بہار ایمان
مرتبہ
نسیم عباس نسیمی
ناشر
مکتبہ انوار
الثقلین بمقام اتھر تحصیل پنڈدادنخان ضلع جہلم
انتساب
قبلہ و کعبہ!
عزت مآب !!
والد گرامی !!!
مولانا غلام اکبر بلوچ
(رح) کے نام !
جن کی علم
دوستی صحرائے زیست میں میرے لئے زادِ راہ
بنی۔
نسیم عباس نسیمی
03320591769
Naseemathar14@gmail.com
فہرست عنوانات
صفحہ نمبر
|
عنوان
|
نمبر شمار
|
صفحہ نمبر
|
عنوان
|
نمبر شمار
|
19
|
انسان
نعمت اور اپنے منعم کا شکرگزار بنے
|
9
|
1
|
ماہ
رمضان میں تفکر و تدبر کا بہترین موقع
|
1
|
21
|
رمضان المبارک خوش خبری کامہینہ
ہے
|
10
|
3
|
زبان
ا نسان کی فکر کی ترجمان ہے
|
2
|
23
|
رحمت
خدا سے مایوس نہ ہونا
|
11
|
5
|
سلام
ہو ماہ رمضان کی برکتوں اور فضیلتون سے بہرہ مند ہونے والوں پر
|
3
|
25
|
فرزند
کے حق میں والدین کی دعا
|
12
|
7
|
انسان
کی رہائی و نجات
|
4
|
27
|
روزہ نفسانی خواہشات کے مقابلے
میں ایک مضبوط ڈھال ہے
|
13
|
10
|
رمضان
کا مہینہ بارش کے پانی کی مانند ہے
|
5
|
29
|
رمضان ماہِ صبر و استقامت ہے
|
14
|
13
|
رمضان
المبارک قربت الہی کے حصول کے لئے
بہترین موقع ہے
|
6
|
31
|
دعا خالقِ حقیقی
سے رابطہ رکھنے کا بہترین طریقہ
|
15
|
15
|
ایک
دوسرے سے منہ موڑنے سے اجتناب کرو
|
7
|
33
|
پیشگی منفی رائے قائم کرنا اچھی بات نہیں ہے
|
16
|
16
|
ہمارے دسترخوان سے جنت کی خوش بو آرہی ہے
|
8
|
1
1: ۔ ماہ رمضان میں تفکر و تدبر کا بہترین موقع
ماہ رمضان ، جس میں خدا نے اپنے بندوں
کو اپنی خاص نعمتیں عطا کی ہیں، ان امور کی انجام دہی کے بارے میں تفکر و تدبر کا
بہترین موقع ہے جو خدا سے ہماری قربت یا دوری کا باعث بنتے ہیں۔اس مہینے میں
خداوند کریم نے اپنے تمام بندوں کو اپنے سے قریب ہونے کی دعوت دی ہے تاکہ ہر فرد
اپنی استطاعت و توانائی کے مطابق نیک اعمال کی انجام دہی میں کوشاں ہو نیز گناہ
اوردنیوی مادی لذات وخواہشات نفسا نی سے دوری اختیار کرے۔رمضان کے مہینے میں
روزہ،وہ تمام راستے بند کردیتاہے جس کے ذریعے شیطان انسان کو گمراہی کی طرف لے
جاتاہے۔یعنی اس مبارک مہینے میں شیطان جس زنجیر میں جکڑا جاتاہے وہ خود روزہ ہے
کوئی اور چیز نہیں ہے۔رسول اکرم ۖ فرماتے ہیں" شیطان انسان کے وجود
اور بدن میں خون کی طرح رواں رہتاہے۔ بنا بریں بھوک اور گرسنگی کے ذریعے اس کے
راستوں کو تنگ تر کرو" یہ روایت اس امر کی واضح دلیل ہے کہ روزہ قدرتی
طور سے انسان پر شیطان کے تسلط میں رکاوٹ کھڑی کرتاہے ۔ روزہ نہ صرف شیطان کو قید
کردیتاہے بلکہ نفس امّارہ کو بھی کنٹرول کرتاہے۔ اور اسے قیدی بنا دیتاہے اور
انسان پر تسلط جمانے نہیں دیتا ۔ حضرت علی (ع) فرماتے ہیں"بھوک اور
گرسنگی،نفس کو اسیر اور اس کی عادت تبدیل کرنے میں بہت معاون ثابت ہوتی ہے"
اگر اندھیری رات ہو اور ہمارے ارد گرد
نشیب وفراز اور گڑھے وغیرہ موجود ہوں تو ہم احتیاط سے کام لیتے ہیں اور اپنی جگہ
کھڑے رہتے ہیں ۔ قرآن کے سورۂ اسرا کی 36 ویں آیت میں ارشاد ہوتاہے جس کے بارے میں
علم نہ ہو اس کے پیچھے مت جانا بیشک روزقیامت سماعت، بصارت اور قوت قلب سب
سےسوال کیاجائے گا"
شاید آپ یہ جانتے ہوں کہ گلاب ناب
وخالص قطرہ قطرہ حاصل ہوتاہے، اور اس کے نکالنے میں بڑی زحمتوں کا سامنا
کرنا پڑتاہے۔ گلاب نکالنے والے صبح سویرے باغ میں جاتے ہیں اور انھیں خوشبو دار
پھول چننے کے لئے کانٹوں سے لگنے والے زخموں کا تحمل بھی کرنا پڑتاہے، پھر
ان پھولوں کو پانی سے بھرے ہوئے ایک بڑے برتن میں ابالا جاتاہے پانی بھاپ میں
تبدیل ہوجاتاہے اور بھاپ قطرہ قطرہ بڑے برتن میں جمع ہوتی ہے اور سر انجام گلاب سے
بھری ایک پتیلی ہاتھ آتی ہے لیکن ممکن ہے کہ ایک غیر ذمہ دار انسان، اس گلاب سے
بھری ہوئی پتیلی کو جو گھنٹوں کی محنت و زحمت کا نتیجہ ہے پلک جھپکتے ایک ٹھوکر
میں زمین پر بہادے ۔ اب اگر گلاب نکالنے والے آپ ہوں تو ایسے موقع پر آپ پر کیا
گزرے گی؟ انسان کی عزت وآبرو بھی گلاب کی طرح ہے ذرہ ذرہ اور رفتہ رفتہ ہاتھ
آتی ہے ایک رات میں عزت وآبرو کی دولت ہاتھ نہیں آتی، لہذا ہمیں چاہیے کہ اپنے باغ
زندگی میں کردارکے پھول بوئیں تاکہ عزت وآبرو کے چند قطرے ہاتھ آسکیں۔ لیکن
بعض افراد ایسے ہیں جنھیں انسان کی عزت وآبرو اور شخصیّت کو پائمال کرتے دیر نہیں
لگتی اسی لئے اسلام نے لوگوں کی عزت وآبرو کا پاس ولحاظ کئے جانے کے سلسلے میں بڑی
حساسیت کا مظاہرہ کیا ہے۔ جیسا کہ حضرت علی (ع) فرماتے ہیں" اگر کوئی لوگوں
کے عیب تلاش اور بےنقاب کرے گا تو
خدا وند عالم اس کے عیب کو بے نقاب
کردے گا" اس بات سے خدا انسانوں کو یہ سمجھانا چاہتاہے کہ لوگوں کی آبرو
پائمال کرنے کا نتیجہ بہت تلخ ہے اور جب تک انسان ، اپنے اس عمل کا مزہ نہیں چکھتا
اس کی اہمیت درک نہیں کرتا۔قرآن کریم میں بہت سی آیات میں کسی پر تہمت لگانے اور
بہتان باندھنے سے سختی سے منع کیاگیا ہے چنانچہ سورۂ نساء کی آیت 112میں خدا
فرماتاہے " اور جو شخص بھی کوئی غلطی یا گناہ کرکے کسی دوسرے کے سر ڈال
دیتاہے وہ بہت بڑے بہتان اور کھلے گناہ کا ذمہ دار ہوتاہے"
آپ نے بارہا یہ سنا ہوگا
کہ بات، تیر کی مانند ہے جب تیر کمان سے نکل جاتاہے تو پھرواپس نہیں آتا لیکن کبھی
یہ تیر سخن لوگوں کی عزت وآبرو کو نشانہ بناتاہے جس کا انجام بہت تلخ ہوتاہے۔ کہتے
ہیں کہ ایک عورت نے اپنے ایک پڑوسی پر تہمت لگادی اور پھر اس کو پھیلانا شروع
کردیا یہانتک کہ رفتہ رفتہ سارے پڑوسیوں اور محلے والوں کو معلوم ہوگیا۔ تہمت زدہ
شخص کا گھر سے نکلنا دشوار ہوگیا کچھ عرصہ بعد وہ عورت اپنی غلطی کی جانب متوجہ
ہوئی اور اس نے اپنے اس پڑوسی کاحال دیکھا جس پر اس نے جھوٹی تہمت باندھی تھی۔ وہ
بہت پشیمان ہوئی اور ایک حکیم ودانشور کے پاس گئی اور اس سے اس سلسلے میں مدد چاہی
تاکہ اپنی غلطی کی تلافی کرسکے۔ اس دانشور نے اس عورت سے کہا کہ بازار جاؤ
2
اور ایک مرغا خریدو اور اسے ذبح
کرڈالو اور پھر اس کے پروں کو اپنے گھر کے راستے میں بکھیر دو۔ یہ سن کر
عورت کو بہت تعجب ہوالیکن اس نے یہ کام کیا اور دوسرے روز اس دانشور کے پاس آئی
اور اس سے پوچھا اب کیا کریں؟ اس دانشور نے عورت سے کہا کہ ان پروں کو میرے پاس لے
آؤ۔ عورت گئی بہت تلاش کیا لیکن چار پروں سے زیادہ نہ پاسکی ۔ حکیم کے پاس واپس
لوٹی اور اس نے کہا کہ بڑی ہی زحمتوں سے یہی چار پر مل سکے ہیں بقیہ سب ہوا میں اڑ
گئے۔ یہ سن کر اس دانشور نے اس عورت سے کہا پروں کو پھینک دینا کتنا آسان
کام ہے ،لیکن انھیں جمع اور پھر سے اکٹھا کرنا اتنا آسان نہیں ہے۔ اسی طرح تم نے
آسانی سے اس پر تہمت لگادی لیکن مکمل طور سے اس کی تلافی ناممکن ہے ۔ایک معمولی
تہمت اور الزام انسان کی زندگی کا شیرازہ بکھیر کر رکھ سکتاہے۔
پروگرام کے اس حصے میں حضرت امام سجاد
(ع) کی مناجات کے اقتباسات پیش کرتے ہیں۔ حضرت امام سجاد(ع) خدا سے شیطان کی شکایت
کرتے ہوئے بارگاہ الہی میں عرض کرتے ہیں " پروردگارا میں تجھ سے ایسے
دشمن کی شکایت کرتاہوں جو مجھے گمراہ کرنا چاہتاہے اور شیطان کی جو مجھے
فریب اور میرے سینے کو وسوسوں سے پر کردیتاہے۔ میرے دل پر باطل اوہام و خیالات نے
تسلط جمارکھاہے اور ہوس پرستی میں میری مدد کی ہے ، دنیا کی دوستی کو میرے
لئے نمایاں کرتاہے نیز میرے اور تیرے تقرب اور تیری اطاعت کے درمیان دوری اور
جدائی ڈالنے کے درپے ہے۔
انسان کو ہمیشہ دو خطرناک دشمنوں کا
سامنا کرنا پڑتاہے۔ایک باطنی اور اندرونی دشمن ہے جس کا نام نفس امّارہ ہے، اور
دوسرا دشمن بیرونی دشمن یعنی شیطان ہےرسول اکرم ۖ اس بارے
میں فرماتے ہیں " تمھارا سب سے برا اور سب سے بڑا دشمن تمھارا وہ نفس ہے جو
تمھارے دونوں پہلووں کے درمیان ہے " لیکن پروردگار عالم نے سب سے بڑا لطف،
انسان کے حق میں یہ کیا ہے کہ شیطان کی دشمنیوں کے بارے میں مختلف طریقوں سے انسان
کو آگاہ اور باخبر کردیا اور ہمیں متنبہ کیا ہے کہ شیطان کے فریب میں نہ آئیں۔
سورۂ فاطر کی چھٹی آیت میں ارشاد باری تعالی ہے" بیشک شیطان تمھارا
دشمن ہے تو اسے اپنا دشمن سمجھووہ اپنے گروہ کو صرف اس بات کی دعوت دیتا ہے۔
چونکہ شیطان انسان کے انتخاب و اختیار
میں حائل نہیں ہو سکتا اس لئے مختلف طریقوں ، روشوں اور ہتھکنڈوں سے انسان کو فریب
دینے کی کوشش کرتاہے اور انسان کے دل و دماغ میں وسوسہ پیدا کرکے اسے صراط مستقیم
اور اس کی باطنی فطرت کے راستے پر چلنے سے روک دیتاہے۔ درحقیقت انسان فطری طورپر
دنیا کی زیبائیوں اور لذّتوں کی جانب رجحان رکھتاہے، اور شیطان اس کی اسی کمزوری
سے فائدہ اٹھاکر انسان کو گناہوں اور خطاؤں کی انجام دہی کی دعوت دیتاہے اور کبھی
انسان میں خوف وہراس اور کاہلی پیدا کرکے اسے الہی فرائض کی ادائگی سے باز رکھتاہے
انسان ہر بار گناہ کرنے کے بعد جب پشیمان ہوتاہے تو شیطان اس کو فریب دے کر اس کے
گناہ کی توجیہ کرکے اسے انسان کی نظر میں اچھےعمل کے عنوان سے پیش کرتا اور
پھر اسے اس گناہ کی انجام دہی پر آمادہ کرتاہے۔ وسوسوں کی زنجیروں اور جھوٹی لذتوں
کے دام میں پیہم گرفتار کرکے انسان اور خداکے مابین فاصلہ ایجاد کرنا
اور انسان کو الہی فرائض کی ادائگی سے باز رکھنا چاہتاہے ۔حضرت امام زین العابدین
(ع) مناجات میں خدا کو اس کے لطف وکرم و مہر بانی کا واسطہ دیتے ہیں کہ مجھے اپنے
جود واحسان کی پناہ میں رکھ اور خطرناک دشمنوں (نفس اور شیطان) پرغالب آنےکی توفیق
عطافرما نیز بلاؤں اورگناہوں سےمحفوظ رکھ آمین
3
2:۔ زبان ا نسان کی فکر کی ترجمان ہے
وہ زندگي بے روح و بے جان ہے جو
معنویت سے سرشار لمحوں سے عاری ہو ۔ اگر ماہ رمضان جیسے گرانقدر مواقع زندگي میں
نہ آئیں تو ہمارے دل نفسانی خواہشات کے سبب گناہوں اور برائیوں سے آلودہ ہوجائیں ۔
لیکن جب ماہ رمضان ہماری زندگي کے ایام میں مہمان بن کر آتاہے تو گویا لطیف
و شفاف شبنم کے قطرے ہمارے دلوں پر بیٹھ جاتے ہیں اور لمحہ بہ لمحہ ہماری زندگي
میں معنویت اور طراوت بخشتے رہتے ہيں ۔ پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم
فرماتے ہیں ۔ جو کوئی خدا کے لئے سخت گرمی کے موسم میں روزہ رکھے اور اس پر پیاس
غلبہ کرلے تو خداوندعالم ہزار فرشتوں کو مامور کرتا ہے تاکہ وہ اس کی صورت پر ہاتھ
پھیرتے رہیں اور اسے بشارت دیں اور جب وہ افطار کرتا ہے تو خدا فرماتا ہے کہ اے
فرشتوں گواہ رہنا کہ میں نے اسے بخش دیا ہے۔
زبان انسان کے بدن کا ایک اہم عضو ہے
اور انسان کی عزت و ذلت دونوں اسی کی مرہون منت ہے ۔ زبان ایک ایسی گواہ ہے جو
انسان کے باطن کی خبر دیتی ہے ۔ انسان کے وجود کو متعارف کراتی اور انسان کی فکر
کی ترجمان ہے ۔ زبان، ایک طرف حق گوئی ، نیک سخن ، اور دوسروں کو اچھی نصیحت کے
ذریعے پاکیزہ ماحول بناتی ہے تو دوسری جانب دوسروں کی چغل خوری کے سبب کدورت
اور دشمنی پیدا کرتی ہے ۔ امیرالمؤمنین حضرت امام علی علیہ السلام فرماتے ہيں
انسان دو قابل قدر نعمتوں کا حامل ہے ایک خرد اور عقل اور دوسرے گویائی ۔ عقل وخرد
کے ذریعے وہ علوم سے بہرہ مند ہوتا ہے اور گویائی اور بیان کے ذریعے دوسروں کو
بہرہ مند کرتا ہے ۔ زبان اور سخن کی ہی مدد سے انسانوں کے درمیان بات چیت اور
باہمی میل جول آسان ہوگیا ہے اور وہ اپنے افکارو نظریات ، خیالات اور اپنے
تجربات اور علوم کو ایک دوسرے تک منتقل کرسکتے ہيں ۔ زبان کے جملہ امتیازات ميں سے
ایک یہ ہے کہ انسان کا بیان و کلام ، اس کی شخصیت کی علامت اور دل و روح کا ترجمان
ہے ۔ اسی لئے حضرت امام علی علیہ السلام فرماتے ہیں بولو تاکہ پہچانے جاؤ کیوں کہ
انسان اپنی زبان کے نیچے چھپا ہوا ہے۔
اس اعتبار سے کہ زبان پر کنٹرول نہ
پانا گناہوں اور خطاؤں کا باعث بنتا ہے ، دینی تہذیب میں انسان کو زيادہ تر خاموش
رہنے کی سفارش کی گئی ہے ۔ زبان ہی بدن کا وہ حصہ ہے جو آسانی سے خطا اور گناہ کا
راستہ ہموار کرتا ہے اور غیبت ، جھوٹ اور چغل خوری و تہمت کے سبب گناہ اور خطا کا
مرتکب بناتا ہے ۔ اسی لئے بزرگان دین نے خاموشی کو دین فہمی کی علامت اور حکمت کے
دروازوں ميں سے ایک دروازہ قرار دیا ہے اور اس امر پر تاکید فرمائی ہے کہ جہاں بات
کرنی ہووہاں اچھی اور نرم لہجے میں بات کرو کہ اس سے دوستی اور قربت بڑھتی ہے ۔
خداوندعالم نے جب موسی (ع) کو رسالت دی تو ان سے اور ہارون سے فرمایا : اب جب کہ
فرعون کے پاس جارہے ہوتو اس سے پرسکون اور نرم لہجے میں بات کرنا یعنی اگر تم
دونوں کرخت اور تیز لہجے ميں بات کروگے تو اس پر ناگوار گذرے گا اور تمہاری بات اس
پر اثر نہیں کریگي ۔ لوگوں کی باتیں جب نرم و لطیف ہوں تو وہ دلوں میں بیٹھتی ہیں
جیسے کہ برف اگر تیز گر رہی ہو تو وہ نہیں جمتی ۔ برف اس وقت جمتی ہے جب آہستہ
آہستہ گرے ۔ بات بھی کچھ اسی طرح ہے ، قرآن کریم کے مطابق اگر نرم و لطیف ہو تو دل
پر اثر انداز ہوتی، اور دلنشیں ہوتی ہے ۔
ایک بچہ بہت شرارتی تھا جو دوسروں کو
بری اور ناپسندیدہ باتوں سے تکلیف پہنچاتا تھا ایک دن اس کے باپ نے اس کو اس کی اس
بری حرکت پر متوجہ کرنے کے لئے کیل سے بھرا ہوا ایک جوتا دیا اور اس سےکہا کہ جب
بھی تمہاری باتوں سے کسی کو تکلیف پہنچے تو اس میں سے ایک کیل دیوار میں ٹھونک
دینا ۔ بیٹے کو باپ کی اس بات پر اگرچہ تعجب ہوا تاہم اس نے باپ کی بات مان لی ۔
پہلے ہی دن بیٹے نے 20 کیلیں دیوار میں ٹھونک دیں ۔ باپ نے اس سے کہا کہ اپنے غصے
پر قابو پانے کی کوشش کرو ۔اس کے بیٹے نے کوشش کرنی شروع کردی اور دیوار پر کیلیں
ٹھونکنے کی تعداد میں روز بروز کمی آنے لگي ۔ ایک دن باپ نے اس سے کہا جب تم اپنی
بات کی وجہ سے کسی سے معذرت خواہی کرو تو ایک کیل دیوار سے نکال لو ۔ کئی دن گذر
گئےتو بیٹا باپ کے پاس آیا اور خوشی سے کہنے لگا بابا آج ہم نے آخری کیل دیوار سے
نکال دی ۔ باپ نے بیٹے کا ہاتھ پکڑا اور دونوں دیوار کی طرف گئے باپ نے ایک نظر
دیوار پر ڈالی اور کہا واہ بیٹے بہت اچھا کام کیا ہے لیکن دیوار کے سوراخوں کو
دیکھو، اب دیوار پہلے کی مانند صاف اور بے داغ نہیں رہی اسی طرح جب
4
تم غصہ ہوتے ہو اور اپنی باتوں سے
دوسروں کو رنجیدہ کرتےہو تو تمہاری باتوں کا اثر بھی لوگوں پراسی طرح ہوتا ہے ۔ تم
انسان کے قلب میں چاقو بھونکنے کے بعد اس سے ہزاروں مرتبہ معذرت خواہی کرلو مگر جو
زخم اسے ملا ہے وہ کبھی مندمل نہيں ہونے والا ہے ۔
لیکن بدقول اور بد رفتار انسانوں کے
مقابلے میں ہمیں کیا کرنا چاہئے ؟ چائے یا تلخ قہوے کے ساتھ، ہمیشہ شکر ہوتی ہے
اور اسی کے ذریعے اسے پیا جاسکتا ہے ۔ بعض انسانوں کی باتیں چائے کی طرح تلخ ہوتی
ہیں اس لئے ان کے ساتھ شیر و شکر ہوکے رہو یعنی ان سے میٹھے لب و لہجے ميں باتیں
کرو اور اچھے انداز سے پیش آؤ تاکہ وہ راہ راست پاسکیں اور اس سلسلے ميں
خداوند عالم کا فرمان ہے کہ "ادفع بالتی ھی احسن السیئۃ " برائی کو
بہترین راہ و روش سے دفع کرو ( یعنی بری بات کا جواب اچھائی سے دو )
سورہ مومنون ۔
فرزند رسول خدا حضرت امام سجاد علیہ
السلام کے مناجاتی کلمات پر غور کرتے ہیں ۔
حضرت امام زین العابدین علیہ السلام
اپنی عارفانہ مناجاتوں ميں خداوند عالم کے حضور، قسی القلبی کے بارے میں
شکایت کرتے ہیں اور فرماتے ہيں خدایا میں تجھ سے اس دل کے بارے ميں شکایت کرتا ہوں
جو وسوسے سے دگرگوں ہوگئے ہيں اور ان کے دلوں پر ظلمت و تاریکی کا زنگ اور بد
توفیقی کی مہر لگ چکی ہے ۔
قرآن و روایات اورحضرت امام زین
العابدین علیہ السلام کی اس مناجات میں قلب سے مراد انسان کے سینےمیں دھڑکتا ہوا
دل نہیں ہے بلکہ یہاں قلب سے مراد انسان کی روح اور اس کا نفس ہے جس ميں احساس
کا ادراک پایا جاتا ہے ۔ انسان کا دل شروع میں نورانیت ، شفافیت
اور پاکیزہ فطرت کا حامل ہوتا ہے اس طرح سے کہ گناہ انجام دینے سے متاثر اور
پشیمان نہیں ہوتا لیکن اگر گناہ کرتا رہے توانسان پستی کے اس مرحلے ميں پہنچ جاتا
ہے کہ نہ صرف اپنی خطاؤں اور گناہوں پر نادم نہیں ہوتا بلکہ خوش بھی ہوتا ہے ۔ ایسی
حالت میں حق بات اور ہدایت ، اس کے قلب پر اثرانداز نہيں ہوتی اور وہ سنگدل ہوجاتا
ہے ۔ فرزند رسول خدا حضرت امام محمد باقر علیہ السلام ایسے قلب کے بارے ميں فرماتے
ہيں ۔ ہر بندۂ مومن کے قلب ميں ایک سفید نقطہ موجود ہوتا ہے چنانچہ انسان اگر گناہ
کا مرتکب ہوتا ہے اور بار بار گناہ انجام دیتا ہے تو پھر ایک سیاہ نقطہ اس کے دل
میں پیدا ہوجاتا ہے اگر وہ اسی طرح اپنی گناہ پر مصر رہے اور گناہ انجام دیتا رہے
تو وہ سیاہ نقطہ پھیلتا جاتا ہے یہاں تک سفیدی قلب کو ڈھانپ لیتا ہے اور پھر ایسا
قلب کبھی کبھی اچھائی اور نیکی کی جانب مائل نہيں ہوسکتا ہے ۔
حضرت امام زین العابدین علیہ
السلام خدا سےشکایت کرنے والوں کی مناجات میں اس آنکھ کی شکایت کرتے ہيں جو خوف
خدا سے گریاں نہیں ہوتی ۔آپ علیہ السلام فرماتے ہیں ۔ خدایا میں تجھ سے اس آنکھ کے
بارے میں شکایت کرتا ہوں جو خوف خدا سے روتی نہیں ہے لیکن وہ چیز جو اسے پسند ہے
اس کا حریص ہوتا ہے ۔ جب انسان قسی القلب یا سنگدل ہوجاتا ہے تو اس کے آثار میں سے
ایک یہ ہے کہ اس کی آنکھ خوف خدا میں گریہ نہيں کرتی ۔ گناہوں کے سبب آنسو بہانا
اور ان پر نادم ہونا یا عذاب الہی سے خوفزدہ ہونا اور اسی طرح اولیائے خدا خاص طور
پر حضرت امام حسین علیہ السلام کی مصیبت پر آنسوبہانا ایک ایسی عطائے پروردگار ہے
جو باطن کی پاکیزگي اور روح کی لطافت کا باعث بنتی ہے ۔ وہ دل، جو شیطان کا اڈہ بن
جائے اور نفسانی خواہشات اس کا احاطہ کرلیں تو وہ عذاب الہی سے خوفزدہ اور متاثر نہیں
ہوتا۔لیکن وہ لذت بخش اور شہوت انگیز مناظر سے بہت جلدی متاثر ہوجاتا ہے اور اس سے
منھ نہیں پھیرتا ہے ۔ امیر المؤمنین حضرت علی ابن ابیطالب علیہ السلام آنکھیں خشک
ہوجانے اور خوف خدا میں گریہ کناں نہ ہونے کے بارے میں فرماتے ہيں کہ جب انسان قسی
القلب ہوجائے اور یا گناہيں بکثرت انجام دی ہوں تو اس وقت آنکھیں خشک ہوجاتی ہیں
