے تعلق کے بعد بے سکون ہو کر خود کشی کی طرف مائل آج کی انسانیت پھر سے سکون کے پھولوں کی تلاش میں ایک باغ لگا رہی ہے ۔جسے پیرا سائکا لوجی کہتے ہیں۔
مغربی ماہرین سائنس(Europeoon scientists)ماہرین طب (medical experts)اور ماہرین نفسیات(psycologists) نے مل کر اسلامی زندگی پر تحقیق اور ریسرچ کا نیا باب کھولا ہے کیونکہ مغرب موجودہ زندگی سے تنگ ہے اور اس وقت سے سب سے زیادہ خود کشی ،اقدام قتل ، ٹریفک حادثات ، عصمت دری ، ہم جنس پرستی ،اغوا ، قتل انتقامی کا روائیاں ، بم دھاماکے ، اجتماعی قتل ،نا جائز اولاد ، طلاقیں وغیرہ جیسے مہلک ، خطر ناک اور عالم کو تباہی کے گڑھے میں ڈالنے والے حادثات کی طرف یورپ اور مغربی معاشرہ گامزن ہے ۔
اب وہ دلدل سے نکلنا چاہتے ہیں اوروہ سمجھتے ہیں کہ نجات کا راستہ صرف اسلام ہے ۔
"ایک نو مسلم خاتون نے جب گلبرگ ، ڈیفنس اور لبرٹی جیسے مغرب زدہ معاشرے کو دیکھا تو فورا "بولی" اے کاش میں جس معاشرے کو تھوک کر آرہی ہوں آج غلیظ معاشرے کو یہ لوگ چاٹ رہے ہیں "
کیسی وزنی اور اہم بات ہے ۔ غور فر مائیں ۔ ع :شاید کی اتر جائے تیرے دل میں میری بات
مستشرقین اس وقت اسلامی تعلیمات کو کھنگال کر ان میں اپنے لئے اصلاحی راستے اور ترقی کی راہیں تلاش کر رہے ہیں ۔
روزہ کے بارے میں یورپین ماہرین مسلسل تحقیق کر رہے ہیں حتیٰ کہ وہ اس بات کو تسلیم کر چکے ہیں کہ روزہ جہاں جسمانی زندگی کو نئی روح اور توانائی بخشتا ہے وہاں اس سے بے شمار معاشی پریشانیاں بھی دور ہو جاتی ہیں ۔ کیونکہ جب امراض کم ہو نگے تو ہسپتال بھی کم ہو نگے ہسپتال کا کم ہونا پُر سکون معاشرے کی علامت ہے۔
آج یورپ پھر پھرا کر واپس اسلام کی طرف لوٹ رہا ہے اور ہم یورپ کی تقلید میں اندھے ہوتے چلے جارہے ہیں ۔
ایک مشہور عالمی کر کٹر نے کیا خوب بات کہی ہے کہ آج جس یورپ کو نمونہ سمجھ رہے ہو میں نے اس کو دیکھ لیا ہے سلامتی چاہتے ہو تو اسلام کی طرف لوٹ آؤ۔
مشہور فلمی ادا کا ر عابد بٹ کی زندگی اس بات کا نمونہ ہے کہ جب وہ اسلامی زندگی کی طرف آیا تو پھر اس کا لباس سنت کے مطابق ، عصا اتباع سنت میں ، سیاہ پگڑی ، زلفیں اور داڑھی دیکھ کر معلوم ہوتا ہے کہ یہ کوئی پرانے بزرگ ہیں حالانکہ اس کی سابقہ زندگی پورا عالم جانتا ہے ۔
آج بھی موقع ہے کہ ہم پھر سے سنت کی زندگی کی طرف لوٹ آئیں اور ہمارا مقصود اور مطلوب حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی ہو۔ اگر ہم نے سائنس کو مان کر سنت نبوی ﷺ پر عمل کیا تو پھر حضور صلی اللہ علیہ وسلم کو کیامنہ دکھائیں گے ۔ مزید یہ کہ اگر سائنس کو مان کر ان طریقوں کو اختیار کی جو آپ ﷺ نے بتائے تو اس سے دنیوی فوائد کا مل جانا ممکن ہے لیکن دینی فوائد یا اجر کی امید رکھنا بیوقوفی ہے ۔
آپﷺ کے فر مان کے لئے کسی دلیل یا وکیل کی ضرورت نہیں ۔
واقعی حضور ﷺ نے سچ فرمایا ہے ” روزہ
رکھو صحت مند رہوگے ” اور فرمایا ” روزہ رکھا کرو اس لیے کہ روزہ جہنم کی آگ اور
زمانے کی مصیبتوں کیلئے ڈھال کی حیثیت رکھتا ہے “۔اور
فرمایا ” روزہ رکھا کرو کہ وہ رگوں پر داغنے
کے طریقہ علاج کی طرح ہے اور اکڑ کو ختم کرتا ہے “۔ اور فرمایا ” روزہ رکھا کرو وہ خالص چیز ہے “۔
٭۔روزہ غیر
مسلم طبی ماہرین کی نظر سے:۔
حکیم محمد طا رق محمود
مجذوبی چغتائی پی ایچ ڈی اپنی کتاب تعلیمات نبوی ۖ
اور جدید سائنس میں مولانا صائم علی کے ایک مضمون کا ذکر کرکے لکھتے ہیں کہ روزہ
اسلام کا ایک رُکن ہے، لیکن اس کا ہر گز یہ مطلب نہیں سمجھ لینا چاہئے کہ اسلام سے
پہلے روزوں کا وجود ہی نہیں تھا، ظہور اسلام سے پہلے بھی لوگ رو زہ رکھا کرتے تھے
لیکن صرف کسی شخص کے سوگ میں رنج و غم کے مواقع پر یا پھر کسی مصیبت کے وقت،مگر
اسلام نے روزہ کے طریقہ اور مقصد کو بدل کر مسلمانوں کے لئے اسکو روحانی ترقی ،
اخلاقی بلندی اور جسمانی صحت کو بر قرار رکھنے اور ترقی دینے کے عمل جا ایک زبر
دست وسیلہ بنا دیا ۔قُر آن مجید فُر قان حمید میں ارشاد خداوندی ہے اے ایمان والو
پچھلی اُمتوں کی طر ح تُم پر بھی رو زہ فر ض گیا ہے تاکہ تم متقی اور پر ہیز گار
بنو۔ارشاد ہے کہ روزہ میرے لئے ہے اور میں اس کی جزا دوں گا۔تا ریخ اسلام کے
مطالعے سے معلوم ہو تا ہے کہ اگر چہ دنیا کے تمام مذا ہب نے روزہ بر قرار رکھا ہے
لیکن اول تو انہوں نے اسلام کی طر ح اس عمل پر زیادہ زور نہیں دیا ، اور دوسرے
طبعی حالات ، تہذیب و تمدن ، نسل اور گر د و پیش کے مطابق رو زہ رکھنے کے طریقے
اور مقاصد بھی مختلف رہے۔البتہ ایک عقیدے کنفیو شش نے اپنے پیرو کاروں کو رو زہ
رکھنے کی دعوت نہیں دی۔ اسکے علاوہ ایک اور عقیدے زر تشت نے بھی اپنے عام مقلدین
کو روزہ رکھنے کی ہدایت نہیں کی، لیکن انسائیکلو پیڈیا بر ٹا نیکا کے مطالعے سے
معلوم ہو تا ہے کہ اس مذہب کے راہنمائوں کے لئے مسلسل پانچ سال تک رو زہ رکھنے کو
لازم قرار دیا گیا تھا۔ مختصر یہ کہ یہودیوں میں عمو ماً رو زہ رکھنے کو رنج و
