نویدِ سحر
( محمد نوید الحق شہید تمغہ بسالت)
مرتبہ
نسیم عباس نسیمی
ناشر
مکتبہ انوار الثقلین بمقام اتھر تحصیل
پنڈدادنخان ضلع جہلم
فہرست عناوین
نمبرشمار
|
عنوان
|
صفحہ
نمبر
|
نمبرشمار
|
عنوان
|
صفحہ
نمبر
|
1
|
انتساب
|
|
28
|
علامہ
محمد اقبال کا تصور شہادت
|
|
2
|
اھداء
|
|
29
|
فرمان
قائد اعظم محمد علی جناح
|
|
3
|
مقدمہ
|
|
30
|
شہادت
امام خمینی کی نظر میں
|
|
4
|
حرف
آغاز
|
|
31
|
چیف
آف آرمی سٹاف کے خطاب سے اقتباسات
|
|
5
|
عرض
مئولف
|
|
32
|
شہید
کی خاک ِ لحد کا ذرہ ذرہ قوم کےلئے نشاطِ انگیز
|
|
6
|
وجہ تحریر
|
|
33
|
شہادت
کی وراثت
|
|
7
|
اظہارِ
تشکر
|
|
34
|
قدروقیمت
میں خون جنکا حرم سے بڑھ کر
|
|
8
|
شہید
کی زندگی ایک نظر میں
|
|
35
|
موت
ایک اٹل و نا قابل انکا حقیقت
|
|
9
|
وقت
نے ہم کو چنا امتحان کے واسطے
|
|
36
|
پیارے
بہت یاد آتے ہیں
|
|
10
|
ماں
کے تاثرات
|
|
37
|
شہداء
کے گلدستے اور روایات کی پاسداری
|
|
11
|
باپ
کے تاثرات
|
|
38
|
شجرہ
نسب
|
|
12
|
بہن
کے تاثرات
|
|
39
|
حلیہ
|
|
13
|
بھائی
کے تاثرات
|
|
40
|
اخلاق
و کردار کی ایک جھلک
|
|
14
|
رشتہ داروں کے تاثرات
|
|
41
|
تعارف
|
|
15
|
تعزیت
نامے
|
|
42
|
آبائی
نام
|
|
16
|
شہید
کی عظمت
|
|
43
|
لقب
|
|
17
|
شہید
کی حق سے وابستگی
|
|
44
|
تاریخ
پیدائش
|
|
18
|
شہید
کا حق انسانیت پر
|
|
45
|
جائے
ولادت
|
|
19
|
شہید
کے جسم پاک کی اہمیت
|
|
46
|
والد
|
|
20
|
شوقِ
شہادت
|
|
47
|
والدہ
|
|
21
|
شہید
کا خون
|
|
48
|
بہن
،بھائی
|
|
22
|
شہید
کی کارنامہ سازی
|
|
49
|
خاندان
|
|
23
|
شہید
زندہ جاوید ہوتا ہے
|
|
50
|
ابتدائی
تعلیم
|
|
24
|
شہید
شافع ہوتا ہے
|
|
51
|
اسلامی
تعلیم
|
|
25
|
قبرِشہید
کی اہمیت
|
|
52
|
اساتذہ
کرام
|
|
26
|
شہداء
قرآن کی نظر میں
|
|
53
|
پرورش
|
|
27
|
شہداء
احادیث اور اقوال معصومین ؑ کی روشنی میں
|
|
54
|
سلسلہ
بیعت
|
|
فہرست عناوین
نمبرشمار
|
عنوان
|
صفحہ
نمبر
|
نمبرشمار
|
عنوان
|
صفحہ
نمبر
|
55
|
راولپنڈی روانگی
|
|
71
|
مجھے
شہادت مطلوب ہے
|
|
56
|
فوجی
زندگی عظیم زندگی
|
|
72
|
بھلائی
کی طرف سبقت کرنے والے
|
|
57
|
ملازمت
|
|
73
|
شہادت
کی اطلاع گھر والوں کو
|
|
58
|
محکمانہ
کورس (ایس ایس جی)
|
|
74
|
شہادت
کی خبر کے بعد گھر کا منظر
|
|
59
|
آپریشن
راہ نجات وانا روانگی
|
|
75
|
شہید
کے چہرے کا دیدار
|
|
60
|
وانا
سے واپسی
|
|
76
|
شہید
کا جسد خاکی جب گاؤں میں داخل ہوا
|
|
61
|
چھٹی
گزارنے کے بعد واپسی
|
|
77
|
گھر
سےجنازہ کیلئے جسد خاکی کی روانگی
|
|
62
|
وانا
سے دوبارہ واپسی
|
|
78
|
جسد
خاکی جنازہ گاہ کی طرف جاتے ہوے رستے کا
منظر
|
|
63
|
دعا
کیجئے مجھے شہادت کا درجہ نصیب ہو
|
|
79
|
جسد
خاکی جنازہ گاہ میں،آخری آرام گاہ
|
|
64
|
چھٹی
کا خاتمہ اور وانا کی طرف واپسی ،مقتل گاہ کی طرف روانگی
|
|
80
|
گارڈ
آف آنر
|
|
65
|
تحفظِ
وطن ایک عبادت
|
|
81
|
اعزازات
|
|
66
|
قاتلوا
فی سبیل اللہ
|
|
82
|
ابدی
رشتے
|
|
67
|
تحفہ
شہادت کا حصول
|
|
83
|
منظوم
خراج عقیدت
|
|
68
|
شہید
ہسپتال میں
|
|
84
|
اخبارات
کے تراشے
|
|
69
|
شہید
کو غسل و کفن
|
|
85
|
آئینہ
تصاویر
|
|
70
|
شہید
کی نماز جنازہ
|
|
|
|
|
|
|
|
|
|
|
٭
انتساب
٭
ان
تمام
شہیدانِ وفا
کے
نام
جنہوں
نے
اپنی
پیاری جانوں کے
نذرانے
دے کر
دین
کو
رہتی دنیا تک زندہ و جاوید
کر دیا۔
﷽
جو لوگ اللہ کی راہ میں مارے جائیں،
تم انہیں مردہ مت کہو،
بلکہ وہ زندہ ہیں
مگر تم اسکا شعور نہیں رکھتے ۔
(سورہ البقرہ 15)
مقدمہ
انسانیت کی ابتداء لاکھوں سال قبل ہوئی۔اپنی پیدائش سے
لیکر آج تک انسان اور انسانی معاشرے نے ارتقائی سفر کیا۔اس دوران کئی تہذیبوں نے
