حضرت امام
محمد مہدی علیہ السلام (عجّل اللّہ
فرجہ الشریف)
مرتبہ
نسیم عباس نسیمی
امام زمان (عج) اپنے ظہور
کے وقت کیوں گزشتہ ابنیاء (ع) کی کتابوں کو ساتھ لے آئیں گے؟
امام زمان(ع) کے ظہور کے
وقت گزشتہ انبیاء (ع) کی کتابوں کو ساتھ لے آنے کے کیا معنی ہیں؟
آسمانی کتابیں، صحیح اور
تحریف نہ شدہ صورت میں ائمہ اطہار (ع) کے پاس موجود ہیں۔ ظاہر ہے کہ اس وقت بھی
امام زمانہ (عج) کے پاس ہیں۔ اس سلسلہ میں مندرجہ ذیل روایت میں آیا ہے:
حسین بن ابی العلاء کہتے ہیں: امام صادق (ع) نے فرمایا:" بیشک میرے پاس جفر ابیض ہے" میں نے کہا: وہ کیا چیز ہے؟ فرمایا: داؤد (ع) کی زبور، موسی(ع) کی توریت، عیسی (ع) کی انجیل، صحف ابراھیم، احکام حلال و حرام اور مصحف فاطمہ (ع) میرا اعتقاد نہیں ہے کہ اس میں قرآن مجید ہوگا، بہرحال لوگ جو کچھ اس کے بارے میں ہم سے محتاج ہیں، اس میں موجود ہے اور ہم کسی کے محتاج نہیں ہیں۔ وہ اس قدر جامع ہے کہ اس میں ایک تازیانہ، نصف تا زیانہ، ایک چوتھائی تازیانہ کی سزا کا حکم ہے اور ایک خراش کا تاوان تک درج ہے۔ میرے پاس جفر احمر ہے۔ میں نے کہا: جفر احمر میں کیا ہے؟ فرمایا: " اسلحہ ہے اسے صرف خون کے لئے کھولتے ہیں، صاحب شمشیر اسے قتل کرنے کے لئے کھولتاہے۔[1]"
اس بنا پر:
اولاً: یہ سب چزیں خدا کا کلام اور مقدس ہیں اور اسی زمانہ سے دست بدست اس کے ہاتھ میں پہنچتی ہیں جو اس کا شائستہ ترین ہو۔ چونکہ ادیان آسمانی کی کتابیں سبوں کے لئے خاص کر اہل کتاب کے لئے جذابیت رکھتی ہیں، اس لئے ان کا امام زمانہ (عج) کے ہمراہ ہونا دعوت الہی کو قبول کرنے کے لئے انھیں مشتاق کرسکتا ہے۔
ثانیاً: انسان، تمام انبیاء(ع) کے پیغام کو صحیح صورت میں بخوبی ادراک کرسکتا ہے کہ یہ صرف ان کتابوں کو پیش کرنے کی صورت میں ہی ممکن ہے۔
ثالثاً: جیسا کہ مذکورہ روایت میں اشارہ کیا گیا، ممکن ہے ائمہ اطہار (ع) کے علوم کا ایک منبع یہی تحریف نہ شدہ آسمانی کتابیں ہوں۔
حسین بن ابی العلاء کہتے ہیں: امام صادق (ع) نے فرمایا:" بیشک میرے پاس جفر ابیض ہے" میں نے کہا: وہ کیا چیز ہے؟ فرمایا: داؤد (ع) کی زبور، موسی(ع) کی توریت، عیسی (ع) کی انجیل، صحف ابراھیم، احکام حلال و حرام اور مصحف فاطمہ (ع) میرا اعتقاد نہیں ہے کہ اس میں قرآن مجید ہوگا، بہرحال لوگ جو کچھ اس کے بارے میں ہم سے محتاج ہیں، اس میں موجود ہے اور ہم کسی کے محتاج نہیں ہیں۔ وہ اس قدر جامع ہے کہ اس میں ایک تازیانہ، نصف تا زیانہ، ایک چوتھائی تازیانہ کی سزا کا حکم ہے اور ایک خراش کا تاوان تک درج ہے۔ میرے پاس جفر احمر ہے۔ میں نے کہا: جفر احمر میں کیا ہے؟ فرمایا: " اسلحہ ہے اسے صرف خون کے لئے کھولتے ہیں، صاحب شمشیر اسے قتل کرنے کے لئے کھولتاہے۔[1]"
اس بنا پر:
اولاً: یہ سب چزیں خدا کا کلام اور مقدس ہیں اور اسی زمانہ سے دست بدست اس کے ہاتھ میں پہنچتی ہیں جو اس کا شائستہ ترین ہو۔ چونکہ ادیان آسمانی کی کتابیں سبوں کے لئے خاص کر اہل کتاب کے لئے جذابیت رکھتی ہیں، اس لئے ان کا امام زمانہ (عج) کے ہمراہ ہونا دعوت الہی کو قبول کرنے کے لئے انھیں مشتاق کرسکتا ہے۔
ثانیاً: انسان، تمام انبیاء(ع) کے پیغام کو صحیح صورت میں بخوبی ادراک کرسکتا ہے کہ یہ صرف ان کتابوں کو پیش کرنے کی صورت میں ہی ممکن ہے۔
ثالثاً: جیسا کہ مذکورہ روایت میں اشارہ کیا گیا، ممکن ہے ائمہ اطہار (ع) کے علوم کا ایک منبع یہی تحریف نہ شدہ آسمانی کتابیں ہوں۔
امام زمانه(عج) کے قیام
کے بعد عالمی سطح پر حکومت عدل و انصاف کب قائم هوگی ؟کیا اس حکومت کے قائم هونے
کے بعد غریبی اور ظلم دنیا سے ختم هو جائے گا ؟
امام زمانه (عج) کے ظهور
کے بعد حکومت عدل و انصاف کے برقرار هونے تک کتنا وقت لگے گا؟ کیا آپ کی حکومت
قائم هونے کے بعد کوئی بھی فقیر یا ظالم سماج میں دکھائی نهیں دے گا ؟ اگر نهیں تو
ظاهراً کوئی گناه بھی سر زد نه هوگا؟
روایات سے پتا چلتا هے که
امام زمانه (عج) آﭩﮭ مهینه تک ظالموں اور ستمگروں سے جنگ کریں گے اور
اس کے بعد مختلف ممالک پر آپ کا قبضه هو جائے گا اور پوری دنیا میں عدل کی حکومت
قائم هو جائے گی ، شر ک ، ظلم اور نفاق کا خاتمه هو جائے گا ، کو ئی بھی ظالم ،
حکومت نهیں کرے گا ، اور گناه کا زمینه خصوصاً اجتماعی سطح پر ختم هو جائے گا زمین
اپنے خزانوں کو اگل دے گی اور فقراء کا حق ظالموں اور دولتمندوں سے لے کر فقیروں
میں تقسیم کردیا جا ئے گا اس طرح که صدقه یا زکات نکالنے کی ضرورت هی نه هوگی کیوں
که سارے لوگ غنی اور دولتمند هو جا یئں گے۔
امام مهدی
(عج) کے ظهور اور اس کے بعد رو نما والے واقعات پر ایمان لانا ایمان بالغیب کے ان
مصادیق میں سے هے جس کو قبول کرنا اور اس کی خصوصیتوں کو جاننا تعبد اور معتبر
حدیث و روایت کے بغیر ممکن نهیں هے ۔[1]
لیکن اکثر
و بیشتر روایات اس لمبے عرصه میں ﻜﭽﮭ آفتوں جیسے تقیه یا دشمنوں کی طرف سے جعل و
تحریف اور فراموشی کا شکار هو گیئں یا طباعت کا وسلیه فراهم نه هونے کے سبب گم
هوگیئں ، ظهور سے قبل اور اس کے بعد رو نما هونے والے واقعات کے جزیئات کی شناخت
جس طرح حقائق کے تلاش شیعوں اور منتظروں کی طبیعت کو مطلوب هے نا ممکن هے خاص کر
جب هم اس سلسله میں موجود روایات میں بعض تعارض رکھنے والی اور با هم جمع نه هونے
والی روایتوں سے بھی دوچار هوتے هیں ۔ لهذا مذکوره سوال کا جواب خصوصاً پهلے حصه
کا ظنّی هوگا اور سوال کے جواب کے لیئے سوال کو چند الگ الگ حصوں میں تقسیم کرنا
پڑے گا لهذا هر حصه کو جدا کرکے ان کا جواب ذیل میں دیا جا رهاهے ۔
امام مهدی
(عج) کے ظهور کے بعد حکومت عدل و انصاف کے قائم هونے میں کتنا وقت لگے گا ؟
امام
باقر(علیه السلام) فرماتے هیں : بارهویں امام پورے آﭩﮭ مهینے تک هاﭡﮭ میں شمشیر لے کر خدا کے دشمنوں کو واصل جهنم
کریں گے یهاں تک که خداوند عالم خوشنود هوجائے جو روایتیں اس وقت همارے هاتھوں میں
هیں ان سے پتا چلتا هے که آپ مکّه میں ظهور فرمایئں گے ۔[2]
اور چاهنے
والوں سے ان سے ملحق هونے کے بعد عراق اور پھر شام (سوریه) اس کے بعد بیت المقدس
کی طرف جایئں گے اور اس کے بعد سبھی یورپی ممالک ، ترکی ، چین ، افغانستان اور
دیگر تمام ممالک پر آپ کا قبضه هوگا اور پورے آﭩﮭ مهینه جنگ کے بعد حکومت عدل و انصاف قائم هوگی
جس کے بعد عالمی سطح پر امن و امان قائم هو جائے گا [3] ۔ آپ (علیه السلام) کی
حکومت کتنے دن رهے گی اس سلسله میں روایات میں اختلاف هے ۔
19 سال اور ﻜﭽﮭ مهینه ، 7 سال ، 40
سال اور 306 سال جس کا هر سال 20 سال یا 40 سال کے برابر
هوگا اور آپ کی وفات یا شهادت کے 40 دن بعد قیامت آئے گی [4] ۔ اور زمین و آسمان تباه
هو جا یئں گے ۔
کیا آپ
(علیه السلام) کی حکومت کے بعد کو ئی فقیر نظر آئے گا ؟
جب حضرت
مهدی (عج) ظهور فرمایئں گے تو زمین اپنے تمام خزانے امام (علیه السلام) کے حواله
کردے گی اور فقیروں و ضعیفوں کا حق بھی ظالموں و دولتمندوں سے لے لیا جائے گا ، اس
کے بعد عدل و انصاف سے ان کے درمیان تقسیم کیا جائے گا یهاں تک که نه کوئی فقیر
باقی ره جا ئے گا اور نه زکات کا کوئی مصرف هوگا ۔
امام صادق
(علیه السلام) فرماتے هیں : ( دنیا عدالت کے قیام سے خوشحال هوگی آسمان سے رحمت
کی بارش هوگی درخت اهنے میوے نمایاں کردیں گے اور زمین اپنے سبزوں کو باهر نکال کر
اس پر رهنے والوں کے لیئے سجاوٹ کرے گی )[5] ۔
امام زمانه
(عج ) منادی کو حکم دیں گے که لوگوں میں اعلان کردے که جسے بھی مال کی ضرورت هے وه
آئے کوئی بھی نه آئے سوائے ایک آدمی جو کهے گا ((میں محتاج هوں )) تو امام مهدی
(عج ) فمایئں گے جا ؤ خازن کے پاس اور کهو که مهدی (عج) نے حکم دیا هے که مجھے مال
دے دو ۔ تو خازن کهے گا چادر لاؤ ، وه شخص چادر پھیلا کر اسے بھرے گا جونهی اپنے
شانوں پر رکھے گا شرمنده هوکر اپنے آپ سے کهے گا : اس امت محمدی میں سب سے زیاده
لالچی میں هی کیوں رهوں ، دوسرے لوگوں کی طرح میں بھی اس برائی سے پاک کیوں نه
رهوں ، اس کے بعد وه مال خازن کے سپرد کردے گا مگر وه قبول نهیں کیا جائے گا اور
امام مهدی (عج) فرمایئں گے : ((هم جو عطا کرتے هیں اسے واپس نهیں لیتے ))[6] ۔
رسول اکرم
(صل الله علیه وآله وسلم) فرماتے هیں : ((لوگ ایسے کو تلاش کریں گے جو ان سے صدقه یا هدیه قبول کرے،
اپنے مال کی زکات نکالیں گے لیکن اسے لینے والا کوئی نه ملے گا اس لیئے که الله کے
فضل و کرم سے سب امیر هوئے هوں گے ))[7]
کیا امام
زمانه (عج) کی حکومت هونے کے بعد سماج میں کوئی ظالم دکھائی دے گا ؟
حضرت امام
زمانه (عج) کی حکومت کا معیار پوری دنیا میں صلح ، امن و امان اور عدل و انصاف
قائم کرکے ، فساد و ظلم و جور اور هر طرح کی بربریت و جنایت کا خاتمه کرنا هے جیسا
که هر نبی کا اهم مقصد بھی یهی تھا ، لیکن ان حضرات کو اور ان کے اوصیاء کو بھی
اپنے زمانه میں اس حد تک کامیابی حاصل نهیں هوئی لیکن صلح و امنیت برقرار کرنا هر
ایک کا منشور رهاهے اور پوری تاریخ میں هر پاک فطرت انسان ایسےایام کا ان عالی
خصوصیات ساﭡﮭ منتظر رها
هے ۔
چوں که
خداوند عالم کے انبیاء و اوصیاء معصوم هیں اور کبھی بھی وعده خلافی نهیں کرتے هے
اور نه هی بے وجه لوگوں کو امید دلا کر منتظر رکھتے هیں لهذا یه وعده بھی پورا
هوگا وه بھی عالی شان طریقه سے ۔
بلکه اس
آزادی کے دن کو انسان کی خلقت کا مقصد کها جا سکتا هے وه دن جس میں خدا کے فضل و
کرم سے سب کے سب ایک هی امت بن کر توحید کے پرچم تلے قرار پایئں گے اور کفر و شرک
و نفاق کا قلع و قمع هوجائے گا [8] ۔ اس بارے میں تصریح کرنے
یا اشاره کرنے والی حدیثیں بهت زیاده هیں من جمله امام حسن عسکری (علیه السلام)
اپنے فرزند (عج) سے فرماتے هیں : ((اے میرے بیٹے! گویا میں وه وقت دﭔﻜﮭ رهاهوں که جب خد اکی نصرت تمهارے شامل حال هے
، کام آسان هوگیا هے اور تمهاری عزت و عظمت اوج پر هے ۔ ۔ ۔ اس وقت حکومت حقه کی
صبح هوگی اور باطل کی تاریکیاں تمام هوں گی خداوند عالم تمهارے هاتھوں ظالموں کی
کمر توڑدے گا ۔ دین کے آداب واپس آجایئں گے سفیدی صبح دنیا کو منور کرے گی ایک
کونے سے دوسرے کونے تک صلح اور امن و امان هوگا ۔ ۔ ۔ تمهارے دشمن ذلیل و رسوا هوں گے ، تمهارے دوست
صاحب عزت اور کامیاب هوں گے اس روئے زمین پر جرائم پیشه ، ظالم ، منکر خدا، سرکش،
باغی ، جارح و مخالف اور دشمنوں میں سے کوئی ایک بھی باقی نه رهے گا اس لیئے که جو
خدا پر پھروسه کرتا هے اس کے لیئے خدا هی کافی هے یقیقناً خداوند عالم اپنے امر کو
انجام تک پهنچائے گا اور اپنا وعده پورا کرے گا که بیشک خداوند عالم نے هر چیز کے
لیئے ایک مقدر معین کی هے [9] - [10] ۔
کیا حضرت
مهدی (عج) کی حکومت کے بعد کوئی گناه سر زد نهیں هوگا ؟
انسان سے
گناه سر زد هونے کا سب سے اهم سبب ایک طرف مال دنیا کو جمع کرنے کی طمع و لالچ هے
تو دوسری طرف مال دنیا کی ضرورت کا احساس هے ۔
جب انسان
وافر مقدار میں دولت و ثروت سے مالامال هوجاتا هے اور سماج میں عزت مل جاتی هے اور
اس کے نظریات الٰهی هوجاتے هیں اور دنیا کی قیمت اس کی نگاهوں میں بے قیمت هوجاتی
هے اور یه یقین هوجاتا هے که الله کا وعده حق هے اور آخر کار پورا هوکر رهے گا (
چاهے دوسرے لوگ چاهیں یا نه چاهیں اور رکاوٹیں ڈالیں ) اگر انسان کو یه یقین
هوجائے که قیامت هے حساب و کتاب هے جنت اور اس میں موجود چیزوں کا دنیا وما فیها
سے کوئی مقابله نهیں کیا جا سکتا هے تو انسان کے گناه کرنے کا مقصد هی باقی نهیں
ره جاتا ، خاص کر بعض روایتوں کی وجه سے اور بعض محققین کی دلیلوں کے سبب که شیطان
کی عمر بھی آپ (علیه السلام) کے قیام کے ساﭡﮭ ساﭡﮭ ختم هوجائے گی اور وه ملعون بیت المقدس میں
رسول اکرم (صل الله علیه وآله وسلم) کے هاتھوں ذبح کیا جائے گا اور اسی کے ساﭡﮭ ساﭡﮭ اس کے وسوسه و غیره کا بھی خاتمه هوجائے گا [11] ۔
دوسری طرف
سے دیگر بے شمار رکاوئیں جیسے عدل وانصاف کی همه گیر حکومت که جس کی عدالت سے
رهائی ناممکن هے اور امن و امان کا ماحول اور عوام الناس کی طرف سے گناه و فساد کو
قبول نه کرنا ، گناه کے سرزد هونے سے روکیں گے چوں که اس کی کوئی وجه باقی نهیں
رهے گی اور مانع موجود هوگا لهذا کوئی گناه سرزد نه هوگا اس سلسله میں بھی بهت سی
حدیثیں هیں ؛ من جمله : امام صادق(علیه السلام) اس وقت کی توصیف اس طرح فرماتے هیں
: (( غیر شرعی روبط ، شراب خواری ، ربا خواری کا وجود ختم هو جائے گا ، لوگ عبادت
و اطاعت میں مشغول هوجایئں گے امانتوں کی حفاظت کریں گے برے لوگوں کا وجود ختم
هوجائے گا نیک اور صالح افراد باقی رهیں گے ))[12]
پیغمبر
اکرم(صل الله علیه وآله وسلم) اس سچے وعده کے بارے میں فرماتے هیں : ((
خداوندعالم حضرت مهدی (عج) کے ذریعه اس امت کی مشکلوں کو دور فرمائے گا بندوں کے
دلوں کو اطاعت و عبادت سے مملو کردے گا اس کی عدالت همه گیر هوگی خداوند عالم اس
کے ذریعه جھوٹ کا خاتمه کرے گا ، درندگی اور عیب جوئی کی صفت کو نابودکرکے غلامی
کے طوق کو ان کی گردنوں سے اتار دے گا ))[13]
منابع:
1- قرآن کریم
2- امینی ،
ابراهیم ، دادگستر جھان ، صص 338-447
3- حیدری
کاشانی ، حسین ، حکومت عدل گستر ، صص225-301
4- خراسانی ،
محمد جواد، مهدی منتظر(عج) ، صص273-188
5- کورانی ،
علی ، عصر ظهور ، صص351-370
6- جمعی از
نویسندگان ، عدل منتظر ، گفتار 1 ، 11
7- صافی
گلپایگانی ، لطف الله ، منتخب الاثر
8- صافی
گلپایگانی ، لطف الله ، امامت و مهدویت ، ج 3
9- کامل
سلیمان ، روزگار رهائی ، ترجمه علی اکبر مهدی پور ، ج 1 و2
10- مجلسی ،
بحار ، ج 51-52
11- طباطبائی ،
محمد حسین ، تفسیر المیزان ، ج 14 ، صص160-175
[2] الزام الناصب ، ص189 ؛ غیبت نعمانی ، ص 165 ؛ بشارۃ الاسلام
،ص199 ؛ منقول از روزگار رهائی ، ج 1 ۔ ص478 ،ح585
[6]منتخب الاثر ، ص 147 ؛ مسند احمد ، ج 3 ،ص37 ؛
الصواعق المحرقه ، ص164 ؛ ینابیع المودۃ، ص 135 ،ج 3 ، منقول از روزگار رهائی،
ص642 ،ح894 ؛ نیز ص 596-598
[9] بحار،ج 5 ، ص 35 ؛ وفاۃ العسکری ،ص49 ؛ منقول
از روزگار رهائی، ج 1 ، ص530-531؛نیز ص73 ،ح5 ؛ ص 625 ، ح 844
[12] منتخب الاثر ، ص474 ؛ الزام الناصب ص228 ؛
الملاحم و الفتن ، ص54 ، منقول از روزگار رهائی ، ج 2 ، ص600
حضرت امام زمانه (عج) کے
ظهور کی کیا علامات اور نشانیاں هیں؟ اور ان میں سے کون کون سی زیاده موثق اور با
اعتماد هیں؟
حضرت امام زمانه (عج) کے
ظهور کی کیا علامات اور نشانیاں هیں؟ اور ان میں سے کون کون سی زیاده موثق اور با
اعتماد هیں؟
«ظهور» کے
بارے میں سوال کرنا بهت نیک اور اچھی بات هے، لیکن اس کے پیچ و خم میں یوں گرفتار
نهیں هو جانا چاهئے که اپنے اصلی مقصد (یعنی ظهور کے لئے زمینه سازی کرنے) سے غافل
هو جائیں.