اور خوف خدا میں گریاں نہیں کرتیں۔
5
3:۔ سلام ہو ماہ رمضان کی برکتوں اور
فضیلتون سے بہرہ مند ہونے والوں پر
سلام ہو خدا کے روزہ دار مہمانوں پر
جو قوت ایمان سے اپنے سرکش نفس پر کنٹرل کرتے ہیں اور اپنے آپ کو گناہوں کی
زنجیروں سے رہا کرتے ہیں اور دیار سعادت کی جانب روانہ ہوجاتے ہیں۔سلام ہو ماہ رمضان
کی برکتوں اور فضیلتون سے بہرہ مند ہونے والوں پر جو دستر خوان رحمت ومغفرت الہی
پر جلوہ افروز ہیں اور جہاد نفس میں مصروف و مشغول ہیں اس مبارک مہینے کی فضیلت کے
بارے میں کیا کہا جاسکتاہے جس کےروز وشب تمام دنوں اور تمام راتوں سے افضل
وبرتر ہیں۔ جیساکہ حضرت رسول اکرمۖ فرماتے ہیں ماہ رمضان کی پہلی رات کو
آسمان کے دروازے خدا کے حکم سے کھول دیے جاتے ہیں اور رمضان کی آخری رات تک بند
نہیں ہوتے۔
آپ جانتے ہیں بہت سی دوائیں تلخ
اور کڑوی ہوتی ہیں لیکن صحت و سلامتی کی مٹھاس کی حامل ہوتی ہیں بشرطیکہ انھیں ان
کے معینہ وقت پر استعمال کیا جائے نہ ان کے وقت سے پہلے اور نہ ان کے معینہ وقت کے
گزرنے کے بعد۔ دوسرے یہ کہ دواؤں کی مقدار کی رعایت بھی ضروری ہے۔ ان کا کم یا
زیادہ مقدار میں استعمال کرنا درست نہیں ہے ۔ جس قدر طبیب وڈاکٹر نے بتایاہے اسی
مقدار میں دوا یا شربت کو استعمال کیا جانا چاہیے۔ نماز بھی دواؤں سے مشابہ ہے۔
اور بعض انسانوں کے لئے تلخ دواؤں کی مانند ہے ۔ سامعین جاڑے کے موسم میں ٹرین یا
بس کا سفر کرتے ہوئے نماز فجر کے لئے ٹرین یا بس سے نیچے اترنا اور لرزتے ہوئے صبح
کی دورکعت نماز ادا کرنا بہت ہی تلخ اور دشوار ہوتاہے۔
یا کسی کام میں مصروف اور منہمک افراد
کے لئے اذان کی آواز سن کر دلچسپ کام کو ترک کرنا اور مسجد جانا بہت ہی سخت ودشوار
ہے لیکن یہ بات صرف نماز ہی کے لئے نہیں ہے بلکہ دیگر عبادات کے لئے بھی یہ ممکن
ہے کہ بعض افراد کے لئے ان بجالانا بھی سخت ودشوار ہو لیکن اگر انسان نماز
کی حقیقت درک اور اس کی معرفت حاصل کرلے تو اس کی تلخی، مٹھاس اور اس کی
دشواری، آسانی میں تبدیل ہوجائے گی۔کتنے اولیائے الہی اور صاحبان ایمان ایسے ہیں
جن کے لئے نماز، سختیوں کے درمیان امید کی کرن اور باعث سکون وقرار ہے ۔ اسی لئے
ہم خدا سے یہ دعا کرتے ہیں کہ " پروردگارا اپنے ذکر کی حلاوت ومٹھاس کی لذت
سے ہمیں آشنا کردے یعنی اپنی عبادت کی معرفت ہمیں عنایت فرما۔دوسرے یہ کہ نماز، ان
دواؤں کی مانند ہے جومعینہ وقت کے اندر استعمال کی جاتی ہیں۔ نماز کے لئے
وقت کی رعایت لازمی ہے۔یعنی نمازوں کو ان اوقات کے اندر ادا کرنا چاہیے۔چونکہ
فلسفۂ نماز، عظمت حق کا احساس ہے اور اس احساس کو وہی انسان درک کرسکتاہے جو نماز
اول وقت پڑھتاہے۔جو شخص نماز تاخیر سے پڑھتاہے وہ در حقیقت اس بات کا اعلان کرتاہے
کہ خدایا ہم اپنےکاموں کوتیری عبادت واطاعت پرترجیح دیتےہیں۔ دوسری جانب جس طرح
دوا کے استعمال کے ساتھ پرہیز بھی ضروری ہوتاہے اسی طرح نماز پڑھنے کے دوران
بعض امور کی انجام دہی سے پرہیز لازم ہے۔ نماز، حق ہے لہذا نمازی کو باطل سے
دوری اختیار کرنی چاہیے، یعنی نمازی کو چاہیے کہ برائیوں میں اپنے آپ کو آلودہ نہ
کرے ورنہ نماز کی خاصیت ختم ہوجائے گی۔ مثال کے طور پر جب موسم سرما میں گھر کو
گرم کرنے کے لئے روم ہیٹر کا استعمال کرتے ہیں تو فضا کی گرمی باقی رکھنے کے لئے
تمام دروازے ، دریچے اور کھڑکیاں بند کردیتے ہیں ورنہ انرجی ضایع ہوگی اور گھر گرم
نہیں ہوگا۔ نماز ہمارے اندر برائیوں سے پرہیز کی حرارت کیوں نہیں پیدا کرتی؟اس لئے
کہ کان، آنکھ اور دہن کے دریچے کھلے ہوئے ہیں جوچاہتے ہیں سنتے ،دیکھتے اور بولتے
ہیں۔ جس طرح گندم سے پر گودام میں اگر کوئی سوراخ موجود ہو تو گندم کا ذخیرہ، چوہے
وغیرہ سے محفوظ اور سالم نہیں رہ سکے گا۔ لہذا اگر کوئی نماز سے حاصلہ ذخائر کو
محفوظ رکھنا چاہتاہے تو اسے چاہیے ضرورت کے وقت کان ،آنکھ اور منہ کے دریچے کھولے۔
ہر وقت ہر بات سننے ، ہر چیز دیکھنے اور ہربات بولنے کے لئے ان سے استفادہ نہیں
کرنا چاہیے۔
ایک سن رسیدہ اور ضعیف العمر مومن کی
داستان پیش کررہے ہیں جو اپنے عہد جوانی کا واقعہ یوں بیان کرتاہے " میں اپنی
جوانی کے دور میں زیارت کے لئے مشہد مقدس گیا تھا وہاں معروف عارف اور اہل سلوک
وعرفان "مرحوم شیخ حسن علی نخودکی" سے ملاقات کی اور ان سے کہا کہ
میری تین خواہشیں ہیں میرا جی چاہتاہے کہ تینوں خواہشیں خدا میری جوانی کے
دور میں ہی پوری کردے۔ آپ مجھے کوئی عمل بتائیے جس کے انجام دینے سے میری یہ
حاجتیں پوری ہوں۔شیخ حسن علی نے مجھ سے پوچھا تمھاری حاجتیں کیا ہیں؟ میں نے کہا
کہ پہلی حاجت خداسے یہ ہے کہ جوانی میں ہی مجھےحج سے مشرف فرمائے کیونکہ
جوانی میں حج کرنے کی کچھ اور ہی بات ہے، یہ سن کر "شیخ حسن علی نے کہا کہ
اگر یہ چاہتے ہو تو نماز، اول وقت اور جماعت سے پڑھو۔میں نےکہا دوسری حاجت خدا سے
یہ ہےکہ خدا مجھے ایک اچھی سی زوجہ نصیب کرے۔ شیخ نے کہاکہ نماز اول وقت اور
6
جماعت سے اداکرو۔ میں نے کہا کہ تیسری حاجت
خداسے یہ ہے کہ مجھے عزت وآبرو کی کی کوئی نوکری یا ملازمت نصیب کرے۔ پھر شیخ حسن
علی نے وہی کہا کہ اول وقت اور جماعت سے نماز اداکرو۔ ضعیف العمر شخص کہتاہے کہ
میں اس وقت سے نمازیں اول وقت اور جماعت سے پڑھنے لگا، جس کے
نتیجے میں تین برسوں میں خدا نے میری تینوں حاجتیں پوری کردیں۔ کتنی اچھی بات ہے
کہ ہم اس ماہ مبارک میں اذان کی آواز سنتے ہی اٹھ کھڑے ہوں، شوق سے وضو کریں اور
ہر دنیوی کام چھوڑ کر نماز جماعت کی صفوں میں شامل ہوجائیں۔ اس وقت شیطان ہمارے
دلوں میں نفوذ کی راہ نہیں پاسکتا۔ رسول اکرمۖ
فرماتے ہیں "جب تک مومن نمازیں ان کے اوقات میں اداکرے گا شیطان اس سے
ڈرتا رہے گا اور دور رہے گا، اور مومن اس کی رعایت نہیں کرے گا تو شیطان جری
ہوجائے گا اور اس کوگناہان کبیرہ کے ارتکاب پر بھی آمادہ کردے گا"
پروردگارعالم کی نظر میں رمضان کا
مہینہ پورے سال کے مہینوں اور رمضان کے ایام تمام سال کے دنوں میں افضل وبرتر
ہیں۔خدا وند کریم اس مہینے میں اپنے بندوں کو خصوصی رحمت کی نظر سے دیکھتا، ان کی
مناجات سنتا اور ان کی دعائیں پوری کرتاہے۔ رسول اکرم ۖ نے
مسلمانوں کو رمضان المبارک کی آمد کا مژدہ سناتے ہوئے فرمایا" ہوشاررہو کہ
تمھاری روح وجان تمھارے کردار کی برائیوں کی قید میں ہے اس لئے خدا وندکریم سے
استغفار کے ذریعے شیطان کے چنگل سے نجات حاصل کرو اور طولانی سجدوں کے ذریعے اپنے
گناہوں کا بوجھ اپنے کاندھے سے اتار پھینکو، کیونکہ خدا نے اپنی عزت کی قسم کھاکر
فرمایاہے نماز گزاروں او سجدہ کرنے والوں کوعذاب نہیں کرےگااورانھیں دوزخ کی آگ
میں نہیں جلائےگا۔
اگر انسان کا وجود، فطرت الہی سے کسی
حد تک وابستہ رہ گیا ہے تو وہ جب اپنے اعمال پر نظر کر تا ہے تو یہ درک
کرلیتاہے کہ خدا کی عطاکردہ اکثر نعمتوں کو اس نے خدا کی ہی نافرمانی اور مخالفت
کا وسیلہ بنالیا ہے اور اسی وجہ سے وہ خداسے شرم وحیا اور احساس ندامت کرتاہے ۔
دوسری جانب خداوند کریم سورۂ زمر کی 53ویں آیت میں فرماتاہے " پیغمبر آپ یہ
پیغام پہنچادیجیے" اے میرے بندو جنھوں نے اپنے نفس پر زیادتی کی ہےرحمت خدا
سے مایوس نہ ہونا اللہ یقیناتمام گناہوں کا بخشنے والا اور بڑا مہر بان
ہے"
حضرت امام زین العابدین (ع) نے خدا
وند کریم سے رابطہ کے لئے تمام بندگان الہی کےلئے روشن افق پیش کردیے ہیں۔آپ
پرامیداور آرزؤں سے سرشار قلب کے ساتھ خدا سے راز نیاز کرتے اور معصوم ہوتے
ہوئےبھی گناہ گاروں اور توبہ کرنے کی طرح اس کی رحمت کے امیدوار ہیں اور خدا
سے طلب بخشش کرتے ہیں۔ سامعین آئیے حضرت امام سجاد (ع) کے ساتھ ہم آپ بھی مناجات
کے ان الفاظ کو اپنی زبانوں پر جاری کریں" خدایا میرے گناہوں نے مجھے ذلت و
رسوائی میں مبتلا کررکھاہے، اور تیری دوری نے مجھے تن تنہا
کردیا ہے ،اور ہواؤ ہوس نے میرے دل کو مردہ کردیا ہے۔ اے میرے مالک اے میری امید و
آرزو، توبہ کے ذریعے میرے دل کو زندگی عطاکردے"میرے مالک تیری عزت کی
قسم، میرے گناہوں کو بخشنے والا تیرے سوا اور کوئی نہیں ہے ، اور میرے
ٹوٹے ہوئے دل کو جوڑنے والا بھی تیرے علاوہ کوئی نہیں ہے، میرے مالک تیری بارگاہ
میں سر جھکا کر توبہ کاسہارہ لےکر ذلت وخواری کے ساتھ حاضر ہوگیا ہوں ، اگر اپنی
بارگاہ سے مجھے نکال دے گا تو کس کے پاس جاؤں گا؟ اور اگر تونے اپنے در لطف وکرم
سے لوٹادیا تو مجھے کہاں پناہ ملے گی؟ میرے مالک میرے گناہوں کو اپنی رحمت سے
محوکردے ، اورا پنی مہربانی کا ابر باراں میرے عیوب برساکر انھیں پاک کردے،
پروردگارا، فراری غلام اپنے آقا اور مولا کے سوا پلٹ کر اور کہیں جاتاہے؟ یا اسے
اس کے آقا کے غضب سے خود اس کے مولا کے سوا کوئی اور نجات دلا سکتا ہے؟ میرے مالک
اگر تیرے بندے سے گناہ اور نافرمانی کا ارتکاب، برائی میں شامل ہے تو تیری جانب سے
عفو وبخشش تو اچھی بات ہے،اے بے نواؤں کے فریاد رس، اے نقصان کو دور کرنے والے، اے
وہ کہ جو تمام نیکیوں اور خوبیوں کا سرچشمہ ہے ، اے وہ کہ گناہوں کی باقاعدہ پردہ
پوشی کرتاہے ، تجھے تیرے جود وکرم کا واسطہ میری شفاعت فرما، اور تجھے تیری رحمت و
فضل وکرم کا واسطہ میری دعا کو شرف قبولیت عطافرما، میری امید کو ناامیدی میں
تبدیل نہ کر، میری توبہ قبول فرمااور میرے گناہوں سے چشم پوشی فرما ، اے سب سے بڑے
مہر بان"
7
4:۔ انسان کی رہائی و نجات
خدائے غفور و رحیم رمضان کے مبارک
مہینے میں انسان کی رہائی و نجات اور اپنی رضاؤ خوش نودی کے راستے میں قدم بڑھانے
میں مومنوں کا حوصلہ بڑھاتاہے۔ بہت سے اہل عرفان وسلوک نے عشق الہی میں شدید
مشکلات اور صعوبتیں برداشت کرنے کے بعد اس راہ کو طےکیا ہے اور کاشانۂ رضوان الہی
میں اپنی جگہ بنالی ہے ۔اس مہینے میں روزہ رکھنا روزہ دار کے لئے ایسے اصول
و ضوابط کا حامل ہے جن میں سے ہر ایک بندوں تک معنویت وروحانیت کے
خزانوں کی منتقلی کا باعث بنتاہے ۔ روزہ، انسان کے مقصد وہدف اور انجام پر توجہ
میں اضافے کا باعث ہےاور انسان کو یہ یقین دلاتا ہے کہ نیک مقصد کے حصول کی
راہ میں دشواریوں اور مشکلات سے ہراساں نہیں ہونا چاہیے۔ روزہ داروں
میں صبرو تحمل کا حوصلہ بہت بلند ہے اور تقرب الہی کے حصول پر
مبنی ان کا ہدف ومقصد دلکش وزیبا ہے اور ہر آسانی و سہولت، دشواری و
سختی میں مضمر ہے اور گوہر آسائش کے حصول کے لئے سختیوں کے سمندر میں اترنا اور
امید وار ہونا چاہیے۔حقیقت میں انسان کی پیشرفت میں امید کا اہم کردار ہوتاہےخاص
طور خدا سے امید انسان کے لئے ہر سختی اور دشواری کو آسان بنا دیتی ہے سورۂ انشراح
کی آیات پانچ اور چھ میں خدا فرماتاہے " بے شک ہرتنگی کے ساتھ کشادگی ہے
اوربیشک ہر دشواری و سختی کے ساتھ آسانی ہے"
موسم سرما میں چیری کے درخت کو اگر
دیکھیے تو سوکھا اور خشک نظر آتاہے لیکن فصل بہار میں اس کی یہی خشک شاخیں
سبز ہوجاتی ہیں اور ان میں نرم و سفید اور خوب صورت شگوفے پیدا
ہوجاتے ہیں۔ جب انسان قدرت کے یہ کرشمے دیکھتاہے،اس کے وجود میں شادابی اور
خانۂ دل میں امید کی شمع روشن ہوجاتی ہے اس لئے کہ انسان یہ کرشمۂ قدرت الہی
دیکھ کے یہ باور کرنے لگتاہے کہ خدا جو ان خشک لکڑیوں میں تازہ روح پھونک کر ان کی
تہ میں سے کوپلیں نکال سکتاہے وہ بد اخلاق اور سخت دل انسانوں کی وادی
زندگی میں خوش اخلاقی کے دلکش و زیبا پھول بھی کھلا سکتاہے۔ایران کے عظیم
اور معروف شاعر حافظ شیرازی نےاپنےاس شعرمیں اسی نکتےکی جانب اشارہ کیا ہے
"ان کہ رخسار ترا رنگ گل ونسرین
داد
صبر و آرام تواند
بہ من مسکین داد
یعنی وہ ہستی جس نے تیرے رخسار کو
پھولوں کی طرح تازگی وشادابی عطاکی ہے، وہی میرے جیسے مسکین و فقیر کو بھی صبر
وسکون کی دولت سے نواز سکتی ہے۔
اسلام میں رجاء اور امید کا درجہ بہت
بلند ہے یہاں تک کہ اقوال معصومین علیھم السلام میں امید کو رحمت الہی سے تعبیر
کیاگیا ہے لیکن انسان کو چاہیے کہ اس قدر امید وار بنے کہ خیال پردازی کی حد میں
داخل نہ ہوبلکہ حقائق، امکانات اور اپنی ذاتی طاقت وصلاحیت کو پیش نظر رکھے۔
عراق کے شہر کوفہ کا ایک تاجرتھا جس
کا نام "ابو طیّارہ"تھا ایک مرتبہ کسی افتاد کے نتیجے میں وہ غربت کا
شکار ہوکر افسردہ اور مایوس ہوگیا۔ ایک روز وہ شہر مدینہ میں حضرت امام جعفر صادق
(ع) کی خدمت میں پہنچا اور غربت سے نجات حاصل کرنے کی آپ سے تدبیر چاہی۔
حضرت امام جعفر صادق (ع) نے ابو طیاّرہ کے دل میں امید اور اللہ پر توکل اور بھروسے
کی شمع روشن کرنے کے لئے ان سے پوچھا کہ " کیا تمھارے پاس دکان موجود ہے؟
ابوطیارہ نے عرض کی جی ہاں، لیکن تجارت کےلئے کوئی سامان نہیں ہے۔ حضرت نے
فرمایا" تم کوفے جا کر اپنی دکان کھول کر اس کی صفائی کرو اور اس پر
بیٹھ جاؤ لیکن اپنا کام شروع کرنے سے پہلے دورکعت نماز اداکرو اور خدا سے یہ
دعاکرو کہ پروردگارا مجھے اپنی شکست خوردہ طاقت پر بھروسہ نہیں ہے میرا بھروسہ صرف
تیری شکست ناپزیر طاقت پر ہے میرے مالک تو ہی مجھے طاقت و توانائی عطافرما، میرے
مالک میں تجھ سے وسعت رزق کا سوالی ہوں اور تجھ سے روزی کا خواہاں ہوں ۔ ابو طیارہ
نے حضرت امام جعفر صادق (ع) کے فرمان پر عمل کیا اور پھر بڑے اطمینان اور اعتماد
کے ساتھ
8
انپی دکان کی صفائی کرکے بیٹھ گیا۔
کچھ دیر کے بعد ایک پارچہ فروش وہاں آیااورکہنے لگا " اگر مناسب سمجھو تو
آدھی دکان مجھے کرائے پر دے دو۔ ابو طیاّرہ نے اس کی بات مان لی اور آدھی دکان اس
کے حوالے کردی ۔ اس پارچہ فروش نے اپنے کپڑے فروخت کےلئے سجادئے ۔ اور پھر انھیں
فروخت کرنے میں مشغول ہوگیا۔ ابو طیارہ نے اس پارچہ فروش سے کہا کہ اگر تم چاہو تو
اپنا کچھ مال مجھے دےدو میں بھی فروخت کروں اور مجھے تم اس کے عوض کچھ اجرت دے
دینا اور بقیّہ تم لےلینا پارچہ فروش نے ابوطیارہ کی بات مان لی۔ ابو طیارہ نے
اللہ کا نام لےکر اس سے کچھ کپڑے لئے اور انھیں فروخت کرنا شروع کردیا اتفاقا اس
روز ہوا کافی خنک و سرد ہوگئی تھی اس لئے کافی تعداد میں گاہک آگئے اور شام تک
سارے کپڑے بک گئے۔ابو طیارہ کہتے ہیں کہ میرا کام اسی طرح جاری رہا اور خدا نے
مجھے اتنی روزی دے دی کہ میں نے سواری، غلام اور کنیز بھی خرید لی اور اپنا ایک
نیا مکان بھی تعمیر کرلیا۔ رسول اکرم ۖ فرماتےہیں" امید اور آرزو میری
امت کے لئے رحمت ہے اگر امید و آرزو نہ ہوتی ، تو کوئی ماں اپنے بچے کو دودھ بھی
نہیں پلاتی اور کوئی باغباں اپنے باغ میں ایک درخت بھی نہ لگاتا" رمضان
کے اس مبارک مہینے میں رحمت الہی کے دروازے بندگان خداپر کھلے ہوئے ہیں ہم آپ بھی
عفو وبخشش و رحمت الہی سے لو لگائے ہوئے ہیں اور یہ امید رکھتے ہیں کہ پروردگار،
اپنی رحمت کی بارش سے ہمارے گناہوں کی آلودگی اور کثافت کو دور کرکے ہمارے کردار
کو پاکیزہ بنادے گا۔ بخشش و رحمت و مغفرت کی امید گنہگار انسانوں کو اپنی سمت دعوت
دیتی ہے اور منادی یہ اعلان کرتاہے کہ اےخدا کے بندو، اگر تم سے بدترین گناہ بھی
سرزد ہوگیا ہے اور اپنے کئے پر پشیمانی اور شرمندگی ہے تو رحمت الہی سے مایوس نہ
ہونا اس لئے کہ مایوسی سب سے بڑا گناہ ہے۔
حضرت امام سجاد(ع) کی پندرہ معروف
مناجاتوں میں سے ایک مناجات ایسی ہے جو "امید واروں " کی مناجات کے نام
سے مشہور ہے۔حضرت امام سجاد(ع) اس دعا کے آغاز میں خداوند کریم اور اس کی رحمت کے
بحر بیکراں سے امید کی لو لگاتے ہوئے بارگاہ الہی میں عرض کرتے ہیں" اے وہ
خدائے کریم کہ جب بھی تیرا کوئی بندہ تجھ سے کسی چیز کا طبگار ہوتاہے تو اسے وہ
چیز عطاکردیتاہے اور جب بھی کسی چیز کی تجھ سےآرزو کرتاہے ، تو اس کی آرزو پوری
کردیتاہے اور جب بھی کوئی بندہ تیری بارگاہ میں حاضری دیتاہے تو اسے اپنی قربت
عطاکردیتاہے اور جب بندہ آشکارہ طور سے گناہوں کا ارتکاب کرتاہے تو اس کے گناہوں
کی پردہ پوشی کرتاہےاورجب بندہ تجھ پر توکل کرتاہے تو اس کے سارے امور بخوبی انجام
دیتاہے" اس دعاء میں حضرت امام سجاد (ع) نے انسان کو یہ حوصلہ بخشاہے کہ
وہ بڑی سے بڑی آرزو اور تمنّا پروردگار کی بارگاہ عالیہ سے طلب کرے اور اپنے
ذہن میں خداوند متعال سے اعلی مدارج ومنازل تک رسائی کی امید رکھے اس لئے کہ خدا
وند متعال کی قدرت و مالکیت کی کوئی حدو انتہا نہیں ہے وہ جسے جس قدر بھی عطا کردے
اس کے خزانے میں کوئی کمی واقع نہیں ہوتی۔ حضرت امام سجاد(ع) بارگاہ الہی میں عرض
کرتے ہیں" میرے مالک تیرے غیر سے کس طرح کسی بھی شے کی امید رکھوں جب کہ ہر
خیر ونیکی کا مصدر تیری ذات ہے؟ اور کس طرح تیرے علاوہ اور کسی سے امیدوار بنوں جب
کہ کبریائی اور ساری خدائی تیری ہستی سے مختص ہے ؟ کیا میں تجھ سے اپنی امید
کا رشتہ توڑ لوں جب کہ تونے اپنے فضل وکرم سے وہ نعمتیں بھی عطا کردیں جو میں نے
تجھ سے طلب بھی نہیں کی تھیں"
9
ایسے مبارک مہینے اور پر برکت ایاّم
میں جب کہ آسمان کے دروازے اہل زمین کی دعاؤں کی قبولیت کے لئے کھلے ہوئے
ہیں، اس سنہرے اور قیمتی موقع سے فائدہ اٹھاتے ہوئے بہتر ہوگا کہ
بارگاہ الہی سے اپنی بڑی سے بڑی حاجتیں طلب کریں۔ حضرت امام سجاد(ع) کی
"امیدواروں کی مناجات" کے فقروں کو خلوص دل کے ساتھ اپنی زبان پر
جاری کریں " اے وہ بہترین ہستی کہ جو امید لگانے کے قابل ہے اور اے وہ کریم
ترین ذات، جس کے سامنے دست سوال دراز کرنا کوئی عیب کی بات نہیں ہے اور اے وہ ذات
جو اپنے سائل وگدا کو خالی ہاتھ نہیں لوٹاتی اور اپنے سے مایوس نہیں کرتی اوراپنے
امید واروں کو ناامید نہیں کرتی تجھے تیرے فضل وکرم کا واسطہ کہ مجھپر کرم فرمااور
اپنی اس عطا ؤ بخشش سے نواز دے جو مجھے چشم بصیرت عنایت کرنے کا باعث بنے اور اپنی
امیدوں سے اس قدر مجھے سرشار فرمادے کہ میرے دل کو سکون واطمینان حاصل ہوجائے اور
ایسا یقین عطافرما کہ دنیا کے رنج وغم کا تحمل میرے لئے آسان ہو جائے اور اس یقین
کی بدولت، جہل و ظلمت کے پردے میری چشم بصیرت کے سامنے سے ہٹادے۔ تجھے تیری
بےبیکراں رحمت کا واسطہ، اے سب سے بڑے مہربان"