جنم لیا جنہوں نے انسانی معاشرے کی ترقی
میں اپنا کردار ادا کیا اور پھر وہ صفحہ ہستی سے
مٹ گئیں انکی جگہ نئے تہذیب و تمدن آئے
اور انہوں نے انسانیت کو آگے بڑھایا اور یہ
سلسلہ اسی طرح جاری رہا۔
انسانیت کے اس ارتقائی سفر میں لاکھوں انسانوں نے
اپنا کردار ادا کیا ان میں انسانوں کی اخلاقی،روحانی،علمی،معاشرتی
اور ثقافتی ترقی کے لیے جدوجہد کی اور انسانی قافلے کا ارتقائی سفر جاری رہا۔ ہر آنے والے نے اپنے دور
میں اپنی ذمہ داری کو نبھایا ور مدت حیات کے ختم ہونے پر اس جہاں کو الوداع کہا۔ انکے بعد دوسروں
نے اس مسئولیت کو سنبھالا یکے بعد دیگرئے یہ سلسلہ جاری رہا ہے اور آئندہ بھی جاری رہے گا۔تاریخ نے
انسانی معاشرے کے ارتقاء میں کردار کرنے والے اشخاص کے
رول کو محفوظ کیا ہے اور ہم تک
پہنچایا ہے اب انسانیت کے ان معماروں اور
خدمت گزاروں کو پڑھنے انکا تذکرہ کرنے اور
انکی یاد منانے کا فلسفہ ہمیں سمجھ آتا ہے وہ یہ ہے کہ ہم انکے متعلقہ دور کے تقاضوں اور صورتحال کو سمجھیں پھر انکے
پس منظر میں ذمہ داریوں کو ادا کرنیکے لیے عملی جد وجہد کو جانیں اور پھر انکے کردار و افکار سے اپنی ذمہ داریوں کو ادا
کرنے کے لیے رہنمائی حاصل کریں۔
صدر اسلام سے لیکر آج تک اسلام کے پیرو کار دین حق کی
سربلندی کیلئے قربانیاں پیش کرتے ہیں لیکن کسی بھی موقع پر انہوں نے اسلام
کو سرنگوں دیکھنا گوارا نہیں کیا۔
٭ جب ذکر وفاؤں
کا گلستان میں چھڑے گا۔۔ برسوں
تجھے گلشن کی فضا روتی رہے گی٭
حرف آغاز
شہیدوں کا لہو وہ خون ہے جس کی تجلی سے
یقین افراد قوموں کے مستقبل سنورتے ہیں
اس کی تابشوں سے آسمان فکر و دانش پر
نئی صبحیں بکھرتی ہیں نئے
سورج نکلتے ہیں
وہ قوم کبھی بھی ناکام نہیں ہوسکتی جو اپنے ماضی سے تعلق نہیں توڑتی اور اپنے شہداء
اور ہیروز کی قربانیوں کو فراموش نہیں
کرتی کیونکہ انکے کارنامے
اور کامیابیاں نوجان نسل کے لیے مشعل
راہ ثابت ہوتی ہیں۔
مجھے بھی ایک ایسے شہید کی یاد لکھنے
پر مجبور کر رہی ہے
جو اس عظیم
مملکت پاکستان کی عزت و ناموس اور سبز ہلالی پرچم
کو اقوام عالم
میں خاطر اپنے خون کا نذرانہ دے کر
ہمیشہ ہمیشہ کے
لیے زندہ جاوید ہو گئے۔
٭اے وطن تو نے پکارا تو لہو کھل اٹھا۔۔۔تیرے بیٹے،تیرے جانباز چلے آتے ہیں٭
عرض مؤلف
جو قومیں اپنے رہنماؤں کی یاد اور شہداء کے خون سے رو گردانی کرتی ہیں تاریخ
انہیں اپنے دامن سے جھاڑ دیتی ہیں ہاں اگر کبھی انکا
تذکرہ سرراہ ہو بھی جائے
تو انہیں محسن فراموش قوم کے نام سے پکارا جاتا
ہے اور پھر جن قوموں کا
تعارف ؛؛ محسن فراموش؛؛ کے حوالہ سے معروف ہو انکی زندگی انکے لیے باعث ذلت ہوا
کرتی ہے۔
آئے روز
پاکستان آرمی کا بہتا لہو پاک
دھرتی کو سیراب کر کے وطن کی آبیاری کر رہا
ہے۔
کوئی دن ایسا نہیں گزرتا جس دن کسی مجاہد کی شہادت کی خبر نہ آئے ۔
کربلا سے شروع ہونے والا شہادتوں کا
سفر آج بھی جاری ہے
اور شہدائے کربلا
کے وارث اپنے مقدس لہو سے
دین اسلام اور وطن کی نقاء کی جنگ لڑ رہے
ہیں ۔
٭ روشن کریں گے خون سے ایسے چراغ ہم۔۔۔ بجھ بھی گئے اگر
تو اجالا نہ جائے گا٭
وجہ تحریر
کمرے میں لگی تصویر دیکھی ،شہید کے چہرے کی طرف دیکھتے ہی شہید کی
زندگی
ایک فلم
کی طرح آنکھوں کے سامنے آنے لگی اور میں شہید کے غم میں پریشان ہو گیا۔
پھر سوچا کہ مجھے شہداء کی راہ پہ چلنا بھی ہے جب تلک پہ زندگی ہے
جینا بھی ہے تو کیوں نہ جتنا میرے بس میں شہید کو خراجِ عقیدت پیش کیا
جائے ۔
مضمون لکھنے کے لیے میں نے ایک بار
پھر کی تصویر کو غور سے دیکھا اور میرے سامنے شہید کا وہ پر مسرت اور پر امید چہرہ
روشنی بن کر چمکنے لگا اور ایسے لگا کہ وہ
کہہ رہے ہوں کیا سوچ رہے ہو جو کرنا ہے کر گزرو ،ہمت کرو ،ہمت کرو گھبراؤ نہیں، اپنی
صلاحیت کوآزماؤ،زیادہ نہ سہی کم سہی مگر کوشش ضرور کرو۔