ظهور کی نشانیوں کو کئی حصوں میں تقسیم کیا جا
سکتا هے من جمله: «حتمی» اور «غیر حتمی» نشانیاں.
بهت سے لوگوں کا یه خیال هے که ظهور کو ان
علامتوں کے متحقق هو جانے پر مبتنی کرنا چاهئے! حالانکه حضرت امام زمانه (عج) کی
غیبت کا راز صرف اور صرف الله تعالی کے «اراده» سے وابسته اور جڑا هوا هے اور یوں
نهیں که یه علامتیں اور نشانیاں سو فیصدی هوں. چنانچه بعض احادیث کے مطابق، حضرت
حجت کا ظهور جو الله تعالی کے حتمی وعدوں میں سے هے، اس کے علاوه باقی تمام علامات
– حتی که وه علامات جو حتمی بھی هیں- صرف احتمال کی حد تک هیں اور زیاده سے زیاده
ظهور کے وقت کی مقارنت پر دلیل بن سکتی هیں.
بعض حتمی نشانیاں کچھ اس طرح هیں: «سفیانی» نام
کے ناپاک شخص کا قیام اور خروج کرنا، آسمان میں الله تعالی کی طرف سے اور اسی طرح
شیطان کی طرف سے ایک بهت اونچی آواز کا گونجنا، سورج کا مغرب کی طرف سے طلوع هونا،
باطل کی چھاٶنی میں
داخلی اختلافات اور نفس زکیه کا مارا جانا.
پهلے کچھ
مقدماتی نکات کا بیان ضروری هے اور اس کے بعد تفصیل سے جواب دیں گے:
۱. حضرت امام
زمانه (عج) کے قیام کا مسئله، دنیا کے اهم ترین مسائل میں سے هے، جس کی وجه سے اس
قیام کے اصلی وارث کو «موعود ادیان» اور مصلح جهانی کا لقب دیا گیا هے.
۲. کیونکه آپ
کا ظهور دنیا کے عظیم واقعات میں سے هے، لهذا اس کے ساتھ ایسی نشانیاں هونی چاهئیں
جو اب تک واقع نه هوئی هوں. جس طرح حضرت ختمی مرتبت (ص) کی ولادت جیسے اهم واقعات
بھی کچھ نشانیوں کے همراه تھے.
۳. ان علائم
اور نشانیوں کے فوائد اور ثمرات کا نتیجه کچھ یوں هو سکتا هے:
- ان نشانیوں
میں سے بعض اتنی عظیم هیں که خود قیام اور قیام کرنے والے (عج) کی عظمت اور آپ کی
کرامت کو بیان کرتی هیں.
- ان نشانیوں
میں سے بعض ایسی هیں جو دشمنوں کے دلوں اور ان کی تنظیموں میں رعب اور خوف ڈالنے
کے لئے هیں.
- بعض ایسی
هیں جو اس قیام کے منتظر لوگوں کو خوشخبری دینے کے لئے هیں.
۴. یه بهت اچھی
بات هے که مٶمنین حضرات
ان نشانیوں سے آگاه رهیں تا که دھوکه اور فریب میں مبتلا نه هو جائیں اور هر قسم
کے حادثے کو ظهور کی علامت هی نه سمجھ بیٹھیں کیونکه «جھوٹے مهدی» اور دوسرے دھوکه
باز افراد اسی غفلت سے غلط فائده اٹھا سکتے هیں. اسی طرح حد سے زیاده ان نشانیوں
کی کھوج لگانا بھی صحیح نهیں هے. اور اس کی وجه جواب کے اگلے حصه میں بیان کی جائے
گی.
علائم ظهور
کی تفسیر
ظهور کی
نشانیوں کو مختلف طریقوں سے تقسیم کیا گیا هے، من جمله: حتمی اور غیر حتمی
نشانیاں. اکثر لوگ اس غلط فهمی میں مبتلا هیں که بعض نشانیوں کے حتمی هونے کی وجه
سے «ظهور» سو فیصد انهیں علامتوں سے وابسته هے! حالانکه - بعض روایات کے مطابق-
ظهور کا مسئله «الله تعالی کے اراده» سے متعلق هے. اس صورت میں کوئی فرق نهیں پڑتا
که کون کون سی نشانیاں واقع هوئی هیں اور کون سی واقع نهیں هوئی هیں. اس صورت میں
حتمی نشانیوں کا یه معنی بنتا هے که بعض نشانیوں کے واقع هونے سے ظهور کا احتمال
بڑھ جاتا هے (صرف ظهور کا احتمال بڑھ جاتا هے نه که سو فیصد واقع بھی هو جائے گا).
لهذا اب واضح هو گیا هے که حتمی نشانیوں کی نسبت، غیر حتمی نشانیوں کا مطلب یهی هے
که ان کے واقع هونے سے ظهور کا احتمال بھی کم هو جاتا هے.
حتمی اور
غیر حتمی نشانیوں کا اس طرح معنی نکالنے کی وجه، آنے والی حدیث میں غور کرنے سے
واضح هو جاتا هے:
«داٶد بن ابی القاسم نقل کرتے هیں که حضرت امام
جواد (علیه السلام) کے هاں حاضر تھے. ظهور کی نشانیوں اور سفیانی نام کے کسی شخص
کے خروج اور قیام کی بات چل نکلی اور یه که بعض روایتوں میں اس کے قیام کو ظهور کی
علامت سمجھا گیا هے اور یه ضرور واقع بھی هو گا. میں نے امام (ع) کی خدمت میں عرض
کی: کیا الله تعالی حتمی امور کے واقع هونے یا ان امور کی خصوصیات میں تبدلی (یعنی
بداء) کرتا هے؟ (ایسا که یه حتمی امور یا بالکل واقع هی نه هوں یا ایسا هو که ان
حتمی امور کے بارے میں بتائی گئی صفات ان میں نه پائی جائیں) آپ (ع) نے فرمایا: جی
هاں، هر قسم کی تبدیلی اور تصرف کا احتمال (حتی که حتمی امور میں بھی) پایا جاتا
هے! میں نے عرض کی: اس صورت میں تو همیں یه ڈر هے که کهیں الله تعالی حضرت قائم
(عج) کے ظهور اور فرج میں بھی تبدیلی یا انصراف (بداء) هی نه کر ڈالے!
آپ (ع) نے
جواب میں فرمایا: [ایسا کبھی نهیں هو سکتا؛ کیونکه] حضرت قائم (عج) کا قیام کرنا،
الله تعالی کے [تبدیل نه هونے والے] وعدوں میں سے هے»[1].
علم الحدیث
کے عظیم عالم جناب «محدث نوری» مذکوره حدیث کے بارے میں یوں فرماتے هیں:
« ... حضرت امام
زمانه حضرت حجة بن الحسن المهدی (عج) کا ظهور اور قیام ضرور محقق اور واقع هو گا
اور اس میں کوئی تبدیلی یا تخلف نهیں هو گا، لیکن اس کے علاوه جو کچھ بھی خود ظهور
کی نشانیاں یا ظهور کی زمانے کی نشانیاں بتائی گئی هیں، وه سب متغیر اور تبدیل هو
سکتی هیں اور ممکن هے مقدم (پهلے) یا مٶخر (دیر سے) واقع هو جائیں. حتی که وه نشانیاں
جن کو محتوم علائم میں سے شمار کیا گیا هے! کیونکه –ان روایات میں- محتوم اور حتمی
علائم کا مطلب یه هر گز نهیں که ان میں کوئی تبدیلی واقع نهیں هو گی اور بالکل
ویسے هی جس طرح حدیثوں میں آیا هے، اسی طرح واقع بھی هو جائیں گی، بلکه حتمی علائم
کا معنی یه هے که ان میں کسی حد تک تاکید موجود هے جو کسی مرحلے میں تبدیلی کرنے
کے منافی نهیں هے»[2].
لهذا بهتر
هے که سب مل کر عظیم مقصد یعنی ظهور کے لئے زمینه سازی اور تیاری کے لئے کوشش کریں
اور حد سے زیاده پریشانی کرنے کے بجائے (جو کبھی الله تعالی کی رحمت اور حضرت امام
عصر (عج) کی عنایت سے مأیوسی کا باعث بھی بن سکتی هے)، خالصانه اور خاضعانه دعائیں
کریں اور ساتھ ساتھ جسمانی اور روحانی طور پر اپنے آپ کو تیار کریں تا که الله
تعالی کی رحمت کا چشمه پوٹھے اور وه «فرشته ظاهر هو جائے» اور یه سب دین کے بارے
میں زیاده معرفت اور پهچان حاصل کرنے اور اسی طرح واجبات کو انجام دینے اور محرمات
کو ترک کرنے کی صورت میں هی میسر هو سکے گا.
حتمی
نشانیوں کی قسمیں اور ان کی تعداد
بعض احادیث
کے مطابق پانچ علامتوں کو حتمی نشانیوں میں سے گنا گیا هے، جن کا ذکر آگے کیا جائے
گا. البته ان نشانیوں کی توضیح اور تفصیل اتنی طویل هے که اس مختصر سے جواب میں ان
کی تفصیل بتانا ممکن نهیں هے.
ابی حمزه
ثمالی فرماتے هیں: «امام جعفر صادق (ع) کی خدمت میں عرض کی که آپ کے والد گرامی
حضرت امام محمد باقر (ع) فرمایا کرتے تھے که: سفیانی نام کے شخص کا خروج حتمی هے
اور آسمان میں ایک آواز کا گونجنا بھی حتمی هے اور اسی طرح سورج کا مغرب کی طرف سے
طلوع کرنا بھی حتمی هے اور بعض دوسری چیزوں کا بھی ذکر فرمایا جن کو آپ (ع) حتمی
امور میں سے سمجھتے تھے.
حضرت امام
جعفر صادق (ع) نے اپنے والد گرامی کی کلام کو یوں مکمل فرمایا: «اور بنی فلان
(شاید بنی امیه یا وهی باطل گروه) کا اختلاف بھی حتمی هے؛ اور «نفس زکیه» کا قتل
هونا بھی حتمی هے اور حضرت قائم (عج) کا قیام بھی حتمی هے بلکه یقینی وعده هے. میں
نے عرض کی: آسمانی آواز کے بارے میں مزید تفصیل بیان فرمائیے!؟ آپ نے فرمایا: «دن
کے شروع هونے کے وقت ایک منادی بهت اونچی آواز میں (ایسے که هر قوم کا فرد اپنی
زبان میں اس کو سمجھ سکے گا) پکارے گا:
«الا انَّ
الحق فی علی و شیعته»؛ جان لو که علی اور اس کے شیعه حق پر هیں. اور اسی دن کے آخر
میں ابلیس پکارے گا: «الا انّ الحق فی سفیانی و شیعته»؛ جان لو که سفیانی اور اس
کے پیروکار حق پر هیں.
نکته
«نفس زکیه»
سے مراد، ایک عظیم انسان هے جو حضرت امام زمانه (عج) کی طرف سے تبلیغ کرنے پر
مامور هوگا لیکن کعبه کے ساتھ (رکن اور مقام کے درمیان) شهید کر دیا جائے گا[4].
اور
«سفیانی» بھی معاندین میں سے هوگا جو آپ سے مقابله کرنے کے لئے قیام کرے گا اور
«بیداء» نامی سرزمین پر (یمن میں) – الله تعالی کے حکم سے – اپنے تمام سپاهیوں کے
ساتھ زمین کے اندر غائب هو جائے گا[5].
کیا ا مہدی (عج) نے
فرمایا ہے کہ:" اگر آپ میرے انتظار میں ہوتو ہر نماز اور ہر دعا سے پہلے
پڑھنا چاہئیے:" اللھم عجل لولیک الفرج"
کیا امام زمانہ (عج) کی
طرف سے اس قسم کا کوئی حکم ہے کہ: اگر آپ میری انتظار میں ہوتو ہر نماز اور ہر دعا
سے پہلے پڑھنا چاہئیے:" اللھم عجل لولیک الفرج"
روایتوں کے منابع میں
تحقیق و جستجو کرنے کے بعد ہم نے اس قسم کی کوئی روایت نہیں پائی ہے۔ لیکن اس کے
مشابہ ایک روایت ہے جس کا مضمون یہی ہے۔ امام (عج) فرماتے ہیں: «أَکْثِرُوا
الدُّعَاءَ بِتَعْجِیلِ الْفَرَجِ فَإِنَّ فِی ذَلِکَ فَرَجَکُمْ»؛[1] تعجیل
فرج کے لئے کافی دعا کرنا کہ اسی میں آپ کے لئے فرج اور آرام و سکون ہے۔"
[1]. شیخ
صدوق، محمد بن على، کمال الدین و تمام النعمة، ج 2، ص 485، تهران، دار الکتب
الاسلامیة، طبع دوم، 1395ق.
