فرہنگِ
نسیمی
مرتبہ
نسیم
عباس نسیمی
ناشر
مکتبہ انوار الثقلین بمقام اتھر تحصیل پنڈدادنخان ضلع جہلم
انتساب
قبلہ و کعبہ!
عزت مآب !!
والد گرامی !!!
مولانا غلام اکبر بلوچ
(رح) کے نام !
جن کی علم
دوستی صحرائے زیست میں میرے لئے زادِ راہ
بنی۔
نسیم عباس نسیمی
03320591769
Naseemathar14@gmail.com
ا۔۔ب
5. ہنوز، تاحال، ابھی تو۔
(زمانہ حال)
کھیتوں کو دے لو پانی اب بہہ رہی ہے گنگا کچھ کر لو نوجوانو، اٹھتی جوانیاں ہیں 6. اس نوبت پر، اس مرحلے پر۔ (زمانہ حال) "اب معلوم ہوا کہ اندر اس ایوان کے میں آپ سے نہیں آیا"۔ 7. آیندہ، مستقبل میں۔ (زمانہ مستقبل) اور اب روحانی طب (علم الاخلاق) کی بھی ضرورت نہیں رہے گی" ( 1956ء، حکمائے اسلام، 31:2 ) 8. اگلے ہی لمحے یا لمحات میں، بہت جلد، ابھی، عنقریب۔ (زمانہ مستقبل) "کاغذ پر ایسی مورت بناتی ہیں کہ اب بولی اور اب بولی"۔ ( 1936ء، پریم پچیسی، پریم چند، 65:2 ) 9. دوبارہ، مکرر (زمانہ مستقبل) بے وفاسے دوستی رکھتے نہیں اب نہ لینا ہاتھ میں اس کوکبھی ( ریاض امجد، 23:1 ) 10. اس کے بعد، بعد ازاں، بعدہُ، پھر (زمانہ مستقبل) غرض قسمت نے یاوری کی، تب زور سے بولا، اب میری باری ہے"۔ ( سنگھاسن بتیسنی، 24 ) 11. تھوڑی دیر پہلے، گزرے ہوئے قریب زمانے میں۔ (زمانہ ماضی) آدم سے بھی پہلے گزرے آدم یہ آدم، بو البشر تراب تھا ( 1925ء، گلدستہ نگارش، ناداں دہلوی، 3 )
12. اس وقت، تب (زمانہ ماضی)
"اب یہ ناچ نچایا کہ مجھ کو اوپر لے گیا" 1802ء، باغ و بہار، میرا من، 55 Father انگریزی ترجمہ۔ فَورًا اَبھی پِھر آئِنْدہ.مترادفات . اب۔ہ۔اس وقت۔ابھی۔ان دنوں،آگے کو، آئندہ۔
ابا۔۔ انکار۔
اب اب کرنا،اب تب
کرنا۔ہ۔ٹال مٹول کرنا ،حیلہ حوالہ کرنا۔
اب بھی۔ہ۔تابع فعل۔اس وقت
میں بھی۔ پھر بھی
اب تب ہونا ۔ہ۔مرنے کو ہونا۔
|
اَب [اَبْ] (سنسکرت
قدیم آریائی زبان میں 'آ'
اشارہ قریب اور 'وَ' یا 'وید' وقت کو کہتے تھے اور اسی سے 'اب' بنا جو کہ اردو
میں مستعمل ہے۔ 1503ء میں "نوسر ہار" میں استعمال ہوا۔
حرف بیانیہ 1. آخر، بھلا، بارے۔ "اب میں اپنے گھر کی تدبیر کون سے وقت کروں گا"۔ ( 1822ء، موسٰی کی توریت مقدس، 113 ) 2. کسی نکتے یا بیان کی تمہید یا تفصیل کے طور پر "اب اس گھر کے رہنے والیاں ..... اس سربند لفافے کا بھید کیا سمجھیں"۔ ( 1931ء، اختری بیگم، رسوا، 9 ) 3. خلاصہ کلام کی غرض سے، مترادف، خیر، بس، قصہ مختصر۔ "اب دیکھا ہے تو نے کہ میں کیسی ہوں اور خدا کے فضل سے میری عصمت کیسی ہے"۔ ( 1801ء، طوطا کہانی، 19 ) انگریزی ترجمہ Thus, as, in like manner اسم ظرف زماں 1. موجودہ وقت، زمانہ یا مدت، زمانہ حال۔ "اب کا احوال معلوم نہیں" ( 1805ء، آرائش محفل، افسوس، 73 ) "میں اکثر سوچا کرتا ہوں اگر اب سے دس برس پہلے ہم ملتے ..... تو مضائقہ نہ تھا"۔ ( 1944ء، افسانچے، 50 ) 2. ان دنوں، آج کل، اس دور میں، اس زمانے میں، اس زندگی میں۔ (زمانہ حال) موت سے ڈرتے ہیں اب پہلے یہ تعلیم نہ تھی کچھ نہیں آتا تھا اللہ سے ڈرنے کے سوا ( کلیات، اکبر، 4:2 )
3. اس وقت، اس دم، اس
لمحے۔ (زمانہ حال)
"آج کا ہوتا اب، ابھی، اسی دم ہو جائے" ( 1891ء، ایامٰی، 73 ) 4. اسی حالت میں، اس صورت میں، (کسی خاص امر یا واقعے کے پیش آنے پر) (زمانہ حال) "اب کیا کروں، بن دیکھے مکان کی طرف کیونکر جاؤں"۔ |
ا۔۔ب
اَبْ وَجَد [اَب + وَجَد]
(عربی)
اسم
نکرہ
1. خاندان کے بزرگ، باپ دادا، اسلاف، پرکھے
اَبّا [اَب + با] (عربی)
عربی زبان میں اسم مجرد
'اب' ہے جس کے ساتھ 'الف' ندائی لگا کر 'ابّا' بنا ہے یا پھر قیاس ہے کہ 'اے
بابا' کی تخفیف ہے۔ 1899ء کو "دیوانجی" میں مستعمل ملتا ہے۔
اسم نکرہ ( مذکر - واحد ) جنسِ مخالف: اَمّی [اَم + می] جمع: اَبّے [اَب + بے] جمع غیر ندائی: اَبّوں [اَب + بوں (و مجہول)] 1. جنم دینے والا، باپ، بابا۔ نیز اس کو خطاب کرنے کا کلمہ۔ "آپ خدا بخشے ابّا کے ملنے والے ہیں، میرے بزرگ ہیں"۔ ( 1954ء، پیر نابالغ، 64 ) 2. چچا، ماموں وغیرہ الفاظ کے بعد تعظیم کے طور پر، گویا باپ کے مرتبے میں، جیسے نانا ابّا، دادا ابّا۔ 3. خسر، مخدوم، آقا، یا بزرگ وغیرہ جس سے کوئی تعلق ہو (عظمت یا قربت کے اظہار کے لیے) جیسے : بی بی کے باپ سے ابّا کہہ کر تخاطب۔ کسی بزرگ کے وصفی نام کے ساتھ بطور تعظیم
۔ بڑا ہو گا تو کہے گا
مولانا ابّا پر بیشاب کر چکا ہے"۔ ( 1942ء، گنج پائے گراں
مایہ، 20 )
4. [ طنزا ] جیسے : بڑا ابّا آیا کہیں سے، شیطان کا ابّا۔ انگریزی ترجمہ Father, superior; a consummate knave
اَبّا جان [اَب + با +
جان]
اسم نکرہ
1. پیارے ابا (باپ کو پکارنے کا شائستہ کلمہ)۔ |
اَب[3]
[اَب] (عربی)
اسم نکرہ 1. چراگاہ، خشک یا تر چارہ (عموماً
ترکیب میں بشدب مستعمل)۔
َبْ بھی [اَب + بھی]
متعلق
فعل
1. 'اب' کی تاکید
اَبْ تَب [اب + تب]
متعلق فعل
1. چند روز میں، تھوڑی دیر میں، بہت جلد۔
بْ تَک [اَب + تَک]
متعلق فعل
1. گزشتہ زمانے سے کام کے جاری رہنے اور آخری حد معین کرنے کے لیے مستعمل(پہلے سے) اس وقت تک یا ابھی تک۔
َبْ جَب [اَب + جَب]
متعلق فعل
1. تامل، التوا، ٹال مٹول۔
اَبْ سے دُور [اَب + سے +
دُور]
متعلق فعل
1. خدا پھر ایسا سانحہ نہ دکھای، دور پار۔
َبْ کَر کے [اَب + کَر +
کے]
متعلق فعل
1. حال میں، اس زمانے میں
َبْ کے [اَب + کے]
متعلق فعل
1. اس دفعہ، اس مرتبہ، اس بار؛ نیز امسال۔
اَبْ نَہ تَب [اَب + نَہ +
تَب]
متعلق فعل
1. نہ اب نہ پھر، کبھی نہیں
٭ا َب و جَد۔۔۔
|
ا۔۔ب
َبابِیل کُوچی [اَبا +
بِیل + کُو + چی]
اَبابِیلْیا [اَبا + بِیل
+ یا] (عربی)
اسم نکرہ
1. ابابیل کے رنگ کا کبوتر۔ انگریزی ترجمہ
A swallow
اِباحَت [اِبا + حَت]
(عربی)
ب و ح اِباحَت۔عربی
زبان میں ثلاثی مزید فیہ کے باب افعال المعتل اجوف واوی سے مصدر ہے اردو میں
بطور حاصل مصدر مستعمل ہے۔ اردو میں 1851ء کو "ترجمہ عجائب القصص" میں
استعمال ہوا۔
اسم حاصل مصدر
( مؤنث - واحد ) 1. جواز، اجازت، جائز کرنا یا ہونا
"محض اباحت استعمال کی بنا پر یہ حقوق حاصل ہیں"۔ ( 1933ء، جنایات برجائیداد، 104. شرعی اجازت، جواز یا علت، کسی چیز کا شریعت میں مباح، جائز یا حلال ہونا۔ "دف زنی اور لحن کو ..... اباحت کے تحت میں لانا عقل کے نزدیک غیر مستحسن ہے"۔ ( 1933ء، اودھ پنچ، لکھنو، 18، 3، 5 ) انگریزی ترجمہ giving liberty, permitting; permission
مترادفات۔ِ اِباح
|
٭اباً جداً
اَبا زِیر [اَبا + زِیر]
(عربی)
سم
جمع
1. مصالحے، مسالے۔
اَبابِیْل [اَبا + بِیْل]
(عربی)
اب ل۔۔ اَبابِیْل
عربی زبان سے اسم جمع ہے
جس کا واحد نہیں ہوتا۔ اردو میں بطور واحد ہی مستعمل ہے۔1810ء کو "اخوان
الصفا" میں مستعمل ملتا ہے۔
اسم نکرہ ( مؤنث - جمع ) جمع: اَبابِیلیں [اَبا + بی + لیں (ی مجہول)] جمع غیر ندائی: اَبابِیلوں [اَبا + بی + لوں (و مجہول)] 1. سیاہ پر اور سفید سینے کی چھوٹی سی چڑیا، پرانے گنبدوں، مسجدوں، کھنڈروں اور تاریک عمارتوں میں گارے سے پیالے کی طرح کا گھونسلا بنا کر رہتی اور اسے نرم نرم پروں یا روئی سے سجاتی، غول در غول نکلتی، فضا میں چکر لگاتی اور اڑتے ہی میں ہوائی کیڑے کھاتی ہے۔ انگریزی میں Hirindu کہتے ہیں۔ ہم ابابیلوں سے لیکن کس لیے مانگیں مدد جب کہ تو خود ہے ہماری فتح و نصرت کی دلیل ( 1931ء، بہارستان، 40 )