شس اس شہید کے نورانی چہرے کو میں دیکھتا رہا
اور جو لکھ سکتا تھا لکھتا رہا۔
٭۔۔٭
٭
میرے خیال نے جتنے بھی لفظ سوچے ہیں
تیرے مقام تیری عظمتوں سے چھوٹے ہیں
٭
٭۔۔٭
اظہار تشکر
٭شہید کی زندگی کی ایک نظر میں٭
نام۔۔۔محمد نوید
الحق
القاب۔۔۔سلطانی
والد کا نام۔۔۔ محمد گلزار
والدہ کا نام۔۔ عصمت
بی بی
بہن۔بھائی۔۔۔حلیمہ سعدیہ ، ذیشان
حیدر
ولادت۔۔17 اکتوبر
1988 بوقت دن گیارہ بجے
مقام
ولادت ۔۔سعدیہ کلینک پنڈدادنخان
شہادت۔۔8 مارچ 2012
مقام شہادت۔۔۔
عمر ۔۔۔24سال
نماز جنازہ کس نے پڑھائی ۔۔۔صاحبزادہ مطلوب
الرسول
قبر میں کس نے اتارا۔۔۔۔
اعزازات۔۔۔ شہادت،
تمغہ بسالت
والدہ کے تاثرات
"بیٹا رب کی رضا
کے لیے کر دیا ہے میں نے جدا۔۔۔رب راضی ہو جائے اور کر دے معاف خطا"
رب کی رضا کے لیے ایک
بیٹا تو چیز ہے کیا ۔۔۔میں رب کے رستے میں سو بیٹے بھی کر دوں فدا
میرا بیٹا محمد
نوید بہت جلدی مجھ سے جدا ہو گیا لیکن اس
کے ساتھ خوشی بھی ہے
کہ اللہ نے شہادت کا درجہ عطاء کیا۔ اس کی شدید
ترین تمنا دل کی خواہش جو تھی
جو وہ دعاؤں میں اللہ سے مانگا کرتے تھے
اور مجھ سے بھی
کہا تھا کہ میرے لیے دعا کرنا وہ اللہ
نے انہیں عطاء کیا۔
٭تو کہتا تھا شہادت
پا کے رب کے پاس جاؤنگا۔۔۔ہوا سچ یہ تیرا کہنا،تجھ کو یہ عظمت مبارک ہو٭
کسی کی امانت
جو چیز ہوتی ہے وہ واپس دینا ہی
پڑتی ہے اور جو کچھ میرے پاس باقی رہ گیا
ہے وہ بھی عاریتا ہے اسکو اختیار ہے کہ وہ
جب چاہے اپنی امانت کو واپس لے لے۔ اب اللہ کریم سے دعا ہے کہ اتنی عظیم نعمت لینے
کے بعد جو تنہائیاں مجھے میسر آئیں انکا
اجر جنت میں ان سے ملاقات کی صورت میں دے
اور ہماری دنیا میں بھی آسانیاں پیدا کر دے اور مشکلات کو دور کر دے۔آمین۔
"متاعِ جان بس
اک خوشبو ہے اس کے نام کی"
اب اس خوشبو کے پیچھے
زندگی بھر بھاگتے رہنا
والدکے تاثرات
"تیرے خون کی
چمک سے گلستان کو سجایا جائے گا"
دے کر خون جس گلستان
کو تو نے کیا سیراب
جوان بیٹے کی جدائی کا صدمہ کوئی معمولی صدمہ
نہیں
یہ ایک ایسا تیر ہے جو سینے کے آر پار ہو جاتا ہے۔
اور اس کا زخم ساری
زندگی نہیں بھرتا۔مگر اللہ پاک صبر دینے والے ہیں۔
اپنے پروردگا کے حضور
دعا کرتا ہوں کہ
اے میرے اللہ میر ے بیٹے کی قربانی قبول فرما
۔
اس پر راضی ہو جا اور اس کی خطائیں معاف فرما۔
آمین
"قبول ہو مولا قربانی
اس لخت جگر
کی"
ہمیں چاہیے صرف رضا تیری کر رحم جو تو رحمان ہوا
بہن کے تاثرات
" کیسے کٹتے ہیں میرے شب و روز اس کے بغیر "
مجھ کو معلوم ہے یا میرا رب جانتا ہے
اسلام کی سر
بلندی کے لئے جان کا نذرانہ اپنے رب کے حضور پیش کرنا دنیا کی سب سے بڑی
سعادت ہے۔
میرے بھائی نے اللہ کی راہ میں اپنی جان نچھاور کر کے
ہمارے سر فخر سے بلندکر دئیے
ہیں ۔اب ہم ایک شہید کے وارث بن چکے ہیں۔دعا
کرتے ہیں کہ اے اللہ تعالی ہمارے بھائی کی
شہادت قبول فرما اور ہمارے لئے آخرت کا ذریعہ نجات بنا ۔آمین
"الوداع کہتے
کہتے الوداع ہوگیا بھائی"
بہت دن ساتھ رہا آخر
جدا ہوگیا بھائی
ہمیں بھائی کی جدائی
پر آنسو تو ضرور آتے ہیں لیکن اللہ تعالی صبر کرنے والوں کے ساتھ ہے۔یقین ہے کہ
قیامت کے روز ہمارا بھائی جنت کے دروازے پر کھڑا ہمارا انتظار کر رہا ہوگا ہمیں فخر ہے کہ اس شہداء کی
ماؤں،بہنوں۔اور بھائیوں کی قطار میں ہم
بھی کھڑے ہونگے۔
" تصور کی خیال
آرائیاں دل سے نہیں جاتیں"
نکل کر تیری محفل سے تیری محفل میں رہتے ہیں
خالہ کے تاثرات
٭تسلیم اختر٭
"قبائے نور سے
سج کر لہو سے باوضو ہو کر "
وہ پہنچے شہید
بارگاہ حق میں کتنے سرخرو ہو کر
نوید نے سکول کی
پڑھائی میں بہت زیادہ نمبر نہیں لئے پر وہ قسمت کا سکندر تھا
ہر چیز کوشش سے نہیں
بلکہ نصیب سے ملتی ہے۔
اللہ پاک نے اسے دنیا
میں بھی ہمارےلئے نوید بنایا اورآخرت میں