ائمہ اطہار{ع} میں سے کون
سے امام دعائے فرج کو ذاتی طور پر پڑھتے تھے؟
ائمہ اطہار{ع} میں سے کون
سے امام دعائے فرج کو ذاتی طور پر پڑھتے تھے؟ مہربانی کر کے اس کا منبع بھی بیان
کیجئیے۔
لفظ "فرج"
{"ف" اور "ر" پر زبر کے ساتھ} لغت میں، غم و اندوہ سے رہائی
اور آرام و آسائش کے معنی میں ہے[1]، اور احادیث کی کتابوں میں
فرج اور آرام و آسائش حاصل کرنے کے لیے جو دعائیں اور اعمال ذکر کیے گیے ہیں، ان
ہی لغوی معنی کے پیش نظر ہیں۔
ہم یہاں پر "دعائے
فرج" اور "نماز فرج" کے بارے میں صرف تین موارد کی طرف اشارہ کرنے
پر اکتفا کرتے ہیں:
۱ پیغمبراکرم{ص} سے ایک
دعا نقل کی گئی ہے اور اسے "دعائے فرج" بھی کہتے ہیں: "اللَّهُمَّ
إِنِّي أَسْأَلُكَ يَا اللَّهُ يَا اللَّهُ يَا اللَّهُ يَا مَنْ عَلَا
فَقَهَرَ..."[2]
۲۔ وہ دعا، جو "دعائے
فرج امام زمانہ عج" کے نام سے مشہور ہے اور اس میں " فرجاً عاجلاً"[3] کی عبارت آئی ہے اور
"أللٌهُمَ (إلهِی) عَظُمَ البَلاءُ وَبَرِحَ الخَفَاءُ..." سے شروع ہوتی
ہے[4]۔
لیکن "اللھم کن
لولیک الفرج"۔ ۔ ۔ نام کی دعا ، اس کے معنی کے پیش نظر، دعائے فرج نہیں ہے،
بلکہ ان دعاوں میں سے ہے جسے شیعہ حضرت امام زمانہ{عج} کے لیے پڑھتے ہیں اور رمضان
المبارک کی ۲۳ ویں شب کے اعمال میں
شمار ہوتی ہے۔ البتہ جب بھی امام زمانہ{عج} کی یاد آئے اس دعا کو پڑھا جا سکتا ہے[6]۔
[1]. ابن منظور، محمد بن مكرم،
لسان العرب، ج 2، ص 343، واژۀ «الفَرَج»، نشر دار
صادر، بیروت، طبع سوم، 1414ھ؛ طریحی، فخر الدین، مجمع البحرین، محقق و مصحح:
حسینی، سید احمد، ج 2، ص 322، نشر کتابفروشی مرتضوی، تهران، طبع سوم، 1416ھ.
[2].ابن طاووس، علی بن موسی،مهج
الدعوات و منهج العبادات،ص 90، دار الذخائر، قم،طبع اول، 1411ھ.
[3]. البتہ، دوسری جگہ پر دعا ،
تھوڑے سے فرق کے ساتھ آئی ہے کہ " نماز امام زمانہ{عج} کے بعد پڑھی جاتی ہے؛
(ملاحظہ ہو: شیخ حر عاملی، محمد بن حسن، وسائل الشیعه،ج 8، ص 18، مؤسسه آل البیت
(ع)، قم، طبع اول، 1409ھ.).
[4]. عاملى كفعمى، ابراهيم بن
على، المصباح - جنة الأمان الواقية و جنة الإيمان الباقية، ص 176، نشر دار
الرضی، قم، طبع دوم، 1405ھ.
[5].طبرسی، حسن بن فضل،مکارم
الاخلاق ،ص329، شریف رضی، قم،طبع چهارم، 1412ھ.
[6].شیخ طوسی، محمد بن الحسن،
تهذیب الاحکام، محقق و مصحح: خرسان، حسن الموسوی، ج3، ص103، دار الکتب الاسلامیة،
تهران، طبع چهارم، 1407ھ؛ مفاتیح الجنان، اعمال ماه مبارک رمضان، دعای شب بیست و
سوم.
کتاب "مکیال
المکارم" کے مطابق امام زمانہ کی باقی پیغمبروں کےساتھ کونسی شباھتیں ہیں؟
اسلامی روایات میں امام زماںہ (عج( کی بعض پیغمبروں کے ساتھ مادی اور معنوی شباھتیں موجود ہیں۔ ان
روایات کی کتاب "مکیال المکارم" میں جمع آوری کی گئی ہے۔
ان میں سے بعض روایتیں جو کتاب مکیال المکارم اور دیگر کتب میں درج
ہیں حسب ذیل ہیں:
۱۔ پیغمبر اکرم (ص)
سے روائت نقل کی گئی ہے کہ آپ [ص]نے فرمایا: مھدی میرے فرزندوں میں سے
ہے اس کا نام میرا نام اور اس کی کنیت میری کنیت ہے اور خلقت
اور اخلاق کے لحاظ سے میرے ساتھ شباہت رکھتا ہے۔
۲۔ حضرت ابراھیم(ع)
کے ساتھ شباہت۔
حضرت امام صادق (ع) سے روایت ہے کہ آپ نے فرمایاکہ:
ابراھیم کا رشد باقی عام بچوں کی طرح نہیں تھا وہ ایک دن میں اتنا بڑھتے اور
رشد کرتے تھے ، جتنا باقی بچے ایک ھفتہ میں بڑھتے ہیں، حضرت قائم (عج( بھی ایسے ہی تھے۔
۳۔ حضرت موسی (ع) کی
اپنی قوم کے درمیان دو غیبتیں انجام پائی ہیں، جن میں سےایک غیبت دوسری سے
طولانی تر تھی -قائم (عج( کی
بھی دو غیبتیں ہیں جن میں ایک غیبت دوسری سے طولانی ترہے۔
۴۔امام زمانہ (عج( کی حضرت عیسی [ع]کے ساتھ مشابہت یہ ہے کہ لوگوں نے حضرت عیسی[ع] کے
بارے میں اختلاف کیا ،بعض کہتے ہیں کہ وہ اس دنیا میں تشریف نہیں لائے ہیں،
بعض کہتے ہیں کہ انھوں نے وفات کی ہے اور تیسرا گروہ کہتا ہے کہ وہ قتل ہوئے
ہیں اور ان کو سولی پر چڑھا دیا گیا ہے۔
۵۔ حضرت قائم(عج( میں حضرت نوح(ع) کی ایک سنت موجود ہے اور وہ طول عمر ہے۔
۶۔ جس طرح خدا نے حضرت
آدم (ع) کو اپنا جانشین اور خلیفہ بنادیا حضرت حجت (عج) کو بھی زمین کا وارث اور
خلیفہ قرار دے گا۔
۷۔ حضرت زکریا (ع) نے
حضرت امام حسین (ع) کی مصیبت میں تین دن تک گریہ کیا ، حضرت قائم (عج) اپنی پوری
عمر اور پوری مدت میں امام حسین (ع) پر گریہ کرتے ہیں۔
۸۔ حضرت یوسف(ع) اپنے
زمانے کے سب سے خوبصورت شخص تھے اور امام مھدی(عج( بہشتیوں کے طاووس ہیں۔
۹۔ خداوند تبارک و تعالی
نے حضرت خضر(ع) کی عمر طولانی کی اور حضرت قائم (عج)کو بھی طولاںی عمر عطا کی۔
اسلامی روایات میں حضرت
امام زمانہ (عج( کی
بعض پیغمبروں کے ساتھ مشابہت کے بارے میں بہت ساری روایات اور احادیث ذکر ہوئیں
ہیں۔ اور بعد میں طبع ہونے والی کتابوں نے ان روایات کو گذشتہ کتابوں سے اقتباس
کیا ہے۔
ان ہی کتابوں میں سے ایک
کتاب "کتاب مکیال المکارم" ہے کہ جو آیۃ اللہ سید محمد تقی موسوی
اصفہانی نے تالیف کی ہے۔ ان روایات میں سے بعض جو کتاب مکیال المکارم میں موجود
ہیں ،وہ بعض دوسری کتابوں میں بھی موجود ہیں ،مندرجہ ذیل ہیں:
اول : حضرت مھدی (عج) کی
اولو العزم پیغمبروں کے ساتھ مشابہت:
۱۔ حضرت امام مھدی (عج) کی
حضرت محمد(ص) کے ساتھ مشابہت۔
حضرت رسول اکرم (ص)
سے روایت ہے کہ آپ[ص] نے فرمایا: مھدی میرے فرزندوں میں سے ہیں ، ان کا نام
میرا نام ، کنیت میری کنیت، اور خَلق )خلقت( اور
خُلق )اخلاق (
کے لحاظ سےلوگوں میں وہ مجھ سے زیادہ شبیہ ہیں۔اس روایت سے
معلوم ہوتا ہے کہ حضرت مھدی (عج( ظاھری
شکل اور اخلاق و کردار کے لحاظ سے لوگوں میں حضرت محمد (ص) کے شبیہ ہیں[1]
حضرت ابراھیم (ع)سے کے
ساتھ حضرت مھدی (عج)کی شباہت-
حضرت امام صادق(ع) سے
روایت ہے کہ حضرت ابراھیم (ع) کا رشد عام بچوں کی طرح نہیں تھا ۔ وہ ایک دن میں
میں اتنا بڑھتے تھے کی دوسرے بچے ایک ھفتےمیں بڑھتے تھے ، حضرت قائم (عج( بھی
حضرت حکیمہ خاتون کی روایت کے مطابق ایسے ہی تھے۔[2]
۳۔ حضرت موسی (ع) کے ساتھ
حضرت مہدی(عج)کی شباہت-
امام زین العابدین (ع) نے
ایک روایت کے مطابق فرمایا: حضرت موسی (ع) کی اپنی قوم کے درمیان دو غیبتیں انجام
پائی ہیں ، کہ ان میں سے ایک غیبت دوسری سے طولانی ترتھی ، پہلی غیبت مصر
میں تھی اور دوسری غیبت اس وقت تھی جب وہ کوہ طور پر اپنے پروردگار کے میقات پر
چلے گئے، حضرت قائم (عج( کی
بھی دو غیبتیں ہیں، جن میں سے ایک غیبت دوسری سے طولانی ترہوگی[3]۔
۴۔ حضرت عیسی (ع) کے ساتھ
حضرت مھدی (عج) کی شباہت۔
الف: امام باقر (ع)
فرماتے ہیں: حضرت عیسی (ع) کے ساتھ ان [امام زمانہ]کی کی مشابہت یہ ہے کہ
لوگوں نے حضرت عیسی (ع) کے بارے اختلاف کیا، بعض کہتے تھے کہ وہ ابھی اس دنیا میں
تشریف نہیں لائے ہیں، دوسری جماعت کہتی ہے کہ وہ وفات پا چکے ہیں، اور تیسری جماعت
کہتی ہے کہ وہ قتل کئےگئے ہیں اور سولی پر چڑھا دیئے گئے ہیں۔ حضرت قائم (عج)کے
بارے میں ایسا ہی اختلاف موجود ہے۔
ب: جیسا کہ حضرت عیسی (ع)
اپنے زمانے کی بہترین خاتون کے بیٹے تھے اور ماں کے بطن میں گفتگو کرتے تھے اور
گھوارے میں بات کرتے تھے ، خداوند متعال اسے عرش الھی پر لے گیا، اور وہ خدا کے
اذن سے مردوں کو زندہ کرتے تھے ، حضرت قائم (ع) بھی ایسے ہی ہیں۔
۵۔ حضرت نوح [ع]کے ساتھ
شباہت-
الف : امام زین العابدین
(ع) فرماتے ہیں: حضرت قائم (عج)میں حضرت نوح (ع) کی ایک سنت موجود ہے اور وہ
طولانی عمر ہے۔ [4]
ب: نوح نے اپنی دعا کے
ذریعے زمین کو کافروں سے پاک کردیا اور فرمایا: پروردگارا! زمین
کے اوپر، کسی بھی کافر کو جگہ مت دے[5]، قائم (ع) بھی زمین
کو کافروں کے وجود سے صاف کردیں گے یہاں تک ان کا نام و نشان بھی نہ رہے گا۔[6]
باقی پیغمبروں[ع] کے ساتھ
حضرت مھدی [عج]کی شباہت:
۱۔ حضرت آدم (ع) کے ساتھ
حضرت مھدی (عج) کی شباہت:
خداوند متعال نے حضرت آدم (ع) کو زمین پر اپنا خلیفہ قرار دیا، اور اسے زمین کا وارث بنایا جیسا کہ سورہ بقرہ کی آیت نمبر ۳۰ میں فرمایا ہے: " انی جاعل فی الارض خلیفۃ"میں نے زمین پر اپنا جانشین مقرر کیا ہے، حضرت حجت (عج) کو بھی زمین کا وارث اور خلیفہ مقرر کیا جائے گا، جیسا کہ امام صادق [ع]سے سوہ نور کی ۵۵ آیت کی تفسیر میں منقول ہے کہ " اللہ نے تم میں سے صاحبان ایمان و عمل صالح سے وعدہ کیا ہے کہ انہیں روئے زمین میں اسی طرح اپنا خلیفہ بنائے گا جس طرح پہلے والوں کو بنایا ہے"۔۔وہ حضرت قائم اور اس کے اصحاب ہیں جو ظھور کے وقت مکہ میں اپنے چہرے پر ہاتھ رکھ کر فرمائیں گے " الحمد للہ الذی صدقنا و وعدہ و اورثنا الارض" اس خدا کا شکر ہے کہ جس نے ہمارے بارے اپنے وعدے پر عمل کیا اور زمین کو ہماری میراث قرار دیا۔
خداوند متعال نے حضرت آدم (ع) کو زمین پر اپنا خلیفہ قرار دیا، اور اسے زمین کا وارث بنایا جیسا کہ سورہ بقرہ کی آیت نمبر ۳۰ میں فرمایا ہے: " انی جاعل فی الارض خلیفۃ"میں نے زمین پر اپنا جانشین مقرر کیا ہے، حضرت حجت (عج) کو بھی زمین کا وارث اور خلیفہ مقرر کیا جائے گا، جیسا کہ امام صادق [ع]سے سوہ نور کی ۵۵ آیت کی تفسیر میں منقول ہے کہ " اللہ نے تم میں سے صاحبان ایمان و عمل صالح سے وعدہ کیا ہے کہ انہیں روئے زمین میں اسی طرح اپنا خلیفہ بنائے گا جس طرح پہلے والوں کو بنایا ہے"۔۔وہ حضرت قائم اور اس کے اصحاب ہیں جو ظھور کے وقت مکہ میں اپنے چہرے پر ہاتھ رکھ کر فرمائیں گے " الحمد للہ الذی صدقنا و وعدہ و اورثنا الارض" اس خدا کا شکر ہے کہ جس نے ہمارے بارے اپنے وعدے پر عمل کیا اور زمین کو ہماری میراث قرار دیا۔
۳۔ حضرت ھابیل(ع) کی حضرت
مھدی (عج)کے ساتھ شباہت:
رشتوں میں سب سے
نزدیک رشتہ دار یعنی بھائی قابیل نے ھابیل کو قتل کیا، اسی طرح حضرت قائم(عج(کے سب سے نزدیک فرد نے
بھی امام [عج] کو قتل کرنے کی کوشش کی ، اور وہ حضرت[عج] کا چچا جعفر کذاب تھا۔[7]
۳۔ حضرت ھود (ع) کے ساتھ
حضرت مھدی (عج)کی شباھت
جیسے ، حضرت نوح )ع( نے
حضرت ھود [ع]کے ظھور کی بشارت دی تھی اور خداوند متعال نے کافروں کو اس کے ذریعے
ہلاک کیا [8] حضرت قائم(عج( کے
آباء و اجداد کو بھی اس کی پوری خصوصیات کے ساتھ خوشخبری دی گئی اور ان کی
غیبت اور ظھور کے بارے میں اطلاع دی گئی۔ اور خداوند متعال ،حضرت [عج]کے
ذریعے بعض کافروں کو بھی ہلاک کرڈالیں گے۔[9]
۴۔ حضرت اسماعیل (ع) کے
ساتھ حضرت قائم (عج) کی شباھت:
خداوند متعال نے جیسے
حضرت اسماعیل(ع) کی ولادت کی بشارت دی ہے۔ حضرت قائم (عج(کے بارے میں بھی بشارت دی
ہے- [10]
حضرت اسماعیل (ع) کےلئے
زمین سے زمزم کا چشمہ نکل آیا حضرت قائم [عج ]کے لیے سخت پتھر سے پانی پھوٹ جائے