ماتم کی علامت تصور کیا جاتا تھا۔مثلاً شریعت مو سی علیہ سلام کے مطابق یہو دیوں
کو یوم توبہ کے مو قع پر روزہ رکھنے کا حکم دیا گیا تھا۔ اور چو نکہ یروشلم کے
سقوط کو یہو دی حکومت کا زوال تصور کیا جاتا ہے ۔ اسلئے یروشلم کے محاصرہ ، اسکے
سقوط ، عبادت گاہ کی تباہی اور جدالیہ کے قتل کی یا دگار کے طو ر پریہو دی چار دن
کا روزہ رکھا کرتے تھے۔ ان واقعات سے معلوم ہو تا ہے کہ یہودیوں کے لئے روزہ اظہار
و رنج و غم کا ایک ذریعہ تھا۔تاریخ سے یہ بات ثابت ہے کہ مو سی علیہ السلام کبھی
کبھی چالیس روز تک رو زہ رکھا کرتے تھے اور حضرت عیسی علیہ السلام نے بھی اسی
طریقہ کار پر عمل کیا تھا۔لیکن اسکے ساتھ حضرت عیسی علیہ السلام کے یہ الفاظ بھی
موجود ہیں کہ میرے اُٹھ جانے کے بعد میرے پیرو کاروں اکثر رو زہ رکھا کریں گے۔ان الفاظ
سے یہ نتیجہ نکلنا مشکل نہیں کہ حضرت عیسی نے بھی روزہ کے مفہوم کو بلند
نہیں کیا اور شریعت عیسوی میں بھی رو زہ کا مقصد فوری رنج و غم کا اظہار ہی قرار
دیا گیا ہے۔مو سائیت اور عیسائیت نے رو زے کا جومقصد پیش کیا ہے اس پر غور کرنے سے
یہ حقیقت واضح ہو جاتی ہے کہ ان مذاہب میں روزہ کو نفس کشی کے ساتھ ساتھ نا راض
خدا کو رضا مند کرنے کا تصور موجود ہے۔لیکن اسلام نے روزے کے ذریعے نا راض خدا کو
خوش کرنے کا تصور بالکل خارج کر دیا ہے اسکے بجائے انسان کی دا خلی قوتوں اور صلا
حیتوں کے ارتقا کا ذریعہ قرار دیکر اسے طبعی حالات اور نسلی یا قومی مفادات کے لحا
ظ کے بغیر مسلمانوں کا ایک عالم گیر فریضہ قرار دیا ہے۔اسلامی شر یعت کے مطابق
روزہ سماجی قدروں کا حامل ہے اس میں شک نہیں کہ نمازوں میں پانچ مرتبہ مسلمانوں کو
ایک جگہ جمع ہونے اور دوش بدوش کھڑے ہوکر پست و بلند اور اعلی و ادنی کی تمیز
عملاً مٹانے کا زبردست ذریعہ ہے لیکن نماز کے ذریعہ اسلامی مساوات کا جو مظاہرہ
کیا جاتا ہے وہ مساجد تک محدود رہتا ہے مگر ہلال رمضان کے نمودار ہوتے ہی پوری
اسلامی دنیا مساوات عمومی کی سطح پر آکھڑی ہو تی ہے۔ رو زہ جسمانی صحت کے لئے بھی
ایک مفید عمل ہے اسکی بدلے قوت ہاضمہ قوی ہو جاتا ہے۔ روزہ کے بارے میں یو رپ کے
ڈاکٹروں طبیبوں نے مختلف ریمارکس دئے ہیں۔ ڈا کٹر مائیکل کہتے ہیں رو زہ رکھنے سے
خیالات پریشان نہیں ہوتے ، جذبات کی تیزی جاتی رہتی ہے اور برائیاں اور بدیاں دور
ہو جاتی ہیں۔ ڈا کٹر سی فر کا کہنا ہے روزہ گناہوں اور برائیوں کو روکتا ہے اور
خیالات اور جذ بات کو خراب نہیں ہونے دیتا۔ڈا کٹر سموئیل الیگزینڈ را کا کہنا ہے
رو زہ روحانی امراض کا علاج ہے یہ رو ح کو پاک کرتا ہے۔ڈا کٹر کلائیو کا کہنا ہے
روزہ سے کئی جسمانی بیماریوں زائل ہو جاتی ہیں جس میں مرطوب اور بلغمی بیماریاں
بالخصوص شامل ہے۔ڈاکٹر جیکب کہتے ہیں رو زہ رو ح کی غذاہے۔ڈاکٹر ابراہم جے ہنری
کہتے ہیں جذباتی انسانوں اور مجردوں کے لئے رو زہ بُہت مفید عمل ہے اس سے خیا لات
د رست رہتے ہیں اور شیطانی وسوسے قریب نہیں آتے۔ڈا کٹر ہنری کا کہنا ہے رو زہ دل
میں سکون ، صبر اور اطمینان پیدا کرتا ہے اس سے قوت بر داشت بڑھتی اور سختیاں سہنے
کی عادت پیدا ہوتی ہے۔ڈا کٹر ایمرسن کہتے ہیں فا قہ کی بہترین صورت وہ روزہ ہے جو
اہل اسلام کے طریقے سے رکھا جاتا ہے۔ میں یہ مشورہ دوں گا کہ جب کسی کو فاقہ کی
ضرورت پڑے تو اسلامی طر یقے سے رو زہ رکھیں طبیب اور ڈاکٹر جس جس طرح فا قہ کراتے
ہیں وہ قطعی غلط ہے۔
مسلم ماہرین کے ساتھ ساتھ غیر مسلم
طبی ماہرین نے بھی روزے کے فوائد کے بارے میں خوبصورت باتیں کی ہیں جن میں سے کچھ
ماہرین کی رائے درج ذیل ہیں۔
روزہ رکھنے سے ظاہر و باطن کی غلاظتیں دور ہو جاتی ہیں(ڈاکٹر جوزف)
روزہ روحانی امراض کا علاج ہے، یہ روح کو پاک و صاف رکھتا ہے(ڈاکٹر سیموئیل الیگزینڈر(
ررزہ گناہوں اور بیماریوں کو روکتا ہے۔ جذبات اور خیالات کو خراب ہونے سے روکتا ہے(ڈاکٹر سی فرانڈ(
روزہ دل میں سکون و اطمینان پیدا کرتا ہے، اس سے قوت برداشت بڑھتی ہے اور سختیاں سہنے کی عادت پڑتی ہے(ڈاکٹربرام جے ہنری(
سکون و اطمینان پیدا کرنے کے لیئے روزہ بہترین چیز ہے (ڈاکٹر یمرٹ(
روزہ روح کی غذا ہے(ڈاکٹر جیکب)
مہینے میں ایک دوبار روزہ رکھنا صحت کے لئے نفع بخش ہے(ڈاکٹر ڈی جیکب)
فاقہ کی بہتریں چیز وہ روزہ ہے جو اہل اسلام کے طریقے سے رکھا جائے، ڈاکٹر جس طریقے سے فاقہ کراتے ہیں وہ غلط ہے(ڈاکٹر ایمر سن)
روزہ رکھنے سے ظاہر و باطن کی غلاظتیں دور ہو جاتی ہیں(ڈاکٹر جوزف)
روزہ روحانی امراض کا علاج ہے، یہ روح کو پاک و صاف رکھتا ہے(ڈاکٹر سیموئیل الیگزینڈر(
ررزہ گناہوں اور بیماریوں کو روکتا ہے۔ جذبات اور خیالات کو خراب ہونے سے روکتا ہے(ڈاکٹر سی فرانڈ(
روزہ دل میں سکون و اطمینان پیدا کرتا ہے، اس سے قوت برداشت بڑھتی ہے اور سختیاں سہنے کی عادت پڑتی ہے(ڈاکٹربرام جے ہنری(
سکون و اطمینان پیدا کرنے کے لیئے روزہ بہترین چیز ہے (ڈاکٹر یمرٹ(