دنیا کی زندگی میں غم وغصہ، ناگوار
مسائل سے دوچار ہونااگر انسان کے لئے تلخ ہے تو دوسری جانب خوشیاں اور مسرتیں بھی
شکر وشہد کی مانند شیریں اور خوش ذائقہ ہیں۔اگر انسان کو مشکلات اور دشواریوں کا
سامنا کرنا پڑے تو اسے مضطرب اور پریشان نہیں ہونا چاہیے بلکہ آسانیوں
کاامید وار ہونا چاہیے۔امیر المومنین حضرت علی (ع) فرماتے ہیں" ہر رنج
وغم سرانجام خوشی اور شادمانی کا باعث بنتا ہے"
10
5:۔ رمضان کا مہینہ بارش کے پانی کی
مانند ہے
رمضان کا مہینہ بارش کے پانی کی مانند
ہے جو انسانوں کو خداوند کریم کی برکتوں اور مغفرت سے سیراب کرتاہے۔ اس مبارک
مہینے کے دنوں اور راتوں میں دعاؤ مناجات، انسان کو یہ موقع فراہم کرتی ہے
کہ اپنے کو درک کرے اور رحمت الہی کی بارش سے اپنی روح وجان کو طراوت و تازگی
بخشے۔ روزہ اس امر کا باعث بنتاہے کہ تمام انسان خواہ امیر ہوں یا غریب وفقیر سب
بارگاہ الہی میں حاضر ہوتے ہیں ۔ ایک وقت میں روزہ رکھنے سے سماجی مشارکت کی
نشان دہی ہوتی ہے۔ ثروت مند افراد محروموں اور غریبوں کےرنج وغم کا احساس
کرتے اور ان کی مدد کرتے ہیں اور غریبوں کو اپنے دستر خوان کی زینت قرار دیتےہیں،
انھیں افطار اور کھانے کی دعوت دیتے ہیں اور ان سے بھائی چارے اور محبت والفت کا
برتاؤ کرتے ہیں۔
آسمان سے بارش کی بوندیں جب تک
زمین تک نہیں پہنچتیں اس وقت تک وہ قطرہ شمار کی جاتی ہیں اور جب تک قطرہ ہیں ان
کی اہمیت اور افادیت نہیں ہے،لیکن جب زمین پر پہنچ جائیں اور ایک دوسرے سے مل
جائیں تو آب جاری کی شکل اختیار کرلیتی ہیں اور ہر چیز کو پاک و صاف کرنے کی
صلاحیت رکھتی ہیں، بیج کو سبز اور اور سبزوں کو شادابی اور نمو عطا کردیتی
ہیں۔ انسانوں کو بھی بارش کے قطروں سے تشبیہ دی جاسکتی ہے جب تک غرور وتکبر
کا نشہ ان پر سوار ہے، ان کی کوئی حیثت و افادیت نہیں ہے لیکن جب مرکب تکبر وغرور
سے نیچے اترآئیں اور ان میں تواضع و انکساری پیدا ہو جائے اور وہ ایک دوسرے کے
ساتھ معاشرت اور زندگی بسر کرنے لگیں تو اس وقت ان کا وجود مفید بن جاتا ہے۔ یہی
وجہ تھی پیغمبر اکرم ۖ معاشرتی اور سماجی زندگی بسر کرنے کو
دوست رکھتے تھے اور ایک دوسرے سے دوری اختیار کرنے سے منع فرماتے تھے۔
حقیقتا انسان چاہے جتنی بھی بلندی پر پہنچ جائے اگر اپنی سطح سے نیچے
کے لوگوں کے ساتھ معاشرت اختیار نہ کرے تو اسے حقیقی عروج وکمال اور سربلندی حاصل
نہ ہوگی۔ جو چیز انسان کی بلندی کی راہ میں حائل اور رکاوٹ بنتی ہے،تکبر وغرور
ہے۔غرور وتکبر، خدا سے دوری، راہ حق سے انحراف،اور شیطان کے راستے پر چلنے
کا باعث بنتا ہے۔ قرآن کے سورۂ بقرہ کی چونتیس ویں آیت میں ارشاد باری ہے "
اور جب ہم نے فرشتوں کو حکم دیا کہ آدم کو سجدہ کرو ،پس سب نے سجدہ کیا ابلیس کے
علاوہ، اس نے ہمارے حکم سے سرپیچی کی اور غرور وتکبر سے کام لیااور کافروں میں
شامل ہوگیا"
قرآن کریم نے غرور وتکبر کے بعض ظاہری
اثرات ونتائج کی جانب بھی متوجہ کیا ہے اس لئے کہ انسان میں جو صفتیں موجود ہیں وہ
کبھی نہ کبھی اپنے آپ اس کے اعمال سے ظاہر ہوجاتی ہیں ۔ انسان کی رفتار و گفتار اس
کے صفات کی مظہربن جاتی ہیں۔ سورۂ اسراء کی 37ویں آیت میں ارشاد باری ہے"
روئے زمین پر غرور وتکبر کے ساتھ اکڑ کر نہ چلو، کیونکہ تم زمین کو شگافتہ کرنے
میں کامیاب نہیں ہو سکتے اور تمھارے قد کی بلندی بھی پہاڑوں کی بلندی کو چھو نہیں
سکتی" بعض متکبر اور غروری افراد ایسے ہیں جو راستہ چلنےمیں زمین پر پاؤں
پٹختے ہیں تاکہ لوگوں کو ان کی آمد کا علم ہوجائے، وہ گردن تان کر چلتے ہیں تاکہ
اپنے زعم میں دیگر افراد پر اپنی برتری اور اپنے کو اونچا ظاہر کریں۔
حکایات میں آیاہے کہ ایک سنگ ریزے نے پہاڑ کے مقابل کھڑے ہوکر کہا کہ اے بلند
وبالا پہاڑ میں احساس تنہائی میں مبتلاہوں مجھے بھی اپنے وجود کا حصہ بنالو میں
بھی تمھاری شان وشوکت کا باعث بنوں گا" سنگریزے کی باتیں سن کر پہاڑ
ہنسا اور غرور وتکبرکے ساتھ بولا " اے نادان سنگ ریزے، تم ہماری شان
وشوکت اور رفعت وسربلندی میں کیا مؤثر ثابت ہوسکتے ہو تمھاری حیثیت ہی کیا ہے؟
" پہاڑ سے وابستہ تمام سنگ ریزوں کو پہاڑ کے غرور آمیز جواب سے رنج پہنچا اور
ایک ایک کرکے پہاڑ سے جداہونے لگے تھوڑی دیر میں پہاڑ دشت کے ذہن میں ایک
یاد داشت میں تبدیل ہوکر رہ گیا۔
تاریخ اسلام میں ملتاہے کہ ایک روز
رسول اکرمۖ کسی بزم میں تشریف فرماتھے اور آپ کے اصحاب پروانہ وار آپ
کے گرد جمع تھے درایں اثنا ایک غریب شخص پھٹا پرانا لباس پہنے ہوئے بزم میں آگیا اور
ایک ثروت مند کے پہلو میں جگہ پاکر بیٹھ گیا ۔ ثروت مند نے اسے دیکھ کر اپنے
کپڑے سمیٹ لئے اور اس غریب آدمی سے کچھ دور ہٹ گیا۔ رسول اکرمۖ نے جو سارا ماجرا مشاہدہ فرمارہے تھے، اس ثروت مند سے فرمایا
کہ کیا تم ڈر رہے تھے کہ اس کی غربت تمھیں نہ لگ جائے؟ اس نے عرض کی نہیں ایسا نہیں
ہے۔
11
رسول اکرمۖ نے فرمایا کہ
کیا تم اس بات سے ڈر گئے کہ تمھارے قریب اس کے بیٹھ جانے سے تمھارے کپڑے میلے
ہوجائیں گے؟ اس نے کہا ہرگز ایسا نہیں ہے۔ پھر حضرت نے اس ثروت مند سے بڑے ہی نرم
لہجے میں کہا کہ تم نے اپنے کپڑے اس غریب کو دیکھ کر آخرکیوں سمیٹ لئے؟ اس
سوال پر اس ثروت مند کا شیشۂ غرور چور چور ہوگیا اس نے شرمندہ ہوتے ہوئے کہا کہ
مجھ سے غلطی ہوگئی اب میں اپنی غلطی کی تلافی کے لئے اپنی آدھی دولت وثروت
اپنے اس غریب مسلمان بھائی کو دیتا ہوں تاکہ میں نے جو غلطی کی ہے یہ مجھے
معاف کردیں۔ اس وقت اس غریب شخص نے بڑی حکمت آمیز بات کہی " مگر میں آپ کی اس
پیش کش کو قبول کرنے کے لئے تیار نہیں ہوں" آپ کے اصحاب کو اس کا جواب عجیب
سا لگا اور سب تعجب سے اس غریب کی جانب دیکھنے لگے۔ رسول اکرمۖ نے اس سے فرمایا کہ تمھارے انکار کا کیا سبب ہے؟ اس غریب شخص نے
عرض کی یارسول خدا مجھے اس بات ڈر ہے کہ ان کے جیسا غرور میرے ذہن میں نہ پیدا
ہوجائے اور میں بھی اپنے کسی مسلمان بھائی کے ساتھ یہی سلوک کربیٹھوں"
سامعین اس مبارک لمحات میں ہماری دعا ہے کہ خدا ہمیں غرور وتکبر سے محفوظ
رکھے اور اپنی رحمت ومغفرت کی بارش سے ہمارے وجود میں پائی جانے والی ناشائستہ
صفات کی کثافتوں کو دور فرمادے۔
حضرت امام سجاد (ع) کی پندرہ معروف
مناجاتوں میں سے ایک، مناجات شاکیان بھی ہے ۔ یہ مناجات خداسے شکایت کے لہجے میں
کی گئی ہے لیکن مادی اور دنیوی امور سے مربوط نہیں ہےبلکہ ان مشکلات
سے مربوط ہے جو فرائض کی انجام دہی اور خدا کی بندگی اور انسانی کمالات تک
رسائی کی راہ میں پیش آتی ہیں۔ حضرت امام زین العابدین (ع) اپنی اس مناجات میں خدا
سے عرض کرتے ہیں" خدایا میں تجھ سے اس نفس امّارہ کی شکایت کرتاہوں جو مجھے
ہمیشہ برے اعمال کی انجام دہی کا حکم دیتاہے اور ہر خطا کی جانب ڈوڑتاہے اور تیری
نافرمانی میں حریص ہے اور اس نے مجھے تیرے غضب کے دہانے پر پہنچادیا ہے اور
ہمیشہ میری تباہی وبربادی کے درپے ہے یہ ایسا نفس ہے جس نے میری ہستی کو تیرے
سامنے پست ترین اور تباہ شدہ بناکر پیش کرنے کا خواہاں ہے اگر کوئی شر
یا برائی نظر آتی ہے تو اس کی انجام دہی کے لئے بیتاب ہوتاہے لیکن نیک امور
کی انجام دہی اور دوسروں کے ساتھ احسان اور حسن سلوک سے روکتاہے"
حضرت امام سجاد (ع) کی شکایات کا محور
خود اپنا نفس ہے ۔ مذہبی ثقافت و لغت میں نفس کے لفظ کا بہت زیادہ
اور مختلف انداز میں استعمال ہوا ہے اور قرآن میں بھی لفظ نفس
کا استعمال متعدد مقامات پر کیا گیاہے۔اس بارے میں خدا وند کریم سورۂ
یوسف کی ترپن ویں آیت میں حضرت یوسف (ع) کے قول کو یوں نقل کرتا ہے"
اور میں اپنے نفس کوبھی بری نہیں قرار دیتاکہ نفس بہر حال برائیوں کا حکم دینے
والاہے مگر یہ کہ میرا پروردگار رحم کرےکہ وہ بڑا بخشنے والا مہربان ہے" یہ
نفس جو نفس اماّرہ کے نام سے مشہور ہے، انسان کو گناہ و خطا اور پست ترین مادی اور
دنیوی لذات کے حصول پر مجبورکرنا چاہتاہے نفس امّارہ
خطاؤں کی توجیہ اور ان کی انجام
دہی کا جواز پیش کرتاہے اور گناہوں کو اچھا بنا کے انسان کے سامنے پیش کرتاہے جب
کہ
بلا شبہ گناہ کی توجیہ خود اس گناہ سے
بڑا گناہ ہے اس لئے کہ اگر گنہگار اپنے گناہ کی برائی کو درک کرلے تو اس کی تلافی
اور توبہ کا خواہاں ہوتاہے لیکن گناہ کی توجیہ کے باعث گناہ کی خرابی اور برائی
پوشیدہ رہ جاتی ہے اور انسان گناہ پر اصرار کرتا رہتاہے اور روز بروز اپنے خالق
حقیقی سے اپنے گناہوں پر اصرار کی وجہ سے دور ہوتاجاتاہے۔
12
حضرت امام سجاد (ع) اپنی مناجات مین
خدا سے اس نفس کی شکایت کرتے کہ جو انسان کو تیزی سے گناہ کی سمت لے جاتاہےاور جب
انسان توبہ کرنے کی سمت راغب ہوتاہے اس وقت توبہ کو کسی اور موقع کے لئے ٹال
دیتاہے اس طرح ساراوقت دنیوی لذتوں میں صرف ہوجاتا ہے اور انسان خدا سے توبہ اور
اپنے گناہوں کی تلافی کرنے میں کامیاب نہیں ہوپاتا۔ کیونکہ شیطان بھی بے بنیاد
وعدوں ک ذریعے گنہگار انسان کو فریب دیتاہے اور مختلف بہانوں سے انسان کی توبہ کو مستقبل
پر ٹال دیتاہے۔حضرت امام زین العابدین (ع) اس مناجات میں بارگاہ الہی میں عرض کرتے
ہیں" پروردگارا میرے لئے تیری طاقت کے سوا کوئی دوسری قوت وطاقت موجود نہیں
ہے۔ اگر تو میری حفاظت نہ کرے تو دنیا کی گرفتاری سے مجھے ہرگز نجات نہیں مل سکتی،
میرے مالک تجھے تیری بےپناہ حکمتوں اورتیرے عزم راسخ کی قسم مجھے صرف
اپنے جود وکرم سے نواز دے اور گناہوں سے محفوظ رکھ تجھے تیری رحمت کا واسطہ اے
مہربانوں کے مہربان. آمین
13
6:۔ رمضان المبارک قربت
الہی کے حصول کے لئے بہترین موقع ہے
رمضان کا مہینہ معنوی و روحانی کمالات
اور قربت الہی کے حصول کے لئے بہترین موقع ہے ۔ خداوند کریم نے اپنے بندوں کو جو
نعمتیں عطاکی ہیں اگر وہ چاہیں تو ان نعمتوں کو خدا کی طاعت وعبادت کی راہ میں
استعمال اور دوسروں کو بھی ان نعمتوں سے بہرہ مند کرسکتے ہیں۔ ایران کےممتاز عالم
و عارف خواجہ عبداللہ انصاری کہتے ہیں"اگر پانی میں اترنا ہے تو تنکے کی طرح
سبک بن جاؤ، اگر ہوا میں اڑنا ہے تو مکھی کے مثل بن جاؤ، اور اگر کچھ بننا ہے تو
پہلے دل جیتنا سیکھو"
انسان کو چاہیے کہ بخشش وسخاوت میں
تنگ نظری کا شکار نہ ہواور احسان و بخشش کے دائرے کو مادی اور دنیوی احسان وبخشش
کے مظاہر میں محدود نہ کرے۔ امام المتقین حضرت علی (ع) فرماتے ہیں" ہر کار
خیر جو پروردگار عالم کی رضاؤ خوشنودی کے لئے انجام دیا جائے وہ احسان و عمل خیر
شمار ہوتاہے"
بعض انسان آنکھوں کی پتلیوں کی طرح
ہیں۔ جس قدر نور اور روشنی بڑھتی جاتی ہے آنکھ کی پتلی اتنی ہی سمٹتی جاتی ہے۔ اسی
طرح بعض افراد ہیں کہ اللہ ان کی نعمتوں میں جس قدر اضافہ کرتا جاتاہے ، اتنا ہی
وہ بخیل و تنگ نظر ہوتے جاتے ہیں لیکن اہل تقوی ایسے نہیں ہیں۔ خداوند کریم اہل
تقوی اور پرہیز گار لوگوں کو جب نعمتیں عطاکرتا اور رزق سے نوازتاہے تو دوسروں کو
بھی ان نعمتوں سے استفادے کی دعوت دیتے ہیں یعنی اہل تقوی وہ لوگ ہیں کہ اگر خدا
انھیں عزت و آبرو عطاکرتاہے تو اسے صرف اپنے لئے ہی نہیں بلکہ دوسروں کی مشکلات کو
حل کرنے کے کام میں لاتے ہیں۔مثال کے طور پر اگر کوئی صاحب ضرورت قرض لینا چاہتاہے
تو اس کے ضامن بنتے ہیں، یا کسی کی نوکری اور ملازمت کی سفارش کردیتے ہیں یا
اگرعلم حاصل کر لیتے ہیں تو ہاتھوں میں قلم اٹھالیتے ہیں اور دوسروں کو زیور علم
سے آراستہ کردیتے ہیں اور اگر کتاب یا کوئی مفید مطالب و مضامین کا مطالعہ کرتے ہیں
تو دوسروں کو بھی ان سے بہرہ ور کرتے ہیں۔ دینی مسائل کے ماہر حجۃالاسلام
"رنجبر" نے کیا لطیف بات کہی ہے " کلیاں چٹخنے کے بعد خوبصورت اور
دلکش پھولوں میں تبدیل ہوجاتی ہیں لیکن یہ سب نسیم بہار کا کرشمہ ہے جو بغیر کسی
منت واحسان کے بند کلیوں کو کھول دیتی ہے لیکن ایسا نہیں ہے کہ اسے اس عمل خیر کے
عوض کچھ نہ ملتاہو،وہ بھی اپنےاس نیک عمل کے بدلےمیں عطرآگیں اور معطر
ہوجاتی ہے۔ کیا کہنا ان لوگوں کا جو باد نسیم کی مانند خلق خدا کی گرہیں کھول دیتے
اور ان کی مشکلات آسان کردیتے ہیں لیکن وہ اپنے اس عمل سے محروم نہیں رہتے اللہ
انھیں اس کار خیر کا بدلہ دیتاہے۔
کمترین نیکی اور حسن عمل دوسروں کے حق
میں دعا کرنا ہے خاص طور سے ایسے معنوی و روحانی اورمبارک ایام میں کہ
جب خداوند کریم سے دعاؤ مناجات کے لئے دونوں ہاتھ اس کی بارگاہ میں بلند ہوتے ہیں
اور دعا باب اجابت کے قریب ہوتی ہے۔ سامعین دوسروں کے حق میں دعا کرنا، گویا خیر
خواہی کی سعی وکوشش نیز بخل وکنجوسی ، اور تنگ نظری و خود غرضی سے رہائی
حاصل کرنے کی عملی مشق ہے۔ دوسروں کے لئے دعاء، گویا انسانی حقوق کے اہم
ترین اصول و قانون پر دست رسی کی راہ ہموار کرناہے ایسا قانون جو یہ کہتاہے کہ
" جو اچھائیاں اورخوبیاں تم اپنے لئے پسند کرتے ہو دوسروں کے لئے انھیں پسند
کرو" اور اس طرح انسان دوسروں کے حق میں نیکی اور اچھائی کر کے
یہ باور کرلیتاہے کہ اس کی خوش نصیبی دوسروں کی خوش بختی کی مرہون منّت ہے ۔حضرت
امام محمد باقر (ع) فرماتے ہیں " جودعائیں زیادہ اور بہت جلد شرف
قبولیت حاصل کرتی ہیں وہ ایسی دعائیں ہیں جو دوسروں کے لئے اور ان کی غیر موجودگی
میں کی جاتی ہیں" اسی طرح حضرت امام جعفر صادق (ع) فرماتے ہیں "
دوسروں کے حق میں دعائیں کرنا، انسان کے رزق وروزی میں اضافے اور ناگوار حادثات سے
محفوظ رہنے کا باعث بنتاہے "
ایک مرتبہ ایک کشتی طوفان کے تھپیڑوں
سے شکستہ ہوکر ڈوب گئی اس کشتی میں سوار لوگوں میں دوافراد بچ نکلنے میں کامیاب
ہوگئے وہ ایک بے آب ودانہ جزیرے میں پہنچ گئے وہ بہت ہی دشوار حالات میں گرفتار
تھے اور ان کی سمجھ میں کجھ بھی نہیں آرہاتھا کہ کیا کریں انھوں نے پریشان ہوکر
خدا سے پناہ مانگنے کے بار ے میں سوچا اور دونوں نے دعا کے لئے اپنے ہاتھ بلند
کردئے اور یہ دیکھنے کے لئے کہ کس کی دعا پہلے مستجاب ہوتی ہے دونوں
الگ الگ گوشے میں بیٹھ کر خدا سے دعا مانگنے میں مشغول ہوگئے۔دوسرے روز ان
دونوں میں سے ایک کو پھل دار درخت نصیب ہوگیا اور اس نے شدید بھوک اور گرسنی کے
باعث ان پھلوں کو کھالیا لیکن دورے دوسرے شخص کے پاس کھانے کے لئے کچھ بھی نہیں
تھا۔ دوسرے روز پہلےشخص نے خدا سے شریکۂ حیات اور ہمدم ودمساز عطا کرنے کی درخواست
کی ، اگلےروز اتفاقیہ طور پر ایک اور کشتی طوفان کے سبب غرق ہوگئی اور اس پر سوار
مسافرین میں ایک خاتون زندہ بچ گئیں تھیں جو اس شخص کے نصیب میں آگئیں۔ جزیرہ کے
دوسرے گوشے میں بیٹھ کر دعا مانگنے والے کے پاس کچھ بھی نہ تھا اور وہ بالکل تنہا
تھا۔ پہلے شخص نے خدا سے مزید غذا طلب کی ، اگلے روز پہلے شخص کو معجزے کے طور
پر جو کچھ اس نے خدا سے طلب کیا تھا سب کچھ ایک ساتھ مل گیا لیکن دوسرے شخص
کو کچھ بھی نہیں ملا۔ سر انجام پہلے شخص نے خدا سے ایک کشتی کی درخواست کی تاکہ وہ
اپنی زوجہ کے ہمراہ اس جزیرے سے چلا جائے ، دوسرے روز ایک کشتی اسی جزیرے
میں لنگر انداز ہوگئی اس پہلے شخص نے اپنی بیوی کے ساتھ چلے جانے اوراپنے ساتھی کو
وہیں چھوڑ دینے کا فیصلہ کرلیا اور اپنے آپ سے کہنے لگا " اس شخص میں واقعی
نعمتوں کے حصول کی صلاحیت نہیں ہے ،کیونکہ اس کی کوئی دعا قبول نہیں ہوئی لہذا
بہتر یہی ہے کہ وہ یہیں پڑا رہے" وہ اپنی بیوی کے ساتھ کشتی میں
بیٹھ گیا اور جب کشتی چلنے لگی تو آسمان سے ندا آئی اپنے ساتھی کو اس بیایان میں
تنہا چھوڑ کر کیوں جارہے ہو؟ اس شخص نے جواب دیا " کہ جو نعمتیں میں نے
حاصل کی ہیں وہ سب میری ہیں میں نے خود خدا سے طلب کی ہیں اور میرے ساتھی کی تو کوئی
دعا پوری ہی نہیں ہوئی لہذا وہ ان نعمتوں کے قابل نہیں ہے۔ پھر آسمان سے
آواز آئی کہ تمھارا یہ اقدام غلط ہے۔ میں نے صرف اس کی دعائیں قبول کی
ہیں تویہ ساری نعمتیں تم کو مل گئیں " یہ سن کر وہ شخص حیرت میں پڑ گیا اور
اس نےپوچھا میرے ساتھی نے کیا دعا کی تھی کہ مجھے اس کا احسان مند
ہونا چاہیے؟ جواب ملا " اس نے مجھسے یہ دعا کی تھی میں تمھاری
ساری خواہشات کو پورا اور تمھاری ساری دعائیں مستجاب کروں"
ہماری زندگی کا بھی یہی حال ہے کہ
ہم بھی حاصل ہونے والی نعمتوں کو اپنی دعاؤں کا نتیجہ سمجھتے ہیں اور
اپنے آپ کو مستجاب الدعوات سمجھنے لگتے ہیں، جبکہ خدا وند متعال ہمارے
حق میں دیگر مومنوں کی دعاؤں کے نتیجے میں ہمیں اپنی نعمتوں سے نواز دیتاہے اور
ہمارے اوپر اپنی نعمت کے دروازے کھول دیتاہے اورقابل ذکر بات یہ ہے کہ ایک
مومن کی دعا دوسرے برادر مومن کے حق میں زیادہ مستجاب ہوتی ہے۔
حضرت
امام سجاد (ع) کی پندرہ معروف مناجا توں میں سے ایک، مناجات "مشتاقین" یعنی مشتاقوں کی مناجات، ہے۔ اس مناجات کے آغاز
میں حضرت امام سجاد (ع) بارگاہ الہی میں عرض کرتے ہیں پروردگارا اگرچہ تیری بارگاہ
کے سفر میں میرے پاس زاد راہ بہت کم ہے لیکن میں تجھ پر توکل اور تیرے بارے میں
حسن ظن رکھتاہوں ، اگر میرے جرم اور گناہ، آخرت میں میرے خوف وہراس کا باعث بن رہے
ہیں تو یقینا تیرے لطف وکرم سے امید بھی تیری سزا سے میرے بچنے کا مژدہ دے رہی ہے
اگر میرے گناہ نے مجھے عذاب اور سزا کے دہانے پر لاکھڑا کیا ہے تو تیرے اوپر
میرا حسن اعتماد بھی تیری جزا کی خوش خبری دے رہاہے، اگرچہ غفلت تیرے دیدار کی
آمادگی کی جانب سے میری عدم توجہ کا باعث بنی ہے لیکن تیرے کرم اور تیری عطاؤں سے
آشنائی نے مجھے ہوشیار کررکھاہے، اور اگرچہ گناہ و سرکشی میں اضافہ، میری وحشت
کاباعث بنا ہے لیکن تیری بخشش وعطا ؤ خوشنودی میرے سکون و اطمینان کا سبب
بنی ہے"
اس مناجات میں حضرت امام سجاد(ع) نے
آخرت کے طولانی سفر میں زادراہ کی قلت پر اپنی تشویش کا اظہار فرمایاہے لیکن بلا
وقفہ خداوند کریم پر توکل اور اس کی بے انتہا اور لامحدود رحمت کے بارے میں حسن ظن
اور اس سے امید کی وابستگی کا ذکر فرماتے ہیں۔ احادیث و روایات میں خدا وند
کریم سے حسن ظن پر تاکید کی گئی ہے۔ خدا سے حسن ظن، ہر حال میں خدا سے انسان کے