گا۔[11]
۵۔ حضرت یوسف [ع]کے ساتھ
حضرت مھدی (عج) کی شباھت:
الف : ابو بصیر نے امام
باقر (ع) سے روایت کی ہے کہ آپ[ع]نے فرمایا: حضرت قائم (عج(کو حضرت یوسف [ع]کے ساتھ
شباھت تھی۔ ، راوی کہتا ہے کہ میں نے عرض کی وہ کیا ہے؟ فرمایا: غیبت اور انتظار
فرج کا ہونا۔
ب: امام باقر(ع) نے ایک
اور روایت میں فرمایا: جیسا کہ خدا کے امر سے حضرت یوسف (ع) اور ان کے والد کے
درمیان فاصلے کو پوشیدہ رکھا تھا اس کے باوجود کہ وہ آپس میں نزدیک تھے ۔ حضرت
مھدی(عج( کو
بھی شیعوں کے ساتھ نزدیک ہونے کے باوجود بھی ان کی نظروں سے غائب رکھا ہے۔
ج: حضرت یوسف(ع) بھی کافی
طولانی مدت کے لیے غائب ہوئے ہہاں تک اس کے بھائی داخل ہوئے اور ان کو پہچان لیا ،
لیکن وہ حضرت یوسف (ع) کو نہیں پہچانتے تھے، امام مھدی(عج) بھی غائب رہیں گے اور
جبکہ وہ شیعوں کے درمیان موجود ہیں اور چل پھر رہے ہیں لیکن وہ امام [عج]کونہیں
پہچانتے ہیں، لیکن امام انہیں پہچانتے ہیں۔
د: حضرت یوسف(ع) اپنے
زمانے کے سب سے خوبصورت فرد تھے پیغمبر اکرم[ص] نے فرمایا: مھدی اھل جنت کے طاووس
ہیں۔
ھ: خداوند متعال نے حضرت
یوسف(ع) کے امر کی ایک ہی رات میں اصلاح کی کہ مصر کے بادشاہ نے خواب میں
دیکھا اور پیغمبر اکرم(ص) سے روایت ہے کہ فرمایا: مھدی ہم اھل بیت میں سے
ہیں، خداوند ان کے امر کو ایک راہت میں اصلاح فرمائے گا۔
۵۔ حضرت خضر(ع) کے ساتھ
حضرت امام زمان(عج( کی
شباھت:
خداوند تبارک و تعالی
نےحضرت خضر(ع) کی عمر کو طولانی کیا، اور یہ بات فریقین کے نزدیک مورد قبول ہےکہ،
حضرت قائم (عج (کے بارے میں بھی ایسا ہی
کیا، اور ان کی عمر کو طولانی کیا ، بعض روایات سے استفادہ ہوتا ہے کہ حضرت خضر(ع)
کی عمر طولانی ہونا حضرت قائم(عج( کے
طولانی عمر کی دلیل ہے۔
۶۔ حضرت زکریا(ع) کے ساتھ
حضرت مھدی(عج) کی شباھت:
حضرت زکریا(ع) نے حضرت
ابا عبد اللہ حسین (ع) پر تین دن گریہ کیا ( جیسا کہ احمد بن اسحاق نے روایت کی ہے [12])حضرت
قائم (عج( بھی
پوری عمر اور پورے زمانے[13] میں
امام حسین پر گریہ کر رہے ہیں، جیسا کہ زیارت ناحیہ میں آیا ہے ، ( لاندبنک صباحا
و مساء و لابکین علیک بدل الدموع دما ) دن رات آپ کے اوپر گریہ کروں گا اور
آنسووں کے بدلے خون بہاونگا۔ [14]
[2] مجلسی ، محمد
باقر ، بحار، ج ۵۱
ص و ج ۱۲ ص ۱۹، یہ اس بات سے کنایہ ہے کہ وہ غیر معمولی طور پر
بڑھے ہوتے تھے۔
[7] سورہ مبارکہ
مائدہ آیہ ۲۲۷ سے ماخوذ ، نیز حضرت
امام زین العابدین سے ماخوذ ، شیخ صدوق ، کمال الدین ، ج ۱۱ ص ۳۲۰۔
[11] حضرت
امام باقر ع سے مروی روایت سے ماخوذ۔
[13] بہت
زیادہ رونے سے کنایہ۔
کون سی چیزیں مھدویت کے
لئے خطرہ ہیں؟
زمانہ حاضر اور مستقبل
میں جو کہ عصر ظہور جانا جاتا ہے کون سی چیزیں مھدویت کے لیے خطرہ ہیں مہربانی
کرکے منابع کےذکر کے ساتھ واضح کریں۔
مھدویت کو جن خطرات کا سامنا ہے، اگر چہ وہ بہت زیادہ ہیں لیکن
ہم یہاں پر صرف تین اہم خطروں کی جانب اشارہ کریں گے:
ا۔ اگر سب سے بہترین قانون، نااھل نافذ
کرنے والے کے ہاتھوں میں آئے ، اگر سب سے قیمتی چیزیں نا اھل افراد کے ہاتھ لگ
جائیں تو نہ ہی قانون قانون رہے گا اور نہ قیمتی چیز قیمتی چیز رہ جائے گی ،
مھدویت بھی اس قانون سے مستثنی نہیں ہے۔ جھوٹے مدعی وہی فاسد اور شاطر اور نااھل افراد
ہیں جو مھدویت کے قیمتی گوھر کو اپنے جھوٹے اور پست ادعا کے ذریعے آفتوں کی نظر
کرتے ہیں اور اسے نقصان پہنچادیتے ہیں۔
اس طرح وہ شیعیت کے دشمنوں اور وھابیوں کے لیے بہانہ فراھم کرتے ہیں-
۲۔ جہالت: ایک اور چیز
جو ہمیشہ حقیقت کے لیے خطرہ بنی رہتی ہے وہ دوستوں کی جہالت اور نادانی ہے جو خطرے
کا سبب بنتی ہے ، آج کل واضح طورپر جاھل اور نادان دوستوں کی طرف سے خطرہ محسوس
کیا جاتا ہے ، جو انتظار کے نام سے مھدویت کی فکرکو نقصان پہنچادیتے ہیں۔ ایسے
نادان لوگ جو انتظار کے نام سے ظلم و ستم کے مقابلے میں خاموش اور تماشائی بنے
بیٹھے ہیں اور دشمںوں کی حمایت کرتے ہیں ، یہ لوگ کبھی کبھی کچھ علامتوں کو
دیکھ کر ظاھری طورپر حقیقی منتظروں کےلیے ظہور کی تاریخ کو قریب الوقوع قرار دے کر
ظہور کی خوشخبریاں دیتے رہتے ہیں۔ ہماری روایات میں ظہور کے لیے اس طرح وقت معین
کرنے کی مذمت کی گئی ہے ، بلکہ ان کا یہ کام منتظروں کے دلوں میں نا امیدی اور یاس
پیدا کرتا ہے۔
۳۔ دنیا پرستی : بے شک
جو حقیقی عاشق ہے وہ نہ صرف اپنے معشوق سے بے گانہ ہوتا ہے بلکہ وہ اپنے آپ کو
معشوق کی چاھت کے مطابق چلاتا ہے اس لئے یہ جملہ کہا گیا ہے کہ مصلح کے منتظر کو
خود صالح ہونا چاھیئے۔
" انتظار" عام طور پر اس کی حالت کو کہا جاتا ہے جو
موجودہ حالت سے پریشان ہو اور اس حالت کی بہتری کے لیے کوشش اور اقدام کرے مثال کے
طور پر وہ بیمار جو صحت یاب ہونے کا انتظار کرتا ہے یا وہ باپ جو سفر پر گئے اپنے
بیٹے کی واپسی کا انتظار کرتا ہے ، یہ بیماری اور فرزند کی دوری سے غمگین ہے اور
بہتر حالت کی کوشش کرتا ہے۔
ایک جامع جواب تک پہنچنے
کےلیے پہلے ضروری ہے کہ مھدویت کی تعریف کی جائے پھر اس کے خطرات اور آفات جو اسے
نقصان پہنچا سکتے ہیں پر بحث کریں۔
مھدویت: حضرت مھدی کے
وجود پر اس طرح اعتقاد رکھنا کہ وہ بارھویں امام ہیں جو خدائی امر و مصلحت سے ابھی
پردہ غیب میں ہیں اور ایک دن وہ ظہورفرماکر دنیا کو جو ظلم و ستم سے بھر گئی ہوگی،
عدل و انصآف سے بھر دیں گے اور اس اما م کے شیعہ اس دن کے انتظار میں ہیں۔
راوی کہتا ہے کہ
میں نے امام رضا )ع( سے
انتظار فرج کے بارے میں پوچھا تو حضرت نے فرمایا: فرج ایک آسانی ہے ، کتنا اچھا
صبر کرنا اور انتظار فرج کرنا" [1]
دنیا میں ہر چیز کی ایک
آفت ہے جو اس کو ختم کرتی ہے[2] اسی لئے ہر چیز
کو آفت اور تباہ و بربادی سے بچانے کے لیے سب سے پہلے اس آفت کو پہچاننا ضروری ہے
پھر اس آفت کو ختم کرنے کےلیے اقدام کرنا چاھیئے ، جو امور مھدویت کے لیے خطرہ
جانے جاتے ہیں وہی آفات ہیں جو ھر چیز کو نقصان پہنچادیتی ہیں اگر چہ ان کی تعداد
بہت زیادہ ہے لیکن ہم صرف تین کی طرف اشارہ کریں گے:
۱۔ حضرت علی )ع( ایک
روایت میں فرماتے ہیں : ھر چیز کے لیے آفت ہے اور خیر کی آفت برے لوگوں کے ساتھ
اٹھنا بیٹھنا ہے[3]
۲۔ اگر سب سے اچھا قانون
غیر شایستہ نافذ کرنے والے کے ہاتھ لگے اگر سب سے قیمتی چیز نا اھل کے ہاتھ آئے تو
نہ قانون پر عمل در آمد ہوگااور نہ وہ قیمتی چیز باقی رہے گی، مھدویت بھی اس قانون
سے الگ نہیں ہے جھوٹے مدعی وہی فاسد اور شاطر اور نا اھل افراد ہیں جو مھدویت کے
قیمتی جوھر کا لبادہ اوڑھ کر ، اسے اپنے پست ادعا کی آفت سے نقصان پہنچادیتے ہیں
اور یہ شیعہ دشمن عناصر ہیں اور وھابیوں کے لیے بہانہ پیش کرتے ہیں، البتہ
یہ ادعا ہی اس عقیدے کی حقیقت کی سب سے بڑی دلیل ہے کیونکہ ہمیشہ جعل واقعیت کے
پیچھے پیچھے ہوتا ہے مثال کے طور پر ۲۰۰۰ ھزار روہپہ کا نوٹ کبھی وضع نہیں ہوا ہے ، پس ادعای مھدویت نہیں
ہونا چاھیئے تھا۔
۲۔ جھالت: جو امر ہمیشہ
حقیقت کو نقصان پہنچادیتا ہے وہ دوستوں کی جہالت اور ان کی نا آگاھی ہے۔
امام علی)ع( فرماتے
ہیں: دو آدمیوں نے میری کمر توڑ دی ہے بے عمل عالم، اور عبادت گزار جاھل۔ پہلا
اپنی بے عملی سے لوگوں کے عقیدے کو نقصان پہنچادیتا ہے اور دوسرا اپنی بیوقوف
عبادتوں سے لوگوں کو دھوکا دیتا ہے -[4]
آج کل ہر کوئی واضح طورپر
نا آگاہ اور جاھل دوستوں کے خطرے کو مشاھدہ کرتا ہے، جو انتظار کے نام سے مھدویت
کی فکر پر کتنی کاری ضرب لگادیتے ہیں۔ جو انتظار کے نام سے ظلم و ستم کے مقابلے
میں خاموش رہتے ہیں اور دشمن کی حمایت کرتے ہیں، یا ھر مرتبہ کچھ مدت کے بعد ظہور
کے چند ظاہری نشانات اور علائم دیکھ کر منتظروں کو قریب الوقوع ظہور کی تاریخ کی
خوشخبری دیتے ہیں جبکہ ظہور کے لیے اس طرح کے وقت معین کرنے کی روایات میں سخت
مذمت کی گئی ہے۔ اس کے علاوہ یہ کام حضرت مھدی )عج( کے
منتظروں کے لیے ناامیدی اور یاس کا سبب بنتا ہے۔
فضل بن یسار کہتا
ہے میں نےحضرت امام باقر )ع( کی
خدمت میں عرض کی کہ کیا اس امر )ظہور امام زمانعج( کے
لیے کوئی خاص وقت معین ہے ، فرمایا: وقت مقرر کرنے والے جھوٹ کہتے ہیں ، ایک مرتبہ
پھر کہا ، وقت معین کرنے والے جھوٹ بولتے ہیں، بے شک جب موسی اپنے پروردگار کی
دعوت سے کوہ طور پر گئے اور ان سے تیس دن کا وعدہ کیا جب خدا نے تیس دن کے اوپر
اور دس دن زیادہ کئے تو ان کی قوم نے کہا: جو وعدہ موسی نے ہم سے کیا انھوں نے اس
کی خلاف ورزی کی اور انہوں نے جو چاھا کیا۔[5]
ج: دنیا پرستی ،
بے شک جو صحیح معنوں میں عاشق ہے وہ نہ صرف اپنے معشوق سے بے گانہ نہیں ہے
بلکہ اپنے آپ کو معشوق کی چاھت کے مطابق قرار دیتا ہے [6] اسی لئے کہا گیا ہے
مصلح کے منتظروں کو خود صالح ہونا چاھیئے۔
انتظار: عام طور پر اس کی
حالت کو کہا جاتا ہے جو موجودہ حالت سے غمگین ہو اور بہتر حالت کی کوشش کرتا ہے
مثال کے طور پر جو بیماری سے صحت یاب ہونے کے لیے کوشش کرتا ہے اور جو باپ اپنے
فرزند کے لوٹنے کا انتظار کرتا ہے جو سفر پر گیا ہے یہ دونوں بیماری اور فرزند کی
دوری سے پریشان ہیں اور بہتر حالت کے لیے کوشش کرتے ہیں۔
اسی طرح وہ تاجر جو
بازار کے اتار چڑھاو سے پریشان ہے اور اقتصادی بحران کے ختم ہونے کا انتظار کرتا
ہے اس پر یہ دو حالتیں طاری ہوتی ہیں، موجودہ حالت سے پریشانی اور
"بہترحالت کی کوشش" اس بناء پر انتظار کا مسئلہ اور حضرت مھدی کی
حکومت حق اور عدل اور عالمی مصلح کے قیام، اصل میں دو عنصر سے مرکب ہیں۔ ایک
عنصر "منفی" دوسرا عنصر "مثبت" ہے، منفی عنصر وہی
موجودہ حالت سے پریشانی ہے اور مثبت عنصر بہتر حالت کےلئے کوشش ہے اگر یہ
عنصر انسان کی روح کی گہرائیوں میں داخل ہوجائے تو یہ وسیع اعمال انجام دینے کا
سبب بنے گا ، یہ دو طرح کے اعمال مندرجہ ذیل ہیں:
۱۔ ظلم و ستم کے کارندوں
سے ھر طرح کے تعاون اور ھم آھنگی کو ترک کرنا بلکہ ان کے خلاف آواز اٹھانا۔
۲۔ خود سازی اور تھذیب نفس
، اور اپنی مدد کرنا اور جسمانی، روحانی، اور معنوی مادی طور پر اس واحد عالمی
حکومت کی تشکیل کے لیلے مدد کرنا جب گہری نظر سے دیکھیں گے تو اس کے دونوں عناصر
سازندہ اور بیدار اور آگاھی کی حرکت کے عامل بن جائیں گے۔[7]
[1] بروجردی ،سید
محمد ابراھیم ، تفسیر جامع ، ج ۳، ص ۲۹۳، و ۲۹۴، انتشارات صدر، تھران،
طبع ششم ، ۱۳۶۶ ش۔
[2] پابند، ابو
القاسم ، نھج الفصاحۃ ، مجموعہ کلمات قصار حضرت رسول )ص( ناشر
دنیای دانش، تھران، چاپ چھارم، ۱۳۸۲ش۔
[3] تمیمی آمدی، عبد
الواحد بن محمد ، غررالحکم و درر الکلم، ص ۴۳۱، ۹۸۴۳، انتشارات دفتر تبلیغات
، قم، ۱۳۶۶، ھ۔
[5] فھری زنجانی،
سید احمد ، غیبت نعمانی، ، فھری، ص ۳۴۷، ۳۴۶۔ ناشر دار الکتب