روزہ روح کی غذا ہے(ڈاکٹر جیکب)
مہینے میں ایک دوبار روزہ رکھنا صحت کے لئے نفع بخش ہے(ڈاکٹر ڈی جیکب)
فاقہ کی بہتریں چیز وہ روزہ ہے جو اہل اسلام کے طریقے سے رکھا جائے، ڈاکٹر جس طریقے سے فاقہ کراتے ہیں وہ غلط ہے(ڈاکٹر ایمر سن)
٭۔کيا کھائيں کيا نہ کھائيں ؟
روزہ رکھنے سے نہ صرف
روحاني ، پاکيزگي اور تزکيہ نفس ہوتا ہے بلکہ انسان مختلف امراض سے بھي نجات حاصل
کرتا ہے روزہ ميں جسم انساني توانائي سے بھر جاتا ہے مگر يہ تمام فوائد صرف اسي
صورت ميں حاصل ہو سکتے ہيں جب ہم غذا کے بارے ميں افراط و تفريط کا شکار نہ ہوں اور
کھانے پينے ميں اعتدال کي راہ اختيار کريں آج بھي اکثر لوگو ں کو يہ غلط فہمي ہے
کہ روزہ رکھنے سے کمزوري آتي ہے يہ سراسر غلط ہے کيونکہ رمضان ميں پروٹين اور
کابوہائيڈريٹ اجزاء سے پر غذا عام دنوں کے مقابلے ميں زيادہ استعمال کي جاتي ہے
پھر تمام روز سحري ميں بھي غذا استعمال کي جاتي ہے اس طرح روزہ رکھنے سے کسي بھي
قسم کي کمزوري لاحق نہيں ہوتي بلکہ اس کا سب سے بڑا فائدہ تو يہ ہوتا ہے کہ اس
صورت ميں جسم سے فاسد مواد خارج ہو جاتے ہيں -
روزہ دار
کمزوري کے خيال سے خوب کھاتے ہيں افطاري کے وقت پکوڑے ، سموسے ، مٹھائي ، کھجور
اور پھل وغيرہ شوق سے کھاتے ہيں پھر کھانے ميں گھي سے پر مختلف اقسام کے کھانے بڑے
مزے سے کھائے جاتے ہيں سحري ميں پر اٹھے انڈے ، گوشت وغيرہ سے کام و دہن کي تواضع
کي جاتي ہے جس سے کھٹے ڈکار آتے ہيں طبيعت ميں بوجھل پن ہوتا ہے اور معدہ خراب ہو
جاتا ہے اس لئے رمضان المبارک ميں ہلکي غذا استعمال کرنا سب سے عمدہ خيال کيا جاتا
ہے خاص طور سے ايسي غذا جس ميں گھي وغيرہ کي مقدار برائے نام ہو- افطار کے وقت
کھجور اور کوئي نمکين چيز استعمال کريں نمک پارے يا نمک استعمال کريں کيونکہ انسان
تمام دن فاقہ سے ہوتا ہے اس لئے جسم ميں نمک کي کمي ہو جاتي ہے اور جسم نمکين چيز
کا طالب ہوتا ہے تاکہ اس کي کمي کو پورا کر سکے - کھجور سے روزہ افطار کرنا سنت ہے
کيونکہ يہ دن بھر کي کمزوري کو دور کرديتي ہے ايک چھٹانک کھجور ميں 160 غذائي
حرارے قوت ہوتي ہے ايک چھٹانک انگور ميں 26 اور ايک چھٹانک انار ميں 32 حرارے
غذائي قوت ہوتي ہے افطار کے وقت چائے اور دودھ بھي استعمال کر سکتے ہيں - آلو ،
بينگن ، ماش کي ڈال چنے وغيرہ کھانے سے پرہيز کريں - پلاو يا کھچڑي کھائيں رات
کا کھانا کھانے کے بعد نوافل پڑھيں تاکہ
کھانا ہضم ہو جائے صبح سحري ميں ہلکا پھلکا کھانا کھائيں خاص طور پر سبزي اور بکري
کے گوشت کا شوربہ اور پيالي بھر چائے نہايت مفيد ہے
–
٭۔روزہ
رکھنے کے طبی فوائد صرف سادہ خوراک کے ذریعے ممکن ہیں:۔
رمضان المبارک کے مقدس مہینے میں روزہ داروں کو اکثر صحت سے
متعلق پریشانیوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے اور اس مرتبہ چونکہ رمضان المبارک جون کی
شدید گرمی میں آئے ہیں تو صحت کا خیال کرنا بے حد ضروری ہو گیا ہے۔ماہرین صحت کا
مشورہ ہے کہ روزے دار افطار و سحر میں پروٹین، کاربوہائیڈریٹ اور ریشہ سے بھرپور
غذا لیں لیکن اوپر تلے کئی چیزیں نہ کھائیں۔
اس مرتبہ16 گھنٹے سے زیادہ دورانیہ کا روزہ ہے، چنانچہ میں اپنی خوراک کا پورا خیال رکھنا چاہیے، سحری میں پروٹین سے بھرپور خوراک لی جائے جس دن بھر آپ کو بھوک کا احساس بھی نہ ہو اور کمزوری بھی محسوس نہ ہو۔
سحری میں شوربے والے سالن استعمال کریں جس میں تیل اور مسالا کم ہو، جو باآسانی ہضم ہوسکے۔ کوشش کریں کہ غذا میں ریشہ کا زیادہ استعمال ہو، مثلاًپھل اور ہری سبزیوں کا استعمال کریں کیونکہ یہ آہستہ آہستہ ہضم ہوتی ہیں، اور ان کے استعمال سے دن میں پیٹ خالی محسوس نہیں ہوتا۔ اور ان کے ذریعے جسم کو پانی بھی مہیاہوتا رہتا ہے۔افطار کے وقت کھجور اور پھل کا زیادہ استعمال کیا جائے اور فوراً پانی نہ پیا جائے۔ آم اور کھجور کے ملک شیک لیں اور شربت کا استعمال کریں۔
رمضان کے مہینے میں مکمل نامیاتی سائیکل تبدیل ہوجاتا ہے۔ موجودہ دور میں کوئی بھی 100 فیصد صحتمند نہیں ہے لہٰذا یہ ضروری ہے کہ سحری اور افطار دونوں وقت احتیاط سے کھائیں اور خوراک کی زیادہ مقدار استعمال نہ کی جائے۔سحری میں وقت سے قبل بیدار ہوں تاکہ وقت کم ہونے کی وجہ سے بے صبری اور جلدی جلدی میں نہ کھانا پڑے، سحری میں بھی ایک کے اوپر ایک چیز بالکل نہیں کھانی چاہیے۔سخت گرمی کے موسم میں جسم کو پانی کی ضرورت رہتی ہے اس لیے پانی بھی پوری مقدار میں پیا جائے، لیکن ایک ساتھ ایک دو لیٹر پانی پینے کے بجائے تھوڑا تھوڑا کر کے پیئیں۔