انگریزی ترجمہ
a swallow
اَبابِیل جَنْگلی [اَبا +
بِیل + جَنْگ (ن غنہ) + لی]
عربی زبان سے ماخوذ لفظ
'ابابیل' اور فارسی زبان کے لفظ 'جنگل' کے ساتھ 'ی' نسبتی لگا کر مرکب بنایا گیا
ہے۔
اسم نکرہ ( مؤنث - واحد ) 1. ابابیل کی ایک قسم جس کی دم ابابیل کوچی کی طرح اور سر سرخ ہوتا ہے۔ (سیر پرند، 417) انگریزی ترجمہ a kind of swallow |
ا۔۔ب
اِباحِیَّہ [اِبا + حی +
یَہ] (عربی)
|
ِباحَتی [اِبا + حَتی]
ب و ح
اِباحَت اِباحَتی
'اباحت' کے ساتھ فارسی قاعدے کے مطابق 'ی' بطور لاحقۂ نسبت استعمال ہوا اور یہ اردو میں بطور صفت مستعمل ہے۔ 1863ء کو "تحقیقات چشتی" میں مستعمل ملتا ہے۔ صفت نسبتی 1. وہ شخص جو حرام و حلال کا قائل نہ ہو فرقۂ اباحیہ کا پیرو۔ "ان لوگوں کا اصولِ اخلاق اباحتی تھا"۔ ( 1964ء، تمدن ہند پر اسلامی اثرات، 44 ) رجوع کریں: اِبَاحِیَّہ
٭۔ اباحتیں
اِباحی [اِبا + حی] (عربی)
باحِیَّت [اِبا + حی +
یَت] (عربی)
ب و ح
اِباحَت اِباحِیَّت
'اباح' کے ساتھ 'ی' لاحقۂ نسبت اور 'ت' لاحقۂ کیفیت لگایا گیا ہے یعنی 'اباحی کی حالت' 1862ء کو "خطوط غالب (مرتبہ مہیش پرشاد)" میں مستعمل ملتا ہے۔ اسم کیفیت ( مؤنث - واحد ) 1. فرقہ اباحیہ کا عمل یا مذہب۔"ہاں اتنی بات اور ہے کہ اباحیت اور زندقہ کو مردود ..... سمجھتا ہوں"۔ ( 1862ء، خطوط غالب (مرتبہ مہیش پرشاد)، 345 رجوع کریں: اِباحِیَّہ |
ا۔۔ب
اُبالْنا [اُبال + نا]
(سنسکرت)
|
َباعِد [اَبا + عِد]
(عربی)
اسم
کیفیت
1. زیادہ دور، بعید تر، بہت پرے
٭۔اباق
اَباک [اَباک] (سنسکرت)
صفت
ذاتی
1. گونگا، چپ۔
انگریزی
ترجمہ
Dumb, speechlessا
اُبال [اُبال] (سنسکرت)
سنسکرت زبان سے دو الفاظ
'اد' اور 'ولن' کے مرکب سے ماخوذ ہے۔ اردو میں بطور حاصل مصدر مستعمل ہے۔ 1771ء،
کو 'ہشت بہشت" میں استعمال کیا گیا۔ متغیّرات
اُوبال [اُو + بال]
اسم حاصل مصدر ( مذکر - واحد ) جمع: اُبال [اُبال] جمع غیر ندائی: اُبالوں [اُبا + لوں (و مجہول)]
1. کھدبداکر اوپر اٹھنے کی کیفیت جو ابالنے
یا ابلنے سے پیدا ہو، پک کر جوش کھانے کی صورت، کھدبدی (عموماً دودھ، پانی وغیرہ
کے لیے مستعمل)۔ "جب ابال آ گیا اور رنگ کٹ گیا تو چھان کر عرق میں چاول
نچوڑ کر ڈال دیے"۔ ( 1828ء، مراۃ العروس،
206 ) 2. کف، پھین۔ "وہ اس میں ابال اور جھاگ آتے ہیں، بس دیکھا کیجیے۔"
( 1935ء، خادم، 164 3. [ مجازا ] (کسی
کیفیت یا جذبے وغیرہ کا) ابھار، جوش، ولولہ، شدت، وفور
"کبھی جی میں ایسا
ابال آتا ہے کہ دیوار سے سر پٹک دوں۔"
( 1933ء، روحانی شادی، 37 )
نگریزی
ترجمہ
ebullition, boiling; swelling with
anger or rage; anger, rage, burst of passion
مترادفات
|
ا۔۔ب
اُبالی ہَنْڈِیا [اُبا +
لی + ہَنْڈ (ن مغنونہ) + یا]
اسم
نکرہ
1. بغیر روغن کے پکایا ہوا سالن۔
اُبانِیَّہ [اُبا + نئی +
یَہ] (عربی)
اسم
نکرہ
1. بحرین میں زنگیوں کا ایک سیاسی گروہ (864ء) جس کا سرگروہ ایک شخص علی بن ابان زنگی تھا، اس نے خود کو علوی ظاہر کر کے عباسیوں کے خلاف خروج کیا اور بصرہ و عراق میں اپنی حکومت قائم کرلی۔ اس کی وفات کا دعویٰ کر کے تحریک کو مذہبی رنگ دے دیا۔ آج بھی بحرین میں اس گروہ کے لوگ اکادکا پائے جاتے ہیں۔ اَبَاہَن [اَبَا + ہَن] (سنسکرت)
اسم
معرفہ
1. پوجا یا ہون کے وقت دیوتاؤں کو منتروں سے بلانے کی رسم۔
اَبْتَت [اَب + تَت]
(عربی)
اسم
نکرہ
1. عربی حروف تہجی کی ترتیب (ابجد کے بالمقابل)۔
اَبْتَث [اَب + تَث]
(عربی)
اسم
نکرہ
1. عربی حروف تہجی کی ترتیب (ابجد کے بالمقابل)۔
ِبْتِدا [اِبْ + تِدا]
(عربی)
ب د ء
اِبْتِدا
عربی زبان سے اسم مشتق ہے۔ ثلاثی مزید فیہ کے باب 'افتعال' سے مصدر ہے عربی میں اس کا املا 'ابتداء' ہے۔ اہل اردو 'ء' کی آواز نہ ہونے کی وجہ سے 'ء' لکھنا فصیح نہیں سمجھتے۔ 1582ء کو "کلمۃ الحقائق" میں مستعمل ملتا ہے۔ اسم حاصل مصدر ( مؤنث - واحد ) 1. کسی امر کی بسم اللہ، شروعات، آغاز۔ "غسانیوں کے حملے کی ابتدا جس طرح ہوئی وہ اوپر گزر چکا ہے"۔ ( 1914ء، سیرۃ النبی، 9:2 ) |
ِبْلِیس [اِب + لِیس]
(عربی)
اُبالی [اُبا + لی]
(سنسکرت)
ُبالی سُبالی [اُبا + لی +
سُبا + لی]
صفت
ذاتی
1. ابالا سبالا کی تانیث |
ا۔۔ب
ابتدا ہی بری پڑی میری رنج
بے انتہا میں رہتا ہوں ( 1911ء،
نذر خدا، .91
ابتدا ڈالنا
آغاز کرنا، بنیاد رکھنا،
داغ بیل ڈالنا۔
جفا سہنے کی عادت یعنی
بنیاد وفا ڈالی کسی سے میں نے راہ و رسم کی یوں ابتدا ڈالی۔1، ( 1950ء، ترانہ وحشت، 118 )
٭۔ ابتداُ اعرض
ِبْتِداع [اِب + تِداع]
(عربی)
اسم
نکرہ
1. ایجاد، کوئی نئی چیز بنانا یا پیدا کرنا۔ انگریزی ترجمہ Innovation; the producing of something new, invention ٭۔ابتدالی۔مطلوبہ لفظ کی تفصیل موجود نہیں۔ تکلیف کیلئے معذرت خواہ ہیں
اِبْتِداءُ الْمَرَض [اِب
+ تِدا + اُل (ا غیر ملفوظ) + مَرَض] (عربی)
عربی زبان کے دو الفاظ،
'ابتداء اور مرض سے مرکب ہے۔ مرض کے ساتھ ال تخصیص کا مرکب اضافی بناتا ہے۔
اسم
کیفیت ( مؤنث - واحد )
1. [ طب ] وہ وقت جس میں مرض کی پہلے پہل تکلیف محسوس ہو، نیز بعض اطباء کے نزدیک مرض کے ابتدائی تین دن۔ (مخزن الجواہر، 11) |
شروع کرنے یا ہونے کا عمل۔
بھیگی ہے رات فیض غزل ابتدا کرو وقت سرود، درد کا ہنگام ہی تو ہے ( 1954ء، زنداں نامہ، فیض، 109 ) 2. غیر معین اور نامعلوم قدیم ترین زمانہ، ازل۔ "ابتدا میں خدا نے آسمان اور زمین کو پیدا کیا"۔ ( 1922ء، موسٰی کی توریت مقدس، 1 ) 3. کسی چیز یا امر کا ابتدائی دور، شروع کا زمانہ، اوائل۔ "مولوی چراغ علی مرحوم نے ابتدا میں ایک معمولی منشی کی طرح دفتر میں ملازمت کی"۔ ( 1935ء، چند ہم عصر، 26 ) 4. پہلا سرا، کسی شے کے شروع ہونے کی طرف کا کنارہ۔ سنی حکایت ہستی تو درمیاں سے سنی نہ ابتدا کی خبر ہے نہ انتہا معلوم ( 1927ء، شاد، میخانہ الہام، 182 )
5. [ عروض ] مصرع
دوم کا رکن اوّل۔
"ازالہ ..... اکثر عروض و ضرب میں واقع ہوتا ہے حشو میں کم، اور صدرو ابتدا میں بالکل نہیں آتا"۔ ( 1925ء، بحرالفصاحت، 163 )
6. مبتدا۔
موضوع اپنا جانتا منطق کو تس پر محمول ابتدا ہی کو کہتا تھا بے خبر ( 1810ء، میر، کلیات، 28 ) انگریزی ترجمہ beginning, commencement, exordium; birth, rise, source, origin
روزمرہ جات
ابتدا پڑنا آغاز یا شروعات ہونا، بنا قائم ہونا، داغ بیل ڈالی جانا۔ |
ا۔۔ب
اِبْتِدائی رُسُوم [اِب +
تِدا + ای + رُسُوم] (عربی)
عربی زبان سے دو الفاظ
'ابتدائی' اور 'رسوم' سے مرکب ہے۔ 'ابتدا' کے ساتھ 'ی'بطور لاحقہ نسبتی لگا کر
ساتھ 'سرم' کی جمع رسوم استعمال کیا گیا۔ اس طرح یہ مرکب توصیفی بنتا ہے۔
اسم نکرہ ( مؤنث - جمع ) جمع: اِبْتِدائی رُسُومات [اِب + تِدا + ای + رُسُو + مات] 1. [ قانون ] عدالتی مصارف جو کسی معاملے کے شروع ہی میں ادا کرنے پڑیں، کورٹ فیس، پہلا سرکاری حق؛ پہلا محنتانہ، نذرانہ؛ حق زمینداری۔ (فرہنگ آصفیہ : 84:1؛ اردو قانونی ڈکشنری، 3) اِبْتِدائی طِبّی اِمْداد [اِب + تِدا + ای + طِب + بی + اِم + داد] (عربی)
عربی زبان سے تین الفاظ کا