الاسلامیۃ ، تھران، طبع چھارم ، ۱۳۶۲۔ش
[7] مکارم شیرازی،
ناصر، تفسیر نمونہ ، ج ۷، ص ۳۸۱، ۳۸۲،ناشر دار الکتب الاسلامیۃ ، تھران، طبع اول ، ۱۳۷۴ھ۔
امام زمانہ {ع کے ساتھ
کون لوگ رابطہ رکھتے ہیں؟
امام زمانہ[عج] کے ساتھ رابطہ کے بارے میں نظریاتی اصولوں پر اپنی
جگہ بحث ھونی چاہئے، بہر حال، مقدس اردبیلی ، سید بحر العلوم ، سیدا بن طاوس وغیرہ
جیسی بعض عظیم شخصیتوں کے علاوہ بہت سے افراد کی امام زمانہ {عج} سے ملاقات کی
تفصیلات بعض شیعہ علماء کی قابل اعتبار کتابوں میں درج کی گئ ہیں- اس کے علاوہ بہت
سے افراد ایسی شخصیتوں سے ملاقات کرنے میں کامیاب ھوئے ہیں جن کا امام زمانہ {عج}
سے خاص رابطہ تھا اور امام زمانہ {عج} ان افراد کی مدد اور دستگیری کے لئے تشریف
لائے ہیں-
ایک نظریہ کے مطابق، امام زمانہ[عج] سے خاص رابطہ رکھنے والے افراد،
اوتاد، ابدال، رجال الغیب وغیرہ ہیں- اوتاد، ابدال سے بلند تر مرتبہ پر فائز ھوتے
ہیں اور کہا گیا ہے کہ یہ وہی حضرت عیسی، خضر، الیاس اور ادریس[علیہم السلام] ہیں،
جو امام زمانہ {عج} کے نزدیک ترین افراد ہیں اور ابدال اور عرفا کا سلسلہ ان کے بعد
شروع ھوتا ہے- عام طور پر یہ افراد گمنام ھوتے ہیں اور ان کی تعداد کے بارے میں
بھی کوئی خاص اتفاق نظر نہیں پایا جاتا ہے اس کے باوجود ان کی ذاتی خصوصیات کے
بارے میں روایتوں میں اشارہ کیا گیا ہے-
غیبت کے زمانہ میں امام
زمانہ{عج} سے رابطہ کے ممکن ھونے کے بارے میں ہمیشہ دو کلی نظریئے پیش کئے گئے
ہیں- بعض لوگ ، غیبت کے زمانہ میں امام زمانہ {عج} سے رابطہ ممکن نہیں جانتے ہیں
اور بعض افراد کا اعتقاد ہے کہ اس قسم کا رابطہ ممکن ہے اور یہ متحقق ھوچکا ہے
بلکہ لوگوں کی طرف سے اس قسم کا رابطہ قائم کرنے کے لئے کوشش کی جانی چاہئے اور اس
سلسلہ میں غفلت سے کام نہیں لینا چاہئے-
لیکن اس رابطہ کے مدعیون
اور منکرین کے درمیان مراد یکساں نہیں ہے اور اگر ہم اس رابطہ کے خاص معنی من جملہ
لوگوں کا امام زمانہ {عج} سے آشکار و اختیاری رابطہ کومد نظر رکھیں، جو امر غیبت
سے منافات رکھتا ہے ، تو اسے تمام علماء نے اجماعی طور پر قبول نہیں کیا ہے اور
بعض افراد نے اس رابطہ کو معنوی رابطہ اور عدم مشاہدہ سے تعبیر کیا ہے-
امام زمانہ[عج] سے رابطہ
کے اقسام کے بارے میں، جسے ملاقات سے بھی تعبیر کیا گیا ہے، مندرجہ ذیل چند موارد
کے بارے میں اشارہ کیا جاسکتا ہے:
۲- پہچان اور ظاہری حس کے
ساتھ امام زمانہ[عج] کو دیکھنا-
۳- امام زمانہ {عج} سے شہودی
حالت میں ملاقات کرنا {جو سیر و سلوک عرفان سے حاصل ھوتی ہے}
امام زمانہ {عج} کے ساتھ
تیسری قسم کی ملاقات ، اس کی ماہیت میں ابہام کی وجہ سے، اسے مسترد یا قبول
کرنے کے سلسلہ میں ، اس کے بارے میں علماء نے کم بحث کی ہے اور حضرت {عج} سے رابطہ
کے بارے میں زیادہ اختلاف نظر آپ {عج} سے ظاہری اور حقیقی ملاقات یعنی اس کی
دوسری قسم کے بارے میں ہے-
اس کے باوجود بعض افراد
امام زمانہ {عج} سے ملاقات کو عرفانی اور شہودی مقام پر جانتے ہیں، من جملہ آیت
اللہ سید علی آقائے قاضی اور آیت اللہ انصاری ہمدانی سے، امام زمانہ {عج} سے رابطہ
کے بارے می کچھ مطالب نقل کئے گئے ہیں کہ ان میں اکثر اشارہ باطنی رابطہ کے بارے
میں ہے[2] اور کلی طور پر
اکثر عرفا نے بھی کم و پیش یہی نظریہ پیش کیا ہے-
مرحوم محدث نوری[3] نے اپنی کتاب "
النجم الثاقب" میں بعض شیعہ بزرگوں کی امام زمانہ {عج} سے ملاقات کے بارے میں
بحث کی ہے اور شائد اس سلسلہ میں یہی کتاب معتبر ترین اور جامع ترین کتاب ہے-
اس کتاب میں اس موضوع کے
بارے میں نظریات اور علمی اصولوں پر بحث کی گئی ہے اور بعض علماء کے امام زمانہ
{عج} سے ملاقات کے ناممکن ھونے کے استدلال کو رد کرنے کے سلسلہ میں بحث کی گئی ہے-
ان کا اعتقاد ہے کہ امام زمانہ {عج} کے ساتھ رابطہ قائم ھونا، اور بہت سے بزرگوں
کے ذریعہ ان واقعات کا نقل کرنا اس کے موثق ھونے میں کوئی شک و شبہہ باقی نہیں
رکھتا ہے، اور یہ بذات خود اس رابطہ کے ممکن ھونے کی اہم ترین دلیل ہے-
مقدس اردبیلی، سید بحر
العلوم ، سیدا بن طاوس کے علاوہ بہت سے غیر معروف افراد کے امام زمانہ {عج} سے
ملاقات کی تفصیلات اس کتاب میں درج کی گئی ہیں- اس کے علاوہ بہت سے افراد ایسی
شخصیتوں سے ملاقات کرنے میں کامیاب ھوئے ہیں جن کا امام زمانہ {عج} سے خاص رابطہ
قائم تھا اور امام زمانہ {عج} ان افراد کی مدد و دستگیری کے لئے تشریف لائے
ہیں۔[4]
اوتاد
و ابدال:
امام
زمانہ{عج} کے ساتھیوں کے بارے میں کئی روایتیں نقل کی گئی ہیں ان روایتوں سے یہ
معلوم ھوتا ہے کہ بعض افراد کا امام زمانہ {عج} سے قریبی رابطہ رہا ہے، لیکن ایسے
افراد ہمیشہ لوگوں کے لئے گمنام رہے ہیں-
امام باقر
{ع} سے یوں نقل کیا گیا ہے: «لَا بُدَّ لِصَاحِبِ هَذَا الْأَمْرِ مِنْ عُزْلَةٍ
وَ لَا بُدَّ فِي عُزْلَتِهِ مِنْ قُوَّةٍ وَ مَا بِثَلَاثِينَ مِنْ وَحْشَةٍ...»؛[5] اس امر کے صاحب { امام
مہدی عج} کی گوشہ نشینی ناگزیر ہے اور وہ گوشہ نشینی کے زمانہ میں طاقت اور
توانائی رکھنے کے لئے ناگزیر ہیں اور اپنے تیس ساتھیوں کے ہمراہ باہر آتے ہیں اور
کسی قسم کا خوف نہیں رکھتے ہیں-"
اس بناپر
امام زمانہ {عج} کے ساتھی وہی ابدال ہیں، کہ جب ان افراد میں سے کوئی وفات پاتا ہے
تو دوسرا شخص اس کا جانشین بن جاتا ہے-
عرفان میں
ابدال اور اوتاد کے بارے میں مفصل بحث کی گئی ہے اور بعض روایتوں میں بھی اس کی
طرف اشارہ کیا گیا ہے-
ابدال کے
وجود اور عالم خلقت میں ان کے خاص مقام و منزلت اور اسی طرح امام زمانہ {عج} سے ان
کے رابطہ اور مسئلہ ظہور کے بارے میں کافی روایتیں نقل کی گئ ہیں، لیکن ان کی
تعداد کے بارے میں علماء اور عرفاء کے اقوال میں ہمیشہ اختلاف رہا ہے اور روایتوں
میں بھی اس سلسلہ میں کوئی قطعی بات نہیں ملتی ہے- بعض روایتوں میں چالیس افراد کی
طرف اشارہ کیا گیا ہے،[6] اور بعض دوسری روایتوں
میں امام {ع} کے ساتھیوں کی تعداد تیس بتائی گئی ہے ، جیسا کہ امام باقر{ع} کی
مذکورہ روایت میں اشارہ کیا گیا ہے- بعض روایتوں میں حضرت علی{ع} سے شام کے چند
ابدالوں کی طرف اشارہ کیا گیا ہے-[7]
آخر پر قابل
بیان ہے کہ اوتاد، ابدال سے بلند مرتبہ پر فائز ھوتے ہیں، اور ایک نظریہ کے مطابق
عیسی، خضر، الیاس اور ادریس {علیہم السلام} اوتاد کے مقام پر فائز ہیں اور امام
زمانہ {عج} کے قریبی ساتھی ہیں اور عرفاء کا سلسلہ ان کےبعد شروع ھوتا ہے-
ابدال
کی بعض صفتیں:
پیغمبر
اسلام {ص} سے نقل شدہ بعض روایتوں میں ابدال کی بعض صفتوں کے بارے میں اشارہ کیا
گیا ہے اور ہم ذیل میں ان میں سےبعض کی طرف اشارہ کرتے ہیں:
۱- ابدال کا دل، حضرت
ابراھیم {ع} کا جیسا ھوتا ہے[8]{ شائد اس تشبیہ سے مراد یہ
ہے کہ وہ دین خدا پر حضرت ابراھیم کے مانند شدت، صلابت، بردباری اور استحکام و
پائیداری کے ساتھ قائم ھوتے ہیں}
۲- ابدال، انسانوں کی بلاوں
کے لئے ڈھال ھوتے ہیں اور ان کے واسطے سے خداوند متعال لوگوں سے بلاوں کو دور کرتا
ہے-[9]
۳- جو لوگ ان سے ظلم کرتے
ہیں، ان کے ساتھ نیکی اور احسان کرتے ہیں، اور جو ان کے ساتھ برائی کرتے ہیں، ان
کے ساتھ معافی کا برتاو کرتے ہیں اور قضائے الہی پر ہمیشہ راضی ھوتے ہیں اور ہر
قسم کے حرام سے اپنے آپ کو پاک و منزہ رکھتے ہیں اور خدا کے لئے غضبناک ھوتے ہیں-[10]
۴- ابن مسعود نے پیغمبر اکرم
{ص} سے یوں روایت کی ہے:" جان لو کہ انھوں { ابدال} نے یہ مقام ہرگز نماز
پڑھنے، روزہ رکھنے اور صدقہ دینے کی وجہ سے حاصل نہیں کیا ہے –" عرض کی گئی:
اے رسول خدا؛ پس یہ لوگ کیسے اس مقام پر پہنچےہیں؟ پیغمبر اسلام {ص} نے فرمایا:
مسلمانوں کے حق میں سخاوت، بخشش اور خیر خواہی کی وجہ سے-"[11]
اور ایک دوسری روایت میں
نقل کیا گیا ہے:
" میری امت کے ابدال
، اپنے اعمال کی وجہ سے بہشت میں داخل نہیں ھوتے بلکہ رحمت خدا اور مسلمانوں کی
نسبت سخاوت، دل کی سلامتی اور مہر بانی کی وجہ سے بہشت میں داخل ھوتے ہیں-[12]
[1] بعض روایتیں اس مطلب
کی دلالت کرتی ہیں کہ بظاہر اس سلسلہ میں علماء کے درمیان اختلاف نہیں تھا-
من جملہ مندرجہ ذیل روایت جو امیرالمومنین {ع} سے نقل کی گئی ہے:" «ان
حجتها علیها قائمة ماشیةٌ فی طرُقِها, داخلة فی دورها و قُصُورها جَوّالةٌ فی شرق
هذه الارض وغربها تسمع الکلام وتسلم علی الجماعة تری ولاتُری ...؛ حجت حق زمین پر
استوار ہیں – راستوں پر چلتے ہیں، گھروں میں داخل ھوتے ہیں اور مشرق و مغرب میں
گردش کرتے ہیں، لوگوں کی باتوں کو سنتے ہیں اور لوگوں کو سلام کرتے ہیں اور ان کو
دیکھتے ہیں لیکن خود دکھائی نہیں دیتے-{ الغیبہ النعمان، ص ۱۴۴}
[2] آقا سیدہاشم حداد نے
فرمایا ہے:" حضرت آقا آیت اللہ قاضی اپنے کلام ،اپنے اٹھنے بیٹھنے اور کلی
طور پر اپنی حالت بدلتے وقت لفظ " یا صاحب الزمان" کو زیادہ زبان
پر جاری فرماتے تھے ایک دن ایک شخص نے ان سے پوچھا: کیا آپ حضرت ولی عصر {عج} کی
خدمت میں پہنچے ہیں؟ انھوں نے جواب میں فرمایا : وہ آنکھ اندھی ہے جو ہر روز صبح
نیند سے اٹھتے وقت امام زمانہ کو نہ دیکھے" اسوہ عارفان{ گفتہ ہا و ناگفتہ ہا
دربارہ مرحوم قاضی{رح} ص ۱۰۹ صادق حسن زادہ، محمد طیار مراغی-
اسی طرح آیت
اللہ شیخ محمد جواد انصاری ہمدان {رض} نے عرفائے باللہ کی طرف سے کئےگئے اس سوال
کے جواب میں کہ کیا غیبت کے دوران امام زمانہ {عج] کا دیدار ممکن ہے؟ فرمایا: جب
خدا کو دیکھا جاسکتا ہے، تو امام کو جوخدا کی مخلوق ہیں، اسے کیوں نہیں دیکھا
جاسکتا ہے – ایک دوسری جگہ پر ان سے سوال کیا گیا کہ کیا آپ نے امام زمانہ {ع} سے
ملاقات کی ہے؟ فرمایا: " مازددت یقینا" کتاب" در کوی بے
نشانہا" سری درزندگ عارف باللہ و سال-
[3] - علامہ حاج میرزا
محدث زری، علماء کے درمیان " خاتم المحدثین " کے لقب سے مشہور تھے کہ
آیت اللہ العظمی میرزائے بزرگ شیرازی نے ان کی کتاب " بدر مشعشع " کی
اپنی ایک تقریظ میں انھیں علامہ زمان اور نادرہ دوران کہا ہے- وہ خاص افراد کے
درمیان علامہ نوری کو میرزائے نوری، محدث نوری اور حاجی نوری کے نام سے یاد کرتے
تھے-
[4]ملاحظہ ھو: کتاب «نجم الثاقب» تالیف محدث نوری.
[5] محمد بن یعقوب الکافی،
ج1، ص 340، شیخ طوسی، کتاب الغیبه، ص 102؛ محمدباقر مجلسی، بحارالأنوار، ج 52، ص
153، ح 6.
[6] ابن عساکر، 1/60
[7] « الْأَبْدَالُ
يَكُونُونَ بِالشَّامِ وَهُمْ أَرْبَعُونَ رَجُلًا كُلَّمَا مَاتَ رَجُلٌ أَبْدَلَ
اللَّهُ مَكَانَهُ رَجُلًا ...»، ابن عساکر، 1/60؛ ابن اثیر، 107؛ ابن حنبل، 112
[8] مسند احمد، ج 5، ص
322.
[9] طبراني، المعجم
الکبیر، ج 10، ص 324.
[10] حلية
الاولياء، ج 1، ص 8.