دن میں براہ راست دھوپ میں نکلنے سے بچیں اور جہاں تک ممکن ہو سخت مشقت والا کام نہ کریں، تاکہ توانائی برقرار رہے، اس کے ساتھ اگر ممکن ہو تو دن میں ایک دو گھنٹہ کی نیند ضرور لیں۔ماہرین غذائیات افطار کے وقت بھی خود پر کنٹرول رکھنے کا مشورہ دیتے ہیں۔ افطار میں جنک فوڈ اور کیفین پر مشتمل خوراک مثلاً چائے کافی کا استعمال نہ کریں کیونکہ اس سے پیاس بڑھ جاتی ہے۔جن لوگوں کا بلڈ پریشر روزے کے دوران کم ہو جاتا ہے، وہ یہ آسان سی مشق سے اس کا وقتی علاج کرسکتے ہیں، اس کا طریقہ یہ ہے کہ اپنے پیروں کو سیدھا کرکے لیٹ جائیں اور دس منٹ کے لیے پیروں کو اوپر کر لیں۔ اگر ایک ساتھ دس منٹ تک نہیں کر سکتے ہیں تو دو دو منٹ کرکے یہ عمل کریں۔ اس سے دماغ کو خون کی فراہمی بحال ہو جائے گی۔ذیابیطس، دل اور دمہ کے مریض روزہ رکھنے سے پہلے اپنے ڈاکٹر سے ضرور مشورہ کرلیں۔
اس مرتبہ16 گھنٹے سے زیادہ دورانیہ کا روزہ ہے، چنانچہ میں اپنی خوراک کا پورا خیال رکھنا چاہیے، سحری میں پروٹین سے بھرپور خوراک لی جائے جس دن بھر آپ کو بھوک کا احساس بھی نہ ہو اور کمزوری بھی محسوس نہ ہو۔
سحری میں شوربے والے سالن استعمال کریں جس میں تیل اور مسالا کم ہو، جو باآسانی ہضم ہوسکے۔ کوشش کریں کہ غذا میں ریشہ کا زیادہ استعمال ہو، مثلاًپھل اور ہری سبزیوں کا استعمال کریں کیونکہ یہ آہستہ آہستہ ہضم ہوتی ہیں، اور ان کے استعمال سے دن میں پیٹ خالی محسوس نہیں ہوتا۔ اور ان کے ذریعے جسم کو پانی بھی مہیاہوتا رہتا ہے۔افطار کے وقت کھجور اور پھل کا زیادہ استعمال کیا جائے اور فوراً پانی نہ پیا جائے۔ آم اور کھجور کے ملک شیک لیں اور شربت کا استعمال کریں۔
رمضان کے مہینے میں مکمل نامیاتی سائیکل تبدیل ہوجاتا ہے۔ موجودہ دور میں کوئی بھی 100 فیصد صحتمند نہیں ہے لہٰذا یہ ضروری ہے کہ سحری اور افطار دونوں وقت احتیاط سے کھائیں اور خوراک کی زیادہ مقدار استعمال نہ کی جائے۔سحری میں وقت سے قبل بیدار ہوں تاکہ وقت کم ہونے کی وجہ سے بے صبری اور جلدی جلدی میں نہ کھانا پڑے، سحری میں بھی ایک کے اوپر ایک چیز بالکل نہیں کھانی چاہیے۔سخت گرمی کے موسم میں جسم کو پانی کی ضرورت رہتی ہے اس لیے پانی بھی پوری مقدار میں پیا جائے، لیکن ایک ساتھ ایک دو لیٹر پانی پینے کے بجائے تھوڑا تھوڑا کر کے پیئیں۔
دن میں براہ راست دھوپ میں نکلنے سے بچیں اور جہاں تک ممکن ہو سخت مشقت والا کام نہ کریں، تاکہ توانائی برقرار رہے، اس کے ساتھ اگر ممکن ہو تو دن میں ایک دو گھنٹہ کی نیند ضرور لیں۔ماہرین غذائیات افطار کے وقت بھی خود پر کنٹرول رکھنے کا مشورہ دیتے ہیں۔ افطار میں جنک فوڈ اور کیفین پر مشتمل خوراک مثلاً چائے کافی کا استعمال نہ کریں کیونکہ اس سے پیاس بڑھ جاتی ہے۔جن لوگوں کا بلڈ پریشر روزے کے دوران کم ہو جاتا ہے، وہ یہ آسان سی مشق سے اس کا وقتی علاج کرسکتے ہیں، اس کا طریقہ یہ ہے کہ اپنے پیروں کو سیدھا کرکے لیٹ جائیں اور دس منٹ کے لیے پیروں کو اوپر کر لیں۔ اگر ایک ساتھ دس منٹ تک نہیں کر سکتے ہیں تو دو دو منٹ کرکے یہ عمل کریں۔ اس سے دماغ کو خون کی فراہمی بحال ہو جائے گی۔ذیابیطس، دل اور دمہ کے مریض روزہ رکھنے سے پہلے اپنے ڈاکٹر سے ضرور مشورہ کرلیں۔
اس مرتبہ16 گھنٹے سے زیادہ دورانیہ کا روزہ ہے، چنانچہ میں
اپنی خوراک کا پورا خیال رکھنا چاہیے، سحری میں پروٹین سے بھرپور خوراک لی جائے جس
دن بھر آپ کو بھوک کا احساس بھی نہ ہو اور کمزوری بھی محسوس نہ ہو
مضان المبارک میں موٹاپے کے شکار افراد کا نارمل سحری اور
افطاری کرنے کی صورت میں آٹھ سے دس پاونڈ وزن کم ہوسکتا ہے جبکہ روزہ رکھنے سے
اضافی چربی بھی ختم ہوجاتی ہے۔ وہ خواتین جواولاد کی نعمت سے محروم ہیں اور موٹاپے
کا شکار ہیں وہ ضرور روزے رکھیں تاکہ ان کا وزن کم ہوسکے۔یا د رہے کہ جدید میڈیکل
سائنس کے مطابق وزن کم ہونے سے بے اولاد خواتین کو اولاد ہونے کے امکانات کئی گنا
بڑھ جاتے ہیں۔روزے سے معدے کی رطوبتوں میں توازن آتا ہے۔نظامِ ہضم کی رطوبت خارج
کرنے کا عمل دماغ کے ساتھ وابستہ ہے۔عام حالت میں بھوک کے دوران یہ رطوبتیں زیادہ
مقدار میں خارج ہوتی ہیں جس سے معدے میں تیزابیت بڑھ جاتی ہے۔جبکہ روزے کی حالت
میں دماغ سے رطوبت خارج کرنے کا پیغام نہیں بھیجا جاتا کیونکہ دماغ میں خلیوں میں
یہ بات موجود ہوتی ہے کہ روزے کے دوران کھانا پینا منع ہے۔
یوں نظامِ ہضم درست کام کرتاہے۔روزہ نظام ہضم کے سب سے حساس حصے گلے اور غذائی نالی کو تقویت دیتا ہے اس کے اثر معدہ سے نکلنے والی رطوبتیں بہتر طور پر متوازن ہو جاتی ہیں جس سے تیزابیت جمع نہیں ہوتی اس کی پیداوار رک جاتی ہے۔معدہ کے ریاحی دردوں میں کافی افاقہ ہوتا ہے قبض کی شکایت رفع ہو جاتی ہے اور پھر شام کو روزہ کھولنے کے بعد معدہ زیادہ کامیابی سے ہضم کا کام انجام دیتا ہے۔روزہ آنتوں کو بھی آرام اور توانائی فراہم کرتا ہے۔ یہ صحت مند رطوبت کے بننے اور معدہ کے پٹھوں کی حرکت سے ہوتا ہے۔ آنتوں کے شرائین کے غلاف کے نیچے محفوظ رکھنے والے نظام کا بنیادی عنصر موجود ہوتا ہے۔ جیسے انتڑیوں کا جال، روزے کے دوران ان کو نئی توانائی اور تازگی حاصل ہوتی ہے۔ اس طرح ہم ان تمام بیماریوں کے حملوں سے محفوظ ہوجاتے ہیں جو ہضم کرنے والی نالیوں پر ہوسکتے ہیں۔