بھی نوید بنا کر اس کے نام کا مطلب پورا کر دیا۔
اللہ تعالی نے اتنی چھوٹی سی عمر اسے بہت بڑے مرتبہ پر فائز
فرمایا۔
اللہ پاک کا احسان ہے جہاں مجھے اس کی شہادت پہ بہت فخر ہے ۔
وہا ںمجھے اس کے دنیا
سے چلے جانے کی تکلیف بھی بہت ہے۔
اس کے جانے
سے جو خلا ہماری زندگیوں میں آیا وہ کبھی پر نہیں ہو سکتا۔
بے شک دنیا فانی ہے
اور ہم سب نے اسے چھوڑ کے جانا ہے۔ جس اللہ تعالیئ نے لیا وہ ہم سے اس کا زیادہ
حقدار ہے بے شک اللہ تعالی اپنے بندوں پر ظلم نہیں کرتا۔
"جان دے دی دی ہوئی اس کی تھی"
حق تو یہ ہے کہ حق ادا نہ ہوا
تعزیت نامے
شہید کی عظمت:۔
دنیا کی کی نظر میں
عموما اور مسلمانوں کی نظر میں خصوصا بعض الفاظ مقدس اور عظیم تصور کیے جاتے ہیں۔ جیسے نبی،امام،عالم،استاد،مجاہد،شہید وغیرہ ۔ جب
کوئی شخص درجہ شہادت پر فائز ہوتا ہے تو اسلام اسے اپنے معیار اور قواعد کے تحت شہید
کہتا ہے۔
شہید کی حق سے وابستگی:۔
قرآن مجید شہید کی حق
سے وابستگی کے بارے ارشاد فرماتا ہے۔خیال نہ کرناکہ جو لوگ خدا کی راہ میں
شہید ہوئے ہیں وہ مردہ ہیں بلکہ
وہ ہمیشہ زندہ ہیں اور اپنے
پروردگار سے رزق حاصل کرتے رہتے ہیں۔
شہید کا حق انسانیت پر:۔
دنیا کی تمام شخصیات جنھوں نے کسی بھی طریقہ سے انسانیت کی خدمت کی ہو انسان کی گردن پر اپنا حق اور احسان
رکھتی ہیں۔لیکن کسی بھی نامور شخصیت نے
شہید کی طرح انسانیت پر اپنا حق اور
احسان نہیں رکھا۔شہداء بزم انسانیت کی شمع
ہیں جنکا کام فنا ہو کر انسانیت کی محفل کو روشن کرنا ہے۔
اگر ان کی روشنی نہ
ہوتی تو ظلم و جبر کی تاریکی انسان کو تمدن تک پہنچنے ہی نہ دیتی۔
شہداء کے جسم پاک کی اہمیت:۔
شہید کا جسم روح کی طرح لطیف اور پاک ہے۔ جس طرح کے لئے غسل وکفن لازم
نہیں اسی طرح جسد
شہید کے لئے ان چیزوں کی ضرورت نہیں۔ چنانچہ شہید کو غسل و کفن دئے بغیر خاک و خون سے بھرئے ہوئے لباس میں دفن کیا جاتا
ہے۔
شوقِ شہادت:۔
غزوہ بدر کے موقع پر حضرت خثیمہ (رض) اور ان کے بیٹے حضرت سعد
(رض) میں اس بات پر اختلاف ہوگیا کہ دونوں میں سے
اس غزوہ میں کون شریک ہو۔ بالآخر رفع نزع کے لئے قرعہ اندازی ہوئی اور بیٹے کے نام پر قرعہ نکل
آیا لیکن والد گرامی کی پھر بھی یہی خواہش رہی کہ سعد مجھے ترجیح دیں۔
ائمہ اطہار ؑ کی دعائیں جو ہم تک پہنچی ہیں فرماتے ہیں۔ترجمہ:۔اے اللہ
اپنی رحمت کے تصدق ہمیں صالحین میں داخل
فرما اور علیین کا مقام عطاء فرما اور ہم کو توفیق عطاء فرما
کر ہم تیرے دوست کے ساتھ
تیری راہ میں
شہید ہوں اور ہمیں شہادت کا درجہ حاصل ہو۔
شہید کاخون:۔
شہید کا خون زمین میں جذب نہیں ہوتا بلکہ اس کا ہر ہر قطرہ ہزاروں بلکہ لاکھوں قطروں میں تبدیل ہو کر ایک دریا کی شکل اختیار کر کے
معاشرے کے بدن میں داخل ہو جاتا ہے۔شہادت معاشرے کے نحیف بدن کو خون دینے کا نام ہے۔ یہ شہداء ہیں جو معاشرے کی
سوکھی رگوں کی اپنے خون سے آبیاری کرتے ہیں۔
شہید کی کارنامہ سازی:۔
شہید کارنامہ ساز
ہوتا ہے شہید کی سب سے بڑی خصوصیت اس کی
کارنامہ سازی اور شجاعت ہوتی ہے۔ جن اقوام کی روح خدا کی راہ میں شجاعت دکھلانے
اور کارنامہ سازی کرنے میں پژمردہ ہو جاتی
ہے شہید اپنی شہادت کے ذریعہ ان میں جان
ڈالتا ہے۔
شہید زندہ جاوید ہوتا ہے:۔
شہید اپنے خون اور اپنے تمام وجود کی بدولت معاشرے میں اپنے
آپ کو زندہ جاوید کرتا ہے یعنی وہ معاشرہ کی رگوں میں زندہ خون کو پیدا کرتا ہے۔ شہید کا خون ابدیت تک معاشرے کی رگوں میں جوش مارتا رہے گا۔
شہید شافع ہوتا ہے:۔
حضرت پیغمبر اسلام
ﷺ نے فرمایا خداوندعالم قیامت کے دن تین گروہوں کی شفارش و
شفاعت کو قبول کرئے گا ایک انبیا ؑ دوسرے ائمہ اطہار ؑ اور علماء جو ان کے پیرو
کاروں اور تیسرے شہداء۔
قبر شہید کی اہمیت:۔
شہید کی قبر کی مٹی قابل احترام ہے۔ شہید کی قبر کا مرتبہ