[11] طبراني،
ایضا، ج 1، ص 224
[12] «
إن أبدال أمتي لم يدخلوا الجنة بالأعمال ، ولكن إنما دخلوها برحمة الله ، وسخاوة
الأنفس ، وسلامة الصدور ، ورحمة لجميع المسلمين»
کیا حضرت ولی عصر عج الله
تعالی فرجه الشریف کی والده معصوم هیں؟
شیعوں کے عقیده کے مطابق ، صرف انبیاء اور ان
کے جانشین اصطلاحی عصمت کے حامل هیں ، یعنی وحی الهی(دین الهی) کو سمجھنے، پهنچاتے
اور نافذ کر نے کے مرحله میں پوری عمر میں هر قسم کے
اشتباه ، بهول چوک اور گناه سے منزه هیں اور ان بزرگوں کے علاوه کوئی بھی شخص اس
قسم کے مقام کا مالک نهیں هے – اگرچه ممکن هے کھ بعض دوسرے انسان بھی انسانیت کے کمال پر پهنچ کر ولایت الهی
سے کچھـ استفاده
کر سکیں اورنسبتاً عصمت کے مالک بن جائیں – چنانچه بعض امام زادے
، جیسے، حضرت زینب ، علی بن جعفر صادق (ع) اور بعض متقی و پرهیز گار علماء اس مقام
پر فائز هو چکے هیں-
اس لحاظ سے حضرت زهراء (ع) جو " عترت و
اهل بیت" کے عنوان سے متعارف هوئی هیں ، کے علاوه ائمه اطهار (ع) کی ماٶں میں سے کوئی
بھی (اس عالی معنی میں ) عصمت کی حامل نهیں تھی – خاص کر ان میں سے بعض ایسی
کنیزیں تھیں، جو اسیر هو نے کے بعد اسلامی معاشره میں داخل هوئی تھیں اور اس کے
بعد وحی کے گهروں میں داخل هو کر پاکیزه هو ئیں اور پھر معصوم سے حامله اور معصوم کو
جنم دینے کا فیض حاصل کر سکیں – یعنی وه اپنی عمر کے ایک حصه میں مسلمان بلکه شاید
موحد بهی نهیں تھیں- تاریخ کے مطابق، ان میں سے ایک خاتوں امام زمانه عج الله
تعالی فرجه الشریف کی والده گرامی تھیں – پس وه اصطلاحی معنی میں معصوم نهیں تھیں
اور ان کا مقام اهل بیت کے مساوی نهیں هے – لیکن ان کو امام کے گھر میں ، منجی
بشریت کو جنم دینے کے لئے ضروری طهارت اور قابلیت حاصل هو چکی تھی اور وه موعود بشریت کے حمل ،ولادت
اور رضاعت کے ایام کے دوران طهارت و اخلاص کے اعلی درجه پر فائز تھیں-
لغت میں ،
عصمت، محفوظ هو نے کے معنی میں هے اور اصطلاح میں ، خطا ،لغزش اور گناه سے محفوظ
هو نے کے معنی میں هے- گناه اور خطا سے یه تحفظ دو صورتوں میں قابل فرض هے:
الف: کلی
تحفظ اور معصومیت، زندگی کے تمام ادوار میں ( پیدائش سے آخر تک) دین الهی کو یاد
کر نے، تعلیم دینے اور نفاذ کر نے کے سلسله میں تمام سهو و خطا ، بهول چوک اور
گناه سے مکمل طور پر محفوظ اور معصوم هو نا- یه امر صرف انبیاء اور ائمه علیهم
السلام میں متحقق هو اهے – ( فرشتوں کے علاوه) دوسروں کے
بارے میں اس کے متحقق هو نے
کی همارے پاس کو ئی دلیل موجود نهیں هے - [1]لیکننسبتی عصمت شد ت وضعف کے قابل اور مختلف افراد میں
متفاوت اور متغیر هے- دین کے امور میں ممکن هے تلاش وکوشش، ریاضتوں اور متعدد تهجد
کے نتیجه میں کسی حد تک اس قسم کی عصمت کسی کو فراهم هو جائے اور ان هی کے ذریعه
محفوظ رهے بغیر اس کے که آخر عمر تک اس کے تحفظ کی کوئی ضمانت هو – اس لئے نسبتی عصمت کو اس کی شدت اور ضعف کے پیش نظر دوسروں
سے نسبت دی جاسکتی هے –عام افراد میں پیدا هو نے والی اس حالت کو " ملکه
عدالت" سے یاد کیا جاتا هے،یعنی شخص کی حالت ایسی هو تی هے که اس میں جان بوجھ کر لغزش اور گناه کبیره نهیں دیکھا جاتا –
شیعه ،
انبیاء اور اهل بیت عصمت علهیم السلام (حضرت زهراء اور ١٢ اماموں) کے علاوه کسی کے
لئے کلی عصمت کے قائل نهیں هیں – باوجودیکه امام زادوں ، ان سے وابسته بزرگوں ،
اور متقی اور فاضل علما کے بارے میں شیعھ کافی
احترام کے قائل هیں اور ان سے کسی قسم کے گناه یا ناپسندیده اعمال کی نسبت دینا
جائز نهیں جانتے هیں-
لهذا دوسرے
لوگوں کی کلی عصمت کی نفی کر نا، ان سے گناه یاکسی قسم کے الزام کی نسبت دینے کے
معنی میں نهیں هے-
ائمه (ع)
کی ماٶں ، بهنوں
اور ان کے دوسرے بهائیوں کے بارے میں بھی ایساهی هے، یعنی ،کلی عصمت کی ان سے نسبت
نهیں دی جاتی هے ، اور ان سے گناه و گمراهی کی نسبت دینا بھی جائز نهیں هے –
ائمه(ع) کی ماٶں،من جمله
امام زمانه عجل الله تعالی فرجه الشریف کی والده کے بارے میں بهی یهی امر جاری هے
، کیونکه، تاریخ کے مطابق وه ایک کنیز تھیں که ایک روایت کے مطابق : " ملیکه
"(صیقل) بنت یشوعا بن قیصر روم تھیں اور ان کی والده شمعون بن حمون بن
صفا،{وصی عیسی(ع)}کی نواسی تهیں ، اور اسیر کی حیثیت سے ، ام هادی (ع) کے توسط سے امام عسکری علیه
السلام کے لئے خریدی گئی تھیں -"ایک دوسری
روایت کے مطابق :" حکیمه بنت علی الهادی(ع) کے گهر میں ایک کنیز تهیں ، اس
بهن (حکیمه) نے اسے اپنے بهائی {امام هادی(ع) }کو بخش دیا –"بهر حال ان کی عمر کا
ایک حصه مسلمان کی
حیثیت سے نهیں گزرا هے اور اسیر هو نے کے بعد وحی کے گهر
میں داخل هو کر مسلمان هوئی هیں اور اسلامی تر بیت پاچکی هیں اور شرک کی ناپاکی سے
پاک هو چکی هیں اور معصوم کی شریک حیات بننے ، ان سے حامله هو نے اور ایک معصوم کی پیدائش کی لیاقت و شائستگی پیدا کر چکی هیں –
اس کے
باوجود اس میں کوئی شک و شبهه نهیں هے که معصوم کی ماں هو نے کے لئے کافی شائستگی
کا هونا بذات خود ایک عالی امتیاز هے بلکه رحم مادر کی طهارت بھی ، ائمه اطهار(ع)
کے امتیازات میں سے ایک هے- اس لئے هم ائمه اطهار علهیم السلام کی زیارت میں شهادت
دیتے هیں که:" خدا وند متعال نے آپ(ع) کو اپنی عنایتوں کی بدولت مطهر و پاک
اصلاب سے منتقل کیا هے اور پاک ارحام سے پیدا کیا هے ، اس طرح که جاهلیت کی
ناپاکیاں اور خود پرستی کے فتنے آپ کو آلوده نه کر سکے – آپ پاک منزه هیں ، آپ
لوگوں کا سر چشمه (آپ کے والدین) بھی پاک و منزه هے..."[3]
امام زمانه
عج الله تعاله فرجه الشریف سے مخصوص زیارت نامه، سامرا،میں یوں آیا هے:
"سلام هو
امام کی والده پر اور اسرار الهی کو امانت کے طور پر حاصل کر نے اور شریف ترین
انسانوں کو حمل کر نے والی پر ، سلام هو تجھـ پر اور تیری قابل رضایت راستگوئی پر... سلام
هو تجھـ پر اے
پاکیزه و پرهیز گار... میں شهادت دیتا هوں تو نے امام مهدی (عج)کی کفالت کو احسن
طریقه پر انجام دیا هے اور امانت کو ادا کیا هے ...پس خدا وند متعال تجھـ سے راضی هو اور تجھے راضی کرے اور بهشت کو
تیرے لئے منزل قرار دے ، پس جو عطا یا و عنایات تجھے خدا
وند متعال کی طرف سے حاصل هوئی هیں
وه تجھے مبارک هوں-"[4]
خلاصه یه
که حضرت حجت (عج) کی والده گرامی، چوده معصومین(ع) کے مانند معصوم نهیں تھیں ،
بلکه امام حسن عسکری (ع) کے گهر میں داخل هو نے کے بعد نسبتی عصمت کی حامل هو گئی هیں اور امام عصرعجل الله
تعالی فرجه الشریف کو حمل کر نے ، دودھ پلانے اور ان کی کفالت کر نے کی قابلیت
پیدا کر چکی هیں اور اس طرح دوسری عورتوں پر فضیلت و شرافت پاچکی هیں اور ائمه
اطهار علیهم السلام اور شیعون کی نظر میں قابل احترام اور خصوصی مقام کی حامل هیں-
مطالعه کے
لئے منابع و ماخذ:
١- مصباح
یزدی، محمد تقی، معارف قرآن(راه و راهنماشناسی)، ج٤و٥،ص٢١٢- ١٤٧-
٢- مصباح
یزدی، محمد تقی،آ موزش عقاید ،ج٢و ١، ص٢٦٠-٢٣٢، درس ٢٤- ٢٦
٣- قمی، شیخ
عباس، مفاتیح الجنان-
٤- قمی، شیخ
عباس، منتهی الاما ل،ص٩٤٠-١٠٤٤-١٠٥٠-
[1] - ملاحظه هو: مصباح یزدی ، معارف قرآن ،ج٤و ٥
(راه راهنما شناسی) ،ص٢١٢-١٤٧ ونیز آموزش عقاید، ج٢،ص٢٦٠- ٢٣٢، درس ٢٦-٢٤-
شیعوں کے عقیده کے مطابق
امام زمانه عجل الله تعالی فرجه الشریف بچپن میں هی امامت کے عهده پر فائز هو چکے
هیں ، کیا اس قسم کی چیز قابل قبول هے اور بنیادی طور پر سن طفولیت میں امامت کی
کیسے توجیه کی جاسکتی هے ؟
شیعوں کے
ضروری مذهبی عقیده کے مطابق- جو بهت سی آیات اور روایات نبوی(ص) سے ماخوذهے- امامت
ایک الهی منصب هے –اس لحاظ سے اگر خدا کی طرف سے کسی شخص کے اس مقام پر نصب هونے
کی تصدیق هو جائے، تو ایک مسلمان کو کسی چون و چرا کے بغیر، اطاعت طور پر، اس شخص کے احکام اور ولایت کے سامنے سر
تسلیم خم کردینا چاهئے –
کیونکه خدائے حکیم ومتعال" سب سے آگاه تر هے که رسالت و امامت کس کو عطا کرے-" [i]خدا وند متعال کی طرف سے کسی شخص کے اس مقام پر منصوب هو نے
کی تصدیق کئیطریقوں سے حاصل هو
سکتی هے:
١- روایات
پیغمبرصلی الله علیه وآله وسلم-
٢-ائمه اطهار
(ع)خاص کر ، ماقبل امام کی طرف سے تعارف اور تقرر۔
٣-امامت کی
دوسری شرائط کا حامل هو نا، جیسے: علم لدنی ، هم عصر لوگوں میں اعلم هونا، عصمت، جسمانی
و روحانی و نفسانی طور پر سالم و معتدل هو نا اور معجزه و غیر معمولی کام کو انجام
دینا-
کم عمر
اماموں – یعنی ٨ساله امام جواد(ع) ،٩ساله امام هادی(ع)، ٥ساله امام مهدی (ع) - کے
هم عصرشیعه، ان امور سے غافل نهیں تھے بلکه انهوں نے کافی جستجو اور تحقیق کر کے
ان کی امامت کے بارے میں مکمل یقین حاصل کر نے کے بعد هی
ان کی ولایت و امامت کے سامنے سر تسلیم خم کیا هے- بعد والی نسلیں بھی ،تاریخ، پر اپنی تحقیقات پر اور منقول نصوص پر اعتماد کرتی هیں – دوسری
جانب ،امامت کے مقام ومنصب اور ائمه اطهار(ع) کی نسبت غیبی و الهی تائیدات اور ان
کی طرف سے غیر معمولی کام انجام دینے کے پیش نظرعام انسانوں سے ان کا موازنھ اور مقائسھ درست نهیں هیں -
اس کے علاوه قرآن مجید پر اعتقاد- رکھنے والے ایک مسلمان کے لئے، ایک کم سن بچے کو
خدا کی طرف سے حکمت، علم و عنایت پر مبنی کوئی مقام و منصب عطا کر نا تعجب انگیز
نهیں هو نا چاهئے ، کیونکه حضرت عیسی(ع) ، حضرت یحیی(ع) اور حضرت سلیمان (ع) کی
نبوت بھی ان کی کم سنی میں ثابت هو چکی هے –اسی لئے ائمه اطهار علیهم السلام کی
طرف سے ان پر دلالت کر نے والی قرآن مجید کی آیات کو مکرر طور پر گواه کے عنوان سے
پیش کیا جاتا رها هے-
شیعوں کے
عقائد کے مطابق، ولی الله کی ولایت تمام انسانوں پر حاوی هے - [1]دوسرے الفاظ میں ، امامت، لوگوں کے دین و دنیا کو نظم و
انتظام بخشنے اور انهیں سعادت و انسانیت کے عروج تک هدایت کر نے کا ایک الهی منصب
هے- اس لئے امام، لوگوں کے توسط سے نه پھچنوایا جاتا ھے نه منتخب
ھوتا هے، کیونکه علم لدنی و باطنی عصمت، ایسے مخفی
امور هیں، که خدا کے سوا کوئی اور ان سے آگاه نهیں هے اور یه دوچیزیں ولی الله هو
نے کے لئے اهم ترین لوازم میں سےهیں-
ایک موحد
انسان، جس نے خدا وند متعال کی ولایت کو قبول کیا هو ، وه هر لحاظ سے اپنے پرور
دگار کے اوامر و نواهی کا مطیع اور فر مانبردارهو تا هے – پس خدا وند متعال کی طرف
سے معین ومقرر کئے گئے ولی و امام کی ولایت کو قبول کر نے میں بھی مکمل طور پر
مطیع اور فر مانبردار هو نا چاهئے اور ان کی ولایت کے سامنے بھی سر تسلیم خم هو نا
چاهئے اور ان کا دوسروں کے ساتھـ موازنه کر نے اور بے بنیاد چون وچراکرنے سے اجتناب
کر نا چاهئے-خداوند متعال کی طرف سے منصوب کئے گئے امام و والی کو پهچاننا چند
طریقوں سے ممکن هے:
الف) منصوب
امام کی سیرت اور اس کے طرز عمل کی تحقیق کرنا-
ب) ماقبل
ولی اور امام کی طرف سے اپنے ما بعد امام کے بارے میں بیان کی گئی خصو صیات اور
نشانیوں کی طرف رجوع کر نا-
ج) معجزه
کا مطالبه کرنا اور امامت کے لئے ضروری شرائط کے وجود کی تحقیق کر نا- اس سلسله
میں سیرت اور تاریخ کی طرف رجوع کر کے پیش نظر امام و
ولی کے حالات اور اس کی سیرت کے بارے میں معلو مات حاصل کئے جاسکتے هیں اور روایات
سے مر بوط منابع کا مطالعه کر کے ، پیغمبر اکرم (ص)کی طرف سے اس سلسله میں نقل کی
گئی روایتوں کو حاصل کیا جاسکتا هے اور اس کے بعد هر امام کی روایتوں کا مطالعه کر
کے اس کے بعد آنے والے امام کو پهچانا جاسکتا هے – ائمه هدی (ع) اپنی زندگی کے
دوران اور حتی که اپنی شهادت
کے بعد بھی هر دور میں کرامتوں اور معجزات کے حامل هو تے هیں –ان کی طرف رجوع کر
نے والوں کے لئے ان غیر معمولی امور کا واقع هو نا اس قدر زیاده هے که ان کا شمار
نهیں کیا جاسکتا هے اور حقیقت کے هر متلاشی کے لئے یه امر قابل تجربه هے-
نتیجه یه
که، مقام ولایت کی تصدیق کے لئے کسی خاص عمر کی شرط نهیں هے ، بلکه اس سلسله میں
اسے پیدائش سے هی، ضرورت کے مطابق روحان ی، علمی اور فکری بلوغ، خدا دادصورت میں ، عطا
کیا جاتا هے اور یه بذات خود ایک غیر معمولی امر هے، جو اس کی امامت
کا ثبوت هے نه یه که اس کی امامت میں خلل پیدا کر نے والی کوئی چیز-
یھ واضح هے که
ظاهری اور کوتاه بین نگاه کے مطابق ، بزرگوں، عالموں ، بوڑهوں اور جوانوں وغیره کے لئے ایک کم سن بچے کی ولایت کے سامنے سرتسلیم خم کر نا دشوار هے اور سن
وسال کے لحاظ سے بزرگ اولیاء کی به نسبت اس
قسم کی ولایت کو قبول کر نا عام لوگوں کے لئے مساوی نهیں هے – چھوٹی عمر میں امامت
کے منصب پر فائز هو نے والے ائمه، کے هم عصر لوگوں کے لئے بھی یه امر مستثنی نهیں
تھا ، چونکه امام جواد علیه السلام ٨سال کی عمر میں امامت پر فائز هوئے، امام هادی
علیه السلام ٩سال کی عمر میں اور مام مهدی عجل الله تعالی فرجه الشریف٥سال کی عمر
میں امامت کے منصب پر فائز هوئے ، اس لئے ان کے هم عصر لوگوں کے لئے بھی یه مسئله
آسان نهیں تھا –امام رضا علیه السلام کی خد مت میںیهی سوال اور شبهه پیش کر کے لوگ
وضاحت چاهتے تھے مثال کے طور پر مندرجه ذیل احادیث سے استشهاد کیا جاسکتا هے:
" حسن بن جهم
سے روایت کی گئ هے که اس نے کها: میں حضرت امام رضاعلیه السلام کی خد مت میں تھا ،
حضرت جواد علیه السلام بھی ، جو اس وقت ایک چھوٹے بچے تھے، حضرت
علیه السلام کی خد مت میں حاضر تھے ایک طولانی گفتگو کے بعد حضرت رضا علیه السلام
نے مجھـ سے فر
مایا : اے حسن! اگرمیںتم سے کهوں که یه بچه تمھارا امام هو گا تو تم کیا کهو گے ؟ میں نے عرض کی :
آپ(ع) پر قربان هو جاٶں ، جو کچھـ آپ(ع) فرمائیں گے ، میں بھی وهی کهوں گا –
امام (ع) نے فر مایا : "صحیح کهتے هو" اس کے بعد امام رضا علیه السلام
نے امام جواد(ع)کے کاندهے سے لباس هٹا کر دو انگلیوں کے مانند ایک رمز مجھے دکھا
یا اور فر مایا: " حضرت موسی بن جعفر(ع) کے بدن پر بھی ، اسی جگه پر یهی رمز
موجود تھا-" اس کے علاوه محمودی سے بھی روایت نقل کی گئی هے که اس نے کها
:" میں طوس میں حضرت امام رضا علیه السلام کی خد مت میں تھا-حضرت(ع)کے اصحاب
میں سے ایک نے کها : " اگر حضرت(ع)کے لئے کوئی حادثه پیش آئے توآپ(ع) کے بعد
خدا کا منتخب امام کون هو گا؟!