مرکب ہے۔ 'اِبْتِدائی' طِبّی (طب کے ساتھ لاحقۂ نسبت کے طور پر 'ی' لگائی گئی
ہے) اور 'امداد' اس طرح سے یہ مرکب توصیفی بنتا ہے۔ 1976ء کو "اردو کی چھٹی
کتاب" میں مستعمل ملتا ہے۔
اسم نکرہ ( مؤنث - واحد ) 1. کس حادثے کی صورت میں مریض کو معالج تک پہنچانے سے پہلے فوری امداد تاکہ تکلیف نہ بڑھے۔ "یہ انجمن ابتدائی طبی امداد کا انتظام بھی کرتی ہے۔" ( 1976ء، اردو کی چھٹی کتاب، 41 )
انگریزی
ترجمہ
first aid
ِبْتِدائی عَدالَت [اِب +
تِدا + ئی + عَدا + لَت] (عربی)
عربی زبان سے دو الفاظ
'ابتدائ' اور 'عدالت' سے مرکب ہے۔ مرکب توصیفی ہے۔ 1876ء کو "شرح قانون
شہادت" میں مستعمل ملتا ہے۔
اسم ظرف مکاں ( مؤنث - واحد ) جمع: اِبْتِدائی عَدالَتیں [اِب + تِدا + ای + عَدا + لَتیں (ی مجہول)
جمع غیر
ندائی: اِبْتِدَائی عَدالَتوں [اِب + تِدا + ای + عَدا + لَتوں
(و مجہول)]
|
اِبْتِدائی [اِب + تِدا +
ئی] (عربی)
|
ا۔۔ب
عربی زبان سے اسم مشتق ہے۔
ثلاثی مزید فیہ کے باب افتعال سے مصدر ہے۔ اردومیں بطور حاصل مصدر مستعمل ہے۔
1888ء کو "ابن الوقت" میں
مستعمل ملتا ہے۔
اسم
حاصل مصدر
1. اخلاقی پستی۔ کمینہ پن۔ "ایکٹری کا پیشہ ابتذال کی انتہائی منزل پر پہنچ گیا"۔ ( 1924ء، ناٹک ساگر، 352 ) 2. عمومیت یا کثرت استعمال جس سے اہمیت گھٹ جائے۔ "رفتہ رفتہ اس (قصیدے) کے ابتذال کی یہ نوعیت پہنچی کہ ادنٰی ادنٰی بنیوں تک کی شان میں کہے جانے لگے"۔ ( 1927ء، شاد، فکر بلیغ، 104 ) نظم و نثر کا عامیانہ رکیک انداز، فرسودہ اور پامال مضامین و الفاظ کا استعمال۔ "ابتذال سے بچنے کے لیے ضرور ہے کہ جب تک متقدمین کے کلام پر عبور نہ ہو شعر نہ کہے"۔ ( 1933ء، نظم طباطبائی، مقدمہ ) انگریزی ترجمہ vileness, meanness; servitude; carelessness in preserving anything اَبْتَر [اَب + تَر] (عربی)
ب ت ر ۔۔۔ اَبْتَر
ثلاثی مجرد کے باب سے اسم تفضیل ہے۔ اردو میں 1611ء کو "کلیات قطب شاہ" میں مستعمل ملتا ہے۔ صفت ذاتی 1. منتشر، پراگندہ۔ لکھ دیا ہم نے انھیں اپنی پریشانی کا حال واہ کیا سمجھا ہے ان کی زلف ابتر کا جواب ( 1935ء، ناز، کلیات ) جس میں ربط یا ترتیب نہ ہو، بے ترتیب، انمل بے جوڑ، نامربوط۔ بڑھ جاتا ہے جب ذوق نظر اپنی حدوں سے ہو جاتے ہیں افکار پراگندہ و ابتر ( 1936ء، ضرب کلیم، 91 ) |
1. ماتحت کچہری یا اس کا حاکم جس کے روبرو
مقدمہ کی سماعت شروع ہو(عدالت اپیل کے مقابلے میں)۔
"فوجداری کی اپیلوں میں عدالت اپیل کا فرض ہے کہ وہ روئداد پر مثل ابتدائی عدالت کے غور کرے۔" ( 1876ء، شرح قانون شہادت، 18 ) ٭۔ابتدائیات
ِبْتِدائِیَّہ [اِب + تِدا
+ ای + یَہ] (عربی)
ب د ء
اِبْتِدائِیَّہ
عربی زبان سے اسم مشتق ہے۔ ابتدا کے ساتھ 'ی' لاحقۂ نسبت اور 'ہ' لاحقۂ تانیث لگائی گئی ہے۔ اردو میں بطور اسم نکرہ مستعمل ہے۔ اسم مجرد واحد غیر ندائی: اِبْتِدائِیّے [اِب + تِدا + ای + یے] جمع: اِبْتِدائِیّے [اِب + تِدا + ای + یے] جمع غیر ندائی: اِبْتِدائِیوں [اِب + تِدا + ای + یوں (و مجہول)] 1. کسی کتاب یا رسالے وغیرہ کے اصل مضمون سے پہلے کی تعارفی یا تمہیدی عبارت، دیباچہ، پیش لفظ وغیرہ، خبر وغیرہ کی سرخی۔ "جب میں نے ان کو اپنی کتاب ..... کا مسودہ دکھایا تو انھوں نے سراہا اور ایک مختصر سا ابتدائیہ بھی لکھا"۔ ( 1973ء، جہانِ دانش، 476 ) ٭۔ ابتدائے جُزئی
اِبْتِدائے کُلّی [اِب +
تِدا + اے + کُل + لی] (عربی)
|
ا۔۔ب
اَبْتَری [اَب+تَری]
(عربی)
ب ت ر ۔۔
اَبْتَر ۔۔ اَبْتَری
ثلاثی مجرد کے باب سے اسم تفضیل 'ابتر' کے ساتھ فارسی قاعدے کے مطابق 'ی' بطور لاحقۂ کیفیت استعمال کی گئی ہے۔ اردو میں 1707ء کو "کلیات ولی" میں مستعمل ملتا ہے۔
اسم
کیفیت ( مؤنث - واحد )
1. انتشار پراگندگی، آوارگی، خرابی، تباہی و بربادی۔ ہر شخص میں جوش خود سری ہے سوشل حالت کی ابتری ہے ( 1921ء، اکبر، کلیات، 3، 447 ) 2. وہ دھوکا جو گنجفے یا تاش کی تقسیم میں ہو جائے "تم جب گنجفہ بانٹتے ہو تو ابتری ضرور پڑتی ہے"۔ ( 1894ء، امیراللغات، 5:2 ) انگریزی ترجمہ deterioration, ruin, decay; worth less ness, wretchedness, poverty; disorder, confusion; disorganization; mismanagement
اِبْتِسام [اِب + تِسام]
(عربی)
ب س م ۔۔ تَبَسُّم ۔۔ اِبْتِسام
عربی زبان سے اسم مشتق ہے۔ ثلاثی مزید فیہ کے باب افتعال سے مصدر ہے۔ اردو میں بطور حاصل مصدر مستعمل ہے۔ سب سے پہلے "کلیات میر" میں مستعمل ملتا ہے۔ اسم حاصل مصدر 1. تبسم، مسکراہٹ، شگفتگی۔ سر میں سموم سروری، رخ پہ رقوم دلبری دل میں ہجوم قاہری، لب پہ نجوم ابتسام ( 1966ء، الہام و افکار، 113 ) انگریزی ترجمہ smiling; smile; cheerfulness; gaiety |
2. پریشان و حیران۔
عشق کے پنتھ منے ہلجے ہے مانی منگل عاقلاں دیکھ انوں کو ہوے ہیں سب ابتر ( 1611ء، قلی قطب شاہ، کلیات، 111:2 ) 3. خراب، ردی، خستہ، تباہ و برباد۔ "زمانے کی نیرنگی سے اس طبیب حانق کا احوال ابتر ہوا"۔ ( 1746ء، خرد افروز و دلبر، 358 ) 4. اخلاقی طور پر بد، آوارہ، بدشعار، بدچلن۔ "آپے سے باہر ہو گئیں، نگوڑیاں ابتر ہو گئیں" ( 1901ء، راقم دہلوی، عقد ثریا، 17 ) 5. [ گنجفہ ] بے میر کی بازی جو رلا ملا دی جاتی ہے (بانٹ میں میر جب کسی کھلاڑی کے حصّے میں نہیں آتا تو پتے ملا دیے جاتے ہیں۔) جیتوں قمار عشق میں ناصح میں کس طرح اس گنجفے میں بازی ہے ابتر لگی ہوئی ( 1871ء، منتہی، دیوان، 178 ) 6. بے اولاد، لاولد، منقطع النسل۔ کہتے تھے ابتر میان خاص و عام دم بریدہ بے پسر ہے اس کا نام ( 1780ء، تفسیر مرتضوی، 250 )
7. ایک مہلک سانپ جو کوتاہ
دم ہوتا ہے۔
"اب نام سانپوں کے جس قدر یاد آتے ہیں حوالہ قلم کیے جاتے ہیں ..... ابتر، ناسر، این ..... الخ"۔ ( 1873ء، تریاق مسموم، 4 ) 8. [ عروض ] وہ رکن شعر جس میں بتر (زحاف) واقع ہو، جیسے فعولن سے فع۔
"بعض اس کو بجائے
ابتر کہنے کے محذوف مقطوع کہتے ہیں"۔
( 1925ء، بحرالفصاحت، 148 )
انگریزی
ترجمہ
ruined, spoiled; deteriorated, vitiated; worthless, destitute, miserable, poor; in disorder, disarranged; defective, imperfect; false (as a deal at cards) |
ا۔۔ب
اِبْتِلاع [اِب + تِلاع]
(عربی)
اسم
نکرہ
1. نگل جانا، گلے سے اتارنا۔
اِبْتِلائی [اِب + تِلا
(کسرہ ت مجہول) + ای] (عربی)
صفت نسبتی
1. ابتلا سے منسوب، مصیبت کا، آزمائش کا، آزمائشی۔ |
اِبْتِعاد [اِب + تِعاد]
(عربی)
اسم
نکرہ
1. (ہیئت) وہ زاویہ جو زمین پر سورج اور کسی سیارے کے مرکز سے کھینچے ہوئے خطوط سے بنے۔
ِبْتِغا [اِب + تِغا]
(عربی)
ب غ ی ۔۔ اِبْتِغا
عربی زبان سے اسم مشتق۔ ثلاثی مزید فیہ کے باب افتعال سے مصدر اور اردو میں بطور حاصل مصدر مستعمل ہے۔ عربی میں اصل لفظ 'ابتغاء' ہے اردو میں 'ء' کی آواز نہ ہونے کی وجہ سے 'ابتغا' لکھا جاتا ہے، 'ابتغاء' بھی مستعمل ہے۔ سب سے پہلے 1707ء کو گلیاتِ ولی میں مستعمل ملتا ہے۔ متغیّرات اِبْتِغاء [اِب + تِغاء] اسم حاصل مصدر 1. طلب، خواہش (ترکیب میں مستعمل)۔ "قرآن مجید نے مطلق کسب کی بجائے 'ابتغاء فصل' کی اصطلاح اختیار فرمائی ہے"۔ ( 1962ء، تجدید معاشیات، 152 )
اِبْتِکار [اِب + تِکار]
(عربی)
اسم کیفیت 1. جدت، ایجاد، تازہ تر کام کرنا۔