روزوں کے جسم پر جو مثبت اثرات مرتب ہوتے ہیں ان میں سب سے زیادہ قابل ذکر خون کے روغنی مادوں میں ہونے والی تبدیلیاں ہیں خصوصاًدل کے لئے مفید چکنائی’’ ایچ ڈی ایل ‘‘کی سطح میں تبدیلی بڑی اہمیت کی حامل ہے کیونکہ اس سے دل اور شریانوں کو تحفظ حاصل ہوتا ہے اسی طرح دو مزید چکنائیوں ’’ایل ڈی ایل‘‘اور ٹرائی گلیسر ائیڈ کی سطحیں بھی معمول پر آ جاتی ہیں اس سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ رمضان المبارک ہمیں غذائی بے اعتدالیوں پر قابو پانے کا بہترین موقع فراہم کرتا ہے اور اس میں روزوں کی وجہ سے چکنائیوں کے استحالے (میٹا بولزم )کی شرح بھی بہت بہتر ہو جاتی ہے۔یاد رہے کہ دوران رمضان چکنائی والی اشیا ء کا کثرت استعمال ان فوائد کو مفقود کر سکتا ہے۔
دن میں روزے کے دوران خون کی مقدار میں کمی ہوجاتی ہے یہ اثر دل کو انتہائی فائدہ مند آرام مہیا کرتا ہے سب سے اہم بات یہ ہے کہ روزے کے دوران بڑھا ہوا خون کا دباوہمیشہ کم سطح پر ہوتا ہے۔شریانوں کی کمزوری اور فرسودگی کی اہم ترین وجوہات میں سے ایک وجہ خون میں باقی ماندہ مادے کا پوری طرح تحلیل نہ ہو سکنا ہے جبکہ دوسری طرف روزہ بطور خاص افطار کے وقت کے نزدیک خون میں موجود غذائیت کے تمام ذرے تحلیل ہو چکے ہوتے ہیں اس طرح خون کی شریانوں کی دیواروں پر چربی یا دیگر اجزاجم نہیں پاتے جس کے نتیجے میں شریانیں سکڑنے سے محفوظ رہتی ہیں چنانچہ موجودہ دور کی انتہائی خطرناک بیماری شریانوں کی دیواروں کی سختی سے بچنے کی بہترین تدبیر روزہ ہی ہے۔روزے کے دوران جب خون میں غذائی مادے کم ترین سطح پر ہوتے ہیں تو ہڈیوں کا گودہ حرکت پذیر ہو جاتا ہے اور خون کی پیدائش میں اضافہ ہو جاتا ہے اس کے نتیجے میں کمزور لوگ روزہ رکھ کر آسانی سے اپنے اندر زیادہ خون کی کمی دورکر سکتے ہیں۔
روزہ کے دوران بعض لوگوں کو غصے اور چڑ چڑے پن کا مظاہرہ کرتے دیکھا گیا ہے مگر اس بات کو یہاں پر اچھی طرح سمجھ لینا چاہیے کہ ان باتوں کا روزہ اور اعصاب سے کوئی تعلق نہیں ہوتا اس قسم کی صورت حال انانیت یا طبیعت کی سختی کی وجہ سے ہوتی ہے دوران روزہ ہمارے جسم کا اعصابی نظام بہت پر سکو ن اور آرام کی حالت میں ہوتا ہے نیز عبادات کی بجا آواری سے حاصل شدہ تسکین ہماری تمام کدورتوں اور غصے کو دور کردیتی ہیں اس سلسلے میں زیادہ خشوع وخضوع اور اللہ کی مرضی کے سامنے سرنگوں ہونے کی وجہ سے تو ہماری پریشانیاں بھی تحلیل ہو کر ختم ہو جاتی ہیں۔روزہ کے دوران چونکہ ہماری جنسی خواہشات علیحدہ ہوجاتی ہیں چنانچہ اس وجہ سے بھی ہمارے اعصابی نظام پر کسی قسم کے منفی اثرات مرتب نہیں ہوتے۔
روزہ اور وضو کے مشترکہ اثر سے جو مضبوط ہم آہنگی پیدا ہوتی ہے اس سے دماغ میں دوران خون کا بے مثال توازن قائم ہو جاتا ہے جو کہ صحت مند اعصابی نظام کی نشاندہی کرتا ہے اس کے علاوہ انسانی تحت الشعورجو رمضان کے دوران عبادات کی مہربانیوں کی بدولت صاف شفاف اور تسکین پذیر ہو جاتا ہے اعصابی نظام سے ہر قسم کے تناواور الجھن کو دور کرنے میں مدد کرتا ہے۔
یاد رکھنا چاہئے کہ مندرجہ بالا فوائد تبھی ممکن ہوسکتے ہیں جب ہم سحر وافطار میں سادہ غذا کا استعمال کریں۔خصوصاً افطاری کے وقت زیادہ ثقیل اور مرغن تلی ہوئی اشیا ء مثلاً سموسے ‘پکوڑے ‘کچوری وغیرہ کا استعمال بکثرت کیا جاتا ہے جس سے روزے کا روحانی مقصد تو فوت ہوتا ہی ہے خوراک کی اس بے اعتدالی سے جسمانی طور پر ہونے والے فوائدبھی مفقود ہوجاتے ہیں بلکہ معدہ مزید خراب ہوجاتا ہے لہذا افطاری میں دستر خوان پر دنیا جہان کی نعمتیں اکٹھی کرنے کی بجائے افطار کسی پھل کھجور یا شہد ملے دودھ سے کرلیا جائے اور پھر نماز کی ادائیگی کے بعد مزید کچھ کھالیا جائے اس طرح دن میں تین بار کھانے کا تسلسل بھی قائم رہے گا اور معدے پر بوجھ نہیں پڑے گا۔افطار میں پانی دودھ یا کوئی بھی مشروب ایک ہی مرتبہ زیادہ مقدار میں استعمال کرنے کی بجائے وقفے وقفے سے استعمال کریں۔ ان احتیاطی تدابیر پر عملدر آمد سے یقیناًہم روزے کے جسمانی وروحانی فوائدحاصل کر سکیں گے۔
یوں نظامِ ہضم درست کام کرتاہے۔روزہ نظام ہضم کے سب سے حساس حصے گلے اور غذائی نالی کو تقویت دیتا ہے اس کے اثر معدہ سے نکلنے والی رطوبتیں بہتر طور پر متوازن ہو جاتی ہیں جس سے تیزابیت جمع نہیں ہوتی اس کی پیداوار رک جاتی ہے۔معدہ کے ریاحی دردوں میں کافی افاقہ ہوتا ہے قبض کی شکایت رفع ہو جاتی ہے اور پھر شام کو روزہ کھولنے کے بعد معدہ زیادہ کامیابی سے ہضم کا کام انجام دیتا ہے۔روزہ آنتوں کو بھی آرام اور توانائی فراہم کرتا ہے۔ یہ صحت مند رطوبت کے بننے اور معدہ کے پٹھوں کی حرکت سے ہوتا ہے۔ آنتوں کے شرائین کے غلاف کے نیچے محفوظ رکھنے والے نظام کا بنیادی عنصر موجود ہوتا ہے۔ جیسے انتڑیوں کا جال، روزے کے دوران ان کو نئی توانائی اور تازگی حاصل ہوتی ہے۔ اس طرح ہم ان تمام بیماریوں کے حملوں سے محفوظ ہوجاتے ہیں جو ہضم کرنے والی نالیوں پر ہوسکتے ہیں۔