امید وار رہنے اور خدا نے انسان کے مقدرمیں جو مقرر فرمایا ہے اس پر اس کے راضی
رہنے کا سبب بنتاہے۔ خدا سے حسن ظن کے سبب انسان اپنی حقیقی مصلحت و
منفعت کو ان امور میں قراردیتاہے جوخدا نے اس کے لئے مقرر فرمایاہے۔ حضرت امام
رضا(ع) اس بارے میں فرماتے ہیں" خدا سے حسن ظن رکھو، کیونکہ خدا فرماتاہے
" میں اپنے مومن بندے کے حسن ظن کا تابع ہوں اگر میرے بارے میں حسن ظن
رکھتاہے تو میں اس کی امید کے مطابق اس کے ساتھ نیک سلوک روا رکھتاہوں اور اگر
میرے بارے میں بدگمانی رکھتاہے تو اس کے ساتھ میرا سلوک بھی ویساہی
ہوگا"
حضرت امام سجاد (ع) اس مناجات میں
فرماتے ہیں " میرے مالک میں نے اپنے آپ کوتیری رحمت ومہربانی کی باد نسیم کی
راہ سے وابستہ کررکھا ہے اور تجھ سے تیری رحمت وجود وکرم کی بارش کا طلبگار ہوں۔
میرے مالک تیرے غضب سے تیری رضا وخوشنودی اور تجھ سے تیری ہی طرف گریزاں ہوں اور
تیرے پاس جو بہترین چیزیں ہیں ان سے میری امیدیں وابستہ ہیں اور تیری بخشش پر مجھے
مکمل اعتماد ہے" قابل ذکر نکتہ یہ ہے کہ امام (ع) فرماتے ہیں کہ" تیرے
غضب سے تیری رحمت کی پناہ میں آگیا ہوں" کیونکہ خدا کے بے انتہا لطف وکرم کا
تقاضا ہے کہ جو شخص اس کی پناہ میں آنا چاہے اس کو ناامید نہ کرے اور رحمت و
عنایت اس کے شامل حال کرے۔
14
خدا وند کریم سورۂ توبہ کی آیت (6)
میں اپنے پیغمبر سے ارشاد فرماتاہے اگر مشرکین ان سے پناہ کےطالب ہوں تو انھیں
پناہ دیں اور ان کے ساتھ الفت ومحبت اور لطف ومہربانی کا برتاؤ کریں۔ جو شخص حق
خدا میں کوتاہی اور گناہ کرتاہے اور اس کے قہر وغضب سے بھاگتاہے اسے خدا کے سوا اور
کہاں پناہ مل سکتی ہے اس لئے کہ وہ روئے زمین پر جہاں بھی جائے گا وہاں خدا موجود
ہے اسی لئے جب بندۂ مومن احساس گناہ کے سبب پشیمان اور رنجور ہوتاہے تو مہرو محبت
الہی کے دامن میں ہی پناہ لیتاہے اور اس کے جود وکرم اور لطف وبخشش کا امید وار
ہوتاہے اس لئےکہ گنہگار مومن بندہ یہ اچھی طرح جانتاہے کہ اس کا گناہ خواہ
کتنا ہی بڑا کیوں نہ ہو لیکن خدا کی بے انتہا رحمت ومہربانی کے مقابلے میں
ناچیز اور اس کی کوئی حیثیت نہیں ہے۔
15
7:۔ ایک دوسرے سے منہ موڑنے سے اجتناب کرو
ماہ مبارک رمضان کے حوالے سے حضرت
امام سجاد (ع) اپنے خالق حقیقی سے مناجات میں یوں راز ونیاز کرتے ہیں۔
" پروردگارا اس مبارک مہینے میں ہمیں
اپنے عزیز واقارب سے نیک برتاؤ ، ان سے ملاقات اور صاحب ضرورت ہمسایوں
اورپڑوسیوں کے ساتھ عطاؤبخشش کی توفیق عطا فرما ، ہمارے اموال میں جو ناحق اضافہ
ہو گیا ہے اسے خیرات وزکات کی توفیق کے ذریعے پاک کردے اور جو لوگ ہم سے جدا اور
علحدہ ہوگئے ہیں ان سے پھرملادے "
آپ نے بھی مشاہدہ کیا ہوگا کہ انار کے
دانے جب ایک دوسرے سے جڑے اور ایک ساتھ اور مرتب ہوتے ہیں تو
ایکدوسرے کو حیثیت اور عظمت وشان وشوکت عطا کرتے ہیں ۔ ہم لوگ بھی انار کے دانوں
کی طرح ہیں، یعنی اس وقت ہم قابل ذکر حیثیت اور تشخص کے حامل ہیں جب ایک ساتھ ہوں۔
اسی لئے حضرت علی (ع) نے فرمایاہے" ایک دوسرے سے علحدگی اختیار کرنے سے پرہیز
ایک دوسرے سے منہ موڑنے سے اجتناب کرو"حقیقت یہ ہے کہ ایک دوسرے سے علحدگی
اور جدائی اور منہ موڑنے سے آدمی کی کوئی حیثیت اور وقار باقی نہیں رہتا۔
ایک آرے کو ہاتھ میں اٹھاکر دیکھئے اس
کے دانت یا دندان کس قدر مرتب اور منظم اور ایک قطار میں ہوتے ہیں اور اسی لئے ان
میں برش اور کاٹنے کی صلاحیت پائی جاتی ہے اور وہ آگے بڑھتا جاتاہے ۔ اگر اس کے
دانتے ایک دوسرے سے دور ہوں یا ایک الٹا اور ایک سیدھا ہو تو اس سے لکڑی نہیں کاٹی
جاسکتی۔ ہماری مثال بھی ایسی ہی ہے خاص طور سے جب ہم اپنے عزیز واقارب کے ساتھ
زندگی نہ بسر کریں،اور ایک دوسرے کے ساتھ حسن سلوک اور صلۂرحم نہ کریں تو ہمارے
وجود کا کوئی فائدہ نہیں ہے بلکہ یہ چیز ہمارے ہی نقصان میں بھی ہے۔ حضرت علی (ع)
اس بارے میں فرماتے ہیں" تمھارے لئے افسوس کی بات ہے اگر قطع رحم کرو، یعنی
رشتہ داروں اور عزیزوں سے قطع تعلق کرو لیکن یہ بھی جاننا چاہیے کہ صلۂرحم کرنے سے
مراد، ایک دوسرے سے ملاقات نہیں ہے بلکہ ایک دوسرے کے کام آنا اور ایک دوسرے کے
ساتھ ایثارو فداکاری کرنا ہے۔ شب عاشور حضرت امام حسین (ع) نے اپنے کنبے کے افراد
سے فرمایا " میری نظر میں تم سے بڑھکر صلۂرحم کرنے والا کوئی نہیں ہے"
یعنی صلۂرحم صرف ایک ساتھ دستر خوان پر بیٹھ کر کھانا کھانا نہیں ہے بلکہ حقیقتا
صلۂرحم سختیوں ، دشواریوں اور مشکلات میں زندگی کے آخری لمحے تک ایک دوسرے کا ساتھ
دینا ہے۔
ایک شخص نے حضرت رسول اکرمۖ کی خدمت میں حاضر ہو کر عرض کی " اے خداکے رسول ہمارے
عزیز واقارب ایسے ہیں کہ ہم ان کے کس ساتھ اچھا برتاؤ کرتے ہیں لیکن ان کا سلوک ہمارے
ساتھ اچھا نہیں ہے۔ ہم ان کےساتھ رابطہ رکھے ہوئے ہیں لیکن وہ لوگ ہمیں اذیت دیتے
ہیں ۔ اب میں نے ان سے ترک تعلق کا فیصلہ کرلیا ہے" حضرت رسول اکرمۖ نے اس شخص کی باتیں سننے کے بعد فرمایا " جب تم ان سے ترک
تعلق کرلوگے تو خدابھی تم سے ترک تعلق کرلے گا" اس نے کہا اے خداکے رسول بتائیے
پھر میں کیاکروں؟ آپ نے فرمایا"جس نے تم کو محروم کررکھاہے اس کے ساتھ عطا ؤ
بخشش کا برتاؤ کرو، جس نے تم سے قطع تعلق کیا ہے اس کے ساتھ تم اپنا رابطہ برقرار
رکھو، اور جس نے تم پر ظلم وستم کیا ہے اس کو معاف کردو، اگر ایسا کرو گے تو
خداوند کریم تمھارا حامی ومددگار ہوگا" حقیقت یہ ہے کہ سب سے بڑی عبادت
خلق خدا کی خدمت اور الہی نعمتوں کو بندگان الہی کی امداد کی راہ میں صرف کرناہے
لیکن اس سے مراد صرف ان کی مالی مدد نہیں ہے بلکہ ان کی ہرقسم کی مشکل کو
دور اور حل دینا احسان اور حسن سلوک شمار ہوتاہے۔ اگر کسی مومن کے دل کو مسرور یا
اس کے غم کو دور کردیا جائےتو یہ عمل احسان ہے۔ حضرت امام جعفر صادق (ع)
فرماتےہیں" اگر کوئی شخص اپنے برادر ایمانی کے چہرے سے خس وخاشاک صاف
کردے تو اس کے عوض پروردگار اس کو دس اجر وثواب عطا فرمائے گا اور اگر کوئی اپنے
برادر ایمانی کو مسرور کرے اور اس کے لبوں پر مسکراہٹ آنے کا باعث بنےتو خدا اس کو
حسنہ اور نیکی عطا کرے گا"
شیخ رجب علی خیاط ایک مرد زاہد تھے
اور بہت اللہ والے اور عارف تھے ۔ ان کے حالات میں ملتاہے کہ ایک روز ایک جوان
آدمی ان کے پاس آیا جو بلڈنگ انجینیر تھا اور اس نے جلد ہی کچھ بلڈنگیں
تعمیر کی تھیں لیکن ان کے فروخت نہ ہونے کے باعث سخت مقروض ہوگیاتھا ۔ اس نے شیخ
رجب علی سے کہا کہ طلبگار مجھے ڈھونڈ رہے ہیں اور میرا اپنے گھر سے نکلنا مشکل
ہوگیا ہے آخر میں کیا کروں کہ میری مشکل حل ہو جائے؟ شیخ رجب
علی نے کچھ سوچنے کے بعد اس جوان انجینیر سے کہا کہ " جاؤ اپنی بہن کو
راضی کرو" اس انجینیر نے کہا کہ میری بہن مجھ سے راضی ہے ۔ شیخ رجب علی نے
کہا کہ نہیں راضی نہیں ہے۔ اس جوان نے کچھ سوچنے کے بعد کہا کہ ہاں ہوسکتاہےاس لئے
کہ میرے والد کا جب انتقال ہوا تو ان کی میراث میں سے میں نے بہن کو اس کا حصہ
نہیں دیا تھا ۔ وہ یہ کہکر چلا گیا اور اپنی بہن کو کچھ رقم دےکر واپس آیا اور شیخ
سے کہنے لگا کہ میں نے اس کی رضامندی حاصل کرلی۔ شیخ نے کچھ دیر خاموشی اختیار
کی پھر اس سےکہا ابھی وہ تم سےراضی نہیں ہوئی ہےکیا تمھاری ہمشیرہ کے
پاس اپنا مکان ہے ؟ جوان نے کہا کہ نہیں کرائے کا ہے۔ شیخ نے کہا کہ جاؤ جو
گھر تم نے تعمیر کئے ہیں ان میں سے ایک بہترین مکان اپنی ہمشیرہ کے حوالے
کردو۔" وہ جوان چلاگیا اور ایک بہترین مکان بہن کے نام کردیا اور اس کاسامان
بھی کرائے کے گھر سے اس کے مکان میں منتقل کردیا اور پھر شیخ رجب علی کے پاس واپس
آکر کہنے لگا جو آپ نے کہا تھا وہ میں نے انجام دے دیا ۔ شیخ نے کہا اب جاؤ سب
ٹھیک ہو جائے گا " جوان گھر لوٹ آیا دوسرے ہی روز اس کی تعمیر کردہ
عمارتیں اچھے داموں میں فروخت ہو گئیں اور اسے اقتصادی مشکلات سے نجات مل گئی ۔
خدا وند کریم سورۂ نساء کی36 ویں آیت
میں فرماتاہے" اور خدا کی عبادت کرو اور کسی کو اس کا شریک قرارنہ دو،اور
والدین کے ساتھ نیک برتاؤ کرو اورقرابت داروں ، یتیموں، مسکینوں، قریب کے ہمسایہ،
پہلو نشین، مسافر غربت زدہ اور غلام وکنیز سب کے ساتھ نیک برتاؤ کرو کہ اللہ
مغرور اور متکبر لوگوں کو پسند نہیں کرتا"
حضرت امام زین العابدین (ع) کی دعا و
مناجات سے اقتباس پیش کررہے ہیں۔
" پروردگارا تجھ سے میری
یہ آرزو ہے کہ میرے دل کو اپنی محبت سے سرشار کردے اور اپنا خوف میرے دل میں ڈال
دے اور اس بات کی توفیق عطا فرما کہ میں تیری تصدیق کروں اور تجھ پر ایمان و یقین
رکھ سکوں۔ پروردگارا میں تجھ سے اس بات کاطالب ہوں کہ مجھے اپنی محبت اور جو
تجھےدوست رکھتےہیں ان کی الفت عطا فرما اور ایسا عمل انجام دینے کی توفیق عطاکر جو
تیری الفت ومحبت کا باعث بن سکے اور میرے دل میں اپنا عشق اتنا بھردے
کہ اپنی جان اور اپنے گھرانے کی جان کی تیرے عشق کے مقابلے میں کوئی حیثت نظر نہ
آے"
جس نے حق کی قربت اور اس کی الفت کی
لذت کو درک اورمحسوس کرلیا ہے اس کے لئے خداوندمتعال سے دوری بلائے عظیم اور
ناقابل برداشت ہے ۔ اسی لئے حضرت امام سجاد (ع) بارگاہ الہی میں عرض کرتےہیں
" پروردگارا جو تجھ سے محبت رکھتاہے اسے کیسے تو اپنے سے دور کرے گا؟ خدایا
میں کہ تجھ سے امید باندھے ہوئے ہوں کس طرح مجھے اپنے لطف وکرم سے محروم کردے گا؟
دل سے نکلے ہوئے یہ فقرے لطف وکرم و
رحمت الہی سے امیدواری کے غماز ہیں اور یہ شمع امید وہ ہے جو ہمیشہ دل مومن میں
روشن ہے۔ حضرت علی (ع) مناجات شعبانیہ میں فرماتے ہیں" پروردگارا اگرچہ تیری
اطاعت و فرماں برداری کے قد سے میرےعمل وکردار کا قد بہت ہی چھوٹاہے لیکن تیری
عطاؤ بخشش کے لئے میری آرزو بہت زیادہ ہے" اسی طرح حضرت امام
سجاد (ع) خدا کی مہر و محبت اور لطف ورحمت الہی سے بہرہ مند ہونے اور خداسے
مناجات کو خوف الہی سے دل کی تسکین کا ذریعہ قرار دیتے ہیں۔ آپ خدا سے راز ونیاز
کرتےہوئے فرماتے ہیں " میرے مالک تیری یاد وذکر سے میرے دل کو شادابی مل گئی
اور تجھ سے مناجات کرکے میرا درد دل کم ہوگیا اور تسکین حاصل ہوگئی"
آئیے ماہ رمضان کے اس بابرکت ایام میں
خداوند کریم کی بارگاہ میں دعاکریں " پروردگارا اپنے اس مبارک مہینے میں دوزخ
کی آگ سے نجات عطافرما، اور اپنی بے انتہا رحمت وبرکت شامل حال فرماخدایا اس عظیم
مہینے میں اپنے خاص بندوں کی دعاؤں کو ہمارے حق میں بھی قرار دے، اور جیسا
کہ تیری کرامت وکرم کا تقاضا ہے ویسی اپنی بخشش ومغفرت مجھے
نواز دے ۔
16
- 8:۔ ہمارے دسترخوان سے جنت کی خوش بو آرہی ہے
ماہ مبارک رمضان کے بارے میں ایک
فارسی زبان شاعر نے کیا خوب کہا ہے ۔
ماہ رمضان است صفاآمدہ است
برخانۂ دل نور وضیا آمدہ است
از سفرۂ ما بوئے بہشت می آید
این سفرہ زدرگاہ خداآمدہ است
"رمضان کے مبارک مہینے کی آمد
آمد سے صفا ؤ پاکیزگی آگئی ہے۔
خانۂ دل نور ایمان سے منور ہوگیا ہے۔
ہمارے دسترخوان سے جنت کی خوش بو آرہی ہے ۔ اس لئے کہ یہ دستر خوان، خداوند
کریم کا عطاکردہ ہے" رمضان کا مبارک مہینہ خداوند مہربان وکریم
سے مناجات اور راز ونیاز کا مہینہ ایک بار پھر آگیا ہے۔ ایسا مہینہ جس میں خدا نے
اپنے تمام بندوں کو نور ومسرت،اور اپنی رحمت ومغفرت کے لامحدود دستر خوان پر آنے
کی دعوت دے رکھی ہے۔ ایسی مہمانی جو معنویت ، اخلاق اور معرفت وکمال سے سرشار ہے
اور اس دستر خوان کے آداب سے آگاہی، مہمان کے لئے لازم ہےاور اس الہی دسترخوان کے
آداب کی رعایت سے مہمانوں کے فیوض وبرکات میں اضا فہ ہوتاہے۔رمضان کے مبارک مہینے
یعنی، باطل اور مادی زنجیروں کی قید سے رہائی، تہذیب نفس اور روح کی پاکیزگی کے
مہینے کی آمد آمد عالم اسلام کو مبارک ہو۔
ایک عارف اپنے عارفانہ خیالات کا
اظہار کچھ یوں کرتاہے " اس پھول کی خوبئ قسمت کا کیا کہنا جو پانی کے راستے
میں ہو کیونکہ ترو تازہ رہتاہے اس کا حسن نکھر جاتاہے اور اس میں دلکشی پیدا
ہوجاتی ہے جس کے باعث لائق دید ہوجاتاہےاور اگر تم اس پھول کے پاس بیٹھ جاؤ تو وہ
تمھیں بھی شاد وشاداب کردے گا اور کتنے بد نصیب ہیں وہ پھول اور سبزے، جو پانی سے
دور اور آفتاب کے نور سے محروم رہ کر مرجھا جاتے اور خشک ہوجاتے ہیں" انسان
بھی پھول کی طرح ہے اور وجود خدا اس کے لئے آب حیات کی حیثیت رکھتاہے۔ خوش قسمت ہے
وہ انسان جو ہدایت الہی کے کی راہ پر گامزن ہو۔ وہ دیدنی اور دلکش ہوجاتاہے
اور اس کے وجود میں شادابی آجاتی ہے۔لیکن وائے ہو ایسے بد قسمت انسان پر جو
خدا سے دور ہو جائے، بالکل اس پھول کی طرح جو پانی سے دور یاآفتاب کی روشنی
سے محروم ہو۔ در حقیقت جو چیز انسان کو خدا کے راستے پر لگاتی ہے وہ طاعت وبندگئ
حق ہے۔اور وہ بھی کسی طرح کی چوں چرا کے بغیر۔
خدا کی بندگی اور اطاعت کرو تاکہ
تمھارے دل میں یقین اور معرفت کا نور پیداہو ۔اس لئے کہ بندگی ہے جو انسان کو متقی
وپرہیزگار بنا دیتی ہے۔تقوی یعنی کنٹرول اور اپنے آپ کو بری باتوں سے روکے رکھنا۔
متقی وہ شخص ہے جو ان امور سے پرہیز کرے جو خدا سے دوری کا باعث بنتے ہوں ۔
تقوی اور پرہیز گاری کے بے شمار فیوض وبرکات ہیں جن میں سب سے پہلی برکت کی چیز،
زندگی میں آسانی کا میسر ہونا ہے۔
17
قرآن مجید کے سورۂ طلاق کی دوسری آیت
میں خدا فرماتاہے۔
"جو شخص تقوی اختیار کرے خدا اس
کے لئے نجات کے راستے کھول دیتاہے" اس سے مراد یہ نہیں ہے کہ سختیاں
دور ہوجائیں گی ایسا نہیں ہے بلکہ سختیوں کا احساس نہیں ہوگا اور ہر قسم کی سختیاں
اور دشواریاں متقی انسان، آسانی سے برداشت کرلے گا۔ جس طرح ماہر گھوڑے سوار
تمام رکاوٹوں کو آسانی سے عبور کرلیتاہے لیکن جو لذّت اسے محسوس ہوتی ہے وہی
جانتاہے۔تقوی کے دیگر اثرا ت میں سے یہ ہے کہ انسان مخمصے اور مشکل میں گرفتار
نہیں ہوگا یا اگر گرفتار ہوا بھی تو اسے راہ نجات بھی مل جائے گی قرآن سورۂ طلاق
کی دوسری آیت میں فرماتاہے " جو شخص تقوائے الہی اختیار کرتاہے خدا اس کے لئے
راہ نجات کھول دیتاہے" بنا بریں اگر کوئی کسی مشکل اور مخمصہ میں گرفتار ہوجائے
اور اسے نجات کا کوئی راستہ نظر نہ آئے تو یہ یقین کرلینا چاہیے کہ اس کی
پرہیز گاری اور تقوی میں کوئی خامی اور کمزوری ہے۔
بڑا ہی مشہور واقعہ ہے کہ ایک نوجوان
طالب علم جس کا نام محمد باقر تھا دینی علوم کے ایک مرکز میں رات کے وقت
کتاب کے مطالعے میں مشغول تھا کہ ناگاہ ایک حسین لڑکی خوف وہراس سے لرزتی ہوئ کمرے
میں داخل ہوگئی۔ اس کی شان وشوکت سے ظاہر تھا کہ وہ کوئی شہزادی ہے۔ اس نے کمرے
میں داخل ہونے کے بعد دروازہ بند کردیا اور اس نوجوان کو چپ چاپ رہنے کا
اشارہ کیا۔ پھر اس لڑ کی نے محمد باقر سے پوچھا، کھانے کے لئے تمھارے پاس کچھ ہے؟
نوجوان طالب علم نے جو کچھ موجود تھا اس کے سامنے پیش کردیا۔ اس لڑکی نے کسی طرح
اس میں سے کچھ کھایااور پھر اسی کمرے میں ایک گوشے میں سوگئی اور محمد باقر اپنی
کتاب کے مطالعے میں مشغول رہے۔ دوسری جانب یہ ہوا کہ چونکہ وہ مفرور لڑکی ایسی
ویسی نہیں تھی بلکہ حقیقت میں شہزادی تھی اس لئے بادشاہ کے سپاہی اس کو تلاش
کررہے تھے۔ جب صبح کو وہ شہزادی، جوان طالب علم محمد باقر کے کمرے سے باہر نکلی تو
شاہی گماشتوں نے اس کواور محمد باقردونوں کو گرفتار کرلیا اور بادشاہ کے پاس لے
گئے۔ شاہ عباس صفوی نے محمد باقر سے غصّے کا اظہار کرتے ہوئے پوچھا" تم نے
رات ہی میں کیوں نہ اس بات کی خبر دی کہ میری بیٹی تمھارے یہاں ہے؟محمد باقر نے بے
خوف وہراس جواب دیا کہ شہزادی نے مجھے دھمکی دی تھی کہ اگر کسی کو میرے یہاں آنے
کی اطلاع دوگے تو جلادوں کے سپرد کردیےجاؤ گے"شاہ عباس صفوی نے تحقیقات
کروائیں اور اسے یہ معلوم ہوگیا کہ نوجوان محمد باقر ساری رات مطالعے میں
مشغول رہا اور حتی شہزادی کی سمت نظریں اٹھاکر دیکھا بھی نہیں۔ شاہ عباس صفوی
کوبڑا تعجب ہوا اور اس نے محمد باقر کو تحسین آمیز نظروں دیکھتے ہوئے پوچھا"
تم نے کس طرح اس جوانی میں اپنے نفس پر کنٹرول کیا؟ محمد باقر
نے اپنے ہاتھوں کی دس انگلیاں باشاہ کو دکھائیں جو جل کر سیاہ ہوگئی تھیں۔
شاہ عباس نے پوچھا یہ کیاہوا؟ جوان طالب علم محمد باقر نے کہا کہ جب شہزادی میرے
کمرے میں محو خواب تھی تو میرا نفس امّارہ مجھے گناہ کرنے پر مجبور کرنا چاہتاتھا
جب بھی یہ وسوسہ میرے ذہن میں جاگتا میں اپنی ایک انگلی جلتی ہوئی شمع کی لو پر
رکھ دیتا تھا اور دوزخ کی آگ کا تصور کرنے لگتا تھا۔اسی طرح رات بھر یہی عمل انجام
دیتارہا اور اپنے مطالعے میں بھی مشغول رہااور خدا کے فضل اور اس کے لطف وکرم سے
شیطان میرے نفس پر غالب نہیں آسکا"
شاہ عباس صفوی نے جب محمد باقر کی
زبانی ان کی یہ داستان سنی تو بہت خوش ہوا اور اپنی اسی بیٹی سے محمد باقر کی شادی
کردی اور اسی وقت سے ان کو "میر داماد" کا لقب مل گیا۔میر باقر داماد
اپنے وقت اور اپنے دور کےممتاز دانشوروں میں شمار ہوتے تھے اور آج بھی انھیں عزت
واحترام سے یاد کیا جاتاہے۔
رمضان کا مہینہ اسلام میں مبارک ترین
مہینہ ہے جسے "ماہ ضیافت الہی" کہا گیا ہے۔ یہ مہینہ روزے اور تلاوت
قرآن کریم کا مہینہ ہے۔رمضان کا مہینہ خدا سے رازو نیاز اور دعا کی قبولیت کے لئے
بہترین موقع ہے۔ دعا، یاد خدا سے دل کو سرشار رکھتی ہے اور ایمان کے مستحکم اور
مضبوط ہونے کا سبب بنتی ہے۔ فرزند رسول حضرت امام زین العابدین (ع) کی
دلنشین بہترین مناجاتیںموجود ہیں۔ حضرت امام سجاد (ع) کے صحابی طاؤوس یمانی
کہتے ہیں کہ " میں نے حضرت سجاد (ع) کو حرم امن الہی میں رات بھر طواف و
عبادت و دعا ؤ مناجات میں مشغول دیکھا ہے، آپ بارگاہ الہی میں یہ مناجات کررہے
تھے" پروردگارا آسمان کے ستارے ڈوب گئے، آنکھیں محو خواب ہوگئیں، تیری
بارگاہ، اپنے سائلوں کے لئے آمادہ ہے ۔ میرے مالک میرے جیسا طالب مغفرت ورحمت سائل،
تیری بارگاہ میں حاضر ہے اور تیرے کرم سے اس بات کا امید وار ہے کہ روز