ِبْتِلا [اِب+تِلا] (عربی)
ب ل و ۔۔ اِبْتِلا
عربی زبان سے اسم مشتق ہے۔ ثلاثی مزید فیہ کے باب افتعال سے مصدر ہے اور اردو میں بطور حاصل مصدر مستعمل ہے۔ عربی میں اصل لفظ 'ابتلاء' ہے۔ اردو میں 'ء' کی آواز نہ آنے کی وجہ سے 'ابتلا' لکھا جاتا ہے۔ 1795ء کو قائم کے مجموعے "مختار اشعار" میں مستعمل ملتا ہے۔ اسم حاصل مصدر ( مؤنث - واحد ) جمع: اِبْتِلائیں [اِب + تِلا + ایں (ی مجہول)]
1. آزمائش، امتحان، جانچ۔
جو ہر ترے جہاں پہ کھلے ابتلا کے بعد
تھا تجکو انتظار بلا ہر بلا کے بعد ( 1940ء، بیخود (موہانی)، کلیات، 47 ) |
ا۔۔ب
اَبِج [اَبِج] (سنسکرت)
اسم
نکرہ
1. برا بیج، ناقص تخم جو نہ پھوٹے۔ انگریزی ترجمہ The symphaca or lotus; moon; a conch, the tree Baringtonia acutangula; Dhanvantari; the physician of the Gods; a million millions
ابْجَد [اَب + جَد] (عربی)
ا ب ج د ۔۔ اَبْجَد
عربی زبان سے اسم جامد ہے۔ حروف تہجی کی ایک خاص ترتیب کے پہلے چار حروف ملا کر بطور مخفف استعمال کرتے ہیں یعنی اس سے مراد اس ترتیب کے سارے حروف ہوتے ہیں۔ 1611ء کو "کلیات قلی قطب" شاہ میں مستعمل ملتا ہے۔
اسم
معرفہ ( مؤنث - واحد )
1. کسی زبان یا رسم الخط کے مفرد حروف، حروف تہجی، اصلاً ضینیقی رسم الخط ہجائی کے پہلے چار حروف، ا،ب،ج،د۔ "اے حضرت آپ عربی کی ابجد وضع ہونے کا زمانہ متعین کیجیے" ( 1928ء، اودھ پنچ، لکھنؤ، 9:11:13 ) 2. حروف تہجی کی وہ ترتیب جس میں حساب جمل کے لیے حروف کے اعداد مقرر ہیں۔ حروف مع اعداد یہ ہیں : ا(1)، ب(2)، ج(3)، د(4)، ہ(5)، و(6)، ز(7)، ح(8)، ط(9)، ی(10)، ک(20)، ل(30)، م(40)، ن(50)، س(60)، ع(70)، ف(80)، ص(90)، ق(100)، ر(200)، س(300)، ت(400)، ث(500)، خ(600)، ذ(700)، ض(800)، ظ(900)، غ(1000) نیز اس ترتیب کے مطابق بنائے گئے آٹھ کلموں میں سے پہلا کلمہ، یہ آٹھ کلمے حسب ذیل ہیں : اَبْجَد، ہَوَّز، حُطّی، کَلِمن، سَعْفَصْ، قَرْشَت، تَخَّذْ، ضَظَّغْ جدائی اک الف کی دال ہے وحدت پہ شاہد ہے
ملا معشوق سے اپنے مثال حرف ابجد ہے
( 1861ء، کلیات اختر، واحجد علی شاہ، 654 )۔
3. آغاز، ابتدا، نیز کسی علم یا فن وغیرہ کے،
مبادی، بنیادی یا ابتدائی اصول۔
"ہندوستان قدیم نے علوم کی ابجد عربوں ہی سے سیکھی۔" ( 1945ء ہندوؤں کی تعلیم مسلمانوں کے عہد میں، 11 ) |
٭۔ابتلائیت
اِبْتِہاج [اِب + تِہاج]
(عربی)
اسم
نکرہ
1. محظوظ ہونے کی کیفیت، خوشی کی حالت، لطف اندوزی۔ انگریزی ترجمہ gladness
اِبْتِہال [اِب + تِہال]
(عربی)
اسم
کیفیت
1. گریہ و زاری کے ساتھ دعا، رجوع قلب، نیز اظہار عجز و نیاز۔
اُبْٹَن [اُب + ٹَن]
(سنسکرت)
|
ا۔۔ب
اسم
کیفیت ( مؤنث - واحد )
1. ابجد خواں کا اسم کیفیت۔ "میں نے ابجد خوانی کے بعد کلام مجید شروع کیا۔" ( 1911ء، ظہیر دہلوی، داستان غدر، 21 ) رجوع کریں: اَبْجَد خواں اَبْجَد خواں [اَب + جَد + خاں (و معدولہ)]
عربی زبان کے لفظ 'ابجد' اور فارسی کے مصدر
'خواندن' سے فعل امر 'خواں' سے مرکب ہے۔ 'خواں' بطور لاحقۂ فاعلی استعمال ہوا
ہے۔ سب سے پہلے 1810ء کو "کلیات میر" میں مستعمل ملتا ہے۔
صفت ذاتی 1. ا ب ت پڑھنے یا جاننے والا، حرف شناس، مبتدی، نو آموز۔ "اس مشہور قانون کی یاد دلائی جاتی ہے جس سے علم حیوانات کا ہر ابجد خواں واقف ہے۔" ( 1915ء، فلسفۂ اجتماع، 45 ) اَبْجَد داں [اَب + جَد + داں] (فارسی)
صفت ذاتی
1. ا ب ت پڑھنے یا جاننے والا، حرف شناس، مبتدی، نوآموز
اَبْجَد شَناس [اَب + جَد + شَناس]
عربی
زبان کے لفظ 'ابجد' اور فارسی زبان کے مصدر 'شناختن' سے فعل امر 'شناس' سے مرکب
ہے۔ 'شناس بطور لاحقۂ فاعل استعمال ہوتا ہے
صفت ذاتی
1. کم استعداد یا واقفیت رکھنے والا۔ نہیں ابجد شناس اغیار اب تک ہو سکے اس کے ہمیں جس علم پر قدرت تھی جس فن میں مہارت تھی ( 1931ء، بہارستان، 135 ) اَبْجَد کا تالا [اَب + جَد + کا + تا + لا]
عربی زبان کے لفظ 'ابجد' کے ساتھ حرف اضافت 'کا' اور سنسکرت
زبان سے اسم نکرہ 'تالا' لگایا گیا ہے۔ 1818ء کو انشا کے کلیات میں مستعمل ملتا
ہے۔
متغیّرات
اَبْجَد کا قُفْل [اَب + جَد + کا + قُفْل]
اسم نکرہ (
مذکر - واحد )
واحد غیر ندائی: اَبْجَد کے تالے [اَب + جَد + کے + تا + لے]
جمع: اَبْجَد کے تالے [اَب + جَد + کے + تا
+ لے]
|
|
ا۔۔ب
|
جمع غیر ندائی: اَبْجَد کے تالوں [اَب +
جَد + کے + تا + لوں (و مجہول)]
1. وہ حروف دار تالا جو کنجی کی بجائے متعینہ حروف کے ملا دینے سے کھلے۔ یا تو چپ تھے یا زباں پر اب ہے بے تے لام کاف منہ نہیں ان کا کھلا ابجد کا تالا کھل گیا ( 1870ء، الماس درخشاں، 62 ) ٭۔ ابجد کا قفل
اَبْجَد کا تالا [اَب + جَد + کا + تا + لا]
عربی زبان کے لفظ 'ابجد' کے ساتھ حرف اضافت 'کا' اور سنسکرت
زبان سے اسم نکرہ 'تالا' لگایا گیا ہے۔ 1818ء کو انشا کے کلیات میں مستعمل ملتا
ہے۔
متغیّرات
اَبْجَد کا قُفْل [اَب + جَد + کا + قُفْل] اسم نکرہ ( مذکر - واحد ) واحد غیر ندائی: اَبْجَد کے تالے [اَب + جَد + کے + تا + لے]
جمع: اَبْجَد کے تالے [اَب + جَد + کے + تا
+ لے]
جمع غیر ندائی: اَبْجَد کے تالوں [اَب + جَد + کے + تا + لوں (و مجہول)] 1. وہ حروف دار تالا جو کنجی کی بجائے متعینہ حروف کے ملا دینے سے کھلے۔ یا تو چپ تھے یا زباں پر اب ہے بے تے لام کاف منہ نہیں ان کا کھلا ابجد کا تالا کھل گیا ( 1870ء، الماس درخشاں، 62 ) َبْجَد کی پَٹّی [اَب + جَد + کی + پَٹ + ٹی]
عربی زبان کے لفظ 'ابجد' کے ساتھ 'کی' حرف اضافت اور سنسکرت
زبان سے 'پٹی' بطور اسم نکرہ استعمال ہوا ہے۔
اسم مجرد (
مؤنث - واحد )
1. ابجد کی ترتیب کے مطابق حروف تہجی کی تقطیع۔ جنچل چک چھوڑ میں تیرے مدرس پاس مکتب میں نہ ابجد کی پٹی پڑتا جو اس میں صاد نہ ہوتا ( 1717ء، بحری، کلیات، 133 ) ٭۔اَبْجَد کے تالوں٭۔اَبْجَد کا قُفْل٭۔اَبْجَد کے تالے
اَبْجَدی [اَب + جَدی] (عربی)
|
ا۔۔ب
صفت ذاتی
جمع غیر ندائی: اَبْخَلوں [اَب + خَلوں (و مجہول)] 1. بہت کنجوس، ازحد بخیل، مکھی چوس۔ کہا ابخل تھا دادا میرا آدم یقیں ہے مال ان کا ہضم ہو کم ( 1862ء، طلسم شایان، 88 ) انگریزی ترجمہ mere,most or very covetous or avaricious
َ٭۔ابْخَلوں
اَبَد [اَبَد] (عربی)۔۔ ا
ب د ۔۔ اَبَد
عربی زبان سے اسم مشتق ہے۔ ثلاثی مجرد کے باب سے مصدر ہے۔ اردو میں بلحاظ معنی ظرف زماں ہے۔ سب سے پہلے 1611ء، کو "کلیات قلی قطب شاہ" میں مستعمل ملتا ہے۔
اسم
ظرف زماں ( مذکر - واحد )
1. وہ زمانہ جس کی انتہا مستقبل میں نہ ہو، غیر متناہی زمانہ۔ ازل اس کے پیچھے ابد سامنے نہ حد اس کے پیچھے نہ حد سامنے ( 1935ء، بال جبریل، 172 ) 2. دوام، ہمیشگی وہ ثمر ہو مثمر عمر ابد کی بیاں تعریف یوں باشد و مد ( 1894ء، اردو کی پانچویں کتاب، اسماعیل، 50 ) 3. [ تصوف ] جس کی انتہا ذات کے لیے نہ ہو، جیسے کے ابتدا نہیں ویسے انتہا بھی نہیں۔(مصباح التعرف، 22) انگریزی ترجمہ endless time, prospective eternity; eternity مترادفات جاوِ دانی متضادات ۔اَزَل مرکبات۔َابَدُالْآباد،اَبَدُالدَّہْر، اَبَد قَرار |
انگریزی
ترجمہ
Want of consideration; thoughtlessness; want of judgment or discrimination; injustice.