حضرت(ع) نے
اس کی طرف ایک نظر ڈال کر فر مایا : " میرے بعد امر رسالت کے سلسله میں ،
میرے بیٹے حضرت جواد(ع) کی طرف رجوع کیا جانا چاهئے –" سائل نے کها : امام جواد
(ع) کی عمر توکم هے ؟! حضرت امام رضا علیه السلام نے فر مایا : "خداوند متعال
نے حضرت عیسی بن مریم کو پیغمبری کے مقام پر مبعوث فر مایا ، جبکه ان کی عمر امام
تقی علیه السلام سے بھی کم تر تھی-" [2]
لیکن امام
رضا علیه السلام کے بعض شیعوں نے ، خدشات کے پیش نظر ،نصوص کی موجود گی کے باوجود
، بعد والے امام کی تلاس وکوشش اور ان کو پهچاننے کا اقدام کیا ، اس لئے " ان
میں سے بعض امام رضا علیه السلام کے بھائی عبدالله بن موسی کے پیچھے گئے، چونکه وه
دلیل کے بغیر کسی کی امامت کو قبول کر نے کے لئے آماده نهیں تھے ، اس لئے ان میں
سے بعض نے ان سے چند سوالات کئے اور جب ان کو اپنے سوالات کا جواب دینے میں بے بس
پایا، تو ان سے دوری اختیات کی[3]" ، کیونکه جس چیز کی اهمیت تھی ، وه اس مظهر الهی کا ظاهر هو نا تھا
جو اماموں کے علم ودانش میں هو نا چاهئے تھا...اس لئے وه تمام اماموں کے بارے میں
اس اصول کی رعایت کرتے تھے اور ان سے مختلف قسم کے سوالات کرتے تھے اور صرف اس وقت
شیعوں کی طرف سے امام معصوم کے عنوان سے پهچانے اور قبول کئے جاتے تھے ، جب وه
(اپنی امامت کے بارے میں نص کے باوجود) ان کے سوالات کا بخوبی جواب دینے میں
کامیاب هو تے تھے- [4]کم عمر والے امام بھی اس امر سے مستثنی نهیں تھے ، اور
شیعوں کی بزرگ شخصیتوں کی طرف سے ان کے بارے میں باریک بینی سے تلاش وجستجوکی گئی هے اور انھوں نے ان کی علمی توانائیوں ، کرامتوں اورمعجزوں کا مشاهده کر نے کے بعد یقیین پیدا کیا ھے۔
دوسری جانب
سے ائمه اطهار(ع) کے دشمن، جو همیشه ان کو عضو معطل کر نے اور ان کے اطراف سے شیعوں کو پرا گنده کر نے
کی کوششوں میں لگے رهتے تھے، بیکار نهیں بیٹھے تھے، بلکه انهوں نے علمی اجتماعات
وغیره تشکیل دے کر ان اماموں کی کم عمری کا بهانه بناکر ان کو معاشرے سے بالکل حذف
کر نے کی زبر دست کوششیں کیں – لیکن انهوں نے اس سلسله میں جس قدر بھی کو شش کی،
خود رسوا هو کر ره گئے اور اس کے بر عکس اماموں کی اعلمیت تمام معاصر علماپر زیاده
سے زیاده واضح اور ثابت هوئی-[5]
مذکوره
مطالب کے علاوه قرآن مجید اور انبیاء علیهم السلام کی داستانوں سے شغف رکھنے والوں پر یه امر مخفی نهیں هے که بعض
انبیاء علهیم السلام بهت هی چھوٹی عمر میں نبوت و رسالت کے مقام پر فائز هو چکے
هیں ، بلکه امامت کے مقام تک بھی پهنچے هیں، جیسے: حضرت عیسی (ع)[6] و حضرت یحیی(ع)[7] وغیره، جبکه اکثر انبیاء علیهم السلام ادھیڑ
عمر میں ، یعنی چالیس سا ل کی یا اس سے زیاده عمر میں اس مقام پر مبعوث
هوئے هیں-
لهذا اس
امر کو حکمت وعلم الهی سے مربوط جاننا چاهئے اور تشخیص کے مرحله میں قرائن، ادله
اور شواهد کی طرف رجوع کر نا چاهئے- چنانچه قرآن مجید میں ارشاد فر ماتا هے: " (پیغمبر) آپ کهئے که خدا یا
!تو صاحب اقتدار هے جس کو چاهتا هے اقتدار دیتا هے اور جس سے چاهتا هے سلب کرلیتا
هے ، جس کو چاهتا هے عزت دیتا هے اور جس کو چاهتا هے ذلیل کر تا هے – سارا خیر
تیرے هاتھـ میں هے
اور توهی هر شے پر قادر هے-"[8]اور بنی اسرائیل کے شبهه اور جواب کی قرآن مجید یوں تشریح کرتا هے : "ان کے پیغمبر نے کها
که الله نے تمهارے لئے طالوت کو حاکم مقرر کیا هے – ان لوگوں نے کها که: یه کس طرح
حکومت کریں گے ، ان کے پاس تو مال کی فراوانی نهیں هے ، ان سے زیاده تو هم هی
حقدار حکو مت هیں – نبی نے جواب دیا که: انهیں الله نے تمهارے لئے منتخب کیا هے
اور انهیں علم و جسم میں وسعت عطا فر مائی هے اور الله جسے چاهتا هے اپنا ملک دیتا
هے که وه صاحب وسعت بھی هے اور صاحب علم بھی – اور ان کے پیغمبر نے یه بھی کها که
ان کی حکو مت کی نشانی یه هے که یه تمهارے پاس وه تابوت لے آئیں گے جس میں
پروردگار کی طرف سے سامان سکون اور آل موسی اور آل هارون کا چھوڑا هوا ترکه بھی هے
– اس تابوت کو ملا ئکه اٹھائے هوئے هوں گے اور اس میں تمهارے لئے قدرت پروردگار کی
نشانی بھی هے اگر تم صاحبان ایمان هو-"[9]
اس بناپر،
امام زمانه عجل الله تعالی فرجه الشریف کی سن طفولیت میں امامت کے منصب پر فائز هو
نے کے سلسله میں کسی قسم کا منفی پهلو نهیں
پایا جاتا هے-
مطالعه کے
لئے منابع و ماخذ:
١- فاضل،جواد،
معصومین١٤ گانه-
٢- پیشوایی ،
مهدی، سیره پیشوایان،ص٥٥٥- ٥٣١-
٣- نجفی،محمد
جواد، ستار گان درخشان ، ج١١ و١٤، ج ١١، ص٢٥- ٢٢، ج١٤، ص٦٩- ٦٧-
٤- جمعی از
نویسندگان ، معارف اسلامی ، ج٢، معارف( نهاد رهبری در دانشگاه ها، ص١٢٣- ١٢٢-
٥- قمی ، شیخ
عباس ، منتهی الامال ، ص٩٥٥- ٩٤٣-
٦- جعفر یان ،
رسول، حیات سیاسی و فکری ، انصاریان ، چ ١٣٨١قم، ص٤٧٣- ٤٧٢-
٧- عاملی ،
جعفر مرتضی ، ترجمه حسینی، سید محمد، زندگانی سیاسی امام جواد(ع) ،ص١٠٩-٦٨-
[5] - ملا حظه هو: شیخ عباس قمی، منتهی الامال، ص٩٤٣-
٩٥٥، ونیز عاملی ، جعفر مرتضی ، ترجمه حسینی، سید محمد، زندگانی سیاسی امام
جواد(ع)، ص٦٨- ١٠٩-
"امام زمانھ " (عج) کے متعلق ابن عربی کا نقطھ
نظر کیا ھے؟
یھ بات مشھورھے کھ ابن عربی کو امام زمانھ (عج) پر
اعتقاد تھا، اس سلسلے میں مزید وضاحت کیجئے؟
ابن عربی کے آثار کا مطالعھ کرنے سے امام زمانھ (عج) کے متعلق اس کا
عقیده واضح ھوتا ھے۔ وه فتوحات مکیھ کے باب ۳۶۶ میں جو آخر الزمان میں حضرت مھدی (عج) کے اصحاب اور
وزراء کی پھچان کے بارے میں ھے، اس طرح رقمطراز ھے :" خداوند کا ایک زنده
خلیفھ موجود ھے جو ظاھرھوگا اور اس کا ظھور اس زمانے میں واقع ھوگا جب دنیا ظلم و
ستم سے بھر گئ ھوگی اور وه دنیا کو عدل و انصاف سے بھردے گا۔ اگر دینا کی عمر سے
صرف ایک دن باقی رھے گا خداوند متعال اس دن کو اتنا طولانی کرے گا کھ وه خلیفھ
ولایت کرے۔ وه رسول اکرم صلی اللھ علیھ و آلھ وسلم کی عترت سے ھے اور اس کے دادا
حضرت امام حسین علیھ السلام ھیں" .
شیخ اکبر، ابن عربی کا ایک رسالھ جس کا نام " الوعاء المختوم علی
السر المکتوم" ھے۔ جو مھدی موعود (عج) کی ختم ولایت کے شئون اور ان کے ظھور
کی کیفیت کے بارے میں لکھا گیا ھے۔
حضرت امام زمانھ (عج) کے بارے میں ابن عربی کا نقطھ نظر شیعوں کے
مانند ھے۔ جیسا کھ وه کھتا ھے بے شک حضرت مھدی (عج) امام حسن عسکری علیھ
السلام کے فرزند ھیں، جو نیمھ شعبان ۲۵۵ ھجری کو متولد ھوئے اور وه باقی ھیں ، یھان تک که عیسی بن مریم ان
سے ملحق ھوں گے۔
اسی طرح وه حضرت مھدی کی عصمت کے قائل ھیں اور ان کے علم کو بھی
"تنزیل الھی" (خدا کی جانب ) مانتے ھیں۔
محی الدین ابن عربی(۶۳۸-۵۶۰ق)
کا اصلی نام محمد بن علی بن محمد بن احمد بن عبدا للھ حاتم طایی، معروف بھ محی
الدین ، مکنی بھ ابن عربی اور ملقب بھ شیخ اکبر ھے۔
محی الدین عربی اسلام کے بزرگ عارفوں اور علوم عرفان و عرفان نظری کی
بنیاد رکھنے والوں میں سے ھیں۔ وه اسلامی دنیا کے سب سے بڑے مؤلف ھیں۔ عرفاء
کے درمیان گذشتھ سے حال تک بے نظیر ھیں۔ ان کے رسالوں کا اصلی موضوع عرفان ، حالات
، واردات اور قلبی تجربے ھیں۔ لیکن اس کے ساتھه ساتھه وه علوم تفسیر ، حدیث ، فقھ ،
کیمیا ، جفر ، نجوم ، حساب ، جمل اور شعر میں بھی صاحب نظر ھیں۔ آج تک ان کی
مطبوئه تالیفات کی تعداد ۵۰۰ تک پھنچ گئی ھے۔ [1]
ابن عربی کی کثیر الابعاد شخصیت اور ان کے گھرے افکار، صدیوں تک بھت
سے علم اور دین کے پیاسوں کو اپنی طرف کھینچ چکے ھیں۔
شھید محراب آیۃ اللھ قاضی نے کتاب "انیس الموحدین " کے
حوالھ جات میں لکھا ھے کھ شیعھ اور سنی علماء نے ان کے بارے میں تین قول بیان کئے
ھیں۔
۱۔ بعض نے ان کی تکفیر کی ھے جیسے علامھ تفتازانی۔
۲۔ بعض نے ان کو اکابر اولیاء میں سے جانا ھے بلکھ انھیں کامل عارفوں
اور عظیم مجتھدوں میں شمار کیا ھے۔
آیۃ اللھ جوادی آملی لکھتے ھیں: "ابن عربی کے بارے میں مختلف
فیصلے ، ان کے مشھور ھونے کے زمانے سے آج تک مختلف مذاھب کے بارےمیں بیان ھوئے ھیں
، ھر کوئی اپنے گمان کے مطابق ان سے محبت یا ان سے بغض رکھتا ھے بعض ان کو سب سے
بلند حد تک یعنی عصمت تک لے جاتے ھیں ، اور بعض انھیں زندیق قرار دیتے ھیں"۔ [3]
علامھ شھید مرتضی مطھری لکھتے ھیں: "محی الدین عربی اندلس(سپین)
کے رھنے والے ھیں اور اندلس ان سرزمینوں میں سے ھے جھاں کے مکین نھ صرف سنی تھے۔
بلکھ انھیں شیعوں سے کافی دشمنی تھی اور ناصبی گری کے اثرات ان میں موجود تھے، اور اھل سنت کے علماء کے
درمیان ، اندلس کے علماء ناصبی ھیں اور شاید ھی اندلس میں کوئی شیعھ ھو اور اگر ھو
بھی تو بھت ھی کم- محی
الدین اندلس کے ھیں لیکن چونکھ وه عرفانی ذوق رکھتے ھیں ۔ وه معتقد ھیں کھ زمین
کبھی بھی ولی اور حجت سے خالی نھیں ھوسکتی ھے۔ یعنی اس نے شیعوں کے نقطھ نظر کو مانا ھے اور
ائمھ اطھار اور حضرت زھرا علیھم السلام کے نام کا ذکر کیا ھے۔ یھاں
تک که حضرت حجت (عج) تک پھنچتے ھیں اور یھ دعوی کرتے ھیں کھ میں نے سال چھه سو
ھجری میں حضرت سے فلاں جگھ پر ملاقات کی ھے"۔ [4]
علامھ حسن زاده آملی لکھتے ھیں : "ابن عربی نے کتاب " الدر
المکنون و السر المکتوم " میں کھا ھے که قرآن کے اسرار پیغمبر اکرم صلی اللھ
علیھ و آلھ وسلم کے بعد امیر المومنین علیھ السلام کے پاس ھیں۔ اس کے بعد وه ھر
ایک امام کا نام لیتےھیں یھان تک کھ حضرت بقیۃ اللھ تک پھنچ جاتے ھیں۔" [5]
ابن عربی کتاب" عنقاء مغرب فی ختم الاولیاء وشمس المغرب "
میں خاتم الولایۃ کی توصیف اور خصائص شرائط اور کمالات کو بیان کرکے کچھه نکات کو
گن لیتے ھیں جن کو حضرت حجت (عج) ، شیعوں کے بارھویں امام کے علاوه کھیں بھی نھیں
پایا جاسکتا ھے وه اسی کتاب کے آخر میں خاتم الاولیاء کو معین کرتے ھیں اورکھتے
ھیں که بے شک امام مھدی رسول اکرم صلی اللھ علیھ و آلھ وسلم کے اھل بیت علیھم
السلام سے منسوب ھیں۔ [6]
فتوحات مکیۃ کے باب ۳۶۶ میں جوآخر الزمان میں حضرت مھدی ( عج ) کے اصحاب اور وزیروں کی
پھچان اور معرفت کے بارے میں ھے یوں لکھتے ھیں: "خداوند متعال کا ایک زنده
خلیفھ (پرده غیب میں ) ھے ، جو ظاھر ھوگا اور وه اس زمانے میں ظھور کرے گا جب دنیا
ظلم و ستم سے بھری ھوگی۔ وه دنیا کو عدل و انصاف سے بھر دے گا ، اگر دنیا کی عمر
سے فقط ایک دن باقی رھے گا تب بھی خداوند اس دن کو اتنا طولانی کردے گا که وه
خلیفھ ولایت کرے، وه رسول اکرم صلی اللھ علیھ و آلھ وسلم کی عترت سے ھے اور اس کے دادا
حضرت حسین بن علی علیھ السلام ھیں۔ شیخ اکبر ابن عربی کا ایک رسالھ "الوعاء
المختوم علی السر المکتوم " ھے کھ جو مھدی موعود ( عج) کے ختم ولایت مطلقھ کے
شئون میں سے ھے اور یھ رسالھ حضرت حجت کے ظھور کی کیفیت کے بارے میں تالیف کیا گیا
ھے ۔ [7]
حضرت مھدی کے بارے میں ابن عربی کا نقطھ نظر شیعوں کے مانند ھے اور
جیسا کھ وه کھتے ھیں کھ بے شک مھدی حضرت امام حسن عسکری (علیھ السلام ) کے فرزند
ھیں اور وه نیمھ شعبان ۲۵۵ ھ کو متولد ھوئے وه تب تک باقی رھیں گے یھان تک که حضرت عیسی ان سے
ملحق ھوں گے ۔ [8]
اس طرح وه حضرت مھدی کی عصمت کے قائل ھیں اور وه ان کے علم کو تنزیل
الھی (خدا کی جانب ) سے جانتے ھیں [9]
یھ بات قابل ذکر ھے کھ شیعوں کے بھت سے علماء نے اپنے آثار اور
تالیفات میں محی الدین ابن عربی سے بھت سے مطالب ، شاھد کے طور پر پیش کئے ھیں من
جملھ علامھ امینی نے کتاب " الغدیر" میں ، احادیث نبوی در فضائل امام
علی علیھ السلام کے عنوان کے تحت، اھل سنت کے منابع سے حدیث " انا مدینۃ
العلم و علی بابھا" کو ابن عربی کی کتاب " الدر المکنون " سے نقل
کیا ھے " [10]
کیاامام زمانه کے زنده هونے پر عقلی دلائل موجود
هیں ؟
امام زمانه کا وجود اور اپ کی امامت در اصل
امامت خاصه کے مباحث هیں جس کے لئے براه راست عقلی دلائل کا سھارا نھین لیا
جاسکتا۔ بلکه امامت عامه میں عقلی دلیل استعمال کرنے کے بعد اور تمام زمانوں میں
امام کی وجود کی ضرورت کے پیش نظر اسی طرح تاریخی روایات اور احادیث سے استناد
کرتے هوئے یه نتیجه حاصل هوتا هے کے اس زمانے میں امام صرف حضرت مھدی هی هیں اور
ان کے علاوه کوئی شخص امامت کا مصداق نھیں هے۔