بلند و بالا ہے۔ یہ ایک قسم کا احترام ہے جو شہید اور اس کی شہادت کو دیا جاتا ہے۔ جو شہادت کے
مقام و منزلت کو اجاگر کرتا ہے۔
شہداء قرآن کی نظر میں:۔
اور جو لوگ خدا
کی راہ میں مارے گئے ان کے عملوں کو ہر گز
ضائع نہیں گا۔(سورہ محمدﷺ)
شہداء احادیث اور اقوال معصومین ؑ کی روشنی:۔
حضرت پیغمبر اسلام
ﷺ نے فرمایا ۔کوئی بھی قطرہ خدا کے نزدیک اس قطرہ خون کی
نسبت جو راہ خدا میں بہایا جائے بہتر نہیں۔
خداوندعالم قیامت کے دن تین گروہوں کی شفارش و شفاعت کو
قبول کرئے گا ایک انبیا ؑ دوسرے ائمہ اطہار ؑ اور علماء جو ان کے پیرو کاروں اور تیسرے شہداء۔
انیسویں رمضان المبارک کی سحر جب دشمن کی تلوار نے حضرت
امام علی ؑ کے فرقِ مبارک کو کاٹا تو آپؑ نے فرمایا۔کعبہ کے پروردگار کی قسم میں کامیاب ہو گیا۔
علامہ محمد اقبال کا تصور شہادت:۔
''شہادت ہے مطلوب و
مقصود مومن۔۔نہ مال غنیمت نہ کشور کشائی''
''یہ غازی یہ تیرے پر
اسرار بندے۔۔جنہیں تو نے بخشا ہے ذوق خدائی''
دو نیم ان کی ٹھوکر
سے صحرا و دریا۔۔ سمٹ کر پہاڑ ان کی ہیبت سے رائی
دو عالم سے کرتی ہے بیگانہ دل کو۔۔ عجب چیز ہے لذت آشنائی
''یہ شہادت اللہ کر رستے میں بے تیغ و سپر۔۔ ہے جسارت آفریں
شوقِ شہادت کس قدر"
فرمان قائد اعظم
محمد علی جناح:۔
شہادت امام خمینی کی نظر میں:۔
جس قوم کے لئے شہادت نیک بختی ہے، کامیابی اس کا مقدر ہے۔
چیف آف آرمی سٹاف کے خطاب سے اقتباسات:۔
شہید کی خاک ِ لحد کا ذرہ ذرہ قوم کےلئے نشاطِ انگیز:۔
شہید کی خاک کاذرہ ذرہ اس کی قوم کے لئے نشاط انگیز
ہے۔اس کی قوم اس پر فخر کرتی ہے اس کی شکر گزار ہوتی ہے کہ اس نے قوم کی زندگی اور
بقاء کی خاطر اپنی جان قربان کر دی۔
"نغمہ عشرت بھی اپنے نالہء ماتم میں ہے۔۔ رقص تیری خاک کا کتنا نشاط انگیز
ہے"
شہادت کی وراثت:۔
امام خمینی
نے فرمایا شہادت ایسی چیز ہے جسے عزیز شخصیتوں نے اپنے بزرگوں سے
وراثت میں حاصل کیا ہے۔
قدروقیمت میں خون جنکا حرم سے بڑھ کر:۔
"نکل کے باغ جہاں سے برنگِ بو آیا۔۔ہمارے واسطے
کیا تحفہ لے کے آیا"
اپنے وطن اور قوم کی آزادی اور حفاظت کی خاطر جدوجہد
کرتے ہوئے ان پر جان قربان کرکے شہادت کا بلند مقام حاصل کرلینا ایسا مقدس اور
عظیم الشان عمل ہے کہ اس جہان میں بڑھ کر
اور کوئے نہیں۔شہادت ایک ایسی چیز کہ اس جیسی شے جنت میں بھی میسر نہیں جذبہ شہادت
ہی سے امت مسلمہ کی عزت وآبرو قائم و دائم ہے۔
"ان شہیدوں کی دیت اہل کلیسا سے نہ مانگ۔۔ قدرقیمت
میں ہے خون جن کا حرم سے بڑھ کر"
موت ایک اٹل و
نا قابل انکا حقیقت:۔
موت
ایک اٹل و نا قابل انکا حقیقت ہے جس کا
ذائقہ ہر ذی روح کو بہرحال چکھنا ہے۔جس طرح مختلف انسانوں میں فرق ہوتا ہے اس طرح
اموات میں بھی فرق ہوتا ہے۔سب سے برتر موت شہادت کی موت ہے بلاشبہ شہادت کی موت
سعادت کی موتے ہے ۔یہ بلند مرتبہ موت ہے
جو ہر کسی کو نصیب نہیں ہوتی اور یہ بھی
کہا جاتا ہے کہ بعض لوگ اس مقام پر ہوتے ہیں
کہ شہادت ان کا انتخاب کرتی ہے۔
پیارے بہت یاد آتے ہیں:۔
عمومی طور پر جب ہم سے ہمارا کوئی پیارا جدا ہو جاتا ہے تو اس
کی یادیں ہمارا سرمایہ بن جاتی ہیں۔اس پیارے سے وابستہ ہر چیز کو دیکھ کر ہم تڑپتے
ہیں ،ہم اس کی یاد میں مارے مارے پھرتے ہیں۔
شہداء کے گلدستے اور روایات کی پاسداری:۔
افواجِ پاکستان کے شہداء کے گلدستوں سے اٹھنے والی
خوشبو سے پاکستان کی فضائیں مہک رہی ہیں۔
ان گلدستوں میں موجود ہر پھول
رنگ،نسل،زبان اور علاقائی وابستگیوں سے بالا تر صرف وطن کی مٹی کی مہک لئے ہوئے
ہیں۔جب تک شہیدوں کا خون اس مٹی کی آبیاری کرتا رہے گا ہماری
آزادی،سلامتی اور وقار کی طرف کسی کو میلی آنکھ سے دیکھنے کی جرات نہیں ہو گی۔ قوم کو بھی چاہیے کہ وطن کے ان محسنوں کی قربانیوؤ