اَبِچاری
[اَبِچا + ری] (سنسکرت)
صفت ذاتی
1. سوچ بچار سے خالی، ناسمجھ، نادان
نگریزی ترجمہ
Destitute of consideration or reflection, in considerate, unreflecting, thoughtless; unjust
٭۔ابچاریاں
اَبِچَھرا
[اَبِچَھرا] (سنسکرت)
اسم نکرہ
1. راجا اندر کے دربار کی رقاصہ، پری۔
انگریزی ترجمہ
a female dancer in the court of Indra; also apchhara and apsara
اَبْحاث
[اَب + حاث] (عربی)
اسم
نکرہ
1. مباحثہ، مناظرہ، سوال و جواب، لفظی یا زبانی جھگڑا
۔ اَبْحار [اَب +
حار] (عربی)
اسم نکرہ
1. بڑا سمندر، بڑا دریا
اَبْخَر [اَب + خَر] (عربی)
ب خ ل ۔۔
بَخَل ۔۔ اَبْخَل
عربی زبان سے اسم مشتق ہے۔ ثلاثی مجرد کے باب
سے اسم تفضیل ہے۔ اردو میں بطور اسم صفت مستعمل ہے۔ اردو میں 1862ء کو
"طلسم شایان" میں مستعمل ملتا ہے
|
ا۔۔ب
|
اَبَدُالْآباد [اَبَدُل (الف غیر ملفوظ) + آ
+ باد] (عربی)
عربی زبان کے لفظ 'ابد' کے ساتھ اس کی جمع
'آباد' لگائی گئی ہے۔ ان کو 'ال' کے ذریعے ملایا گیا ہے۔ مرکب اضافی ہے۔ سب سے
پہلے 1635ء کو "سب رس" میں مستعمل ملتا ہے۔
متغیّرات اَبَدُ الْاَبَد [اَبَدُل (الف غیر ملفوظ) + اَبَد] اسم کیفیت ( مذکر - واحد ) 1. دوام، ہمیشگی، لامتناہی مدت۔ "عالم سیارگاں ایک لحظے کے برابر ہے اور ابد الآباد کے مقابلے میں ہیچ۔" ( 1910ء، مقدمہ معرکۂ مذہب و سائنس، عبدالحق، 36 ) 2. قیامت، آخرت "سال گزشتہ کی ہولناک خونریزی ----- ابدالآباد تک یاد رہے گی۔" ( 1919ء، غدر دہلی کے افسانے، 172:4 ) انگریزی ترجمہ Endless time, prospective eternity متعلق فعل 1. ہمیشہ ہمیشہ، ہمیشہ کے لیے۔ "قیامت اس دنیا پر اثر ڈالے گی لیکن لوح محفوظ ابدالآباد محفوظ رہے گی۔" ( 1925ء، قرآن مجید کے فوجداری قوانین، عبدالرحیم، 13 )
|
ا۔۔ب
ان لوگوں سے صحبت رکھیں گے جو کہ سعید، حکیم،
فاضل، ابدال.... صالح، عارف ہیں" ( 1810ء،
اخوان الصفا، 173 )
3. [ بطور واحد ] گروہ ابدال کا ایک
فرد۔
"ولادت کے بعد ابدالوں کی وہ جماعت .... مبارکباد دینے آئی" ( 1946ء، سوانح خواجہ بندہ نواز، 51 ) 4. [ بطور معرفہ ] افغانوں کے ایک جرگے کا مورث اعلٰی ابدال ین ترین، جو سلسلۂ چشتیہ کے ابدال (بزرگ) خواجہ ابو احمد کی صحبت اور خدمت کی بنا پر اس نام سے موسوم ہوا۔ (احمد شاہ ابدالی اس کی اولاد میں ہونے کی وجہ سے ابدالی کہلاتا ہے)۔ انگریزی ترجمہ change, exchange, substitution of one thing for another
اسم نکرہ
1. (اقلیدس) پہلے عدد کی نسبت تیسرے کے ساتھ (جیسے دو کی چار کے ساتھ) ایسی ہونا جیسے چھ کی بارہ کے ساتھ نسبت ہوتی ہے۔
|
2. اختراع، ایجاد۔
"نئے دین کی ایجاد و ابداع کے اصل محرک شیخ مبارک ..... بتائے جاتے ہیں۔" ( 1953ء، تاریخ مسلمانان پاکستان و بھارت، 472:1 )
3. [ فنون لطیفہ ] خیال یا بیان میں
جدت، (نثر یا نظم میں) نئے معنی یا اسلوب کا استعمال۔
قوت ابداع ہے ہر شعر میں میرے عزیز فیض پہنچایا مجھے شیراز اور کشمیر نے ( 1922ء، رنجم کدہ، 52 ) انگریزی ترجمہ The production of something new, invention. مترادفات اِیْجاد اِخْتِراع تَخْلِیق
|
ا۔ب
اَبْدان [اَب + دان] (عربی)
اسم نکرہ
1. بدن کی جمع۔ مرکبات اَبْدانِ زاکِیَہ۔ ا بَدَن [بَدَن] (عربی۔ ب د ن ۔۔ بَدَن اصلاً عربی زبان کا لفظ ہے اور بطور اسم مستعمل ہے اردو میں عربی سے ماخوذ ہے اور اصلی معنی اور اصلی حالت میں ہی مستعمل ہے۔ 1562ء میں 'حسن شوقی' کے دیوان میں مستعمل ملتا ہے۔ اسم نکرہ ( مذکر - واحد ) جمع: اَبْدان [اَب + دان] جمع غیر ندائی: بَدَنوں [بَدَنوں (واؤ مجہول)] 1. جسم (گوشت اور ہڈیاں سب)۔ 'ایک فرقہ کہتا ہے کہ آپ کو معراج روح و بدن دونوں کے ساتھ ہوئی۔" ( 1923ء، سیرۃ النبی، 398:3 ) 2. بے جان اشیاء کا جسم۔ تین انگل کہیں چوڑائی کہیں ہے کچھ کم چار بالشت کا قدگول بدن پشت میں خم ( 1923ء، مراثی نسیم، 244:2 ) انگریزی ترجمہ mouth; face, countenance; body; privities مترادفات پِنْڈا جِسْم دَھڑ جُثَّہ باڈی جِرْم
|
متعلق فعل
1. ہمیشہ ہمیشہ، ہمیشہ کے لیے۔ "قیامت اس دنیا پر اثر ڈالے گی لیکن لوح محفوظ ابدالآباد محفوظ رہے گی۔
"
( 1925ء، قرآن مجید کے فوجداری قوانین، عبدالرحیم،
13 )
|
ا۔۔ب
. مسلمانوں کا ایک فرقہ جو کائنات کی ابدیت
کا قائل ہے۔
"اسلام میں نئی نئی شاخیں پھوٹنی شروع ہوئیں، رافضی، خارجی، ابدی ..... گروہ ہو گئے۔" ( 1928ء، مرزا حیرت دہلوی، سوانح عمری امام اعظم ) انگریزی ترجمہ eternal, without end, everlasting, immortal مترادفات ۔ دَوامی متضادات ۔اَزَلی مرکبات بَدیُّ الظُّہُور [اَبَدِیْ + یُظ (ال غیر ملفوظ) + ظُہُور] (عربی)۔ عربی زبان کے دو الفاظ 'ابدی' اور 'ظہور' سے مرکب ہے۔ اردو میں بطور اسم صفت مستعمل ہے۔ صفت ذاتی 1. ابد سے منسوب، جس کی مستقبل میں حد اور انتہا نہ ہو، غیر فانی۔ "دانش کے وسیلے سے عمر ابدی کو پہنچتے ہیں۔" ( 1802ء، خردافروز، 4 )
٭۔
ابدیا
اَبَدِیَّت
[اَبَدی + یَت] (عربی)۔ ا ب د ۔۔
اَبَدی ۔۔ اَبَدِیَّت
عربی زبان کے لفظ 'ابد' کے ساتھ فارسی قاعدے کے تحت 'ی نسبت' لگانے کے بعد 'ۃ' بطور لاحقۂ کیفیت لگائی گئی ہے۔ اردو میں 1888ء کو "مقدمہ فصوص الحکم(ترجمہ)" میں مستعمل ملتا ہے۔ اسم کیفیت ( مؤنث - واحد ) 1. بقائے دوام، ہمیشگی "اس کی ازلیت اسم اول سے ہے اور اس کی ابدیت اسم آخر سے ہے۔" ( 1888ء، مقدمہ فصوص الحکم (ترجمہ) 20 ) انگریزی ترجمہ Eternity; immortality مترادفات ۔ ہَمیشگی دَوامِیَّت
متضادات ۔
اَزَلِیَّت
اَبَدِیَّہ
[اَبَدِیْ + یَہ] (عربی) ۔ صفت ذاتی
1. ہمیشہ برقرار رہنے والا، دائمی
اَبُدْھ[1]
[اَبُدْھ] (سنسکرت) ۔ صفت ذاتی
1. نادان، جاہل، بے وقوف۔ انگریزی ترجمہ Deficient in , or void of , understanding or sense, unwise, ignorant, stupid, foolish |
اِبْدا [اِب + دا] (عربی)
ب د ء ۔۔
اِبْدا
عربی زبان سے اسم مشتق ہے، ثلاثی مزید فیہ کے باب افعال سے مصدر ہے۔ اردو میں بطور حاصل مصدر مستعمل ہے۔ عربی زبان میں اصل لفظ 'اِبْداء' مستعمل ہے۔ اردو میں 'ء' کی آواز نہ ہونے کی وجہ سے خذف کر دیا گیا ہے۔ اردو میں سب سے پہلے 1891ء کو "ترجمہ عجائب القصص" میں مستعمل ملتا ہے۔ متغیّرات اِبْداء [اِب + داء] اسم حاصل مصدر ( مذکر - واحد ) 1. اظہار، اعلان "فقرا کی تصریح اخفا کے ساتھ تو کی لیکن ابدا کے ساتھ نہیں کی۔" ( 1964ء، کمالین، پارہ 23:4 ) انگریزی ترجمہ The production of something new. مترادفات اِعْلان مُنادی متضادات اِخْفا