قیامت اپنے حبیب رسول اکرم ۖ کی زیارت سے مجھے محروم نہ رکھے گا"
یہ کہتے کہتے حضرت امام سجاد (ع) کی آنکھوں سے آنسو جاری ہوگئے اور پھر امام نے یوں
اپنی مناجات جاری
18
رکھی "پروردگارا،تو ہر عیب اورہر
برائی سے منزہ اور پاک ہے۔ میرے مالک لوگ اس طرح معصیت اور گناہ کرنے پر تلے ہوئے
ہیں گویا وہ تیری نظروں سے دور ہیں اور توہے کہ اس طرح ان کے گناہوں سے چشم پوشی
کررہاہے کہ گویا انھوں نے کسی گناہ کا ارتکاب ہی نہیں کیا ہے اور اس طرح ان کی ناز
برداری کرتاہے کہ گویا تجھے ان کی ضرورت ہے جبکہ تیری ہستی مستغنی اور ہر ایک سے بے
نیازہے" طاؤوس یمانی کہتے ہیں کہ اس مناجات کے بعدحضرت امام زین العابدین (ع)
سجدے میں چلے گئے۔
حضرت امام سجاد (ع) ماہ رمضان المبارک
کے آغاز میں پیکر شوق واشتیاق بن کر حمد وثنائے الہی کرتے تھے کہ اس نے ایک بار
پھر یہ مبارک اور محترم مہینہ اپنے بندوں کے نصیب میں قرار دیاہے۔" آپ فرماتے
ہیں " تمام حمد وثنا اس معبود کے لئے ہے جس نے اپنا دین ہمیں عنایت فرمایااور
ہمیں اپنے احکام سے مختص فرمایا اور اپنے احسان کے راستے اپنے بندوں کے لئے کھول
دیے تاکہ وہ اپنے رب کے لطف وکرم و فضل وعنایت اور اس کی رضا کی جانب قدم بڑھائیں
اور حمد وثنا اس معبود کی جس نے اپنے لطف وکرم اور فضل وعنایت و رضا اور احسان کی
راہوں میں اپنے مہینے یعنی ماہ رمضا ن کو قرار دیا۔ ماہ رمضان ، ماہ روزہ ، ماہ
اسلام ، ماہ پاکیزگی، ماہ امتحان اور بندوں کے خلوص کی آزمائش اور قیام کا مہینہ
ہے۔ یہ وہ مہینہ ہے جس میں انسانوں کی رہنمائی، ہدایت اور حق وباطل میں فرق ظاہر
کرنے کے لئے خدا نے قرآن مجید نازل فرمایااور اس مہینے کو سال کے تمام دیگر مہینوں
پر فضیلت بخشی اور جن امور کی انجام دہی دیگر اوقات میں حلال تھی روزے میں انھیں
حرام قرار دیا اور اس کے احترام کے لئے کھانے پینے سے اس کے مقررکردہ وقت میں منع
فرمایا۔
رمضان کے اس رحمت و برکت کے
مہینے میں کہ جس میں رسول اکرمۖ کے فرمان کے مطابق خدا وندکریم اپنے بندوں
پر آسمان کے دروازے کھول دیتاہے اور دوزح کے شعلے خاموش کردیے جاتے ہیں، نور تقوی سے
اپنے دلوں کو منور کریں اور غیر خدا سے دوری اختیارکر کے پرہیزگار بن جائیں اور
اپنے مولا سید الساجدین حضرت امام زین العابدین (ع) کی اس دعاکو اپنی
زبانوں پر جاری کریں " پروردگارا نور تقوی سے میرے دل کو منور فرمادے"
آمین۔
19
9:۔ انسان نعمت اور اپنے منعم کا شکرگزار
بنے
رمضان کے مبارک مہینے اور ان بابرکت
ایام کے عرفانی لمحات میں ہمارے لئے یہ موقع زیادہ سے زیادہ فراہم ہے کہ خداوند
کریم اور اس کے بندوں کے جو حقوق ہماری گردن پر ہیں ان کے بارے میں فکر کریں۔ دین
اسلام کی ایک اہم خوبی یہ ہے کہ وہ حق شناسی اور قدر دانی کی بنیاد پر استوار ہے۔
اگر کسی نے آپ کا کوئی مسئلہ حل کردیا تو اسے فراموش نہ کیجئے اور اس کےاحسان کی
احسان سے تلافی کی کوشش کیجئے۔
کبھی ایسا ہوتاہے کہ انسان کسی کے
احسان اور نیکی کی تلافی نہیں کر سکتا، اپنی عدم توانائی کے سبب یا اس کا
احسان اتنا زیادہ اور اتنااہم ہے کہ قابل تلافی نہیں ہے۔ ایسے میں کم سے کم زبان
سے ہی اپنے محسن کا شکریہ ہی ادا کر دیا جائے ورنہ کفران نعمت شمار ہوگا اور انسان
اس بات کا مستحق قرار پائےگا کہ اس سے نعمتیں سلب کرلی جائیں۔ شکر گزاری
اولیں جلوۂ عقل و مظہر خرد ہے اس لئے عقل انسان کو یہ ہدایت کرتی ہے کہ نعمت اور
اپنے منعم کا شکرگزار بنے۔ انسان اپنی فطرت اور عقل سلیم کی راہ پر گامزن ہے
یانہیں، یہ راز انسان کی شکر گزاری نعمت یا کفران نعمت اور عدم تشکرمیں پنہاں ہے۔
جو انسان ہدایت کے راستے پر ثابت قدم ہے وہ شکر گزار ہے اور شکر گزار نہ ہونا ، انسان
کی گمراہی اور عقل وفطرت سے انحراف کی سب سے بڑی دلیل ہے۔ جن لوگوں نے ہمارے ساتھ
حسن سلوک روا رکھا ہے ان کی تعداد کم نہیں ہے۔ ماں باپ، اساتذہ ، پڑوسی وغیرہ بھی
ان میں شامل ہیں اور ہم ان کے نیک برتاؤ اور حسن سلوک کے مرہون منّت ہیں ۔بہت سے
عوامل اور اسباب کی فراہمی، ہماری آسائش اور علم وہنر سے ہمارے بہرہ مند ہونے کا
باعث بنتی ہے لیکن ہم اپنی عدم توانائی کے باعث سب کی تلافی کرنے سے قاصر ہیں۔
بنابریں کم سے کم ہم یہ تو کر سکتے ہیں کہ ان کی قدر دانی اور ان کا شکریہ ہی
اداکردیں۔ اب اگر ان لوگوں کا شکریہ اور قدر دانی ہمارے لئے لازم ہے،تو وہ خدا جس
نے ہماری خلقت کے آغاز سے حیات کے آخری لمحے تک اپنی بے شمار نعمتوں سے
ہمارے وجود کو سرشار کررکھاہے، اس کی شکرگزاری کس انداز کی جانی چاہیے؟ قرآن
کریم کے سورۂ ابراہیم کی ساتویں آیت میں ارشاد الہی ہوتاہے " اگر تم شکر گزار
بنوگے تو ہم اپنی نعمتوں میں مزید اضافہ کردیں گے، اور اگر کفران نعمت کرو
گے تو یہ بھی جان لو کہ میرا عذاب یقینا بہت سخت ہے" معلوم ہوا کہ ذات احدیت
نے ہمیں اپنی عطاکردہ بے شمار نعمتوں کے عوض صرف شکر گزاری کی خواہاں ہے وہ بھی
ہمارے نفع میں ہے اس کا ثواب اور اس کا فائدہ بھی ہمیں ہی ملے گا ۔ شکر نعمت، زبان
سے ادا کرنے کے علاوہ یہ بھی ہے کہ اس نعمت سے اپنی ترقی وکمال اور خدا کی خوشنودی
کے لئے استفادہ کیا جائے ۔
خدا وند کریم نے اپنے بندوں کو جو ایک
عظیم اور بے مثال لائق شگر نعمت سے نوازا ہے، ماہ رمضان المبارک میں مہمانی کی
دعوت ہے لہذا خدا سے دعا ہے کہ ہمیں اس باعظمت مہینے کی قدر سمجھنے اور نیک اعمال
کی انجام دہی اور شکرگزاری کی توفیق عطا فرمائے۔
مشہور مثل ہے کہ کپڑے خریدتے وقت اس
کو مسل کر دیکھو اگر شکن نہ پڑے تو اچھاہے۔ اسی طرح انسان بھی ہے اگر دباؤ مشکلات
کے سبب اس کی رفتار وگفتار میں تبدیلی آجائے اور ماتھے پر شکن پڑ جائے تو اچھا
نہیں ہے ایسے افراد اپنی زندگی کے مختلف مراحل میں ہمیشہ خدا سے شاکی رہتے ہیں۔ وہ
خدا کی عطاکردہ نعمتوں سے غافل اور اس کی جانب سے اپنی آنکھیں بند کئے ہوئے
ہیں۔انسان سختیوں اور مشکلات کا تحمل کرنے سے مضبوط اور استقامت کا حامل بن جاتاہے
اور ایسے حالات سے درس حاصل کرتاہے اور شکست کھانے سے شکست دینا سیکھتاہے۔
رسول اکرم ۖ اور آپ کے اہلبیت
اطہار نے جو کائنات میں سب سے افضل وبرتر تھے ہمیشہ سختیوں اور مشکلات میں
زندگی بسر کی۔ رسول اکرمۖ فرماتے ہیں " کسی نبی کو اتنی اذیتیں
نہیں دی گئیں جتنی مجھے دی گئیں" اس کے باوجود آپ کی شخصیت میں کبھی کوئی تبدیلی
نہیں آئی اور کبھی بارگاہ الہی میں آپ نے شکوہ شکایت نہیں کی بلکہ پروردگار سے ہمیشہ
اپنا رشتہ اور رابطہ مزید مستحکم رکھا ۔ آپ کا اخلاق ، قرآنی تعلیمات کا آئینہ دار
تھا اور آپ قرآنی زندگی بسر کرتے تھے ۔
20
ایک روز حضرت عیسی (ع) نے اپنی مناجات
میں خدا سے عرض کی " پروردگارا اپنے دوستوں میں سے کسی سے مجھے روشناس
فرمادے ۔ وحی الہی ہوئی فلاں مقام پر جاؤ وہاں تمھاری یہ مراد و خواہش پوری ہوجائے
گی۔حضرت عیسی (ع) خدا کے ہدایت کردہ مقام پر پہنچے وہاں ایک نابینا عورت نظر آئی
جس کے ہاتھ پاؤں مفلوج تھے ۔ وہ زمین پر پڑی ہوئی تھی اور اس کی زبان پر یہ فقرہ
تھا " خدایا تیری آشکارا اورپنہاں نعمتوں پرتیری شکر گزار ہوں" حضرت
عیسی(ع) کو اس پر بڑا تعجب ہوا آگے بڑھے اسے سلام کیا اس خاتون نے بھی جواب
میں کہا اے روح اللہ آپ پر بھی میرا سلام ۔ حضرت عیسی(ع)
نےفرمایا اے خاتون تم نے مجھے کبھی نہیں دیکھا، کس طرح تم سمجھیں کہ میں عیسی ہوں؟
اس عورت نے کہا کہ اس دوست نے جس نے آپ کو میرے پاس بھیجا ہے اسی نے مجھے بھی آپ
کے بارے میں سب کچ بتا دیاہے ۔حضرت عیسی (ع) نے اس عورت سے فرمایا کہ اے خاتون تم
آنکھوں اور ہاتھ پاؤں سے محروم ہو تمہارا سارا جسم مفلوج ہے۔ یہ سن کر اس خاتون نے
کہا کہ اس خدا کا لاکھ لاکھ شکر کہ اس نے مجھے اپنی یاد و ذکر کا حامل دل اور شکر
گزار زبان اور صابر جسم عطا فرمایا ہے۔ میں اپنے معبود حقیقی کی شکر گزار ہوں کہ
اس نے وہ چیزیں سلب کرلیں جو اس کی معصیت کا وسیلہ بن سکتی تھیں۔ اگر میری آنکھیں
،ہاتھ پاؤں سب موجود ہوتے اور میں ناجائز لذتوں کے حصول میں کوشاں رہتی تو میرا
انجام کیا ہوتا؟ اسی لئےمیں اس حالت میں بھی خدا کی شکرگزار ہوں۔
ایک روز حضرت موسی (ع) پر وحی الہی
ہوئ " اے موسی میرے شایان شان میرا شکر اداکرو" حضرت موسی (ع) نے بارگاہ
الہی میں عرض کی میرے مالک یہ کس طرح ممکن ہے جب کہ مجھے معلوم ہے کہ تونے ہی شکر
کی توفیق اور صلاحیت عطاکی ہے اور تیرے ہر شکر کی ادائگی پر ایک اور شکر واجب ہے
اس لئے کہ تیری جانب سے شکر گزاری کی توفیق بھی ایک نعمت ہے اور یہ نعمت تونے مجھے
عطاکی ہے " ندا ئے الہی آئی موسی، تم نے یہ درک کرلیا کہ حتی شکر گزاری کی
توفیق بھی میری جانب سے عطاکرہ ایک نعمت ہے، یہی تمھاری جانب سے میرے شایان شان حق
شکرکی ادائگی ہے"
گویندہ اول سامعین حضرت امام
سجاد (ع) کی معروف پندرہ مناجاتوں میں سےایک مناجات شاکرین بھی ہے یعنی "شکر
گزاروں کی مناجات" حضرت امام سجاد (ع) بارگاہ الہی میں عرض کرتے ہیں"
پروردگارا یکے بعد دیگرے تیری عطاؤ بخشش نے مجھے تیری شکرگزاری کے فریضے کی
ادائگی سے بھی غافل کردیاہے اور تیرے مسلسل فضل وکرم نے تیری حمد وثنا کے شمار سے
قاصر وناتواں بنا رکھا ہے، تیری جانب سے نعمتوں کی فراوانی نے تیری صفات حمیدہ کے
ذکر سے روک رکھاہے اور تیری عنایات کے تسلسل نے تیری خوبیوں کے بیان و اظہار کی
توفیق سلب کرلی ہے ، اور یہ حالت اس بندے کی ہے جو تیری بے شمار نعمتوں کی
زیادتی اور فروانی کا معترف ہے"
سامعین خداوند کریم کی
نعمتوں کی شناخت اور شکرگزاری میں رکاوٹ کا اہم اور بنیادی
عامل، نعمات الہی کا بےشمار ہونا اور نعمتوں کی مسلسل بارش ہے۔خداوند کریم سورۂ
ابراہیم کی چونتیس ویں آیت میں ارشاد فرماتاہے " خداسے جوکچھ تم نے طلب کیا
خدا نے تمھیں عطاکیا اور اگر تم نعمت الہی کو شمار کرنا چاہو تو شمار نہیں کرسکتے
" فرزند رسول حضرت امام سجاد (ع) نے الہی نعمتوں کی مسلسل اور مستقل بارش کی
قدردانی میں اپنی کوتاہی کا اعتراف کرتے ہوئے ہمیں یہ درس دیا ہےکہ کس طرح بارگاہ
احدیت میں شکر گزاری نہ کرسکنے کا اعتراف کیا جائے اس لئے کہ یہ اعتراف خود شکر
نعمت شمار ہوتاہے ۔رسول خدا ۖ بارگاہ الہی میں عرض کرتے ہیں "
پروردگارا تونے مجھے بےشمار نعمتیں عطاکی ہیں اور ان نعمتوں کی بخشش پر میں تیرا
شکر اداکرتاہوں لیکن اس شکرگزاری کی نعمت پر کس طرح تیرا شکر ادا کروں؟ خدا
نے جواب میں فرمایا کہ میرے حبیب شکر گزاری کی معرفت کے ساتھ شکر کی ادائگی میں سب
کچھ موجود ہے اور تمھارا یہ باور کرنا کہ شکر گزاری خود ہی میری جانب سے عطا
کی ہوئی ایک نعمت ہے ، یہی تمھارے لئے کافی ہے۔حضرت امام سجّاد (ع) اپنی مناجات
شاکرین میں فرماتے ہیں" خدایا تیری نعمتیں اتنی زیادہ ہیں کہ میری زبان انھیں
شمار کرنے سے قاصر اورمیری عقل ان نعمتوں کے ادراک سے معذور ہے۔ میں تیری
نعمتوں کا شکر کیسے ادا کرسکتاہوں جب کہ تیرا شکرادا کرنے کا بھی ایک شکر اور
اداکرنا ضروری ہے اس لئے مجھ پر واجب ہے کہ تیرے ہر شکر پر ایک شکر اور ادا
کروں"
21
10:۔ رمضان المبارک خوش خبری کامہینہ ہے
رمضان کا مبارک مہینہ،
مومنوں کے صبرواستقامت نیز پاکیزہ اور نیک سیرت انسانوں کی بشارت و خوش خبری
کامہینہ ہے۔ خوش نصیب ہیں وہ لوگ جو اس مہینے میں روزہ رکھتے اور اور چشمۂ رحمت
الہی سے فیضیاب ہوتےہیں جیسا کہ حضرت علی (ع) فرماتے ہیں"خدانے روزہ اس لئے
واجب کیا ہے تاکہ اس کی بدولت بندوں کے خلوص و اخلاص کا امتحان لے۔
تاریخ انسانیت میں
کامیاب ترین گروہ، انبیاء اور اولیائے الہی کا ہے اور ان کی کامیابی کا راز، راہ
خدا میں اخلاص عمل ہے اور یہی امر ان کی بقا کا بھی باعث بنا ہے ۔
"اخلاص" یعنی پروردگار ہی اپنے مخلص بندے کے ایمان کی شہادت کے لئے کافی
ہے کسی دوسرے کی گواہی کی کوئی ضرورت نہ ہے۔ سورۂ نساء کی آیت اناسی میں ارشاد
الہی ہے" شہادت الہی کافی ہے"
ایک صاحب عرفان کا کہنا
ہے کہ گاڑی جب خالی ہو اور نشیبی راستہ ہو تو کسی طرح کے شور شرابے کے بغیر تیزی
سے چلتی جاتی ہے اسی طرح انسان میں اگر جذبۂ خلوص و اخلاص ہو تو وہ کسی قسم
کےشورشرابےکےبغیراپنےاموربخوبی انجام دیتاہے حضرت علی (ع) فرماتے ہیں" دنیا ؤ
آخرت کی گرفتاریوں سےانسان کی رہائی و نجات کا وسیلہ، اخلاص عمل ہے" اگر ہم
نجات ورہائی کے خواہاں ہیں تو ہمیں اپنے اندر جوہر اخلاص پیدا کرنا چاہیے۔ اگر
کوئی بڑا کام انجام دیا ہے تو اخلاص کےحامل انسان کو اس کی فکر نہیں ہوتی کوئی اس
کے کام سے باخبر ہوا یا نہیں اور یہ جذبۂ اخلاص اسے حسد اور تنگ نظری کا شکار نہیں
ہونے دیتا۔ ممکن ہے کوئی یہ کہے کہ جو کوئی نیک کام انجام دے اور کوئی نہ
دیکھے تو اس کا فائدہ کیا ہوگا؟ لیکن ہمیں یہ سوچنا چاہیے کہ ہمارے عمل کا نتیجہ
خدا کے ہاتھ میں ہے اور خدا اپنے قانون عدل کی بنیاد پر سب کچھ کرتاہے خدا کا
قانون یہ ہے کہ اگر بندہ دکھاوے کے لئے کوئی عمل انجام دیتاہے تو وہ اس عمل کو
پنہا ں رکھتاہے اور اگروہ کار خیرمخفیانہ انجام دیتاہے تو خدا اس عمل کو
آشکارکردیتاہے۔
داستان حضرت موسی(ع) میں
یہ واقعہ ملتاہے کہ ایک روز آپ نے بارگاہ الہی میں عرض کی " پروردگارا میں
تیری اس مخلوق کے دیدار کا مشتاق ہوں جو تیرے ذکر اور تیری طاعت وعبادت میں
نہایت مخلص ہو" آواز قدرت آئی موسی تم فلاں دریا کے ساحل پر جاؤ تو ہم
تمھاری دلی آرزو پوری کردیں گے" حضرت موسی(ع) دریا کے قریب پہنچے تو ایک درخت
نظر آیا اس درخت کی ایک شاخ دریا کی سمت جھکی ہوئی تھی اور اس شاخ پرایک پرندہ
بیٹھا ہوا حمد وثنائے الہی میں مشغول تھا۔ حضرت موسی (ع) نے نبی خدا ہونے کی حیثیت
سے اس سے اس کی زبان میں اس کا حال واحوال دریافت کیا ۔ پرندے نے کہا " خدا
نے جب سے مجھے زیور خلقت سے آراستہ فرمایا ہے میں اس درخت پر حمد پروردگار میں
مشغول ہوں اور میری غذا یہی لذت ذکر الہی ہے حضرت موسی (ع) نے پھر اس سے
پوچھا " کیا تیرے دل میں دنیوی کوئی آرزو ہے ؟ اس نے جواب دیا " کیوں
نہیں میرے دل میں بس ایک آرزو ہے کہ اس دریا سے ایک قطرہ پانی پی لوں" حضرت
موسی(ع) نے تعجب سے فرمایا کہ تیرے لئے کیا مشکل ہے تیرا آشیانہ لب دریا ہے کیوں
نہیں جاکے پانی پی کر اپنی آرزو پوری کرلیتا؟ اس پرندے نے جواب دیا " اے اللہ
کے نبی میں اس بات سے ڈرتاہوں کہ کہیں ایسا نہ ہو پانی کا ذائقہ مجھے ذکر الہی کی
لذت کے حصول میں رکاوٹ بن جائے" حضرت موسی(ع) اس پرندے کے اخلاص عمل سے بہت
ہی متاثرہوئے۔
اسی طرح تاریخی واقعات
میں ملتاہے کہ بنی اسرائیل میں ایک بہت ہی عبادت گزار شخص تھا اس سے لوگوں نے
کہاکہ فلاں مقام پر ایک درخت ہے جسے کچھ لوگ خدا سمجھ کر پرستش کرتے ہیں یہ سن کر
مرد عابد کو بہت غصہ آیا اس نے کلہاڑی اٹھائی اور اس پیڑ کو کاٹ کر نابود کرنے کے
ارادے سے گھر سے باہر نکل گیا۔ راستے میں ایک بوڑھے آدمی کی شکل میں شیطان ملا اور
مرد عابد سے کہنے لگا آپ کہاں جارہے ہیں؟ عابد نے کہا کہ وہ درخت کاٹنے جارہے ہیں
جس کی کچھ لوگ خدا سمجھ کر پرستش کررہے ہیں۔ درخت کاٹ دینے سے یہ سلسلہ بند ہوجائے
گا ۔ شیطان نے اس عابد سے کہا کہ یہ کام مت کرو ، خدا کے پاس پیغمبر ہیں اگر اس کے
لئے اس درخت کو نابود کرنا لازم ہوتا تو وہ اپنے پیغمبروں کو بھیج کر اس درخت کو
کٹوادیتا عابد نے اس کی بات نہیں مانی اور درخت کاٹنے پر مصر رہا شیطان نے
جب یہ دیکھا کہ عابد اس کے فریب میں نہیں آرہاہے تو اس نے غصّہ میں میں
22
آکر
عابد سے ہم تمھیں وہ درخت نہیں کاٹنے دیں گے اور یہ کہکر اس کی کلہاڑی چھیننے لگا
دونوں میں زور آمائی ہونے لگی سرانجام عابد نے اسے زمین پر دے مارا۔ شیطان دوسرا
حربہ استعمال کیا اس مرد عابد سے کہا ہمیں چھوڑ دو تو ہم تمھارے فائدے ایک
بات کہیں اس عابد نے کہا نہیں پہلے تم بتاؤ ہمارے نفع میں کیا کہنا چاہتےہو؟ شیطان
کہا کہ تم درخت نہ کاٹو اس کے بدلے میں تمھیں روز صبح سویرے تکیے کے نیچے سے
دودینار ملیں گے تمھارا کام چلے گا۔ عابد نے سوچنے لگا اچھا تو ہے بیٹھے بٹھائے
روز محنت کے بغیردو دینار مل جائیں گۓ ایک دینا خیرات کردیں
گے اور ایک دینار اپنے کام میں خرچ کریں گے۔ عابد شیطان کو چھوڑ دیا دوروز اس عابد
کو تکیے کے نیچے سے دودینار ملے لیکن تیسرے روز کچھ نہ ملا اس عابد نے پھر غصّے سے
کلہاڑی اٹھائی اور وہی درخت کاٹنے کے لئے گھر سے باہر نکل گیا ۔ راستے میں پھر وہی
شیطان ملا اور اس عابد سے کہنے اب تو درخت کو نہیں کاٹ سکتے اور یہ کر اس
عابد سے لڑنے لگا عابد اول اس دن کے برعکس تھوڑی دیر میں عابد کو اس نے زمین پر دے
مارا ۔ عابد نے اس سے کہا کہ اس بار مینے تمھیں آسانی سے زیر کردیاتھا لیکن
آج کیسے تم نے بڑی آسانی سے مجھ پر غلبہ پالیا؟ شیطان نے جواب میں کہا کہ پہلی بار
تم نے خدا کے لئے اخلاص کے ساتھ درخت کاٹنے کاعزم کیا تھا اس لئے تم نے مجھپر غلبہ
حاصل کرلیاتھا اور اس بار تم پیسے کی حرص ولالچ میں غصّے میں آگئے تھے اس
لئے میں تم پر غالب ہوگیا۔ سامعین ہمیں چاہیے کہ اخلاص اور خداپر توکل کے ذریعے
اپنے نفس غلبہ حاصل کریں۔
پروگرام کے اس حصہ میں
حضرت امام سجاد (ع) کی مناجات پیروان خدا ، میںموجود بعض اہم نکات کی جانب
توجہ فرمائیے۔ حضرت امام سجاد (ع) اس مناجات میں فرماتے ہیں " پروردگارا مجھے
اپنے منتخب بندوں اور صالحیں میں شامل کر جو تیرے تقرب کے اعلی مدارج طے
کرنے میں سبقت حاصل کرتے ہیں اور اعمال خیر کی انجام دہی میں پیش پیش رہتے
ہیں۔شائستہ اور باقی رہنے والے امور انجام دیتے ہیں اور بہشت میں
اعلی مقام حاصل کرنے میں
کوشاں ہیں۔ میرے ملک تو ہر چیز پر قادر ہے اور تو ہی اپنے بندوں کی دعا کو شرف
قبولیت عطاکرنے کے لائق ہے میری دعائیں قبول فرما تجھے تیری رحمت کا واسطہ اے ارحم
الراحمین" حضرت امام سجاد (ع) نے اپنی اس مناجات میں باقیات الصالحات کا لفظ
استعمال کیاہے۔ حقیقت یہ ہے کہ "باقیات صالحات" اہم مسائل میں سے ہے اور
قرآن نے اس مسئلے پر تاکید کی ہےچنانچہ سورۂ کہف کی چھیالیس ویں آیت میں ارشاد