کو فراموش نہ کرئے کیونکہ زندہ قومیں اپنے ان بہادر بیٹوں کی بدولت ہی سر اٹھا کر جیتی ہیں جنہوں نے اپنا آج
ہمارے کل کے لئے قربان کردیا۔
شجرہ نسب:۔
حلیہ:۔گندمی رنگ، مضبوط جسم،درمیانہ
قد،موٹا جسم۔ سیاہ اور گھنی ریش،چوڑی چھاتی
اخلاق و کردار کی ایک جھلک:۔
خوش اخلاق، صوم و صلوتہ کا پابند،والدین کا انتہائی فرمانبردار،بہن بھائیوں ،عزیز و اقارب،اور دوست
احباب سے محبت و احترام سے بات کرنے والا،
تعارف:۔
پاک فوج کا مہر
منیر۔ بے خوفی اور جرات کی تصویر۔اللہ کا
سپاہی،راہ شہادت کا راہی۔
آبائی نام:۔محمد نوید الحق۔۔لقب:۔سلطانی
تاریخ پیدائش:۔17 اکتوبر 1988 بوقت دن گیارہ بجے۔۔جائے
ولادت:۔اتھر
والد:۔محمد
گلزار۔۔والدہ:۔عصمت
بی بی۔۔بہن ،بھائی:۔حلیمہ
سعدیہ۔۔ذیشان
حیدر۔
خاندان:۔
ابتدائی تعلیم:۔
تیسری جماعت تک گورنمنٹ ہائی سکول اتھر سے،چہارم تک
منہاج ماڈل سکول دھمیال کیمپ راولپنڈی سے، ششم راولپنڈی گرائمر ماڈل سکول
دھمیال کیمپ راولپنڈی سے،2001 میں ہفتم میں داخلہ لیا اور ہفتم سے دہم تک کمیونٹی
ماڈل سکول اتھر سے تعلیم حاصل کی۔
اسلامی تعلیم:۔
اساتذہ کرام:۔ گورنمنٹ ہائی
سکول اتھر کے اساتذہ:۔
منہاج ماڈل سکول دھمیال کیمپ راولپنڈی کے اساتذہ:۔شاہین،ارسانہ،شہناز۔
راولپنڈی گرائمر ماڈل سکول دھمیال کیمپ راولپنڈی کے اساتذہ:۔راشد،ناصر،ندیم،ثمینہ،رضوانہ۔
پرورش:۔
اتھر کی گلیوں کی آٹھ برس تک اس کی نگرانی کی ہے۔بچپن۔لڑکپن،جوانی۔اس
کی زندگی کا ہر پہلو شبنم کے قطرے کی طرح شفاف اور اجلا ہے۔
سلسلہ بیعت:۔2003
جب جماعت نہم مین تھے تو سلطان باہو
کے سجادہ نشین پیر معروف سلطان کے مرید بنے۔
راولپنڈی روانگی:۔
فوجی زندگی عظیم زندگی:۔
" جھپٹنا پلٹنا پلٹ کر جھپٹنا ۔۔۔ہے لہو گرم کرنے کا اک
بہانہ"
فوج کی زندگی ایک منفرد زندگی ہے۔ ایک فوجی کو اپنے ملک
اور قوم کے لئے بہت سی قربانیوں سے گزرنا پڑتا ہے۔فوج کی زندگی ایک عبادت سے کم نہیں کہ فوجی تربیت کے دوران
کسی بھی جوان کو بوقت ضرورت ملک کے دفاع اور قومی پرچم کے وقار کے لئے سر دھڑ
کی بازی لگانا سکھایا جاتا ہے۔ایک فوجی کا جینا اور مرنا اپنے ملک سے ہوتا ہے جس کے لیے وہ اپنے
گھر کی تمام خوشیوں کو قربان کر دیتا ہے۔
" یہ غازی یہ تیرے پر اسرار
بندے۔۔جنھیں تو نے بخشا ہے ذوقِ خدائی"
دو نیم ان کی ٹھوکر سے دریا و صحرا ۔۔ سمٹ کر پہاڑ ان کی ہیبت سے رائی
ملازمت:۔
31اکتوبر2006ء
پاک آرمی کی رجمنٹ AK2 میں بھرتی ہوگئے۔ٹریننگ
سنٹر مانسر کیمپ اٹک میں ٹریننگ کی۔ ٹریننگ مکمل کرنے بعد میرپور آزاد کشمیر چلے
گئے۔اس کے بعد یونٹ سیالکوٹ چلی گئی سیالکوٹ میں کمانڈو کورس ایس ۔ایس۔جی شروع کر دیا جون 2010ء میں یہ کورس ختم ہوگیا۔
اس کے بعد منگلہ اور اٹک کے مقامات پر تعنیات کر دئیے گئے۔
محکمانہ کورس (ایس ایس جی) :۔
سیالکوٹ
میں کمانڈو کورس ایس ۔ایس۔جی شروع کر دیا
جون 2010ء میں یہ کورس ختم ہوگیا۔ اس کے بعد منگلہ اور اٹک کے مقامات پر تعنیات کر
دئیے گئے۔
آپریشن راہ نجات وانا روانگی:۔
جولائی 2010ء میں یونٹ دہشت گردوں کے خلاف آپریشن میں حصہ لینے وانا
روانہ ہوگئی۔ جہاں پر یونٹ نے جولائی
2012ء تک رہنا تھا۔
"اب تمہارے حوالے چمن ساتھیو۔۔۔۔ہم تو تو مقتل کی جانب چلے
ساتھیو"
وانا سے واپسی:۔
شہید گھر والوں
کو ملنے کے لئے نومبر 2011ء کو گھر چھٹی لے کر آئے اور کچھ دن یہاں پر قیام کیا۔
چھٹی گزارنے کے بعد واپسی:۔
شہید نومبر 2011ء سے
9 نومبر 2011ء تک گھر رہے۔ چھٹی کے ختم ہوتے ہی "وانا" کی طرف
چلے گئے۔
"شاہین کبھی پرواز سے تھک کر نہیں گرتا۔۔ جو پر دم
ہے تو نہیں خطرہ ء افتادہ"
وانا سے دوبارہ واپسی:۔
17 اور 18 فروری 2012ء کی درمیانی شب شہید "وانا" سے دوبارہ چھٹی لے کر
گھر آئے شہید کی طبیعت پہلے سے تبدیل تھی۔
" مت کہنا آندھیاں مصائب کی ہیں چار سو۔۔ وہ اور