روزوں کے جسم پر جو مثبت اثرات مرتب ہوتے ہیں ان میں سب سے زیادہ قابل ذکر خون کے روغنی مادوں میں ہونے والی تبدیلیاں ہیں خصوصاًدل کے لئے مفید چکنائی’’ ایچ ڈی ایل ‘‘کی سطح میں تبدیلی بڑی اہمیت کی حامل ہے کیونکہ اس سے دل اور شریانوں کو تحفظ حاصل ہوتا ہے اسی طرح دو مزید چکنائیوں ’’ایل ڈی ایل‘‘اور ٹرائی گلیسر ائیڈ کی سطحیں بھی معمول پر آ جاتی ہیں اس سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ رمضان المبارک ہمیں غذائی بے اعتدالیوں پر قابو پانے کا بہترین موقع فراہم کرتا ہے اور اس میں روزوں کی وجہ سے چکنائیوں کے استحالے (میٹا بولزم )کی شرح بھی بہت بہتر ہو جاتی ہے۔یاد رہے کہ دوران رمضان چکنائی والی اشیا ء کا کثرت استعمال ان فوائد کو مفقود کر سکتا ہے۔
دن میں روزے کے دوران خون کی مقدار میں کمی ہوجاتی ہے یہ اثر دل کو انتہائی فائدہ مند آرام مہیا کرتا ہے سب سے اہم بات یہ ہے کہ روزے کے دوران بڑھا ہوا خون کا دباوہمیشہ کم سطح پر ہوتا ہے۔شریانوں کی کمزوری اور فرسودگی کی اہم ترین وجوہات میں سے ایک وجہ خون میں باقی ماندہ مادے کا پوری طرح تحلیل نہ ہو سکنا ہے جبکہ دوسری طرف روزہ بطور خاص افطار کے وقت کے نزدیک خون میں موجود غذائیت کے تمام ذرے تحلیل ہو چکے ہوتے ہیں اس طرح خون کی شریانوں کی دیواروں پر چربی یا دیگر اجزاجم نہیں پاتے جس کے نتیجے میں شریانیں سکڑنے سے محفوظ رہتی ہیں چنانچہ موجودہ دور کی انتہائی خطرناک بیماری شریانوں کی دیواروں کی سختی سے بچنے کی بہترین تدبیر روزہ ہی ہے۔روزے کے دوران جب خون میں غذائی مادے کم ترین سطح پر ہوتے ہیں تو ہڈیوں کا گودہ حرکت پذیر ہو جاتا ہے اور خون کی پیدائش میں اضافہ ہو جاتا ہے اس کے نتیجے میں کمزور لوگ روزہ رکھ کر آسانی سے اپنے اندر زیادہ خون کی کمی دورکر سکتے ہیں۔
روزہ کے دوران بعض لوگوں کو غصے اور چڑ چڑے پن کا مظاہرہ کرتے دیکھا گیا ہے مگر اس بات کو یہاں پر اچھی طرح سمجھ لینا چاہیے کہ ان باتوں کا روزہ اور اعصاب سے کوئی تعلق نہیں ہوتا اس قسم کی صورت حال انانیت یا طبیعت کی سختی کی وجہ سے ہوتی ہے دوران روزہ ہمارے جسم کا اعصابی نظام بہت پر سکو ن اور آرام کی حالت میں ہوتا ہے نیز عبادات کی بجا آواری سے حاصل شدہ تسکین ہماری تمام کدورتوں اور غصے کو دور کردیتی ہیں اس سلسلے میں زیادہ خشوع وخضوع اور اللہ کی مرضی کے سامنے سرنگوں ہونے کی وجہ سے تو ہماری پریشانیاں بھی تحلیل ہو کر ختم ہو جاتی ہیں۔روزہ کے دوران چونکہ ہماری جنسی خواہشات علیحدہ ہوجاتی ہیں چنانچہ اس وجہ سے بھی ہمارے اعصابی نظام پر کسی قسم کے منفی اثرات مرتب نہیں ہوتے۔
روزہ اور وضو کے مشترکہ اثر سے جو مضبوط ہم آہنگی پیدا ہوتی ہے اس سے دماغ میں دوران خون کا بے مثال توازن قائم ہو جاتا ہے جو کہ صحت مند اعصابی نظام کی نشاندہی کرتا ہے اس کے علاوہ انسانی تحت الشعورجو رمضان کے دوران عبادات کی مہربانیوں کی بدولت صاف شفاف اور تسکین پذیر ہو جاتا ہے اعصابی نظام سے ہر قسم کے تناواور الجھن کو دور کرنے میں مدد کرتا ہے۔
یاد رکھنا چاہئے کہ مندرجہ بالا فوائد تبھی ممکن ہوسکتے ہیں جب ہم سحر وافطار میں سادہ غذا کا استعمال کریں۔خصوصاً افطاری کے وقت زیادہ ثقیل اور مرغن تلی ہوئی اشیا ء مثلاً سموسے ‘پکوڑے ‘کچوری وغیرہ کا استعمال بکثرت کیا جاتا ہے جس سے روزے کا روحانی مقصد تو فوت ہوتا ہی ہے خوراک کی اس بے اعتدالی سے جسمانی طور پر ہونے والے فوائدبھی مفقود ہوجاتے ہیں بلکہ معدہ مزید خراب ہوجاتا ہے لہذا افطاری میں دستر خوان پر دنیا جہان کی نعمتیں اکٹھی کرنے کی بجائے افطار کسی پھل کھجور یا شہد ملے دودھ سے کرلیا جائے اور پھر نماز کی ادائیگی کے بعد مزید کچھ کھالیا جائے اس طرح دن میں تین بار کھانے کا تسلسل بھی قائم رہے گا اور معدے پر بوجھ نہیں پڑے گا۔افطار میں پانی دودھ یا کوئی بھی مشروب ایک ہی مرتبہ زیادہ مقدار میں استعمال کرنے کی بجائے وقفے وقفے سے استعمال کریں۔ ان احتیاطی تدابیر پر عملدر آمد سے یقیناًہم روزے کے جسمانی وروحانی فوائدحاصل کر سکیں گے۔
٭۔روزہ اور احتیاطی تدابیر:۔
یہ یاد رکنا چاہیے کہ مندرجہ بالا فوائد تب ہی ممکن
ہوسکتے ہیں جب ہم سحر و افطار میں سادہ غذا کا استعمال کریں۔ خصوصاً افطاری کے وقت
زیادہ ثقیل اور مرغن‘ تلی ہوئی اشیاء مثلاً سموسے‘ پکوڑے‘ کچوری وغیرہ کا استعمال
بکثرت کیا جاتا ہے جس سے روزہ کا روحانی مقصد تو فوت ہوتا ہی ہے خوراک کی اس بے
اعتدالی سے جسمانی طور پر ہونے والے فوائد بھی مفقود ہوجاتے ہیں بلکہ معدہ مزید
خراب ہوجاتا ہے لہٰذا فطاری میں دسترخوان پر دنیا جہاں کی نعمتیں اکٹھی کرنے کے
بجائے افطار کسی پھل کھجور یا شہد ملے دودھ سے کرلیا جائے اور پھر نماز کی ادائیگی
کے بعد مزید کچھ کھالیا جائے۔ اس طرح دن میں تین بار کھانے کا تسلسل بھی قائم رہے
گا اور معدے پر بوجھ نہیں پڑے گا۔ افطار میں پانی دودھ یا کوئی بھی مشروب ایک ہی