الہی ہے
" مال اور اولاد
زندگانی دنیا کی زینت ہیں اور باقی رہ جانے والی نیکیاںپروردگار کے نزدیک ثواب اور
امید دونوں کے اعتبار سے بہتر ہیں " یعنی باقیات صالحات وہ اعمال صالحہ ہیں
جنھیں انسان نے دنیا میں انجام دیا ہے ، اور وہ پیش خدا محفوظ ہیں اور پروردگار کی
جانب سے انسان کے لئے عظیم اجرو ثواب کا باعث ہیں اور چونکہ یہ اعمال اخلاص کے
ساتھ خدا کی راہ میں انجام پائے ہیں اس لئے انھیں بقا حاصل ہوگئی ہے اور یہ اعمال
دنیوی لذت پسندی اور فانی مادی ونفسانی خواہشات کے مقابلے میں خاص
منزلت و عظمت کے حامل ہیں۔
حضرت امام سجاد (ع) نے
اپنی اس "مناجات پیروان خدا" کے آخر میں یا ارحم الراحمین یعنی
(اے مہربانوں میں مہربان ترین ذات) کے نام سے پکارا ہے۔ روایت میں ہے رسول
اکرم ۖ
نے دیکھا کہ ایک شخص مسلسل خدا کو" یا ارحم الراحمین" کے نام سے پکارے
جارہا ہے آپ نے اس سے کہا کہ بس کرو اب اپنی حاجت بارگاہ الہی میں پیش کرو۔ پھر آپ
نے اس شخص سے کہا کہ تم یہی تو چہتے تھے کہ پروردگار تمھاری جانب متوجہ ہو جائے تو
اب اس کی نظر عنایت تمھاری جانب ہے اب سے اس سے اپنی حجات طلب کرو۔
ایک اور روایت میں ہے کہ رسول اکرمۖ نے فرمایا خدانے ایک فرشتے
کو مقرر کررکھاہے جب کوئی تین مرتبہ اس کو یاارحم الراحمین کے نام سے پکارتاہے
تو وہ فرشتہ اس پکارنے والے سے کہتاہےکہ ارحم الراحمین تیری جانب متوجہ ہے اب تو اپنی
حاجت اس سے طلب کر۔
23
11:۔ رحمت خدا سے مایوس نہ ہونا
خداوندعالم نے اپنے پیغمبر حضرت موسی
(ع) کو خطاب کرتے ہوئے فرمایا " اے موسی جو ہمیں دوست رکھتا ہے وہ ہمیں
بھولتا نہيں ہے اور جو کوئی میرے احسان سے امیدیں لگائے بیٹھتا ہے وہ مجھ سے التجا
کرتا ہے ۔ اے موسی میں ہرگز اپنے بندوں سے غافل نہيں ہوں لیکن میں چاہتا ہوں کہ
میرے فرشتے میرے بندوں کی دعاؤں اور مناجاتوں کو سنیں
روزہ کی حالت میں عشق وامید کے ساتھ
رحمت و لطف الہی کا زمزمہ کرتے ہیں ۔" قل یا عبادی الذین اسرفوا علی انفسھم
لا تقنطوا من رحمۃ اللہ ان اللہ یغفرالذنوب جمیعا انہ ھوا لغفور الرحیم "
پیغمبر آپ پیغام پہنچا دیجئے کہ اے میرے بندو جنہوں نے اپنے نفس پر زیادتی کی ہے
رحمت خدا سے مایوس نہ ہونا اللہ تمام گناہوں کو معاف کرنے والا ہے اور وہ یقینا
بہت بخشنے والا اور مہربان ہے ( سورۂ زمر آیۃ 53 )
گویندہ : روزہ اسی طرح نفسانی خواہشات
کے سامنے مضبوط سپر ہے ۔ انسان روزہ رکھنے کے ساتھ ساتھ، اپنے نفس کو بری خواہشات
اور رجحانات سے دور رکھتا ہے اور اپنے باطن سے تمام برائیوں اور خباثتوں کو دور
کرتا اور اچھائیوں اور نیکیوں سے خود کو آراستہ کرتا ہے ۔ امید ہے کہ ماہ رمضان کے
جو ایام ابھی باقی ہیں ان میں اپنی پاکیزہ فکر و عمل کے ذریعے ہم خود کو
مزید سنواریں گے ۔
جو لوگ عنیک لگاتے ہیں وہ ہمیشہ اپنی
عینک صاف کرتے رہتے ہیں تاکہ صاف دکھائی دے ۔عینک کا شیشہ اگر سفید نہ ہوتو ہر چیز
ہر چیز تاریک سی دکھائی دیتی ہے ۔ عینک کی صفائی بھی ملائمت اور نرم و لطیف رومال
یا ٹشو پیپر سے ہونی چاہئے آپ کسی کو نہيں دیکھیں گے جو اپنی عینک کا شیشہ کسی
کھردرے اور سخت کپڑے یا کسی اورچیز سے کرے ۔ ہم یہ کہ سکتے ہيں کہ ایک طرح
سے سبھی انسان، اپنی آنکھوں پر عینک لگائے ہوئے ہیں اور وہ عینک ہمارا ذہن ہے یعنی
ہم اپنی فکر اور ذہنیت کے اعتبار سے تمام چیزوں کا مشاہدہ کرتے ہیں اور ہمارے
خیالات و افکار ہی ہمارے فیصلوں پر اثر انداز ہوتے ہیں ۔
ایک شخص کہتا ہے کہ میں کسی ایئرپورٹ
پر گیا ایک بک اسٹال سے ایک کتاب خریدی اور ایک دکان سے بسکٹ لیا ۔اور آکر ایک
کرسی پر بیٹھ گيا میں نے اپنے پاس رکھے بسکٹ میں سے ایک بسکٹ لیا لیکن میں نے
دیکھا کہ ایک بوڑھا مرد جو ہمار ے پاس بیٹھا ہوا تھا اس نے بھی ان بسکٹ میں سے
بغیر اجازت کے ایک بسکٹ اٹھا لیا ۔ میں نے ایک اٹھایا تو اس نے بھی ۔ مجھے
بہت برا لگا، لیکن میں نے اس کا اظہار نہيں کیا ۔ پھر میں نے بسکٹ اٹھایا تو اس نے
بھی اٹھا لیا میں نے اسے گھور کر دیکھا لیکن وہ مجھے مسکراکر دیکھنے لگا ۔ یہاں تک
کہ جب آخری بسکٹ بچا تو اس بوڑھے انسان نے اس بسکٹ کے بھی دو حصے کردیئے اور اس کا
ایک حصہ خود کھایا اور دوسرا میرے سامنے رکھ دیا ۔ میں غصے سے اٹھ کھڑا ہوا
اور غیض و غضب کے عالم میں اس سے دور ہوکر بیٹھ گیا ۔ جب میں پرواز میں بیٹھا اور
کتاب پڑھنے کے لئے اپنا بیگ کھولا تو میں نے دیکھا کہ میرے بسکٹ کا پیکٹ میرے بیگ
میں پڑا ہوا ہے اس وقت میں متوجہ ہوا کہ میں نے ہی اس بیچارے کے سارے بسکٹ کھالئے
ہیں جب کہ میں یہ سوچ رہا تھا کہ وہ بسکٹ میرے ہيں اور اسی غلط خیال کے سبب ، میرا
ذہن و خیال ، اس کو غلط سمجھ رہا تھا ۔
ہمیں یہ تسلیم کرنا چاہئے کہ ہمارے
زیادہ تر تنازعے اور لڑائیاں ہمارے غلط اور نا معقول طرز فکر کا نتیجہ ہوتی ہیں ۔
اسی لئے اسلام نے اس قسم کے خیالات اور بد گمانیوں کو باطل اور غلط قرار دیا ہے ۔
آیات و روایات میں بد گمانی کی جو مذمت کی گئی ہے اس کی وجہ یہی ہے ۔ انسان کو
اپنے ذہن کو پاک کرنا چاہئے خداوند عالم سورۂ یونس کی آیۃ 36 میں ارشاد فرماتا ہے
اور ان کی اکثریت تو صرف خیالات کا اتباع کرتی ہے جب کہ گمان ، حق کے بارے میں
کوئی فائدہ نہيں پہنچاسکتا بیشک اللہ ان کے اعمال سے خوب واقف ہے ۔ البتہ یہ بات
بھی یاد رکھنی چاہئے کہ ہمارے خیالات میں جو کچھ گذرتا ہے اس کا اہم حصہ ہماری سنی
سنائی باتوں سے ہوتا ہے اسی بناء پر دین اسلام میں اس بات کی سفارش کی گئی ہے کہ
24
دوسروں کی بری باتوں کو نہ سنیں لیکن ان
کی اچھی باتوں کو پر ضرور کان دھریں ۔ یعنی اگر کسی نے دوسرے کی خوبی بیان کی تواس
کو ضرور سنئے لیکن جہاں دوسروں کی برائی کا ذکر ہو وہاں آپ یہی کہئے کہ میں
جب تک خود اپنی آنکھوں سے دیکھ نہ لوں آپ کی بات کو قبول نہیں کرسکتا ۔
دو بھائی تھے جو برسوں تک اپنے باپ سے
ورثے میں ملنے والے ایک کھیت ميں زراعت کا کام کرتے تھے اور اپنی زندگي چلاتے تھے
ایک دن ایک ذرا سی غلط فہمی پر دونوں بھائیوں میں بحث ہوگئی ۔ کئی ہفتے گذرنے کے
بعد، ان کے درمیان اختلافات مزید بڑھ گئے اور وہ ایک دوسرے سے جدا ہوگئے ۔ ایک دن
بڑے بھائی کے دروازےپر ایک آواز سنائی دی ۔ جب اس نے دروازہ کھولا تو دیکھا ایک
بڑھئی کھڑا ہے ۔ بڑھئی نے پوچھا میں کام کی تلاش میں ہوں کوئی کام ہے جس میں میں
تمہاری مدد کرسکوں ؟ بڑے بھائی نےجواب دیا ۔ ہاں اتفاق سے میں بھی ایک بڑھئی کی ہی
تلاش میں تھا۔ اس نے بڑھئی سے کہا وہ کھیت کے بیچ میں ایک نہر دیکھ رہے ہو ۔ وہ
پڑوسی جو حقیقت میں میرا چھوٹا بھائی ہے گذشتہ ہفتے اس نے کئی مزدوروں کو بلایا
تاکہ کھیت کے بیچ میں ایک نہر کھودوائے اور اس طرح سے نہر کے ذریعے کھیت کا بٹوارہ
کردے اور اس نے یہ کام یقینا دل میں مجھ سےجو کینہ ہے اس کی وجہ سے کیا ہے ۔
پھر اس نے کھیت کے انبار کی طرف اشارہ کیا اور کہا کہ اس انبار ميں کچھ
لکڑیاں ہیں اور میں تم سے یہ چاہوں گا کہ میرے اور میرے بھائی کے کھیت کے
درمیان لکڑی کی دیوار کھینچ دو تاکہ میں اسے کبھی نہ دیکھ سکوں ۔ بڑھئی نے
اس کی بات مان لی اور پھر لکڑی کا ناپ لینے اور اسے چیرنے کا کام شروع کردیا ۔ بڑا
بھائی ان ہي دنوں خریداری کے لئے شہر گیا اور بڑھئی اکیلا رہ گیا ۔ جب وہ غروب کے
وقت شہر سے گھر واپس آیا تو تعجب سے اس کی آنکھیں کھلی رہ گئیں ۔ اس نے دیکھا کہ بڑھئی
نے دیوار کے بجائے اس کے اور اس کے بھائی کے کھیت کے درمیان ایک پل بنا دیا ہے ۔
اس شخص نے غصے سے بڑھئی کو دیکھا اور کہنے لگا : کیا میں نے تم سے نہيں کہا تھا کہ
ہمارے لئے دیوار اور حصار بناؤ ۔ اسی وقت اس کا چھوٹا بھائی کسی طرف سے آگیا
اور اس پل دیکھ کر یہ سمجھا کہ اس کے بھائی نے یہ پل بنانے کو کہا ہے ۔ وہ پل پار
کرکے اپنے بڑے بھائی کے پاس آیا اور اس سے گلے لگ گیا اور پھر اس نے نہر
کھودوانے پر بھائی سے معذرت کی ۔ کاش ہم بھی اس ماہ مبارک اور ماہ عزیز میں اس
بڑھئی کی مانند، غمزدہ دلوں کے درمیان صلح و آشتی کا پل بنائیں ۔
پروگرام کے اس مرحلے میں گذشتہ
پروگراموں کی طرح آج بھی حضرت امام سجاد علیہ السلام کی مناجات کے ایک حصے میں
غورو فکر کرتے ہیں ۔
شکر، دین اسلام میں بہت زیادہ فضیلتوں
کا حامل اور تمام اعمال ميں سے ایک افضل ترین عمل ہے ۔ شکرگذار بندہ ، ہمیشہ خداوند
عالم کی نعمت کی یاد میں رہتا اور اس کی تعظیم کرتا ہے اور خداوند عالم کی عظمت کے
مقابلے ميں حقارت اور نیازمندی کا اظہار کرتا ہے ۔ ایک شکر گذار انسان کے قلب سے،
شکر کے سرچشمے اس کی زبان پر جاری ہوتے ہيں اور وہ دل سے نعمت دینے والے کا
شکر ادا کرتا اور اس کی عطا کردہ نعمتوں پر راضی رہتا ہے ۔ اور یہ رضامندی اور
شکر، انسان کے قلب کو خدا کے شکر سے سرشار کرنے کے علاوہ ، اس کے کردار و عمل سے
بھی ظاہر ہوتا ہے ۔ یعنی شکر گذار انسان، خداوند عالم کی تسبیح و تقدیس کرتاہے اور
اس کی نعمتوں پر اس کا شکر کرتا ہے۔ خداوند عالم کی نعمتوں میں جو معنوی نعمتیں
ہيں وہ دین اور ایمان ہیں ۔ فرزند رسول خدا حضرت امام زین العابدین علیہ السلام ،
پندرہ مناجاتوں ميں سے چھٹی مناجات ، مناجات شاکرین کے ایک حصے میں فرماتے ہیں ۔
نعمت انوار ایمان ، ایسی زینتیں ہے کہ جن سے تونے ہمیں آراستہ کیا ہے اور تونے
اپنے جود وکرم سے عزت کا تاج میرے سر پر رکھ دیا ہے اور تونے اپنی عطا و احسان کی
خوبصورت مالا ، میری گردن میں ڈال دی ہے جو کبھی بھی کھل نہيں سکتی ۔
حضرت امام زین العابدین علیہ السلام
اپنی مناجات ميں ، لطیف و زیبا تشبیہات کے ساتھ انوار ایمان کو ایسے زیوروں سے
تشبیہ دیتےہیں کہ جو انسان کی آراستگي کا باعث بنتی ہیں ۔ امام سجاد علیہ السلام ،
خداوند عالم کےاحسان و کرم کو ایک تاج سے تعبیرکرتے ہیں جو انسان کے سر پر رکھا
گیا ہے ۔ ان تعبیروں کو قرآن میں بھی بیان کیا گیا ہے جو حقائق اور ایمان کی باطنی
صورت کی آئینہ دار ہیں ۔چنانچہ یتیم کا مال کھانے کی باطنی صورت ، یعنی آگ کا
کھانا ہے ۔ اور یا غیبت کی باطنی صورت اپنے مردہ بھائی کا گوشت کھانا ہے ۔
24
اسی
طرح بہت سی ایسی روایتیں ہيں جو اس امر کی آئینہ دار ہیں کہ بعض عمل، عالم برزخ
ميں خوبصورت حالت میں یا بری اور وحشتناک حالت میں ظاہر ہوتے ہيں جیسا کہ رسول خدا
صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نماز کے بارے میں فرماتے ہيں " نماز، سفید انسان کی
صورت میں مرنے والے کی قبر میں داخل ہوتی ہے اور اس سے مانوس ہوتی ہے اور اس سے
برزخ کی وحشت اور خوف کو برطرف کرتی ہے ۔ امام سجاد علیہ السلام اس مناجات کے آخر
میں فرماتے ہیں خدایا جس طرح سے تونے ہمیں اپنے لطف وکرم سے کھانا دیا اور اپنے
احسان کے ذریعے ہماری پرورش کی ، تو ہمارے اوپر اپنی تمام نعمتیں کامل کردے ۔ اور
جو برائیاں ہیں ان کو ہم سے دور کردے اور دونوں جہان کی بھلائیاں اور نیکیاں ہمیں
عطا کر ۔ تمام حمد و ثناء تیرے ہی لئے ہے ہر بلا اور آزمائش میں ، اور ایسی شکر کی
توفیق عطا کر جو تیری شایان شان ہو۔ اے عظیم ، اے کریم اور اے سب سے مہربان
پروردگار ۔
25
12:۔ فرزند کے حق میں والدین کی دعا
آپ جانتے ہیں کہ کوئلے جب ایک جگہ اور
ایک دوسرے سے متصل ہوتے ہیں تو ان میں حدت و حرارت زیادہ ہوجاتی ہے اور کوئلے
زیادہ دیر تک باقی رہتے ہیں۔اگر ایک ساتھ نہ ہوں الگ الگ ہوں تو بہت جلد جل
کر راکھ بن جائیں گے یعنی ان کی عمر کم ہوجاتی ہے اور الگ ہونے سے ان کی سوزش
وحرارت اور گرمی میں بھی کمی آجاتی ہے۔ یہ دنیا اور جو کچھ اس دنیا میں موجود ہے
وہ غور وفکر کرنے والے انسان کے لئے سبق آموز ہے۔ یہاں تک کہ کوئلے سے
بھی سبق حاصل کیا جاسکتا ہے۔ فرزند رسول حضرت امام موسی کاظم (ع) فرماتےہیں "
دنیا کی ہر چیز سے درس لیا جاسکتاہے" کوئلے کے ٹکڑوں کے باہم اور ایک ساتھ
رہنے سے ان کی گرمی زیادہ ہوجاتی ہے، اس سے یہ سبق ملتاہے کہ طول عمر کا راز باہمی
زندگی میں پنہاں ہے اور انسان اس وقت خوش حال ہوتاہے جب دوسروں کے ساتھ زندگی بسر
کرتاہے اور اس کے رزق وروزی میں اضافہ ہوتاہے ۔ اس کے برعکس جو شخص صلۂ رحم
اور دوسروں سے ملنا جلنا پسند نہ کرتا ہو، تنہائی پسند ہو،تو اس کی حیات اور اس کی
عمر کم ہوجاتی ہے لہذ ا انسان کو چاہیے کہ ماں باپ کی خدمت کرے ان کے ساتھ حسن
سلوک کرے ان کا دل جیتنے کی کوشش کرے ان کو خوش کرے اور ان سے اپنے لئے دعائیں
کرنے کی خواہش کرے ۔ آپ نے رسول اکرمۖ کی یہ حدیث نہیں سنی کہ آپ نے فرمایا
" فرزند کے حق میں والدین کی دعا، اپنی امت کے حق میں پیغمبرۖ کی دعا کی مانند ہے" ایک جوان لڑکا پیغمبراکرمۖ کی خدمت میں حاضر ہوا اور عرض کی یارسول اللہ کوئی ایسا
گناہ نہیں ہے جس کا ارتکاب میں نے نہ کیا ہوکیا میری بخشش کی بھی امید کی جاسکتی
ہے؟ رسول اکرم ۖ نے اس جوان سے فرمایا تمھارے والدین ہیں
؟ اس نے کہا والدہ تو نہیں ہیں مگر والد حیات ہیں۔ آپ نے فرمایا اپنے والد کی خوب
اچھی طرح خدمت کرو " یہ سن کر وہ جوان خوش ہوکر چلا گیا ۔ جیسے ہی وہ جوان
رسول ۖ کے پاس سے ہٹا آپ نے فرمایا کہ کاش اسکی ماں ہوتی تو اور جلدی
اسے اس کے عمل کا نتیجہ مل سکتاتھا"
قرآن کریم کے سورۂ اسرا کی 23اور 24
ویں آیت میں ارشا ہوتاہے"اور آپ کے پروردگار کا فیصلہ کہ تم سباس کے علاوہ
کسی کی عبادت نہ کرنا اور ماں باپ کے ساتھ اچھا برتاؤ کرنا اوراگر تمھارے سامنے ان
دونوں میں سے کوئی ایک یا دونوں بوڑھے ہوجائیں تو خبر دار ان سے اف بھی نہ
کہنا،اور انھیں جھڑکنا بھی نہیںاور ان سے ہمیشہ شریفانہ گفتگو کرتے رہنااور ان کے
لئے خاکساری کے ساتھ اپنے کاندھوں کو جھکا دینااور ان کے حق میں دعا کرتے رہنا، کہ
پروردگار ان دونوں پر اسی طرح رحمت نازل فرماجس طرح کہ انھوں نے بچپن میں مجھے
پالاہے"
ایک روز حضرت موسی (ع) نے مناجات کے
دوران پروردگار سے عرض کی میرے مالک مجھے یہ بتادے کہ بہشت میں میرا ساتھی اور
ہمنشیں کون ہوگا؟ آواز معبود آئی موسی فلاں جوان ہے جو فلاں جگہ رہتاہے وہی
بہشت میں تمھارا ہمنشیں اور ساتھی ہوگا ۔ حضرت موسی (ع) اس کی تلاش میں نکلے ۔
حضرت موسی ایک جوان قصاب کو دیکھا اور دور سے اس کا پیچھاکرنا شروع کیا تاکہ
دیکھیں کہ وہ خداکی نظر اہمیت کا حامل کون کا عمل انجام دیتاہے کہ بہشت میں اس کا
مرتبہ اتنا زیادہ ہے ۔ جس قدر بھی حضرت موسی نے اس کے عمل کو دیکھا وہ کوئی خاص
اہمیت کا حامل نہیں تھا ۔ رات ہوئی تو اس جوان نے اپنی دوکان بند کی اور اپنے گھر
کے لئے روانہ ہوگیا حضرت موسی نے اپنا تعارف کرائے بغیر اس کے قریب آکر اس سے کہا
کہ ہم آج تمھارے مہمان رہنا چاہتے ہیں ۔ اس جوان نے قبول کرلیا اور حضرت موسی (ع)
کو اپنے گھر لے آیا ۔ حضرت موسی (ع) نے دیکھا کہ جب وہ جوان اپنے گھر میں داخل
ہوا، سب سے پہلے غذا تیار کی اور پھر ایک بوڑھی عورت کے پاس گیا جوبالکل مفلوج تھی
اور اس نے اس عورت کو آہستہ آہستہ ایک لقمہ کھانا کھلایا یہاں تک کہ وہ بوڑھی عورت
شکم سیر ہوگئی پھر اس جوان نے اس ضعیفہ کے کپڑے بدلے اور اس کے ساتھ بڑی الفت
ومہربانی کا برتاؤ اور ہر کام میں اس کی مدد کرتارہا۔ پھر اس نے اس عورت اس کے
بستر پر لٹا دیا۔ حضرت موسی نے دیکھا کہ اس جوان نے اس رات ضروری مذہبی فرائض کے
علاوہ اور خاص عبا دت اور اہم عمل انجام نہیں دیا نہ نماز شب نہ دعاؤ مناجات اور
نہ کوئی دوسرا عمل۔ دوسرے روز گھر سے نکلنے سے پہلے اس جوان نے غذا تیار کی اور اس
بوڑھی عورت کے پاس جاکر اسے بڑے پیار سے ایک ایک لقمہ کھلانے لگا اور اس کے تمام
امور میں اس عورت کی مددکی ۔ جب دونوں ایک دوسرے سے جداہونے لگے تو اس وقت حضرت
موسی نے اس جوان سے دریافت کیا "وہ بوڑھی عورت کون تھی؟ تمھارے کھانا کھلانے
سے پہلے وہ آسمان کی جانب نطریں اٹھا کر نہ جانے کیا دعا مانگ رہی تھی وہ کیا کہ
رہی تھی؟ جوان نے کہا وہ میری ماں ہے جب میں اسے
26
کھانا کھلاتاہو ں تو وہ میرے لئے خدا سے دعا
کرتی ہے اور کہتی ہے" خدایا میرا بیٹا جو میری خدمت کرتاہے اس کے عوض بہشت
میں اسے موسی ابن عمران کی ہمنشینی عطا فرما" جب حضرت موسی (ع) نے یہ ماجرا
سنا تو اس جوان سے فرمایا تمھارے بارے میں تمھاری والدہ کی دعا قبول ہوگئی۔
پروگرام کے اس حصے میں حضرت امام سجاد
(ع) کی ایک اور مناجات آپ کی حدمت میں پیش کررہے ہیں۔"مناجات پیروان
خدا" میں حضرت امام سجاد (ع) باگاہ الہی میں دعا کرتے ہیں " بارالہا
اپنی طاعت وبندگی کا جذبہ سے میرے دل کے سرشار اور غم وغصّہ مجھ سے دورکردے ،اور
میرے رزق وروزی اور میری آرزوئیں پوری کرنے کے لئے وہ راہ فراہم کر جس سے تو راضی
وخوشنود ہے اور مجھے بہشت جاوداں جگہ عنایت فرماہماری چشم بصیرت کے سامنے سے شکوک
وشبہات کے کالے بادل ہٹادے اور میرے دل سے لیت ولعل کے تاریک پردے اورباطل
کو میرے باطن سے دور کر، حقیقت کو میرے باطن میں نفوذ عطاکر میرے مالک بے شک شکوک
واوہام فتنے ایجاد کرنے کےدرپے ہیں اور تیری نعمتوں اور بخششوں شادابی کو
ناگوار بنانے کے خواہاں ہیں"
جو انسان اپنے الہی فریضے کی انجام
دہی کا خواہاں ہے،وہ معبود حقیقی سے ہر دعا سے پہلے واجبات کی ادائگی اور محرمات
سے دوری اختیار کرنے کی توفیق کا طالب ہوتاہے۔ کیونکہ وہ اس بات سے بخوبی واقف ہے
کہ گوہر تقوی تک رسائی اور رضائے الہی کے حصول کے لئے شرعی فرائض کی انجام دہی
وادائگی لازم ہے۔ حضرت امام زین العابدین (ع) نے اپنی اس مناجات میں اپنے خالق سے
توفیق بندگی اور الہی احکام و فرائض کی انجام دہی کی توفیق طلب کرنے کے بعد،
دلوں سے شک وشبہ دورہونے کی دعا فرماتے ہیں۔ اور اس طرح آپ نے فاسد شک اور
وہم وگمان کو ہر برائی کی جڑبتایا ہے اس لئے کہ اگر دینی اعتقادات واحکام میں وہم
وگمان یقین کی جگہ لے لے تو وہیں سے انسان کی کجروی کا آغاز ہوگا البتہ کبھی کبھی
انسان عارضی شک وتردید اور غفلت کا شکار ہوجاتاہے لیکن وہ لوگ جو نور ہدایت سے