تھے جو گردش دوراں سے در گئے"
دعا کیجئے مجھے
شہادت کا درجہ نصیب ہو:۔
" کٹ جاؤں جو مقتل میں تو اف تک نہیں کہنا۔۔ غم میری جدائی کا اے ماں صبر سے سہنا"
شہید واپس اپنے گھر آگیا والدہ کیساتھ نماز عصر اکھٹی
ادا کیَ نماز کے بعد والدہ سے کہا کہ آپ
میرے لئے دعا کریں کہ میں شہید ہو جاؤں۔ماں نے کہا بیٹا میں تیرے لئے یہ دعا
نہیں کروں گی۔ بیٹے نے اسرار کیا کہ امی جان آپ میرے لئے شہید ہونے کی دعا کریں۔ تو امی نے بیٹے کو ptv ڈرامہ سیریل غازی مقبول
حسین کا قصہ سنانا شروع کر دیا۔
"پیاری ماں مجھ کو تیری دعا چاہیے۔۔ شہادت ملے مجھ کو اور
کیا چاہیے"
چھٹی کا خاتمہ اور وانا کی طرف واپسی:۔آخری
چھٹی 17،18 فروری 2012ء میں اور یکم مارچ
2012ء واپس چلے گئے راہ وفا کے رہرو اس بات سے آگاہ ہیں کہ اللہ کے دین کے غلبے کی
خاطر سروں کو ہتھیلوں پر سجانا پڑے گا۔ ہم کٹیں گے اور ہمارے سروں کے بیج جب زمین
میں بوئے جائیں گے تب جا کر اسلام کی غلبے
کی فصل لہلہائے گی۔
"عقابی روح بیدار ہوتی ہے جوانوں میں۔۔۔نظرآتی ہے ان کو اپنی
منزل آسمانوں میں"
مقتل گاہ کی طرف روانگی:۔
پاک آرمی کے جانباز دفاع وطن کے لئے اپنی جانوں کا
نذرانہ پیش کرنا اپنے باعث صد افتخار سمجھتے ہیں۔بلا شبہ قوم و ملک کا مستتقبل ان
کی ثابت قدمی ،جرات اور اولعزمی سے وابستہ ہے۔ شہید نے "وانا" پہنچنے کے بعد اپنی ڈیوتی شروع کر دی۔ مجاہدین
جن کی فطرت میں ہی ہتھیار ڈالنا شامل نہیں
ہے دہشت گردوں کا قلع قمع کرنے کے برسر پیکار تھے۔
" جسے زندگی ہو پیاری وہ یہیں سے لوٹ جائے۔۔۔ہمارے
کارواں میں کوئے کم ظرف نہیں ہے"
تحفظِ وطن ایک عبادت:۔
قاتلوا فی سبیل اللہ:۔
تحفہ شہادت کا حصول:۔
"جفا کی تیغ سے گردن وفا شعاروں کی۔۔ کٹی ہے برسر میدان مگر جھکی تو نہیں"
اللہ کے شیر "وانا" میں اپنے رب کی رضا کے
لئے پڑاؤ ڈالے ہوئے تھے۔8 مارچ 2012ءشہید کی ڈیوٹی شروع ہوئی الہ کے باغی ،شیطان
کے پجاری گھات لگائے بیٹھے تھے۔"وانا" کا علاقہ اس وقت شہید کے خون سے
رنگین ہوا جب شہید کو گن کا فائر کیا گیا۔ یہ دن ایک بجے کا ٹائم تھا۔ علاقے کی
فضا شہید کے خون کی خوشبو سے معطر ہو گئی۔
"گرا ہے جس بھی خاک پر قیامتیں اٹھائے گا۔۔یہ تازہ
سرک سرخ گرم نوجوان لہو"
شہید ہسپتال میں:۔
پاک فوج کے مجاہد کو فائر سینے کی دائیں جانب لگا۔ مجاہد کو ایمبولینس کے ذریعے نزدیکی
ہسپتال میں لے جایا گیا۔
آپریشن تھیٹر میں پہنچتے ہی اس مقدس وطن کی حفاظت کے لئے جان کا نذرانہ پیش
کردیا۔
" شہادت کا ارمان تھا تیرے دل
میں۔۔ہوا منکشف تجھ پر راز شہادت"
وضؤ کر کے اپنے مقدس لہو سے۔۔
پڑھی تو نے نماز شہادت
شہید کو غسل و کفن:۔
"طعنہ نہ دیں ہمین کم ہمتی کا لوگ۔۔۔ہم شدت طوفان
سے ہنس کر گزر گئے"
شہید کی روح کا مرتبہ اتنا بلند و بالا ہے کہ اس کے اثر
سے شہید کا بدن پاک اور اس کا پہنا ہوا لباس اگرچہ خون میں غلطان ہو طاہر اور پاکیزہ ہو جاتا ہے۔ شہید جس
خدا کی راہ میں اپنا سر پیش کیا ہے غس و کفن
دئیےبغیر خاک و خون سے بھرئے ہوئے لباس میں دفن کیا جاتا ہے۔
شہید کی نماز جنازہ:۔
"ہر اک جوان کے بعد آئے گا جوان اور۔۔شہادتوں کا
یہ حسین سلسلہ نہ ٹوٹے گا"
شہید کی نمازہ جنازہ پاک آرمی کے نوجوانوں نے ادا کی ۔بعد ازاں سبز ہلالی پرچم میں لپٹا ہوا جسد خاکی آبائی گاؤں کی طرف بھیج دیا
گیا۔
مجھے شہادت مطلوب ہے:۔یہ
پاک فوج کے ان بہادر وں میں سے تھے جن کی نگاہوں میں دنیا حقیر ہو چکی تھی اور
بہتر و باقی رہنے والی توآخرت کی نعمتیں
ہیں ۔انہوں نے اللہ تعالی سے شہادت مانگی اللہ تعالی نے انہیں عطاء کر دی اور
شہادت سے بڑھ کر کوئی تحفہ نہیں۔
"ہم جامِ شہادت جھوم کر پیا کرتے
ہیں۔۔یہ جینا جینا نہیں ہم سر کٹا کر جیا کرتے ہیں"
بھلائی کی طرف سبقت کرنے والے:۔
وطن میں بعض لوگوں نے انتہائی مذموم حرکت کاآغاز کر دیا۔ وطن کا