مرتبہ زیادہ مقدار میں استعمال کرنے کے بجائے وقفے وقفے سے استعمال کریں۔ ان شاء اللہ
احتیاطی تدابیر پر عملدرآمد سے یقینا ہم روزے کے جسمانی و روحانی فوائد حاصل
کرسکیں گے۔
کراچی سول ہاسپٹل کے کڈنی اسپیشلسٹ اور امراض گردہ کے شعبے کے سربراہ ڈاکٹر ادیب رضوی نے روزہ داروں کے نام ایک خاص پیغام جاری کیا ہے۔انہوں نے کہا ہے کہ وہ افطار کے وقت کوئی بھی کولڈ ڈرنک نہ پئیں۔ ان کولڈ ڈرنکس میں کوکا کولاپیپسی سیون اپ وغیرہ شامل ہیں۔اس کی وجہ یہ ہے کہ تمام دن بھوک پیاس کی وجہ سے گردوں میں پانی کی کمی واقع ہو جاتی ہے ۔ایسی صورت میں ٹھنڈی اور تیزابیت سے بھر پور بوتلیں پینے سے گردے فیل ہونے کا خطرہ بڑھ جاتا ہے ۔خاص طورسے افطارکے وقت تو بالکل نہ پئیں۔اس کے بجائے ٹھنڈے پانی اور پھلوں کے تازہ جوس سے روزہ افطارکریں۔
کراچی سول ہاسپٹل کے کڈنی اسپیشلسٹ اور امراض گردہ کے شعبے کے سربراہ ڈاکٹر ادیب رضوی نے روزہ داروں کے نام ایک خاص پیغام جاری کیا ہے۔انہوں نے کہا ہے کہ وہ افطار کے وقت کوئی بھی کولڈ ڈرنک نہ پئیں۔ ان کولڈ ڈرنکس میں کوکا کولاپیپسی سیون اپ وغیرہ شامل ہیں۔اس کی وجہ یہ ہے کہ تمام دن بھوک پیاس کی وجہ سے گردوں میں پانی کی کمی واقع ہو جاتی ہے ۔ایسی صورت میں ٹھنڈی اور تیزابیت سے بھر پور بوتلیں پینے سے گردے فیل ہونے کا خطرہ بڑھ جاتا ہے ۔خاص طورسے افطارکے وقت تو بالکل نہ پئیں۔اس کے بجائے ٹھنڈے پانی اور پھلوں کے تازہ جوس سے روزہ افطارکریں۔
ماہر امراضِ معدہ و جگر پروفیسر ڈاکٹر محمد سعید کھوکھر
آل پاکستان سوسائٹی آف گیسٹرو انٹرولوجی اینڈ جی آئی اینڈوسکوپی کےسابق صدر
کہتے ہیں۔ افطار اور سحر کے وقت ایسی غذائیں استعمال کی جائیں جن میں توانائی بخش
اجزاء مثلاً کاربوہائیڈریٹس، پروٹین اور مفید چکنائیاں شامل ہوں۔ بہت زیادہ مرغن
اور تیز مرچ مصالحے دار اشیاء کھانے سے پرہیز کرنا چاہیے۔ روزہ رکھنے کے جسمانی
فوائد بھی ہیں کیونکہ رمضان کے روزے رکھنے سے صبح صادق سے غروب آفتاب تک کچھ نہ
کھانے پینے کی وجہ سے جسم کے اندر غیر ضروری چربی اور انسانی حرارے ضائع ہوتے ہیں
جس کے نتیجے میں جسم صحت مند رہتا ہے۔
معدے کے مریضوں کو سحر میں ایسی غذا کھائیں جو معدے میں دیر سے ہضم ہوتی
ہیں۔ مثلاً گوشت، انڈا، روٹی، دودھ اور پھل کھائیں۔ ایسی غذائیں کھائیں جن کا پھوک
معدے میں رہے۔ بغیر چھانے آٹے کی روٹی کھائیں، سبزیوں کا زیادہ استعمال کریں۔
ایسی غذا کھائیں جن میں پروٹین اور کاربوہائیڈریٹس زیادہ مقدار میں پائے جاتے ہیں۔
اس سے آپ کا معدہ خالی نہیں رہے گا اور آپ کو بھوک کا احساس بھی نہیں ہوگا۔ جن
کو یورک ایسڈ کی شکایت ہے وہ سرخ گوشت کھانے میں احتیاط کریں ۔
٭٭٭
٭۔پرہیز:۔
روزہ کے طبی فائدے یونہی نہں ہں
بلکہ نظام زندگی کو خوشگوار بنانے کے لےے ایک ماہ تک مسلسل مشق کرائی جاتی ہے اور
اسی تسلسل اور مشق کی بنا پر جسم انسانی میں جو بھی خرابی پیدا ہوچکی ہوتی ہے اُسے
درست کرنے کا رمضان شریف میں روزوں کے دوران موقع نصیب ہوتا ہے۔ رمضان شریف کے
روزوں کا بھرپور فائدہ حاصل کرنے کے لےے ضروری ہے کہ اُصولوں کے مطابق افطار و سحر
کا اہتمام کیا جائے۔ خاص طور سے بادی، ثقیل اور تلی ہوئی چیزوں سے پرہیز کیا جائے
اور روزمرہ کے کاموں میں تخفیف کردی جائے اور وقت مقررہ کا تعین کرلیا جائے، جس کے
دوران معمولات زندگی کے کاموں کو آسانی سے کیا جاسکے۔
٭۔مشورہ:۔
گرمی کے روزوں کے دوران بہتر یہی ہے کہ کھجور اور سادہ
پانی سے روزہ افطار کیا جائے اور حسب ضرورت مشروبات کا استعمال کیا جائے اور جو
لوگ ذیابیطس (شوگر) کے مریض ہےں وہ خشک میووں کا مشروب استعمال کریں۔ اس کے علاوہ
نماز مغرب کے بعد ہی کھانا کھائیں تاکہ سحری میں کچھ کھانا کھایا جاسکے اور اس بات
کی کوشش کی جائے کہ ختم سحری سے ٹھیک پہلے تک کھایا پیا جائے کیونکہ گرمی کے روزے
میں دن بڑا ہوتا ہے اور راتیں چھوٹی ہوتی ہےں۔ ایسی صورت میں مغرب کے بعد طعام اور
ختم سحری سے ٹھیک پہلے تک کھانا بہتر ہوگا۔
ہماری اپنے قارئین سے
گزارش ہے کہ سحر و افطار کے اوقات میں بس اتنا سا فرق ملحوظ رہے کہ آ پ کے کھانے
پینے کے طرزِ عمل سے’’زندہ رہنے کے لیے کھانا‘‘ جھلکے اور نہ کہ ’’کھانے کے لیے
زندہ رہنا‘‘ظاہر ہو۔ پیٹ بھر کے ضرور کھائیں لیکن جی بھر کے کھانے کی کوشش نہ کریں
۔ یہی روزے کا مقصد اور تقاضا ہے ،اور جب تک ہم روزے کی روح،مقصد اور تقاضے کو
پورا نہ کریں گے تو ہمیں ما سوائے بھو کا اور پیاسا رہنے کے کچھ بھی حاصل نہ ہو گا
۔ رمضان کے مبارک ایام کا ایک ایک لمحہ
حقیقی روزہ دار کے لئے عبادت شمار ہوتا ہے۔
دعا ہے کہ اللہ تعا لیٰ
ہمیں روزے کی صحیح روح ،مقصد اور تقاضے کو سمجھنے کی ہمت،طاقت اور توفیق عطا
فرمائے اور ہم سب کو حقیقی روزہ داروں میں سے قرار دے۔ خداوندعالم ہمیں صحیح معنوں
میں تعلیمات محمد ؐ و آلِؑ محمد ؐ پر عمل
کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔آمین ثم آمین ۔اپنی
دعائوں میں خاکسار کو بھی ضرور یاد رکھیئے گا۔
٭۔۔۔حوالہ
جات۔۔۔٭
1۔۔روزہ اور میڈیکل سائنس۔۔ آصف منصور بٹ، ماس کمیونیکیشن ایم اے او کالج۔ www.nawaiwaqt.com.pk/opinions/03-Jul
2۔۔میڈیکل سائنس کی رو سے
روزے کے فائدے۔۔http://www.bitlanders.com/blogs/270965/270965
4۔۔ روزہ ' جسمانی صحت اور جدید طبی تحقیقات۔۔
تحریر :حکیم قاضی ایم اے خالد
5۔۔ روزہ رکھنے سے اچھی صحت، عمر درازی۔۔۔بی بی سی رپورٹ
6۔۔ روزہ اور جدید سائنس ۔ حکیم محمد طارق محمود چغتائی۔۔ ماہنامہ منہاج
القرآن : ستمبر 2007 ء
7۔۔ روزے کی جسمانی و نفسیاتی افادیت میڈیکل سائنس کی روشنی
میں۔۔۔ ڈاکٹر محمد سلطان شاہ۔۔ معارف، اعظم گڑھ، بھارت،
اگست ۲۰۱۰ء
8۔۔ روزے
کی جسمانی و نفسیاتی افادیت میڈیکل سائنس کی روشنی میں۔۔۔ ڈاکٹر محمد سلطان شاہ۔۔ ترجمان القرآن ۔ شمارہ
،اگست 2011 ء
12۔ روزہ اور صحت۔۔ پروفیسر ڈاکٹر محمد واسع شاکر۔۔
http://www.fikrokhabar.com
13۔ روزہ رکھیں، دل اور کینسرکے امراض سے بچیں۔۔:
یونیورسٹی آف سدرن کیلیفورنیا رپورٹ۔http://urdu.jasarat.org/
15۔
روزہ، مسلم اور غیر مسلم کی نظر سے۔۔خبر ٹی وی۔ رپورٹ: دریہ اقبال۔: http://english.khabartv.tv/index.php/opinion
16۔ روزہ جسمانی صحت اور جدید تحقیقات۔۔حکیم ضیاء الرحمن سندھو۔http://www.urdumajlis.net/threads/روزہ-جسمانی-صحت-اور-جدید-تحقیقات
17۔ کھجور کی تعریف اور فوائد۔۔ حکیم محمد ابراہیم شیخ۔http://www.siratulhuda.com
18۔ فلسفه روزه امام سجاد علیہ السلام کی نظرمیں۔۔ حجۃ
الاسلام علامه محمد علی فاضل۔ اسلام آباد۔http://www.fazil.pk/ur/articles/43-فلسفه-روزه.htm
19۔
کھجور۔ ۔ ۔ ایک صحت بخش غذا بھی، دوا بھی۔۔۔تحریر: محسنہ ۔http://www.urdupubliclibrary.com/?q=node/10671
20۔ روزے کے جسمِ انسانی کے مختلف اعضاء پر مرتب ہونے والے اثرات کی ایک علمی و طبی تحقیق ۔۔ ماہنامہ منہاج القرآن۔۔ جولائی 2013ء
23۔۔ روزہ اور خون کے روغني مادے۔۔۔۔۔۔ ڈاکٹر عاصم فاروق
انصاري۔www.tebyan.net.urdu
24۔۔ روزے کے روحانی اور طبی
فوائد اور جدید سائنس۔۔
مفتی انس عبدالرحیم ۔ http://www.suffahpk.com/rozy
25۔۔روزہ :انسانی جسم کا عمدہ محافظ۔۔۔ ڈاکٹر عاصم فاروق انصاري۔http://alhassanain.org
26۔۔ روزہ جدید سائنس کی کسوٹی پر۔۔۔طالبعلم حیدرآبادی
37۔۔http://urdunama.org/forum/vie
38۔۔http://technologytimes.pk/urdu-news.php?titl
43۔ روزے کی طبی برکات
ایک معلومات افزا تحقیق۔۔ ڈاکڑ بلوک نور باقی ترکی۔۔۔ مترجم سید محمد فیروز شاہ گیلانی
44۔۔-:
http://humshehrionline.com
46۔۔
http://www.ur.islamic-sources.com/article
47۔۔ کھجور کے فوائد۔۔۔ ماہنامہ محدث ـ بنارس ؛ ستمبر ـاکتوبر 2008۔http://www.urdumajlis.net/threads/کھجور-کے-فوائد.1277
49۔ قرآن و سنت کی روشنی میں رمضان مبارک کی خصوصیات اور معنوی اثرات۔۔ سید رمیزالحسن موسوی، ۔
50۔ اسلام اور جدید
سائنس ۔۔ باب چہارُم : اِسلام اور طبِ جدید۔۔ ڈاکٹر طاہر القادری
http://www.minhajbooks.com/urdu
52:۔۔ داؤدی روزے سے بہتر کوئی روزہ نہیں۔۔ ڈاکڑ شائستہ خان۔
http://urdudigest.pk/dawai-rooz-soey-behtr-b/
53۔ روزہ-کےطبی-فوائد۔۔
حکیم نیاز احمد ڈیال۔ http://www.urdufanz.com/threads/ روزہ-کے-طبی-فوائد
55۔۔ روزہ اور صحت ۔۔ حکیم غلام یزدانی قریشی۔http://darulamal.org/magazines/ruhani/vol5/3/57.htm#.VZuz9rU6GXY
56۔ روزہ جسمانی اور روحانی امراض کا قدرتی علاج۔
ht://urdutest.scaleengine.net/health/02-Jul-2014/17935tp
57۔۔ روزے کے شرائط، ثواب فوائد اور اس کے آثار۔۔ سید ارشد کاظمی۔http://sadeqin.com/ur/article.php?mod=4&id=882
59۔
کھجور سے روزہ افطار کرنا افضل اور باعث بر کت ہے۔۔ حا فظ محمد اسحاق جیلانی
http://universalurdupost.com/?p=1032
60۔ روزہ رکھئے صحت -مند رہئے۔۔ دانش ریاض۔۔ http://srinagartoday.net/روزہ-رکھئے-صحت-مند-رہئے
61۔ روزہ کے نفسیاتی فوائد اور
جدید سائنس ۔ http://www.ubqari.org/index.php?r=article/details&id=4830
65۔۔ ماہ رمضان میں
ٹھنڈی بوتلیں گردوں کے لیے خطرناک۔۔۔۔ ڈاکٹر ادیب رضوی۔۔۔http://www.oururdu.com/forums
66۔۔۔انٹرویو ۔۔ ماہر امراضِ معدہ و جگر پروفیسر ڈاکٹر محمد سعید کھوکھر آل
پاکستان سوسائٹی آف گیسٹرو انٹرولوجی اینڈ جی آئی اینڈوسکوپی کےسابق صدر www.nawaiwaqt.com.pk/opinions/23-Jun.../394965
69۔ روزہ اور ذیابیطس کی روک تھام: رپورٹ ۔۔نصرت
شبنم۔۔http://www.urduvoa.com/content/article/1948563.html
70۔ روزہ دل کے مرض اور کینسر
کیلئے مفید۔۔۔ http://www.urdutimes.com/content/83105#sthash.uu6mlgLr.dpuf
72۔ رمضان المبارک میں صحت مند رہنے کے چند رہنما
اصول۔ ڈاکٹر سید قنبر رضا۔ http://m.hamariweb.com/farticle.aspx?id=35501
No comments:
Post a Comment