٭۔ ابدج
َبْدَح [اَب + دَح] (عربی)
اسم نکرہ
1. علم رمل کے ایک دائرے کا نام جو چار قسم کی (آتشی، بادی، آبی اور خاکی) سولہ شکلوں سے مل کر بنتا ہے، جن میں فرد آتشی کی قیمت بحساب جمل الف کے مساوی (یعنی ایک)، بادی کی قیمت ب کے مساوی (یعنی دو)، آبی کی قیمت د کے مساوی (یعنی چار) اور خاکی کی قیمت ح کے مساوی (یعنی آٹھ) مقرر کی گئی ہے، یہی اس کی تسمیہ ہے
اَبَدی [اَبَدی] (عربی)
ا ب د ۔۔
اَبَد ۔۔ اَبَدی
عربی زبان کے لفظ 'اَبَد'کے ساتھ فارسی قاعدے کے تحت 'ی نسبت' لگائی گئی ہے۔ 1672ء کو عبداللہ قطب شاہ کے دیوان میں مستعمل ملتا ہے۔ صفت نسبتی 1. ابد سے منسوب، جس کی مستقبل میں حد اور انتہا نہ ہو، غیر فانی۔ "دانش کے وسیلے سے عمر ابدی کو پہنچتے ہیں" ( 1802ء، خرد افروز، 4 ) رجوع کریں: اَبَد |
ا۔۔ب
مرکبات
اَبْرِتَر، اَبْرِ بَہْمَنی، اَبْرِمِسی، اَبْرِنَیساں، اَبْرِ نَو بَہار، اَبْرِ مَطِیر، اَبْرِ آذاری، اَبْرِ بَہار، اَبْرِ بَہْمَن، اَبْرِ تَر، اَبْرِ سِپَر، اَبْرِ سِیاہ، اَبْرِ قِبْلَہ، اَبْرِ کوہْسار، اَبْرِ گَوہَر، اَبْرِ نَیْساں، اَبْرِبَہْمَن، اَبْرِ بَہاری، اَبْرِ بَہاراں، اَبْرِبَہار، اَبرِ باراں، اَبْرِآذاری، اَبْرِ آذار، اَبْرِ تِیْرَہ، اَبْرِ تیغ، اَبْرِ جوشاں، اَبْرِ دَرْیا بار، اَبْرِ تُنُک، اَبْرِ رَبِیْع، اَبْرِ رَحْمَت، اَبْرِ رَواں، اَبْرِسِیاہ، اَبرِ عالَمْگِیر، اَبْرِ غَلِیْظ، اَبْرِقِبْلَہ، اَبْرِ کَرَم، اَبْرِ کُہْسار، اَبْرِگَنْدَہ بَہار، اَبْرِ گَوہَر بار، اَبْرِ مُرْدَہ۔
روزمرہ جات
۔ابر برسنا۔ بوندوں کا بادل سے متواتر زمین پر گرنا، مینہ پڑنا، بارش ہونا۔ بھٹی پہ تری ابر مئے نور کا برسے رحمت کی ہو بوچھاڑ ادھر اور ادھر سے ( 1897ء، خانہ خمار، 3 ) ابر پھٹنا۔ بادل کا چھٹنا "سولھویں دن ابر پھٹا سورج کا کونا دکھائی دیا۔" ( 1947ء، مضامین فرحت، 10:2 ) اَبر چھانا۔ فضا میں ہر طرف بادل کا محیط ہونا، بادلوں سے آسمان کا چھپ جانا۔ ہشیار کہ پھر ابر نہ چھائے گا کبھی یہ کنج پہ بوستاں نہ پاے گا کبھی ( 1937ء، جنون و حکمت، 137 ) اَبر چھٹنا بادل کا منتشر ہونا، گھٹا کا کھلنا، مطلع صاف ہو جانا۔ ابر کو دیکھ کر گھڑے پھوڑنا۔ موہوم امید پر نقصان کر بیٹھنا۔ (امیراللغات، 11:2) ابر گھرنا بادل کا چاروں طرف سے سمٹ کر چھا جانا، گھٹا کا فضا کو گھیر لینا۔ تیغ غازی کی چمک کر سر ہر فرق گری لاکھ ڈھالیں جو اٹھیں ابر گھرا برق گری
( 1912ء، شمیم (ق)، 51 )
اَبر
کھلنا
بادل کا چھٹنا، مطلع صاف ہو جانا۔ دہان شیشہ جلدی، کہتے ہیں مے نوش کھل جاوے مبادا ابر یہ اے ساقی مدہوش کھل جاوے ( 1809ء، جرات، کلیات، 17
،
|
َبِدْھ[1]
[اَبِدْھ] (سنسکرت)۔ صفت ذاتی
1. بے قاعدہ، خلاف قانون، نیز بے قاعدگی۔ انگریزی ترجمہ void of , or contrary to , rule; irregular
اَبْدُھوت
[اَب + دُھوت] (سنسکرت)۔ اسم نکرہ
1. تارک الدنیا جوگی جو واجب الوجود کے سوا دوسرے کو نہ مانتا ہو، ہندو فقیر، سادھو، سنیاسی۔ انگریزی ترجمہ One who has separated himself from worldly feeling and obligation; a Hindu faqir; a jogi; a devotee; (commonly) a worshipper of the god Siva
٭۔ابذ
اَبْر
[اَبْر] (فارسی)۔ فارسی زبان سے
اسم جامد ہے۔ اردو میں مستعمل ہے۔ قدیم زمانے میں 'اَبَر' استعمال ہوتا تھا۔
سنسکرت اور اوستائی زبان میں اس کے مترادف بالترتیب 'اَبْھر' اور'اَوَرْہ'
مستعمل ہیں۔ ایک امکان یہ بھی ہے کہ ان زبانوں میں سے کسی ایک سے اردو میں داخل
ہوا ہو۔ لیکن اغلب امکان یہی ہے کہ فارسی سے آیا ہو گا۔ 1503ء
"نوسرہار" میں مستعمل ملتا ہے۔
متغیّرات ۔ اَبَر [اَبَر]
اسم نکرہ (
مذکر - واحد )۔ 1. بادل، گھٹا، بدلی۔
"ایک ابر کا ٹکڑا آیا اور دائی کو گھیر لیا"۔ ( 1802ء، باغ و بہار، 240 ) 2. ہلکی نیلگوں بادخانی رنگ کی چمکیلی دھوپ چھاؤں یا لہریں جو تلوار، خنجر وغیرہ کے پھل، ڈھال کی سطح، بندوق کی نال یا دوسرے فولادی اسلحہ پر صیقل سے پیدا ہوں، جوہر۔ جس طرح پتا نکل آتا ہے شاخ سبز سے ابر اٹھ کر تیغ قاتل سے سپر ہونے لگا ( 1853ء، دفتر فصاحت، وزیر، 49 ) چمکیلا لہریا جو رنگ یاروغن سے کپڑے یا کاغذ پر ڈالا جائے، جیسا کتاب کی جلد کی ابری میں ہوتا ہے۔(فرہنگ آصفیہ : 871)۔ [ تصوف ] وہ حجاب جو شہود کےحصول میں حائل، طالبین کے لیے لطف انگیز اور بنابریں محرومی تجلی حق کا باعث ہو۔ (مصباح التعرف : 22)۔ انگریزی ترجمہ a cloud; marbled paper |
ا۔ب
اَبْرِ بَہار [اَب + رے + بَہار]
سم
معرفہ
1. ربیع کی فصل کا بادل جو ایران وغیرہ میں مارچ کے لگ بھگ آتا ہے اور خوب برستا ہے، (مجازاً) خوب گرجنے برسنے والا بادل
اَبْرِ
بَہاراں
[اَب + رے + بَہا + راں] (فارسی)
فارسی
زبان سے مرکب اضافی ہے 'ابر' کے ساتھ 'بہاراں' لگایا گیا ہے جوکہ 'بہار' کی
مغیرہ صورت ہے۔ اردو میں 1854ء کو ذوق کے دیوان میں مستعمل ملتا ہے۔
اسم معرفہ ( مذکر - واحد ) 1. اَبر بہار بے تردد پا کے کشت آرزوے قوم کو رو پڑے ہم جانب ابر بہاراں دیکھ کر ( 1906ء، کلام نیرنگ، 50 ) رجوع کریں: اَبْرِبَہار
اَبْرِ
بَہاری [اَب + رے + بَہا + ری]
فارسی زبان ے مرکب توصیفی
ہے فارسی میں دو الفاظ 'اَبْر' اور 'بہاری' کا مخفف ہے۔ 'بہاری 'بہار' کے ساتھ ی
نسبتی لگائی گئی ہے۔ اسم
معرفہ ( مذکر - واحد )
1. ابر بہار۔ خیمہ زن ابر بہاری زیر چرخ پیر ہے یا دھواں ہے تیری آہوں کا کہ عالم گیر ہے ( 1917ء، نقوش مانی، 45 ) رجوع کریں: اَبْربَہا
َبْرِ
بَہْمَن [اَب + رے + بَہ (فتحہ ب مجہول) + مَن]
سم
ظرف زماں
1. شمسی سال کے گیارہویں مہینے کی گھٹا (جبکہ آفتاب برج دلو میں ہوتا ہے) موسم سرما یا مہاوٹ کا برسنے والا بادل
اَبْرِ
بَہْمَنی
[اَب +رے + بَہ (ب فتحہ مجہول) + مَنی] (فارسی)
فارسی
زبان سے مرکب توصیفی ہے 'بَہْمَن' فارسی میں مہینے کا نام ہے۔ اس کے ساتھ 'ی'
بطور لاحقۂ نسبت لگائی گئی ہے۔ اسم
معرفہ ( مذکر - واحد )