بہرہ مند ہونے کی صلاحیت کے حامل ہیں، لطف وعنایت پروردگار ان کے شامل حال ہوتی
ہے اور انھیں توجہ دلائی جاتی ہے جس کی بدولت ان کی آنکھیں اور دل نور
بصیرت سے منور ہوجاتےہیں اور شیطان ان سے دور ہوجاتاہے لیکن جولوگ غفلت کے مارے
ہیں اور نور ہدایت سے فیضیاب ہونے کے لائق نہیں ہیں ، شیطان ان کے سامنے جب مظاہر
دنیا کو آراستہ کرپیشکرتاہےتو بجائے اس کے کہ وہ متوجہ ہوں ،اور شیطان کے فریب سے
رہائی حاصل کرنے کی کوشش کریں ،مزید پیروشیطان بن جاتے ہیں اس لئے انکی آنکھوں اور
دلوں پر اور زیادہ پردے پڑ جاتے ہیں اور دل تاریک ہوجاتے ہیں جس کی وجہ سے وہ قعر
غفلت میں گر جاتے ہیں اور اور یادو ذکر الہی سے بھی انھیں نفرت ہوجاتی ہے ۔
حضرت امام سجاد (ع) اپنی مناجات
میں بارگاہ الی میں عرض کرتے ہیں " پروردگارا ہمیں اپنی نجات کی کشتیوں میں
جگہ عنا یت فرما، اور اپنی مناجات کی لذت کے فیض سے کامیابی عطافرما، اپنے چشمۂ
محبت سے فیضیاب کر اور اپنی دوستی و قربت کی لذت سے آشنا کراور اپنی معرفت کے حصول
کی راہ میں سعی وکوشش کی توفیق عطا فرمااور ہماری قوت وطاقت و حوصلے کو اپنی طاعت
و عبادت میں صرف کرنے کی توفیق عطافرما، اپنے معاملے میں ہماری نیت میں
پاکیزگی اور خلوص پیدا کر، ہمارا وجود تیری ذات سے قائم اوروابستہ ہے اور تیری
قربت کے حصول کے لئے ہمارے پاس تیرے سوا دوسرا کوئی وسیلہ نہیں ہے۔"
حضرت امام سجاد (ع) اپنی مناجات کے اس
حصّہ میں خدا سے دعافرماتے ہیں نجات کی کشتیاں عنایت اور اپنی رحمت شامل حال
فرمائے تاکہ اپنے معبود حقیقی سے دعاؤ مناجات کی لذت سے سرشار ہوں ۔ حقیقت یہ ہے
کہ خداسے مناجات کا ذائقہ اور اس کی لذت کا حاصل کرنا ہرایک کا نصیب نہیں ہے۔ یہ
عنایات انھیں نصیب ہوتی ہیں جو اپنے دلوں کو ظلمتوں سے پاک کرتے اور انوار ہدایت
الہی سے دلوں کو منور کرتے ہیں۔ کبھی انسان منتظر رہتاہے کہ ماہ رمضان آئے اور وہ
اس کی بابرکت راتوں اور خاص طور پر شبہائے قدر میں خداسے دعاؤ مناجات کے ذریعے
اپنے دل کو نورانی بنائےاورجب ماہ رمضان اپنے دامن میں برکتیں اور الہی رحمتیں لئے
ہوئے آتاہے تو انسان مشغول دعاؤ مناجات ہوجاتاہے راتوں بیدار رہ عبادت الہی میں
مصروف ہوتاہے لیکن خدا سے مناجات میں اسے حقیقی لذت حاصل نہیں ہوپاتی ۔ اس لئے کہ
اس نے لذت مناجات اور اپنے معبود سے قربت و دوستی کے شیریں ذائقے کے حصول کےلئے
اپنے نفس کو آمادہ نہیں کیا ہے۔
27
13:۔روزہ نفسانی خواہشات کے مقابلے میں ایک مضبوط ڈھال ہے
روزہ نفسانی خواہشات کے مقابلے میں
ایک مضبوط سپر اور ڈھال ہے۔ انسان روزے کے ذریعے ناشائستہ نفسانی خواہشات
ورجحانات پر کنٹرول کر لیتاہے اور اپنے باطن سے ظلمت و غفلت کی تیرگی دور
کرکے اپنے نفس کونور الفت الہی سے منور اور تواضع و انکساری کے پھولوں
سے آراستہ کرتاہے۔ یعنی روزہ، کھانے پینے سے اجتنات کے علاوہ اعلی مدارج کا
بھی حامل ہے یعنی اپنےنفس اور دل کو تمام گناہوں اورکثافتوں سےدور رکھنا
سکھاتا ہے۔
اسلامی اخلاق نے پسندیدہ اور
ناپسندیدہ انسانی صفات کو بہ نحو احسن پیش کیا ہے اور پیروان اسلام کو
اسلامی اخلاق اور اعلی اقدار سے آراستہ ہونے کی دعوت دی ہے۔ اخلاق اسلامی میں
تواضع کو اہم مقام و منزلت حاصل ہے تواضع اور انکساری وہ اچھی اور نیک صفت ہے کہ
ہر انسان رمضان کے اس مبارک مہینے میں بخوبی اس کا حامل بن سکتاہے"
تواضع" کے ذریعے دلوں کو نرم اور دوسروں کو اپنے سےقریب کیا جاسکتاہے۔
"تواضع" محبت، دوستی، مہربانی اور سربلندیوں کے حصول کا زینہ ہے ۔
تواضع اور فروتنی، وہ گلشن وگلزار ہےجہاں برادری و بھائی چارے،صدق وصفا اور مہر
ومحبت کے دلکش پھول کھلتے ہیں اور انسان کے لئے حقیقی عظمت ومنزلت کا باعث
بنتے ہیں ۔ تواضع ، باطنی خشوع وخضوع کی ایک معقول حالت ہے کہ انسان کی رفتار
وکردارسے جس کی علامتیں ظاہر ہوتی ہیں۔ منکسر انسان لوگوں سے خوش اخلاقی سے پیش
آتاہے ۔ تواضع اور فروتنی کی صفت کے حامل انسان میں وفا اور ایثار کا جذبہ
پایاجاتاہے۔ ایسا انسان خدا کے سامنے تسلیم ہو جاتاہے اور نہایت عشق وایمان کے
ساتھ طاعت وعبادت الہی بجالاتاہے ۔ اس کا ایمان مستحکم اور دل ایسا مضبوط قلعہ
ہوجاتا ہے کہ دشمن اس میں نفوذ کی توانائی نہیں رکھتا۔ تواضع ، خدا کے مخلص بندوں
کے لئے تاج افتخار ہے ۔
موسم بہار میں کبھی کسی پتھر پر سبزے
نہیں اگتے کیونکہ پتھر سخت ہوتاہے لیکن پتھر کے مقابلے میں مٹی کو دیکھیے کہ اس
میں کیسے کیسے رنگ برنگے پھول کھل اٹھتے ہیں اس لئے کہ مٹی میں نرمی اور لطافت
پائی جاتی ہے اور وہ اس بات کی اجازت دیتی ہے کہ اس کے اندر پھول پرورش پائیں۔
انسان کے دل کو بھی مٹی کی مانند نرم ونازک ہوناچاہیے پتھر کی طرح سخت نہیں۔ اور
یہی وجہ ہے کہ اہل دوزخ قیامت میں فریاد کریں گے، اور قرآن کے مطابق "کافر
کہے گا کہ اے کاش میں مٹی اور خاک ہوتا"یعنی اے کاش ہم متواضع اور
منکسرالمزاج ہوتے۔ حق بات قبول کرلیتے اور خاکسار انسان ہوتے ۔
آج کے دور میں ہمیں یہ معلوم ہوگیا ہے
صدف میں مختلف رنگوں کےخوش نما پتھر تیار ہوتے ہیں اور ہم انھیں مروارید کا
نام دیا جاتاہے لیکن زمانۂ قدیم میں لوگ اس بات کے معتقد تھے کہ جب آب نیساں
کا کوئی قطرہ صدف یا سیپ میں پہنچ جاتاہے تو وہ مروارید اور موتی بن جاتاہےایران
کے عظیم وممتاز شاعر سعدی شیرازی اسی خیال کو انسانوں کے لئے سبق آموز سمجھتے ہیں
انھوں نے اپنے نصیحت آموز اشعار میں اسی خیال کو نظم کیاہے وہ کہتے ہیں کہ "
پانی کا ایک قطرہ جب دریا میں گرا تووہ دریا کی عظمت کو دیکھ کر شرمندہ ہوگیا اور
اپنے آپ سے کہنے لگا اس عظیم دریا کے سامنے میری حیثیت کیا ہے؟ اس کے وجود کے
مقابلے میں گویا میں اتنا ناچیز ہوں کہ میرا ہونا نہ ہونا برابر ہے۔ جب اس قطرء آب
نے اپنے کو حقیر سمجھا تو صدف نے اس کی انکساری اور تواضع کی وجہ سے اسے اپنی آغوش
میں لے کر ایسی پرورش کی کہ اسے در شہوار میں تبدیل کردیا۔
پروگرام کے اس حصے میں ایک معروف
ممتاز عالم دین کے تواضع اور انکساری کا ایک واقعہ سن لیجیے۔ شیخ عباس قمی کی ایک
معروف کتاب "منازل الآخرۃ" ہے یہ کتاب شایع ہونے کے بعد علماؤ فضلاء کے
درمیان بہت مقبول ہوئی قم میں ایک عالم دین تھے جن کانام شیخ عبد الرزاق تھاوہ
ہمیشہ حرم حضرت معصومہ (س) میں آذان ظہر سے قبل مومنین کے لئے احکام شرعیہ بیان
کیا کرتے تھے۔ شیخ عباس قمی کی کتاب منازل الآخرۃ شایع ہونے کے بعد ، شیخ
عبدالرزاق احکام شرعیہ بیان کرنے کے بعد اس کتاب سے احادیث وروایات بھی لوگوں کے
لئے وعظ ونصیحت کے عنوان سے پیش کردیتے تھے۔ شیخ عباس قمی کے والد شیخ عبدالرزاق
کے موعظہ سے بہت متاثر تھے وہ ہر روز ان کا بیان سننے حرم جاتے تھے اور کتاب
منازل الآخرۃ کے مطالب بہت پسند کرتے تھے۔ ایک روز وہ اپنے فرزند شیخ عباس قمی کے
پاس آئے اور انھوں نے کہا کہ بیٹا کاش تم شیخ عبدالرزاق کی طرح منبر
پر جاکر اس کتاب سے میرے لئے مطالب بیان کرتے جس کتاب سے وہ بیان کرتے ہیں "
شیخ عباس قمی خود اس واقعہ کو بیان کرتے ہوئے ہوئے کہتے ہیں کہ کئی بار میں نے
28
سوچا
کہ والد سے کہوں جس کتاب سے وہ مطالب بیان کرتے ہیں وہ میری ہی تالیف کردہ ہے لیکن
میں نےیہ نہیں کہا بلکہ یہ کہا کہ اباجان دعا فرمائیے کہ خدا وند کریم مجھے توفیق
عنایت فرمائے" شیخ عباس قمی کی کتابوں اور خاص طور سے مفاتیح الجنان کی
مقبولیت کی ایک سبب ان متواضع ہونا تھا۔
حضرت امام سجاد(ع) مناجات
"محّبین" میں فرماتے ہیں" پروردگارا ایسا کون ہے کہ جو تیری محبت
کی مٹھاس کا ذائقہ لینے کے بعد کسی اور سے عشق کرے ؟ اور ایسا کون ہے کہ تیری قربت
کے حصول کے بعد ایک لمحہ کو بھی تجھ سے دور رہنا چاہے " سب سے عظیم لذت، محبت
خدا کی لذت ہے جس کو الفت خدا کا ذائقہ حاصل ہوگیا وہ کسی اور جانب نہیں
جاسکتا اور قرب الہی سے دوری اختیار نہیں کرسکتا۔ خدا وند کریم سے عشق و محبت کا
راستہ اس کا ذکر اور اسکی عطا کردہ نعمتوں کو یاد کرنا اور اس کا شکر اداکرناہے ۔
خداکی معرفت میں اضافہ اس کی محبت والفت میں اضافے کا باعث بنتاہے ۔ حدیث قدسی میں
آیاہے کہ حضرت داؤد (ع) سے خدانے فرمایا مجھے دوست رکھو اور میری مخلوقات کےدرمیان
مجھے محبوب بناؤ" حضرت داؤد (ع) نے عرض کی خدایا میں تجھے دوست رکھتاہوں لیکن
کیسے دنیا میں تیری محبوبیت کو عام کروں ؟ خدانے فرمایا ان کےسامنے میری نعمتوں
کاذکر کرو تو دنیا مجھےچاہنےلگےگی۔
گویندہ اول جو شخص لوگوں کے حق میں
اچھائیاں کرتاہے لوگ اس سے محبت کرنے لگتے ہیں بنابریں ہم خدا کی عطا کردہ
نعمتوں پر جتنی زیادہ توجہ دیں گے اور اس کی نعمتوں کی اہمیت سمجھیں گے اتنی ہی
زیادہ خدا سے ہماری الفت میں اضافہ ہوتا جائے گا کیونکہ دوست رکھنا عارضی جذبہ
نہیں ہے بلکہ ایک پائیدار حالت شفقت ومہربانی ہے۔جب کوئی انسان کسی سے محبت کرتاہے
تو اس سے اپنے انس و علاقہ کا اظہار بھی کرتاہے اور کچھ عرصے تک اس کا دیدار نہیں
ہوتاتو اس کے فراق میں رنجیدہ و محزون ہوجاتاہے۔ خداوند متعال سے ایسی محبت کے لئے
اس کے ذکر اور اس کی نعمعتوں کوبھی متواتر یاد کرنا چاہیے اگر ایسا کیا جائے تو
خدا کی محبت، انسان کے دل میں بیٹھ جائے گی۔ محبت الہی کو دل میں جاگزیں کرنے کا
ایک مناسب راستہ خلوص واخلاص کے ساتھ اللہ کی عبادت ہے۔ رسول اکرم ۖ عبادت الہی سے عشق کے بارے میں فرماتے ہیں" سب
سے افضل و بہتر وہ انسان ہے جو عاشق عبادت اور اس سے مانوس ہو، دل کی گہرائی
سے عبادت کو دوست رکھتاہواور اس کی انجام دہی کے وقت کسی دوسرے کام میں مشغول نہ
رہے ایسےشخص کو اس بات کی کوئی پرواہ نہیں ہوتی کہ اس کی دنیوی زندگی آسائش
میں یا مشکلات میں بسر ہورہی ہے" حضرت امام سجاد(ع) مناجات (محبّین ) میں
فرماتے ہیں خدایا مجھے اپنے ان بندوں میں شامل فرما جو تجھ سے ہر حال میں خوش اور
راضی ہیں اور دل کی گہرائی سے تجھے پکارتے ہیں اور ساری عمر تیرے عشق میں آہ ونالہ
کرتے ہیں ان کی پیشانیاں تیری عظمتوں کے سامنے خم ہیں اور ان کی آنکھیں بیدار اور
تیرے تقرب کی راہ پر مرکوز ہیں اور ان کے دل تیرے بحرعشق ومحبت میں ڈوبےہوئےہیں
اورہیبت وجلال سےسرشار ہیں۔
29
14:۔ رمضان ماہِ صبر و استقامت
ہے
حضرت امام سجاد (ع) ماہ رمضان کے بارے
میں فرماتے ہیں رمضان کا مہینہ خدا کا عظیم مہینہ اور اس کے خصوصی بندوں کے لئے
عید ہے۔ اس مبارک مہینے میں روزہ سمیت تمام عبادات کی انجام دہی کی توفیق عظیم
ترین الہی نعمت ہے جو پروردگار نے اپنے بندوں کو عطاکی ہے اس مبارک مہینے اور ان
قیمتی اوقات میں اپنے مالک وخالق حقیقی سے التجاء کرتے ہیں کہ ہمیں استقامت
وپائیداری عطاکرے تاکہ اس مبارک مہینےمیں فیوض وبرکات اور معنویت سے کماحقہ
استفادہ کرسکیں۔
رمضان ماہ صبر واستقامت ہے ۔ صبر اور
روزے کا بندھن اور رشتہ اٹوٹ ہےبھوک اور پیاس کے مقابلے میں صبر ،گناہوں کے مقابلے
میں استقامت ،دشواریوں اور مشکلات کے مقابلے میں شکیبائی ، سب کچھ اس روزے میں
موجود ہے۔ درحقیقت مختلف قسم کی سختیاں اور دشواریاں، زندگانی دنیا کا حصہ
ہیں اگر انسان ان دشواریوں اور سختیوں کے مقابلے میں صبر واستقامت کا مظاہرہ کرے
تو یقینا کامیاب ہو سکتاہے۔ لیکن اگر صبر وشکیبائی کا دامن چھوڑ دے گا اور
مشکلات وحوادث کے سامنے گھٹنے ٹیک دے گا تو کبھی اپنے مقصد میں کامیاب
نہیں ہوسکتا۔
آپ کو معلوم ہے کہ کافی، کڑوی
ہوتی ہے اور اس کی کڑواہٹ شکرڈال دینے سے بھی دور نہیں ہوتی لیکن قابل برداشت
ہوجاتی ہے مگر جب شکر کافی میں گھل جاتی ہے تو شیریں اور خوش ذائقہ ہوجاتی ہےاور
اب اس کی تلخی انسان کے لئے مٹھاس میں تبدیل ہوجاتی ہے۔ اسی طرح مشکلات بھی تلخ
اور ناگوار ہوتی ہیں اور کبھی ان کی تلخی نہیں جاتی لیکن ان مشکلات کو بھی
قابل تحمل وبرداشت بنانے کا ایک راستہ ہے اور وہ صبر ہے۔ قرآن کریم کے سورۂ عصر
میں ایمان اور عمل صالح کے بعد مشکلات اور خسارے سے انسان کی نجات کا ذریعہ حق
اور صبر کے دامن سے وابستہ ہونے کو قرار دیا گیا ہے۔ صبر کیمیا ہے ۔ یعنی
انسان ، صبر و استقامت کے ذریعے سونا بن جاتاہے اور اس کی قیمت بہت بڑھ جاتی
ہے۔ خاص طور سے اس وقت جب یہ صبر نماز کے ساتھ ہویعنی اس صبر کا رابطہ خداسے
برقرار ہوجائے۔ سورۂ بقرہ کی 45 ویں آیت میں ارشاد ہوتاہے" صبر اور نماز سے
مدد مانگو" استقامت و پائیداری اور پروردگار کی جانب توجہ انسان کو قوت
عطاکرتی ہے۔ جو آیات، صبر کی فضیلت میں نازل ہوئ ہیں وہ انسان میں مشکلات اور
دشواریوں سے مقابلے کا عظیم حوصلہ پیدا کرنے کا باعث بنتی ہیں۔جیساکہ انبیائے الہی
نے کفار و مشرکین کے ذریعے شدید مشکلات برداشت کی ہیں۔ مشرکین انھیں جادوگر اور
مجنون اور جھوٹا کہتے تھے۔ ان کی دی ہوئی بشارتوں کی تردید کرتے تھے
لیکن انبیاء(ع) نے کبھی لب شکایت وا نہیں کیا۔
ایک روز پیغمبر اکرم ۖ مکہ کے قریب واقع شہر طائف تشریف لے گئے تاکہ وہاں کے لوگوں کو
دین اسلام قبول کرنے کی دعوت دیں ۔ آپ نے طائف پہنچنے کے بعد اس شہرکی ممتازاور
عظیم شخصیتوں سے ملاقاتیں اور ان سے دین اسلام کے بارے میں گفتگو فرمائی۔ لیکن انھوں
نے آپ کی دعوت قبول نہیں کی بلکہ آپ کو اذیت پہنچانے کی ٹھان لی اور جاہلوں کو اس
بات پر آمادہ کیاکہ وہ رسول خدا ۖ کو پریشان کریں اور اذیت پہنچائیں یہ
جاہل افراد اپ پر پتھر برساتے تھے یہاں تک کہ آپ کو پتھر مار مار کر زخمی کردیا آپ
زخمی حالت میں چلتے چلتے ایک باغ میں پہنچ گئے اور ایک درخت کے نیچے بیٹھ
گئے اور اپنے محبوب حقیقی سے رازونیاز کرنے میں مشغول ہوگئے۔ جب باغ کے
مالکوں نے آپ کو زخمی حالت میں درخت کے سائے بیٹھے ہوئے دیکھا تو انھیں آپ پر
افسوس آیا ایک غلام کو بلاکر اس سے کہا کہ جاؤ ایک انگور لے کر آؤ، آپ
کے سامنے تھوڑی دیر میں انگور آگئے آپ نے ایک خوشۂ انگور اٹھالیا اور ان لوگوں کا
شکریہ ادا کیا پھر آپ نے انکور تناول فرمانے سے پہلے بسم اللہ الرحمن الرحیم کہا
وہ غلام تعجب سے آپ کو دیکھنے لگا پھر اس نے آپ سے پوچھا ابھی آپ کیا کہ رہے تھے
ہم نے تو آج تک یہ الفاظ کسی سے بھی نہیں سنے۔ آپ نے فرمایا، میں خدا کا نام
لے رہا تھا پھرآپ نے اس غلام سے پوچھا تمھارا تعلق کہاں سے ہے ؟ غلام نے کہا عراق
میں نینوا کا رہنے والاہوں۔ پیغمبرۖ نے مسکراکر
فرمایا "شہر یونس" خدا وند کریم کے پاکیزہ نبی ؟ اس غلام نے عرض کی آپ یونس
نبی کو جانتے ہیں؟ آپ نے آسمان کی جانب نظر کرتے ہوئے فرمایا ہاں میں
بھی ان کی ہی طرح نبی خدا ہوں خدا نے ہی مجھے یونس کے بارے میں آگاہ کیا ہے پھر آپ
نے حضرت یونس(ع) کے واقعات اس کے سامنے بیان فرمائے اس غلام کی آنکھوں سے آنسو
جاری ہوگئے اس نے اٹھ کر حضرت رسول اکرمۖ کے ہاتھوں کو بوسہ دیا اور کہنے لگا میں
آپ کی
30
نبوت اور آپ کے خدا پر ایمان لاتاہوں
۔ یہ سن کر حضرت بہت خوش ہوگئے جب مکہ کی طرف روانہ ہوئے اپنی ساری تکلیفیں اور پتھروں
کے زخم سب کچھ فراموش کرچکے تھے پیغمبر اکرم ۖ صبر تحمل سے
کام لیتے ہوئے تبلیغ دین کے فرائض کی انجام دہی میں ہمیشہ مصروف رہتے تھے بڑے وثوق
سے یہ بات کہی جاسکتی ہے کہ دین اسلام کی پیشرفت اور فروغ میں پیغمبرۖکا جذبۂ صبر وتحمل کار فرما تھا۔
اہل بیت رسولۖ کی دعاؤں اور
مناجاتوں کا پڑھنا انسانی صفات اور اعلی مدارج کے حصول کا باعث بنتاہے ان مناجاتوں
میں سے ایک "مناجات محبّین " ہے یعنی خدا کے دوست داروں کی مناجات ۔ اس
مناجات میں محبت و قربت الہی کا ذکر ہے حضرت امام سجاد (ع) اس مناجات کے آغاز میں
خدا سے محبت خالص کی درخواست کرتے ہیں۔ حضرت امام سجاد کا پاکیزہ دل محبت الہی سے
سرشار ہے لیکن آپ خدا سے محبت کی انتہا طلب فرماتے ہیں یعنی آپ یہ چاہتے ہیں
کہ خدا کی محبت کے سوا آپ کے قلب مطہر میں اور کچھ بھی باقی نہ رہے۔
حضرت امام سجاد(ع) اپنی مناجات میں
معبود حقیقی سے راز ونیاز کرتے ہوئے فرماتے ہیں" پروردگارا ہمیں اپنے ان
بندوں میں قراردے جنھیں تونے اپنی دوستی اور اپنے تقرب کے لئے منتخب فرمایاہے،اپنی
محبت وعشق کے لئے خالص بنا دیاہے ،وہی بندے جوتیرے دیدار کے مشتاق اور تیرے ہر
فیصلے سے راضی وخوشنود ہیں" حضرت امام سجاد (ع) نےخداسے عشق ومحبت خالص
کی دعا اس لئے فرمائی ہے کہ ممکن ہے انسان پروردگار سے محبت رکھتاہو لیکن اس کی
محبت خالص نہ ہو۔ سعادت کے حصول کے لئے صرف خداسے دوستی کافی نہیں ہے بلکہ ہمیں
چاہیےکہ دوسروں سے زیادہ خدا سے محبت والفت کریں اور اسے دوست رکھیں اور یہ دوستی
ہمارے اعمال کے ذریعے ظاہر ہو۔ جب ہم خدا کو دوسروں سے زیادہ دوست رکھیں گے تو پھر
خدا ہمیں حقیقی ایمان کی دولت سے نواز دےگا اور یہی حقیقی ایمان اس کی دوستی کا
ثبوت قرارپائے گا۔ سورۂ بقرہ کی 165ویں آیت میں اسی سلسلے میں ارشاد الہی ہے
" جولوگ صاحب ایمان ہیں خدا سے انھیں بہت زیادہ محبت ہے۔ حضرت امام سجاد (ع)
بارگاہ الہی میں مناجات کرتے ہوئے فرماتے ہیں" اے میرے مالک مجھے ان لوگوں
میں قرار دے جنھیں تونے اپنے جوار میں جگہ دی ہے اور مقام صدق وصفا پر فائز کیا ہے
اور معرفت کے مرتبہ کے حصول کے لئے مختص کرکے اپنی پرستش اور بندگی کے لائق بنارکھاہے"
یہ ایک مسلمہ حقیقت ہے کہ لقائے الہی
کا شوق ، محبت خدا کے فطری آثار میں شامل ہے ۔ یہ ممکن نہیں ہے کہ کوئی انسان کسی
سے عشق کرتاہو لیکن اس کے دیدار کا مشتاق نہ ہو۔ محبوب تک رسائی کا شوق و
اشتیاق جس قدر بڑھتا جائے گا اس کی محبت میں اسی قدر اضافہ بھی ہوتاجائے گا۔ اپنے
محبوب کی قربت اور اس کے ساتھ زندگی بسر کرنا ہر انسان کی سب سے بڑی تمنّا اور
آرزو ہوتی ہے ۔ بلا شبہ قربت الہی اعلی ترین اور عظیم ترین مقام ہے اس مقام تک
رسائی کے بعد انسان تمام رنج وغم اور تمام دشواریوں اور مشکلات سے نجات
پالیتاہےاور اسے ابدی سکون حاصل ہوجاتاہے۔اس بات کا ثبوت یہ ہے کہ فرعون کی زوجہ
آسیہ کو خدا وند متعال اور حضرت موسی(ب) کی نبوت پرایمان لانے کے بعد فرعون
کی جانب سے شدید ایذائیں پہنچائی گئیں کہ وہ عقیدۂ توحید و یکتا پرستی سے دست