گلامی کاپٹہ اپنی گردن سے نکال پھینکا ا ور ضلالت و گمراہی کو اختیار کر لیا۔ وطن
دشمن قوتیں ابھرنے لگی وطن کے دشمن بڑھ گئے ان سرکش عناصر کا معاملہ تو انتہائی
سنگین ہوگیا اس موقعہ پر پاک آرمی نے بہادرانہ مؤقف اختیار کیا ان
عناصر کو ختم کرنے کے لئے قربانیوں کی ضرورت تھی پاک آرمی کے لشکر وزیرستان اور وانا کی طرف
نکلنے لگے جن میں شہید لی یونٹ بھی شامل ہے۔ یہ راہ حق میں شہید ہوگئے اور ہمیشہ
رہنے والی جنت اور اس کی نعمتوں کی طرف سبقت کرنے والے بنے جہاں حقیقی زندگی ہے
اور ان کے رب کی طرف سے رزق ملتا ہے اور اللہ تعالی نے اپنے فضل سے جو کچھ انہیں
دیا اس پر خوش ہیں۔
"راہِ طلب میں جذبہ ہو جس کے ساتھ۔۔۔ خود اس کو
ڈھونڈ لیتی ہے منزل کبھی کبھی"
شہادت کی اطلاع گھر والوں کو:۔
"گھر سے نکلے ہیں حصول شہادت کی خاطر۔۔عزتوں کو
بچاتے ہیں جانیں لٹا کر"
شہادت کی اطلاع جب ٹیلی فون کے ذریعے گھر والوں کو دی گئی تو اس کی ماں کی آنکھوں میں آنسو آگئے۔
شہادت کی خبر کے بعد گھر کا منظر:۔
شہید کے چہرے کا دیدار:۔
شہید کا جسد خاکی جب گاؤں میں داخل ہوا:۔
شہید کا جسد خاکی گھر میں:۔
گھر سےجنازہ کیلئے جسد خاکی کی روانگی:۔
" رخصت ہوا ہے کون گلستان سے خوشبوؤ۔۔۔ آنسو سجے
ہوئے ہیں صبا کے چمن چمن"
اب ان لمحات کو کیسے بھلایا جائے گا جو خون سے رقم ہوئے
اور آنسوؤ ں کی بارات میں شہادت لے کر لوٹ گئے زندگی خوشیاں بے رنگ رہ گئیں۔ گھر
سے جب جنازہ نکلا تو
قیامت کا سماں تھا ماں چارپائی کے سرہانے سے اٹھتی تو پاؤں میں جا بیٹھی۔بہن بھائی کی چارپائی سے لگی ہچکیاں لیتی رہی مگر شہید کو دفنانے کے لئے لے جانے والے گئے۔شہید کا جسم سوچ رہا تھا کہ
شاید میری ماں تڑپ کے جب مجھے پکارے گی میری لال اب اٹھ جاؤ تو شاید مقدر کے لہو
کو بھی جوش آئے گا اور وہ میری جان مجھے
لوٹا کر مجھے میری ماں کی بانہوں میں واشس دے دے گا۔شہید کا جسم پاک عالم ارواح
میں سے سب کو تڑپتا ہوا دیکھ رہا تھا۔ شہید کے جسم سے جنت کی خوشبو آ رہی تھی مگر
پتھر آنکھوں سے ساکت جسم سے ایک ماں نے
اپنی زندگی کا اثاثہ اللہ تعالی کے سپرد کر دیا۔
جسد خاکی جنازہ گاہ
کی طرف جاتے ہوئے رستے کا منظر:۔
" میرےوطن پر نہ ظلمت کا راج چل
جائے۔۔ میرے لہو کے چراغوں کو سرخرو رکھنا"
کسی مقام پہ قائد نہ تنہا
رہ جائیں۔۔۔۔۔۔۔۔میری وفا کی بس اتنی سی آبرو رکھنا
جسد خاکی جنازہ گاہ میں:۔
"راہ الہ میں خود کو کٹا کے، تو مثل خوشبو بکھر گیا۔۔۔لائے گا
اب یہ نئی حیاتیں ،لہو جو ترا جدھر گیا"
نماز جنازہ آبائی گاؤں
میں ادا کی گئی جس میں فوجی افسران ،سپاہی،سماجی شخصیات اور عوام الناس نے جوش اور ولولے کے ساتھ شرکت کی۔
آخری آرام گاہ:۔
یہ شہید راہ وفا گاؤں اتھر میں آسودہ خاک ہوا اور دھرتی
کے سینے پر اپنے سرخ لہو سے یہ پیغام لکھ
چھوڑا۔
" جب بھی گھیرا تجھے ظلمتوں نے
کبھی۔۔۔مشعل جاں لئے ہم مقابل رہے"
ہم نے مر کر تجھے سرخرو کر دیا۔۔۔ھم
بھی تیرے شہیدوں میں شامل رہے
گارڈ آف آنر:۔
Ak2
کے میجر وحید ،آٹلری کے نائب صوبیدار مشتاق کی قیادت میں
پاک آرمی کے دستہ نے شہید کو سپرد خاک
کیا۔ مرقد پر قومی پرچم لہرا کر
سلامی دی اور گارڈ آف آنر پیش کیا۔
اعزازات:۔شہادت۔تمغہ
ِ بسالت
ابدی رشتے:۔
شہید ایک کتاب نہیں ہے بلکہ ایک مشن کی تکمیل ہے۔ یہ اس قوم اور وطن
کے فرزندوں کے لئے ہے جس سے شہید کو پیار تھا جس سے سارے شہیدان کرام کو پیار تھا۔
سر زمین پاک کی سرحدوں کی مقدس مٹی گواہ ہے کہ ان کا یہ پیار وقتی اور ہنگامی نہیں تھا۔ ابدی محبت کے یہی رشتے گہرے ہوں تو ہماری تقدیر اور کردار کو بدل سکتے ہیں۔دنیا
میں وہی قومیں سرفراز ہوتی ہیں جو اپنے
عظیم انسانوں کی قدر کرتی ہیں۔
منظوم خراج عقیدت:۔
اخبارات کے
تراشے:۔
آئینہ تصاویر:۔