1. ابربہمن۔ ٹھنڈی ہوا ہے رقص میں ہے ابربَہْمَنی ہاں دیر کیا ہے ساقی رنگیں! ھوالغنی ( 1933ء، سیف و سبو ) رجوع کریں: اَبْرِبَہْمَن اَبْرِ تَر [اَب + رے + تَر]۔ اسم نکرہ 1. بھیگی بھیگی گھٹا جس کے برسنے کی امید ہو، برسنے والا بادل۔ |
اَبر
کھلنا
بادل کا چھٹنا، مطلع صاف ہو جانا۔ دہان شیشہ جلدی، کہتے ہیں مے نوش کھل جاوے مبادا ابر یہ اے ساقی مدہوش کھل جاوے ( 1809ء، جرات، کلیات، 179 ) اَبَر اُٹھنا افق سے بدلی نمودار ہونا۔ "جب کبھی ابر اٹھتا ہے ہوا اڑا لے جاتی ہے" ( 1924ء، انشائے بشیر، 190 )
ابر
امنڈنا۔
زور شور کے ساتھ بادل آسمان پر چھانا، گھٹا گھر کر آنا۔ ابر ہے امڈا ہوا گل دے رہے ہیں نکہتیں آج کی شب ہو جدا منہ سے نہ اے دلبر شراب ( 1865ء، نسیم دہلوی، دیوان، 115 ) اَبر آنا۔ گھٹا اٹھنا، بادل کا فضا میں چھانا، بادل کا آسمان یا کسی شے کو ڈھک دینا یا نظروں سے چھپا دینا۔ مجھ کو بھی انتظار تھا ابر آئے تو پیوں ساقی اگر یہ سچ ہے کہ بادل اٹھا تو لا ( 1932ء، ریاض رضواں، 87
اَبْرِ
آذار [اَب + رے + آ + ذار] (فارسی)۔ فارسی زبان کے لفظ 'ابر' کے ساتھ 'آذار'
فارسی زبان سے اسم معرفہ ہے۔ مرکب اضافی بنتا ہے۔
اسم معرفہ ( مذکر - واحد ) 1. ماہ آذار (چیت یا مارچ کے لگ بھگ) میں اٹھنے والی گھٹا، آغاز بہار کا بادل۔ پھر بہار آئی رسول اللہ کے گلزار میں فصل گل کے ساتھ ہی ساتھ ابر آذار آ گیا ( 1931ء، بہارستان، 362 ) اَبْرِ آذاری [اَب + رے + آ + ذا + ری]۔ اسم نکرہ 1. ابر آذار، ماہ آذار (چیت یا مارچ کے لگ بھگ) میں اٹھنے والی گھٹا، آغاز بہار کا بادل۔
ابْرِ
آذَری [اَب + رے + آ + ذَری] (فارسی)۔
اسم کیفیت
1. ماہ آذر (ایرانیوں کے نویں مہینے، لگ بھگ پوس یا دسمبر) کا بادل مہاوت کی گھٹا۔
َبرِ
باراں [اَب + رے + با+ راں] (فارسی)۔ فارسی زبان سے مرکب توصیفی ہے۔ فارسی زبان
کے لفظ 'ابر' کے ساتھ مصدر 'باریدن' سے اسم فاعل 'باراں' لگایا گیا ہے۔ 1816ء کو
"دیوان ناسخ" میں مستعمل ملتا ہے۔
اسم نکرہ ( مذکر - واحد ) ۔ 1. برستا ہوا بادل۔ وہ دو اک روز برسے یہ ہمیشہ رات دن برسے تقابل ابر باراں کا عبث ہے دیدۂ تر سے |
ا۔ب
جوش
گریہ یہ دم رخصت یار آئے نظر
ابر جوشاں کا بندھا جیسے کہ تار آئے نظر ( 1809ء، جرات، کلیات، 352:1 )
اَبْرِ دَرْیا
بار
[اَب + رے + دَر + یا + بار] (فارسی)
۔فارسی زبان کے تین الفاظ سے مرکب ہے۔ مرکب توصیفی ہے۔ 'ابر' کے ساتھ 'دریا' اور
'بار' لگائے گئے ہیں۔ 'دریا' اسم جامد ہے اور 'بار' 'باریدن' مصدر سے فعل امر
ہے۔ اردو میں بطور لاحقۂ فاعلی استعمال ہوتا ہے۔
اسم نکرہ ( مذکر - واحد ) 1. ایسا بادل جس کے برسنے سے ندی نالے بھر جائیں، بہت برسنے والا بادل۔ ہماری لوح دل سے دھوئے گا کیا حرف توبہ کو اٹھا ہے محتسب کیوں ابر دریا بار کیا باعث ( 1882ء، صابر، ریاض صابر، 79 ) َبْرِ رَبِیْع [اَب + رِے + رَبِیع]
مرکب اضافی ہے۔ فارسی زبان کے لفظ
'ابر' کے ساتھ عربی زبان سے لفظ 'ربیع' لگایا گیا ہے۔ اسم معرفہ ( مذکر - واحد )
1. ابر بہار یا نبی گلزار اعیاں کو کیا تازہ تر تجھ فیض کا ابر ربیع ( 1809ء، شاہ کمال، دیوان(ق)، 144 ) رجوع کریں: اَبْرِ بَہار
اَبْرِ
رَحْمَت
[اَب + رے + رَح + مَت]۔ مرکب اضافی ہے۔
فارسی زبان کے لفظ'ابر' کے ساتھ 'رَحْمت' لگایا گیا ہے جوکہ ثلاثی مجرد کے باب
سے مصدر ہے۔ اردو میں 1611ء کو سب سے پہلے قلی قطب شاہ کے کلیات میں مستعمل ملتا
ہے۔
اسم نکرہ ( مذکر - واحد ) 1. بروقت برسنے والا بادل، خوب برسنے والا بادل جس سے کھیتیاں سرسبز ہو جائیں۔ ملک میں علم و ہنر وہ اس طرح برسا گئے ابر رحمت جس طرح کھیتی پر برسے ٹوٹ کر ( 1902ء، جذبات نادر، 239:1 ) 2. [ مجازا ] اللہ تعالیٰ کا بے پایاں کرم، عنایت الٰہی "ڈپی کمشنر سیتاپور اپنے اخلاقی اوصاف سے ڈپوٹیشن کے لیے ----- ابر رحمت تھے۔" مترادفات ۔رَحْمَتِ اِلٰہی
اَبْرِ رَواں [اَب + رے + رَواں] (فارسی)۔
فارسی زبان سے اسم مرکب توصیفی ہے۔ 'اَبْر' کے ساتھ 'رفتن' مصدر سے اسم فاعل
'رواں' استعمال ہوا ہے۔ اردو میں 1837ء کو "ستہ شمسیہ" میں مستعمل
ملتا ہے۔ اسم نکرہ (
مذکر - واحد )
1. چلتا ہوا بادل، وہ بادل جو فضا میں اڑتا ہوا دکھائی دے۔ "ابر رواں یا ادخنۂ رواں میں حیوانات وغیرہ کی شکلیں متصور ہوئی تھیں۔" ( 1837ء ستۂ شمسیہ، 35:2 )۔ |
َبْرِ
بَہْمَنی
[اَب +رے + بَہ (ب فتحہ مجہول) + مَنی] (فارسی)
فارسی
زبان سے مرکب توصیفی ہے 'بَہْمَن' فارسی میں مہینے کا نام ہے۔ اس کے ساتھ 'ی'
بطور لاحقۂ نسبت لگائی گئی ہے۔ اسم
معرفہ ( مذکر - واحد )
1. ابربہمن۔ ٹھنڈی ہوا ہے رقص میں ہے ابربَہْمَنی ہاں دیر کیا ہے ساقی رنگیں! ھوالغنی ( 1933ء، سیف و سبو ) رجوع کریں: اَبْرِبَہْمَن اَبْرِ تَر [اَب + رے + تَر] اسم نکرہ 1. بھیگی بھیگی گھٹا جس کے برسنے کی امید ہو، برسنے والا بادل۔ اَبْرِ تُنُک [اَب + رِتُنُک] (فارسی) فارسی زبان سے مرکب توصیفی ہے۔ فارسی کے لفظ 'ابر' کے ساتھ اسم صفت 'تنک' لگایا گیا ہے۔ اردو میں 1802ء کو "نثر بے نظیر" میں مستعمل ملتا ہے۔ اسم نکرہ ( مذکر - واحد ) 1. چھدری گھٹا، ہلکا بادل جس کا دل کم ہو۔ یوں نمایاں ہے قبا سے تن پر نور کا نور چاند جس طرح سے ہو ابر تنک میں مستور ( 1931ء، محب، مراثی، 121 ) اَبْرِ تِیْرَہ [اَب + رے + تی + رَہ] (فارسی) فارسی زبان سے مرکب توصیفی ہے۔ فارسی کے لفظ 'ابر' کے ساتھ فارسی زبان سے اسم صفت 'تیرہ' لگایا گیا ہے۔ اردو میں 1818ء کو "کلام انشا"" میں مستعمل ملتا ہے۔ اسم نکرہ ( مذکر - واحد ) 1. کالی گھٹا، گہری گھا، سیاہ رنگ کا بادل جو گھرا ہے ابر تیرہ یہ جھکا تھا مے کدے پر خم مے ابھی اڑا کر سر کہسار ہوتا ( 1932ء، ریاض رضواں، 69 ) َبْرِ تیغ [اَب + رے + تیغ (ی مجہول)] (فارسی) فارسی زبان سے مرکب اضافی ہے۔ فارسی کے لفظ 'ابر' کے ساتھ فارسی سے اسم آلہ 'تیغ' لگایا گیا ہے۔
اسم نکرہ ( مذکر - واحد )
1. اَبْر ظلمت جو ابر تیغ عدو کی نظر پڑی بجلی کی طرح مرکب حیدر چمک گیا ( 1866ء، گلدستۂ امامت، اسیر، 23 ) رجوع کریں: اَبْر
َبْرِ
جوشاں [اَب + رے + جو (و مجہول) + شاں] (فارسی) فارسی زبان سے مرکب توصیفی ہے۔
فارسی کے لفظ 'اَبْر' کے ساتھ فارسی کے مصدر 'جوشیدن' سے اسم فاعل 'جوشاں' لگایا
گیا ہے۔ اسم نکرہ (
مذکر - واحد )
1. گرجتا برستا بادل، زور شور سے گرجتی ہوئی گھٹا۔ |
ا۔۔ب
2.