بردار ہوجائیں لیکن انھوں نےالفت و عشق الہی کا ذائقہ چکھ لیا تھا اس لئے ان
کے دل میں صرف اور صرف تقرب الہی کی آرزو تھی۔ سورۂ تحریم کی گیارہویں آیت میں اس
واقعہ کی جانب اشارہ کیا گیا ہے ۔ وہ ایسے دشواراور سخت ترین حالات میں بھی خدا سے
راز ونیاز کررہی تھیں کہ" پروردگارا بہشت میں اپنے جوار میں مجھے جگہ
عنایت فرما"
قرب الہی اور اس کی عظمت کا ادراک،
صرف اس کی بندگی کے ذریعے حاصل ہو سکتاہے اسی لئے حضرت امام سجاد (ع) نے خدا سے
دعاکی ہے کہ ان لوگوں میں شامل ہوں جوخدا کی بندگی کے لائق ہیں۔ یعنی انسان اس بات
کو صدق دل سے قبول کرے کہ وہ مکمل طور سے اپنے خالق حقیقی کا نیازمند اور محتاج
ہے۔خدا کی بندگی کا صرف زبان سے نہیں بلکہ ساری زندگی انسان کے اعمال و کردار
ورفتار سے اظہاربھی ضروری ہے۔
31
15:۔ دعا خالقِ حقیقی
سے رابطہ رکھنے کا بہترین طریقہ
پروردگار عالم اس مبارک مہینے میں
اپنی نعمتوں اور برکتوں سے اپنے تمام بندوں کونوازتاہے بھوک اور پیاس کے
تحمل اور روزہ رکھنے کی توفیق عطا کرتاہے اور دعا مانگنے کی دعوت دیتاہے۔
دعا اور مناجات ، انسان کے لئے
اپنے خالق حقیقی سے رابطہ برقرار کرنے کا بہترین راستہ ہے ۔ خدا وند کریم سے رازو
نیاز پروردگار عالم کی جانب انسان کے فطری رجحان کی نشاندہی کرتاہے ۔ ایک روز ایک
شخص پیغمبر اکرمۖ کی خدمت میں حاضر ہوا اور آپ سے سوال
کیاکہ اے رسول خداۖ کیا خدا ہم سے نزدیک ہے اور ہم چاہیں
تو اس سے آہستہ سے راز ونیاز کرسکتے ہیں یا دور ہے کہ اس کو زور سے پکارناپڑے گا؟ رسول
خداۖ نے ابھی لب بھی نہیں کھولے تھے کہ سورۂ بقرہ کی آیت نمبر 186 آپ
پر نازل ہوئی اور" اے پیغمبر اگر میرے بندے تم سے میرے بارے میں سوال کریں تو
میں ان سے قریب ہوں پکارنے والے کی آواز سنتاہوں جب بھی وہ پکارتاہے۔ لہذا مجھسے
طلب قبولیت کریں اور مجھی پر ایمان و اعتقاد رکھیں کہ شاید اس طرح راہ راست پر
آجائیں"
دنیا کے ہر انسان کو زندگی کے تمام
مرحلوں میں ایک مضبوط سہارے اور پشت پناہ کی ضرورت ہوتی ہے تاکہ زندگی کے
مختلف امور کو آگے بڑھایا جاسکے اور ترقی و کمال کے راستے پر گامزن ہوا جاسکے۔
خداوند کریم سے رابطے کے وقت انسان اپنے کو نفسیاتی اعتبار سے خصوصی روحانی
ماحول اور معنوی فضا میں محسوس کرتاہے ۔ صبح کا وقت ایسا قیمتی وقت ہے کہ اس
وقت دعا بہت جلدی باب اجابت تک پہنچ جاتی ہے،خاص طور سے ماہ رمضان کی سحر خداسے
دنیوی اور اخروی حاجتیں طلب کرنے نیز پروردگارسےاستغفار کرنے اور اس کی جانب پلٹنے
کا بہترین وقت ہے۔
گویندہ دوم سامعین آپ نے دیکھا ہوگاکہ
قطب نما ہمیشہ حرکت میں ہوتاہے مگر اس وقت رک جاتاہے جب قبلے سے اسکا رابطہ
ہوجاتاہے آدمی کا دل بھی قطب نما کی مانند لرزاں اور مضطرب ہے مگر جب یاد وذکر خدا
میں مشغول ہو تو انسان کے دل کو سکون ملتاہے ۔ پیغمبر اکرمۖ ہمیشہ مطمئن اور پرسکون رہتے تھے اس لئے کہ ہمیشہ یاد الہی میں
مشغول رہتے تھے اور اٹھتے بیٹھتے ذکر خدا کرتے تھے ۔ اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ آپ
فقط زبان سے ذکر الہی فرماتےتھے بلکہ آپ اپنے سارے امور کی انجامدہی میں مرضئ الہی
کو پیش نظر رکھتے تھے۔
ایک ماں نے اپنے نوجوان فرزند کو گھر
سے باہر جاتے دیکھ کر اس سے سوال کیا بیٹا کہاں جارہے ہو؟ بیٹے نے کہا امی جان
میرا محبوب ترین اداکار اس شہر میں آیاہے میرے لئے اس سے ملاقات اور اس سے گفتگو
کرنے کا یہ سنہری موقع ہے۔ میں جارہاہوں بہت جلدی واپس آجاؤں گا۔ اگر اس کے پاس
مجھسے باتیں کرنے کا وقت ہوا تو کیا اچھی بات ہوگی" وہ اپنے محبوب اداکار کے
دیدار کے تصور سے خوش تھا اور مسکراتاہوا خدا حافظ کہہ کر گھر سے باہر نکل
گیا اور آدھ گھنٹے میں غصّے میں بھرا ہوا واپس آیا ماں نے پوچھا بیٹا کیوں پریشان
ہو؟ کیا ہوا تمھارے محبوب اداکار سے تمھاری ملاقات ہوئی؟
بیٹے نے ناراضگی کا اظہار کرتے ہوئے
جواب دیا ہم اور ہماری طرح بہت سے لوگ اس کے آنے کے منتظر تھے لیکن پتہ چلا کہ آدھ
گھنٹہ پہلے وہ شہر کو ترک کر چکا ہے۔ کاش خدا نے جیسی شہرت اسے عطا کی ہے مجھے
عطاکی ہوتی۔ ماں اپنے بیٹے کی باتیں سن کر اپنے کمرے میں گئی اور تیار ہوکر بولی
بیٹا تم بھی تیار ہوجاؤ چلو ایک جگہ چلتے ہیں۔ بیٹے نے بے اعتنائی کے ساتھ کہا کہ
امی آپ کیا مذاق کررہی ہیں؟ وہ آدھ گھنٹہ پہلے اس شہر کو ترک کرچکا ہے آپ کیا کہنا
چاہتی ہیں؟ ماں نے بڑے پیار سے کہا کہ بیٹا میرے اوپر اعتماد کرو اور میرے ساتھ چل
چلو۔ بیٹے نے نہ چاہتے ہوئے بھی ماں کی بات مان لی کیونکہ وہ ماں سے بہت محبت
کرتاتھا۔ تیار ہوکر دونوں گھر سے باہر نکل گئے چند قدم چلنے کےبعد ماں نے مسجد کی
جانب اشارہ کرتے ہوئے بیٹے سےکہا کہ لو پہنچ گئے۔ بیٹے نے یہ سن کر ناراض ہوتے ہوئے
کہا امی جان ہم نے آپ سے کہہ دیا کہ یہ مذاق کا وقت نہیں ہے۔ماں نے کہا
32
کہ
ابھی تم نے نہیں کہاتھا کہ کاش خدا اس کو اتنی شہرت دینے کے بجائے تمھیں دے دیتا؟
پس خدا ہر ایک سے برتر ہے اس لئے کہ وہی انسان کو شہرت و محبوبیت عطا کرتاہے اس سے
بڑھ کر اور باعث افتخار کیا ہوگا کہ جوشہرت دینے والا ہے اس سے باتیں کریں۔
ماں کی منطقی بات بیٹے کی سمجھ میں
آگئی اور اس نے یہ درک کرلیا کہ جو ساری نعمتوں کا خالق ہے اس سے گفتگو اور راز
ونیاز ، خدا کے تخلیق کردہ ان انسانوں سے گفتگو کرنے سے زیادہ آسان اور زیادہ
مؤثر ومفید ہے جو اپنے خالق سے زیادہ رابطہ بھی نہیں رکھتے۔ جی ہاں، خداوند
کریم سے گفتگو اور راز ونیاز، ہواؤں کے نرم ولطیف جھوکے کی مانند روح کو بالیدگی
نیز افسردہ مضطرب انسانوں کو سکون وقرار عطاکرتاہے۔ سامعین آئیے اس ماہ خیر
وبرکت میں سر چشمۂ توحید ومعرفت سے قلبی رابطہ برقرار کریں اور تنہائی میں اپنے
خالق ومعبود سے رازونیاز اور دعاؤ مناجات کریں کیونکہ سورۂ رعد کی 28 ویں آیت میں
ارشاد الہی ہے " صرف یادو ذکر خدا سے دلوں کو سکون حاصل ہوتاہے "
خداوند کریم اپنے خاص بندوں سے خصوصی
رابطہ رکھتاہے ان سے خلوت وجلوت میں گفتگو کرتااور ان کے روح و نفس کو سرافراز
فرماتاہے۔ حضرت امام زین العابدین (ع) مناجات محبان الہی میں فرماتے ہیں" اے
وہ معبود کہ جس کے انوار قدسیہ اس کے عاشقوں کی آنکھوں کونورعطا کرتے ہیں اور جس
کی ہستی کی تجلیوں سے عارفوں کے دل منورونورانی ہوجاتے ہیں۔ اے مشتاقوں کے دلوں کی
آرزو اور اے اپنے دوستداروں کی منزل مقصود" جس وقت نور الہی، (جس کی
ضیاء تمام انوار حسیہ سے کہیں زیادہ ہے) عاشقان خدا کے دلوں میں سرایت کرتاہے تو
وہ اتنے مسرور ہوجاتے ہیں کہ دنیا اور اس کی تمام لذتیں، اس نور الہی کے عوض دینے
کو آمادہ ہوجاتے ہیں۔ عشق مادی وانسانی کی داستانوں میں کبھی عاشق ومعشوق کے مابین
اتنا گہرا عشق ہوتاہے کہ جس کا تصور بھی ان لوگوں کے لئے بہت ہی دشوار ہے جو
عشق کی لذت سے ناآشنا ہیں۔ اسی طرح خدا اور اس کے عاشقوں کے مابین ایسے گہرے روابط
ہیں کہ محبت الہی سے بے خبر انسانوں کے لئے جن کا درک کرنا محال ہے۔
حضرت امام زین العابدین (ع) اپنی
عرفانی مناجات میں اپنے خالق سے اس طرح محو گفتگو ہوتے ہیں کہ " اے مشتاقوں
کے دلوں کی آرزو، اے عاشقوں کی منزل مقصود،اپنی دوستی اور اپنے دوست داروں اور ہر
اس عمل کا عشق میرے دل کو عطافرمادے جو تیرے تقرب کاباعث ہو" اس مناجات میں
حضرت امام زین العابدین (ع) خالق حقیقی سے اپنے عاشقانہ رابطے کے علاوہ ایک توحیدی
مسئلے پربھی تاکید فرماتے ہیں۔ وہ مسئلہ یہ ہے کہ عاشقان الہی کے لئے محبت خدا سے
حاصل ہونے والے تمام نتائج کا سرچشمہ لطف وعنایت الہی ہے اور جب
تک پروردگار کی مرضی نہ ہوکوئی بھی اس کی الفت ودوستی کے درجہ اور مرتبہ کو حاصل
نہیں کرسکتاہے ۔ اسی طرح حضرت امام زین العابدین (ع) خدا سے اس کی نعمت الفت ومحبت
طلب کرتے ہیں اور محبت الہی کا لازمہ یہ ہے کہ جب انسان خدا سے محبت طلب کرے
گا تو لازما خدا کے دوستوں سے بھی الفت کرے گا۔اسی لئے آپ نے اپنے خالق سے اس کی
محبت کے ساتھ اس کے عاشقوں کی بھی محبت والفت طلب فرمائی ہے ،
یہ محال ہے کہ انسان خدا کو دوست رکھے
اور اس کے پیغیمبر کو جو حبیب الہی ہیں، دوست نہ رکھے۔ خدا کی محبت و دوستی کا
معیار ہی اس کے پیغمبر کی دوستی ومحبت ہے ۔ اور حبیب الہی کی محبت والفت خدا کی
محبت میں اضافے کا باعث ہے۔ حضرت امام سجاد (ع) اپنی مناجات میں خداسے ایسے
امور کی بھی محبت و الفت کی درخواست کرتے ہیں جو محبت الہی تک رسائی کا وسیلہ قرار
پائے۔حضرت اپنی اس مناجات کے آخری حصہ میں اپنے معبود سے یہ دعا فرماتے ہیں
کہ " میرے مالک مجھ پر لطف وعنایت کی نظر فرما اور کبھی مجھے اپنی نظر عنایت
سے محروم نہ فرمانا اور مجھے اپنی منظور نظر سعادت وکامرانی عطا فرما اے اپنے
بندوں اور اپنی مخلوقات کی دعائیں قبول فرمانے والے اے ارحم الراحمین۔
33
16:۔ پیشگی منفی رائے قائم
کرنا اچھی بات نہیں ہے
روزے کے ایام بڑی تیزی سے گزرتے جارہے
ہیں اس مبارک مہینے میں ضیافت الہی اور خدا کی جانب سے اس کی عبادت و بندگی کی
توفیق حاصل ہونے پر اس کے شکر گزار ہیں۔
اگرہم آئینے میں اپنے چہرے کے تل کو
قریب سے دیکھیں تو صرف کالے نشان کے علاوہ اور کچھ نہیں دکھائی دے گالیکن اگر
تھوڑی دور سے آئینے میں اپنا مکمل چہرہ اور پوری صورت دیکھیں تو وہ سیاہ تل، پورا
چہرہ دکھائی دینے کے سبب برا نہیں معلوم ہوگا اور توجہ صرف اس تل پر مرکوز
نہیں ہوگی۔
پیشگی منفی رائے قائم
کرنا اچھی بات نہیں ہے ۔ فرشتوں نے بھی انسان کے سلسلے میں از قبل رائے کا
اظہارکیا تھا ۔ پروردگار عالم نے جب فرشتوں سے فرمایا" میں زمین پر اپنا
جانشین اور خلیفہ بنانے والا ہوں" توسارے فرشتے بول اٹھے" پروردگار کیا
اس کو روئے زمین پر اپنا خلیفہ بنائے گا جو فساد وخونریزی برپا کرے" خداوند
کریم نے جواب میں فرمایا "جن حقائق سے ہم واقف ہیں تم لوگ ان سے آگا ہ نہیں
ہو" یعنی آدم کی شخصیت کے دوپہلو ہیں فرشتوں نے صرف ایک پہلو کو مد نظر
رکھا اور از قبل آدم کے بارے میں منفی رائے قائم کرلی جو حقیقت سے پرے تھی ۔ ہمارا
دستور یہ ہے کہ ہم صرف ایک پہلو کو دیکھتے ہیں ، ہم موسم خزاں کو دیکھتے ہیں لیکن
فصل بہار کو نہیں دیکھتے، موسم سرما کو دیکھتے ہیں لیکن گرمی کے موسم کا مشاہدہ
نہیں کرتے۔ ہم کانٹے دیکھتے ہیں لیکن پھولوں کی جانب نظر نہیں کرتے ۔ ہمیں انسان
کے دونوں پہلوؤں کو مد نظررکھنا چاہیے۔اسی لئے فرزند رسول حضرت امام جعفر صادق (ع)
فرماتے ہیں" خدا نے فرشتوں کو ان کی فکرکی عدم صحت کی جانب متوجہ کرانے کے
لئے دو امور انجام ديے۔ ایک حضرت آدم (ع) کے ساتھ اور ایک فرشتوں کے ساتھ۔خدا وند
کریم نے حضرت آدم کو تمام انبیاء اور ائمّہ علیھم السلام کے اسمائے گرامی تعلیم
فرمادیے اور ادھر فرشتوں کو ان تمام عظیم شخصیات کی روحوں کا مشاہدہ کرادیا۔ پھر
ان سے سوال فرمایا کہ ان شخصیات کے بارے میں جانتے ہوکہ یہ کون لوگ ہیں؟ یعنی خدا
اپنے فرشتوں کو یہ بتانا چاہتا تھا کہ جب تم لوگ ان عظیم ہستیوں کو نہیں جانتےتو
ان کے بارے میں از قبل فیصلہ کیوں کررہے ہواور انھیں زمین میں مفسد اور خونریز
کیوں بنارہے ہو؟ کسی کے بارے میں کوئی رائے قائم کرنے سے پہلے ضروری ہے کہ
جس کے بارے میں اظہار رائے کرنا ہے، انسان پہلے سے مکمل طور سے اس کے بارے
میں علم رکھتاہو ورنہ بعد میں پیشیمانی کا سامنا کرنا پڑسکتاہے۔
ایک ہسپتال سے ایک سرجن کو آپریشن کے
لئے ٹیلیفونی رابطہ کرکے بلایا گیا وہ ڈاکٹر فورا تیار ہوکر گھر سے چل پڑا ہسپتال
میں پہنچتے ہی اس نے اپنے آپریشن روم میں جانے والا لباس تبدیل کیا اور آپریشن روم
میں پہنچ گیا ۔ جس لڑکے کا آپریشن کرنا تھا اس کا باپ کوری ڈور میں کھڑا ڈاکٹر کے
آنےکا منتظر تھا وہ ڈاکٹر کو دیکھتے ہی غصّے میں برس پڑا۔آپ نے آنے میں کیوں اتنی
دیر لگادی؟ آپ کو نہیں معلوم کہ میرے بیٹے کی زندگی خطرے میں ہے اور آپ کو
اپنی ذمے داری کا کوئی احساس بھی نہیں ہے ؟ ڈاکٹر نے زبردستی مسکراتے ہوۓ کہا جناب ہم ہسپتال میں موجود نہیں تھے ۔ ہمیں ٹیلی فون کر کے
بلایاگیا ہے اور ہم سب کچھ چھوڑ کے بھاگے چلے آرہے ہیں۔آپ صبر سے کام لیں اور آرام
سے بیٹھیں تاکہ میں بھی اپنا کام انجام دے سکوں" مریض کا باپ غصّے میں چلایا
واہ جناب واہ میں آرام سے بیٹھوں؟اگر آپ کا بیٹا اس وقت آپریشن روم میں ہوتا تو
کیا آپ آرام سے بیٹھتے؟ پھر مسکرا کر ڈاکٹر نے کہا کہ قرآن نے جو ایسے موقع پر کہا
ہے وہی آپ کی بات کا میرے پاس جواب ہے"ہم خدا کے پاس سے آئے ہیں
اور ہمیں اسی کی طرف واپس بھی جانا ہے " شفا دینے والا خدا ہے ڈاکٹر
کسی کی عمر میں اضافہ نہیں کرسکتا۔ آپ جائیے اپنے بیٹے کی شفایابی کی خدا سے دعا
کیجئے اور ہم خدا وند متعال کی مدد وعنایت سے اسے بچانے کی ہر ممکن
کوشش کریں گے" لڑکے کا باپ بڑبڑایا" خود کسی قابل نہ ہوں تو دوسروں کو
نصیحت کرنا بڑا ہی آسان ہوتا ہے" ڈاکٹر آپریشن روم میں چلا گیا اور آپریشن
کرنے میں مصروف ہوگیا۔ آپریشن میں کئی گھنٹے لگ گئے۔ آپریشن روم کا دروازہ کھلا
اور ڈاکٹر خوش خوش باہر آیا اس نے لڑکے کے والد سے کہا کہ خدا کا شکرکہ آپ کا بیٹے
کو دوبارہ زندگی مل گئی " پھر اس نے مریض کے والد کے جواب کا انتظار کئے بغیر
اسپتال سے باہر جاتے ہوئے کہا کہ اگر کچھ پوچھنا ہوگا تو نرس سے پوچھ لیجئے گا۔
ڈاکٹر کے جانے کے کچھ دیر بعد نرس آگئی لڑکے کے والد نے اس نرس سے کہا کہ یہ ڈاکٹر
صاحب کتنے مغرور ہیں؟ تھوڑی دیر رک نہیں سکتے تھے کہ ہم ان سے اپنے بچّے کا
کچھ حال چال پوچھ سکتے؟
34
نرس نےجس کی آنکھیں آنسوؤں سے نم
تھیں، جواب دیا بھائی صحب آپ کو معلوم ہونا چاہیے کہ گزشتہ روز ڈاکٹر صاحب کا لڑکا
ڈرائیونگ حادثے میں جاں بحق ہوگیا ۔ جس وقت میں نے انھیں فون کیا تھا وہ اپنے بچے
کے غسل وکفن میں مصروف تھے اور انھوں نے ایسے حالات میں آکر آپ کے بیٹے کی جان
بچائی اور ا ب وہ یہاں سے فورا چلے گئے تاکہ اپنے بچے کی تدفین میں شریک ہو
سکیں"
اس واقعہ سےہمیں نصیحت وسبق حاصل کرنا
چاہیے اور خدا وندکریم کی بارگاہ میں یہ دعا کرنی چاہیے
پروردگارا اس مبارک مہینے میں ہماری
مدد فرما کہ ہم دوسروں کےبارےمیں اپنے بے بنیاد نظریہ کے جلد بازانہ اظہار
سے پرہیز کریں اور اس با برکت ایام میں تہمت اور غیبت سے اجتناب کریں۔
حضرت امام زین العابدین (ع) کی پندرہ
معروف مناجاتوں میں سے ایک مناجات جو "مناجات متوسلین" یعنی خدا
سے توسل اختیار کرنے والوں کی مناجات کے نام سے معروف ہے۔اس مناجات کے آغاز میں
حضرت امام سجاّد (ع) بارگاہ الہی میں عرض کرتے ہیں " خدایا تیری بارگاہ تک
رسائی کے لئے تیری شفقت ومہربانی کے وسیلے کے سوا میرے پاس دوسرا کوئی وسیلہ اور
ذریعہ نہیں ہے اور تیرے پیغمبر رحمت کی شفاعت وعنایت کے علاوہ اور
کوئی دستاویز میرے پاس موجود نہیں ہے ایسے پیغمبر کی شفاعت جو دوعالم کے غم واندوہ
سے امت کو نجات دلانے والا ہے ۔ میرے مالک انھیں میری بخشش اور سعادت وخوش
بختی نیز اپنی بہشت رضوان کے حصول کا وسیلہ اور ذریعہ قرار دے " گویندہ اول
سامعین جو چیز تقرب الہی کا ذریعہ ہو اسے وسیلہ کہتے ہیں۔ وہ تمام
اعمال خیر کہ جو انسان انجام دیتےہیں وہ تقرب الہی کا وسیلہ اور مقدمہ شمار ہوتے
ہیں لیکن قابل غور مسئلہ یہ ہے کہ پروردگار نے اعمال خیر کی انجام دہی کے جسمانی،
روحانی اور فکری وسائل، انسان کے اختیار میں دیے ہیں۔ اگر انسان کو قرائت قرآن کے
لئے آنکھیں اور ذکر الہی کے لئے زبان عطا نہ کی گئی ہوتی تو اس کی زندگی کسی کا م
کی نہیں ہوتی۔ اسی طرح اگر عمل خیر کی انجام دہی کے لئے ہمت و حوصلہ اور عزم
وارادہ نہ ہو تا تو انسان کوئی نیک عمل انجام نہیں دے سکتاتھا۔ بنابریں خدا
وند کریم کے لطف وکرم اور س کی توفیق کے بغیر انسان کوئی بھی کار خیرانجام دے ہی
نہیں سکتا۔ حضرت امام زین العابدین (ع) نےتقرب الہی کے وسائل میں ایک عظیم
وسیلہ حضرت رسول اکرم ۖ کے وجود اقدس کو قرار دیا ہے اور یہ وہ
عظیم اور قیمتی وسیلہ ہے کہ قربت الہی کے حصول کے لئے ہر قسم اور ہرطبقے سے تعلق
رکھنے والے افراد کو جس کی اشد ضرورت ہے۔خدا نے حضرت رسول اکرم ۖ کو اعلی ترین مقام یعنی مقام شفاعت عطا فرمایا ہے سورۂ ضحی کی
پانچویں آیت میں ارشاد الہی ہے " اور عنقریب تمھارا پروردگار تمھیں اس قدر عطا
کر دے گا کہ خوش ہو جاؤ گے" یہ آیت حضرت رسول اکرمۖ کے مقام شفاعت
پر فائز ہونے پر شاہد ہے مفسرین قرآن اس آیت کو قرآن کی سب سے زیادہ امید
بخش آیت سمجھتے ہیں۔ حضرت امام زین العابدین (ع) خدا سے یہ دعا فرماتے ہیں کہ ان
دونوں وسیلوں کو میری بخشش اور اپنی رضاؤ سعادت کے حصول کا وسیلہ قرار دے۔حضرت
اپنے اس بیان سے ہمیں یہ سمجھانا چاہتے ہیں کہ مہرو رحمت الہی کے بغیر شفاعت
پیغمبر ۖ انسان کو نصیب نہیں ہوسکتی۔انسان اس صورت میں شفاعت کا مستحق ہوگا
جب اپنےآپ میں شفاعت کے حصول کی اہلیت وصلاحیت پیدا کرلے۔ حضرت امام زین العابدین
(ع) اپنی "مناجات متوسلین "میں بارگاہ الہی میں عرض کرتے ہیں"
پروردگارا میری امید تیری بارگاہ لطف وکرم سے بندھی ہوئی ہے اور تیری عنایت واحسان
کا خواہاں ہوں۔میرے مالک اپنے لطف وکرم سے میری امید وآرزو پوری فرمادےاور ہمارے
امور کو نیک انجام کے ساتھ منزل اتمام تک پہنچادے" اپنی اس مناجات میں
حضرت امام سجاد (ع) خداسے خیر وہدایت پر اپنی زندگی کےانجام کے خواہاں ہیں یعنی
بارگاہ الہی سے توسل اور مناجات کی توفیق حاصل ہونے کے بعد جو نیک اور اچھے
اعمال انجام دیے ہیں، خدا مدد کرے تاکہ پھر گناہوں کے ارتکاب کے ذریعے اپنے انجام
دیے ہوئے نیک اعمال کو لوگ تباہ نہ کریں۔ کیونکہ مومن کے لئے سب سے بڑی آفت وبلا
یہ ہے کہ وہ ایک مدت تک خدا کی عبادت وبندگی کرے اور اپنی حیات کی آخری منزل میں
گناہوں کے ارتکاب کے ذریعے اپنے انجام دیے ہوئے نیک اور اچھے اعمال کو خود تباہ
کردے۔
کتابیات:۔www.iri urdu.com
No comments:
Post a Comment