فیض، بخشش، رحمت۔
پرورش دیوے چمن کو جو ترا ابر کرم موتیا میں عوض غنچہ ہو پیدا گوہر ( 1854ء، ذوق، دیوان، 326 )۔
3.
ابر رحمت۔
کشت امید کو سیراب کریں تو جانیں روز لکے تیرے اے ابر کرم اٹھتے ہیں ( 1870ء، کلیات واسطی، 132:1 ) رجوع کریں: اَبْرِ رَحْمَت اَبْرِ کوہْسار [اَب + رے + کوہ (و مجہول) + سار]۔ اسم نکرہ 1. وہ گھٹا جو پہاڑوں کی چوٹیوں پر چھای یا ان کی طرف سے اٹھ کر آی۔
اَبْرِ
کُہْسار [اَب + رے + کُہ (ضمہ مجہول) + سار] (فارسی)۔ فارسی زبان سے مرکب اضافی
ہے۔ ابر کے ساتھ اسم جامد 'کہسار' لگایا گیا ہے۔ تقریباً 1825ء کو منتظر کے ہاں
بحوالۂ "امیراللغات" مستعمل ملتا ہے۔
متغیّرات اَبْرِکوہْسار [اَب + رے + کوہ (و مجہول) + سار]، اَبْرِکُہْساری [اَب + رے + کُہ (ضمہ مجہول) + سا + ری]۔ اسم نکرہ ( مذکر - واحد ) 1. وہ گھٹا جو پہاڑوں کی چوٹیوں پر چھائے یا ان کی طرف سے اٹھ کر آئے۔ ہے بلندی سے فلک بوس نشیمن میرا ابرکہسار ہوں گلپاش ہے دامن میرا ( 1905ء، بانگ درا )
اَبْرِ گَوہَر [اَب + رے + گَو (و
لین) + ہَر]۔ اسم نکرہ
1. موتی لٹانے، یعنی برس کر خوش حال، مالا مال کر دینے والی گھٹا، ابر نیساں۔
|
اَبْرِ
سِپَر [اَب + رے + سِپَر]۔ اسم نکرہ
1. ہلکی نیلگوں یا دخانی رنگ کی چمکیلی دھوپ چھا*ں یا لہریں جو تلوار خنجر وغیرہ کے پھل، ڈھال کی سطح، بندوق کی نال یا دوسرے فولادی اسلحہ پر صیقل سے پیدا ہوں، جوہر۔ اَبْرِ سِیاہ [اَب + رے + سِیاہ]۔ اسم نکرہ۔ 1. گہرا بادل، ابر تیرہ، کالی گھٹا اَبرِ عالَمْگِیر [اَب + رے + عا + لَم + گِیر]۔ مرکب توصیفی ہے۔ اَبْر' کے ساتھ عربی زبان کے لفظ 'عالَم' اور فارسی زبان سے 'گرفتن' مصدر سے فعل امر 'گِیْر' کا مرکب لگایا گیا ہے۔ 'گیر' اردو میں بطور لاحقۂ فاعلی مستعمل ہے۔ اسم نکرہ ( مذکر - واحد ) 1. وہ بادل جو فضا میں ہر طرف چھایا ہوا ہو، وہ گھٹا جس میں تا حد نظر ہر طرف بادل ہی بادل نظر آئے۔ جس طرف دیکھو ہماری آہ ہے بن گئے ہیں ابر عالم گیر ہم ( 1905ء، دیوان انجم، 87 )
انگریزی ترجمہ
rain clouds which cover a large extent of country اَبْرِ غَلِیْظ [اَب + رے + غَلِیْظ]۔ مرکب توصیفی ہے۔ فارسی زبان کے لفظ 'اَبْر' کے ساتھ 'غَلِیْظ' جوکہ عربی زبان میں ثلاثی مجرد کے باب سے اسم فاعل ہے، لگایا گیا ہے۔ اردو میں 1887ء کو "جام سرشار" میں مستعمل ملتا ہے۔ اسم نکرہ ( مذکر - واحد ) 1. گہرا بادل، گھنگھور گھٹا۔ "نہ کبھی غروب ہوتا ہے نہ اس پر کوئی ابر غلیظ محیط ہوتا ہے۔" ( 1928ء، مرزا حیرت، سوانح عمری امام اعظم، 67 ) بْرِ قِبْلَہ [اَب + رے + قِب + لَہ]۔ اسم نکرہ 1. مغرب کی جانب سے اٹھنے والا بادل جو عموماً (ان خطوں میں جو مکہ معظمہ کے مشرق میں واقع ہیں) برستا ہے۔
َبْرِ
کَرَم [اَب + رے + کَرَم]۔ مرکب اضافی ہے۔ 'ابر' کے ساتھ عربی زبان سے ثلاثی
مجرد کے باب مصدر 'گرم' لگایا گیا ہے۔ اردو میں سب سے پہلے 1784ء کو
"سحرالبیان" میں مستعمل ملتا ہے۔
اسم نکرہ ( مذکر - واحد ) 1. بادل کی طرح فیض رساں، رحمت کا سرچشمہ، (مراداً) سخی، فیاض۔ ابر کرم بتا کہ لگائی کہاں ہے دیر دل چشم لطف کا تیری امیدوار ہے ( 1934ء، رونق دہلوی، کلام رونق، 94 ) |
ا۔۔ب
ابر
نوبہاری۔رجوع کریں ابر نو بہار
اسم
نکرہ
1. وہ بادل جو موسم بہار یا موسم سرما میں برستا ہے۔ مشہور ہے کہ اس کی بوند سے سیپ میں موتی،بانس میں بنس لوچن اور دہان اژدہا میں پیدا ہوتا ہے۔
اسم
نکرہ
1. کپڑے وغیرہ کا بالائی پرت جو عموماً نیچے کے پرت کی نسبت اچھے کپڑے کا ہوتا ہے، استر کی ضد، کسی چیز کی اوپری تہہ۔ انگریزی ترجمہ The outer fold of a garment (opposed to aster , "the lining
اسم
کیفیت
1. (کسی ذمہ داری سے) سبکدوشی، براءت بری الذمہ ہونے کا عمل۔ انگریزی ترجمہ Release, acquittal
ب ر ر ... اَبْرار
عربی زبان میں اسم مشتق ہے، ثلاثی مجرد کے باب سے اسم فاعل 'بَرٌّ' کی جمع ہے۔ اردو میں 1739ء کو "کلیات سراج" میں مستعمل ملتا ہےاسم نکرہ ( مذکر - جمع ) واحد: بَرٌّ [بَر+رُن] 1. پرہیزگار یا نیکوکار لوگ، پارسا، اصفیا۔ ہر مذہب و ملت میں ہیں اچھے بھی برے بھی وہ کونسا فرقہ ہے کہ سب جس میں ہوں ابرار ( 1921ء، اکبر، کلیات، 291:1 )۔ . [ تصوف ] وہ گروہ اولیا جو صرف تقویٰ اور عبادات ظاہری اختیار کرتا ہے جن کے متعلق کلام پاک میں آیا ہے "اِنَّ لا برار نفی نعیم" (بے شک ابرار جنت میں جائیں گے)۔ (مصباح التعرف لارباب التصوف 23) انگریزی ترجمہ Just holy , pious men; saints; dutiful (to parents
اِبْراز [اِبْ + راز] (عربی) سم کیفیت
1. ظاہر کرنے کا عمل، اظہار۔
'
|
|
ا۔۔ب
کے
بادشاہ تھے خواب میں کسی آسمانی بشارت پر فقیری اختیار کی اور تلاش حق میں نکل
کھڑے ہوئے۔
حلقۂ صوفیا و
فقرا میں داخل ہونے کے بعد شام میں سکونت اختیار کی، محنت مزدوری ذریعہ معاش
تھا۔ یونانیوں کے خلاف جہاد کرتے ہوئے 784ء میں شہادت پائی۔
حکایت ہے کہ ابراہیم ادہم جو اسرار حقیقت کے تھے محرم ( 1877ء، ابرکرم، 9 )
|
اَبْرام [اَب + رام] (عبرانی)۔
اسم
معرفہ
1. سامی پیغمبر، آزر بت تراش کے بیٹے یا بھتیجے، جنھوں نے اپنے بیٹے حضرت اسماعیل کی مدد سے از سر نو خانہ کعبہ کو تعمیر کیا، آپ خلیل اللہ (خدا کے دوست) کے لقب سے مشہور ہیں۔ انگریزی ترجمہ Abraham
اِبْراہِیم [اِب + را + ہِیم] (عبرانی)
عبرانی زبان میں دو الفاظ
کا مجموعہ ہے، 'اَب' اور 'ریام'۔ جن کے معنی بالترتیب 'باپ' اور 'بزرگ، میزبان'
کے ہیں۔ عبرانی میں اصل لفظ 'ابریام' ہے عربی میں ابراہیم مستعمل ہوا اور عربی سے
اردو میں داخل ہوا۔ 1611ء کو قلی قطب شاہ کے کلیات میں مستعمل ملتا ہے۔
متغیّرات
اَبْرام [اَب + رام]، بَراہِیم [بَرا + ہِیم] اسم معرفہ ( مذکر - واحد ) 1. سامی پیغمبر، آزر بت تراش کے بیٹے یا بھتیجے، اُر (اُور) کے باشندے، جنھوں نے اپنے بیٹے اسمائیل کی مدد سے خانہ کعبہ کی از سر نو تعمیر شروع کی، آپ خلیل اللہ کے لقب سے مشہور ہیں۔
آگ ہے اولاد ابراہیم ہے
نمرود ہے
کیا کسی کو پھر کسی کا امتحاں مقصود ہے ( 1924ء، بانگ درا، 290 ) انگریزی ترجمہ Abraham (the patriarch
اسم نکرہ ( مذکر - واحد )
1. ایک مشہور صوفی فقیر جو ادہم (بن منصور بن یزید) کے بیٹے تھے، کہا جاتا ہے کہ یہ ابتداءً بلخ ۔ |
No comments:
Post a Comment