هر زمانے میں ایک معصوم انسان اور حجت الهی کا
هونا امامت عامه کی مختلف عقلی دلائل کے بنیاد پر هے مثلا نبوت اور امامت الله کی
طرف سے ایک فیض معنوی هیں اور قاعده لطف کی بنیاد پر یه لطف همیشه رهنا چاهیے۔
جو روایت امام معصوم کے حضرت میھدی میں منحصر
هونے پر دلالت کرتی هیں وه اتنی زیاده هیں که انکا انکار نھیں کیا جاسکتا اس حد تک
کے اھل سنت کے بھت سے نام ور دانشمندوں نے یه قبول کیا هے اور اپنی کتابوں میں نقل
کیا هے که:مھدی موعود امام حسن عسکری کے فرزند هیں اور ۲۵۵ ھجری کو
سامراءمیں پیدا هوئے اور اس وقت غیبت میں هیں اور الله کے حکم سے ظاھر هوں گے۔
امام زمانه کی طولانی عمر کو قبول کرنے میں
کوئی حیرت اور تعجب کی بات نھیں هے کیونکه اپ خدادای علم اور فطری طریقوں سے
استفاده کرتے هوئے ایک لمبی مدت تک بغیر کسی بڑھاپے اور ضعیفی کے اس دنیا میں
زندگی گزار رهیں هیں۔ اس کے علاوه اس میں کوئی تعجب نھین ھے کے الله اپنے حجت کو
انصاف کی پشت پناهی نیز ستم اور ستم گاروں کی مخالفت کے لئے فطری اسباب و عوامل سے
ماورا هو کر ذخیره کے طور پر باقی رکھے۔
امام زمانه کی امامت اور اپ کا وجود امامت خاصه
کی مباحث میں ھے۔ امامت خاصه سب کع براه راست دلیل عقلی سے نھیں سمجھا جاسکتا۔[1] بلکه دلیل عقلی هر زمانه میں صرف امامت عامه
اور وجود امام کے لزوم کو ثابت کرتی هے۔
امامت عامه میں برھان عقلی اس بات پر هوتا هے
کے ایک انسان معصوم اور حجت الهی کا وجود هونا چاهیے۔ اب اگر پھلے مقدمه میں روائی
اور تاریخی دلائل کا اضافه کردیا جائے تو یه بات ثابت هو جائے گی اس زمانه میں صرف
حضرت مھدی فیض الهی کا ذریعه هیں اور اس وقت با حیات هے۔[2]
استدلال کے دو ارکان
۱۔ تمام زمانوں میں امام کے وجود پر برھان عقلی:
الف: برھان لطف: نبوت و امامت الله کی جانب سے
ایک فیض معنوی هے جو قاعده لطف کی بنیاد پر همیشه جاری رهنا چاهیے۔ قاعده لطف کا
تقاضا هے اسلامی معاشره میں ایک ایسا امام هو جو معاشره کو حق کے محور پر چلائے
اور اس کو خطاءمطلق سے بچاتا رهے۔
امام صادق کا یه جمله ممکن هے اسی بات کی طرف
اشاره هو: الله عزوجل اس سے کھیں با عظمت اور بالاتر هے کے زمیں کو بغیر امام کے
چھوڑ دے۔[3]
وجود امام غائب کئے الطاف کو اس طرح شمار کیا
جاسکتا هے:
۲۔ آماده نفوس کی تربیت
۳۔ بقائے مذھب
۴۔ ایسے نمونے اور آئیڈیل کا وجود جو لوگوں کا
مقتدا هو سکے۔
ب: برھان علت غائی: علم کلام میں ثابت هو تا هے
کے خداوند عالم اپنے افعال سے ایک ھدف اور غایت کو مد نظر رکھتا هے اور چوں که خدا
کمال مطلق هے اور اس میں نقص کا کوئی گذر نھیں هے لھذا افعال الهی کے غایت مخلوقات
کی طرف پلٹتی هیں اور وجود انسان کا ھدف انسان کامل هے یعنی انسان وه درخت هے جس
کا پھل انسان کامل هے۔
ج: برھان امکان اشرف: فلسفه میں قاعده امکان
اشرف کے ناقم کا ایک قاعده هے جس کا معنی یه هے که ممکن اشرف کو مراتب کے لحاظ سے
ممکن اخص پر مقدم هو نا چاھیے ۔۔۔ [5] کائنات میں انسان اشرف المخلوقات هے اور یه
محال هے کے وجود، حیات، علم، قدرت، جمال ایک عام انسان تک پھچ جائے اور یه کمالات
اس انسان کامل تکل تک نه پھچے جو حجت الله هے۔
د: برھان مظھر جامع: مقام ظھور میں الله کی
هویت مطلقه پر احکام وحدت غالب رھتے هیں اور وحدت ذاتی میں اسماءتفصیلی کی کوئی
گنجایش نھیں هے۔ دوسرے طرف مظاھر تفصیلی عالم خارج میں ظاهر هوتے هیں اور ان میں
وحدت پر احکام کثرت غالب هوتے هیں یھاں الله کا فرمان اعتدالی صورت کا متقاضی هوتا
هے جس میں وحدت ذاتی یا کثرت امکانی ایک دوسرے پر غلبه نه پائیں تاکه اسماء تفصیلیه
اور وحدت حقیقیه کے اعتبار سے حق کے لئے ایک مظھر هو اور وه تمام انسان کامل کی
صورت اعتدال هے[6]
۲: امام زمانه علیه السلام کی ولادت اور حیات کے
سلسله میں تاریخی اور روائی دلائل اچھے خاصه هیں نمونه کے طور پر کوچھ تاریخی
اسناد پیش کی جارهی هے:
۱۔ اھل سنت کے بھت سے نامور دانشوروں نے اسے قبول
کیا هے [8] اور اپنے کتابوں میں ذکر کیا هے که مھدی موعود
امام حسن عسکری علیه السلام کے فرزند هیں اور ۲۵۵ ھ کو
سامراءمیں پیدا هوئے اور غیبت میں زندگی گذار رهے هیں اور الله کے حکم سے ظھور فرمائیں
گے۔[9]
۲: امام حسن عسکری نے اپنے بیٹے امام مھدی کی
ولادت سے پھلے هی ان کی ولادت کی خبر دی تھی مثلا ان کی پھوپھی حکیمه خاتون کھتی
هیں کے ۱۵ شعبان کی
شب میں میرا بیتا مھدی نرگس خاتون کے بطن سے پیدا هوگا[10]۔
احمد بن اسحاق کھتے هیں پینے امام حسن عسکری کو
کھتے سنا کے اس الله کا شکروسپاس جس نے مجھے اس دنیا سے نھیں اٹھایا یھان تک کے
میرے جانشین مھدی موعود کو مجھے پھچنوادیا۔ وه جسمانی، اخلاقی ا ور کرداری خصوصیات
کے اعتبار سے سب دے زیاده رسول سے مشابه هے۔ خدا ایک مدت تک اسے غیبت میں رکھے گا
پھر وه ظھور کرے گا اور دنیا کو عدل وانصاف سے بھر دیگا [11] نیز حضرت عسکری نے اپنے فرزند کی ولادت کے بعد
اپنے خواص اور قریبیوں کوامام مھدی کی ولادت سے آگاه فرمایا۔
محمد بن علی بن حمزه کھتے هیں کے میں نے امام
عسکری کوکھتے سنا که بندوں پر خدا کی حجت اور میرا جانشین اور امام ۱۵ شعبان ۲۵۵ ھ کو طوع
فجر کے وقت پیدا هوا[12]۔
احمد بن حسن بن اسحاق قمی کھتے هیں جب امام
مھدی کی ولادت هوئی تو امام عسکری کی طرف سے ایک خط مجھے ملا جس میں اپ نے لکھا
تھا کے میرا یھان ایک فرزند ی ولادت هوئی هے، اس موضوع کو راز میں رکھو، کیونکه اس
کو میں دوستوں اور قریبیوں کے علاوه کسی کے اوپر ظاهر نھیں کروں گا[13]
ابراهیم ابن ادریس کهتے هیں که امام عسکری نے
ایک گوسفند میرے پاس بھیجی اور فرمایا که اس کا میرے بیٹے مهدی کی ولادت کی مناسبت
سے عقیقه کرو اور خود بھی کھاؤ اور اپنے خانوادے کو بھی نوش جان کراؤ۔[14]
۳۔ امام مهدی علیه السلام کی ولادت سے پهلے اس
کی بشارت دینے کے علاوه امام عسکری علیه السلام نے ولادت کے بعد اپنے خواص کو خبر
دی که مهدی موعود کی ولادت هوچکی هے اس کے علاوه ایک اور قدم اٹھایا که شیعوں کے
ایمان و یقین میں اضافه کے لئے بعض شیعوں کو ان کی زیارت کرائی۔
احمد ابن اسحاق کهتے هیں: امام عسکری علیه
السلام نے ایک تین ساله بچے کو مجھے دکھایا اور فرمایا که اے احمد اگر تو ائمه کے
نزدیک محترم نه هوتے تو میں اپنے بچے کو تمهیں نه دکھاتا۔ جان لو که یه بچه رسول
الله صصص کا هم نام اور هم کنیت هے۔ اور یه وهی هے جو زمین کو عدل و انصاف سے بھر
دےگا۔[15]
معاویه ابن حکیم، محمد ابن ایوب اور محمد ابن
عثمان ابن سعید عمری کهتے هیں : هم چالیس افراد کے ایک گروه کی صورت میں امام
عسکری علیه السلام کے گھر میں جمع تھے۔ امام علیه السلام نے اپنے فرزند کی همیں
زیارت کرائی اور فرمایا: یه تم سب کا امام اور میرا جنشین هے۔[16]
علی ابن بلال، احمد ابن هلال، محمد ابن معاویه
ابن حکیم اور حسن ابن ایوب کهتے هیں: هم کچھ لوگ امام حسن عسکری علیه السلام کے
گھر پر جمع تھے اور هم نے امام سے آپ کے جانشین کے بارے میں سوال کیا کچھ دیر بعد
امام علیه السلام نے همیں ایک بچے کو دکھایا اور فرمایا: میرے بعد یه تمهارا امام
هے۔[17]
عمر اهوازی کهتے هیں: امام حسن عسکری علیه
السلام نے اپنے بیٹے کو مجھے دکھایا اور فرمایا: میرے بعد یه میرا بیٹا تمهارا
امام هے۔[18]
ابراهیم ابن محمد کهتے هیں: امام عسکری علیه
السلام کے یهاں میں نے ایک خوبصوت بچے کو دیکھا میں نے امام سے پوچھا: یابن رسول
الله! یه بچے کون هے؟ آپ نے فرمایا: یه میرا بچه هے، یه میرا جانشین هے۔[19]
یعقوب ابن منفوس کهتے هیں: میں امام عسکری علیه
السلام کی خدمت میں حاضر هوا اور امام سے بعد کے امام اور صاحب الامر کے بارے میں
دریافت کیا۔ آپ نے فرمایا: پرده هٹاؤ میں پرده هٹایا تو ایک پانچ ساله بچے کو
دیکھا جو هماری طرف آرها تھا وه بچه آیا اور اما عسکری کے زانو پر بیٹھ گیا۔ امام
نے فرمایا: یه آپ کا امام هے۔[20]
۴۔ امام عسکری علیه السلام کے بشارت دینے کے بعد
اور خواص اور معتمد افراد کو امام مهدی کی زیارت کرانے کے بعد اب خواص کی ذمه داری
هے که وه اس سلسله میں اقدام کریں اور دوسرے شیعوں کو اس کی اطلاع دیں تاکه وه شک
و سرگردانی سے نجات پاسکیں۔
حکیمه خاتون، محمد ابن علی ابن موسی الرضا علیهم
السلام کی دختر نیک اختر، عثمان ابن سعید عمری، حسن ابن حسین علوی، عبد الله ابن
عباس علوی، حسن ابن منذر، حمزه ابن ابی الفتح، محمد ابن عثمان ابن سعید عمری،
معاویه ابن حکیم، محمد ابن معاویه ابن حکیم، محمد ابن ایوب ابن نوح، حسن ابن ایوب
ابن نوح، علی ابن بلال، احمد ابن بلال، محمد ابن اسماعیل ابن موسی ابن جعفر، یعقوب
ابن منفوس، عمر اهوازی، خادم فارسی، ابو علی ابن مطهر، ابی نصر طریف خادم، کامل
ابن ابراهیم، احمد ابن اسحاق، عبد الله مستوری، عبد الله ابن جعفر حمیری، علی ابن
ابراهیم مهزیار، ابو غانم خادم نے یه کوشش کی که امام مهدی علیه السلام کی ولادت
کی خبر کو دیگر شیعوں تک پهنچا سکیں۔
حکیمه خاتون سے منقول ایک روایت پر توجه
فرمائیں: امام حسن عسکری علیه السلام نے ایک شخص کو میرے پاس بھیجا که آج (یعنی شب
نهمه شعبان کو) افطار کے لئے میرے پاس آؤ، چونکه آج کی شب الله اپنی حجت کو آشکار
کرے گا۔ میں نے پوچھا که یه مولود کس سے هے؟ فرمایا نرجس سے۔ میں نے عرض کی که
نرجس میں تو آثار حمل نهیں هیں۔ کها که بات یهی هے جو میں نے کهی۔ میں بیٹھی هی
تھی که نرجس آئیں اور میرے جوتے کو میرے پیروں سے اتارا اور کها: میری ملکه آپ کا
کیا حال هے؟ میں نے کها تم میری اور اس گھر کی ملکه هو وه یه بات سن کر حیرت زده
هوئیں اور ناراض هوکر بولیں آپ یه کیا بات کهه رهی هیں! میں نے کها الله اس شب میں
تمهیں ایسا بیٹا عنایت کرے گا جو دنیا و آخرت کا امام هوگا۔ نرجس میری بات سے
شرماگئیں۔ پھر میں نے افطار کے بعد نماز عشاء پڑھی اور بستر پر چلی گئی۔ پھر آدھی
رات کے بعد اٹھی اور نماز شب پڑھی، حجرے سے باهر گئی تاکه طلوع فجر کو دیکھ سکوں
میں نے دیکھا که فجر اول طلوع هوچکی هے اور نرجس ابھی سوئی هوئی هیں۔ اس لمحه میرے
ذهن میں یه سوال آیا که حجت خدا کی ولادت کیوں نهیں هوئی که اچانک اما عسکری نے
برابر کے حجرے سے مجھے آواز دی پھوپھی جان جلدی نه کیجے که وقت موعد قریب هے۔ میں
بیٹھ گئی اور قرآن پڑھنے لگی، میں قرآن پڑھ رهی تھی که اچانک نرجس خاتون پریشانی
کے عالم میں جاگیں میں جلدی سے ان کے پاس گئی اور پوچھا کسی چیز کا احساس هورها
هے؟ کها: هاں۔ میں نے کها الله کا ذکر زبان پر جاری رکھو، یه وهی هے جس کی خبر میں
نے تمهیں رات کے آغاز میں دی تھی، پریشان نه هو اپنے دل کو مطمئن رکھو۔ اسی وقت
ایک نورانی پرده میرے اور ان کے درمیان حائل هوگیا۔ اچانک میں نے دیکھا که بچے کی
ولادت هوچکی هے۔ میں جب نرجس سے کپڑا هٹایا تو دیکھا که بچه سجدے کی حالت میں
هےاور ذکر خدا میں مصروف هے۔ اسی وقت اما عسکری علیه السلام کها که پھوپھی جان!
میرے بیٹے کو میرے پاس لے آؤنوزاد کو آپ کی خدمت میں لے گئی۔ حضرت نے اسے اپنی
آغوش میں لیا اور بچے هاتھ، آنکھ اور جوڑوں پر هاتھ پھیرا اور دائیں کان میں اذان
اور بائیں کان میں اقامت کهی اور فرمایا که اے بیٹا کچھ بولو۔ نوزاد نے بولنا شروع
کیا اور شهادتین کو زبان پر جاری کیا پھر ترتیب کے ساتھ امام علی اور دیگر ائمه پر
بترتیب درود بھیجی یهاں تک که اپنے پدر بزرگوار پر درود بھیجی۔ پھر امام عسکری
علیه السلام نے مجھ سے کها: بچے کو اس کی ماں کے پاس لے جائیں تاکه ان کو سلام کرے
اور پھر میرے پاس لے آئیں میں بچے کو ماں کے پاس لے گئی اس نے سلام کیا اور میں
بچے کو واپس امام کے پاس لے آئی۔ امام نے فرمایا که ساتویں دن همارے پاس آئیے گا،
میں ساتویں دن پهنچی تو امام نے فرمایا میرے بیٹے کو میرے پاس لے آئیں۔ بچے نے
پهلے دن کی طرح شهادتین اور ائمه پر درود کو زبان پر جاری کیا۔ پھر اس آیت کی
تلاوت کی: [و نرید ان نمن علی الذین استضعفوا فی الارض و نجعلهم ائمۃ و نجعلهم
الوارثین]۔ حکیمه خاتون کهتی هیں که اس کے بعد ایک دن میں آپ کی خدمت میں پهنچی
میں نے پرده هٹایا تو امام مهدی علیه السلام کو موجود نه پایا۔ میں نے عرض کی: آپ
پر فدا هوجاؤں یه بتائیں که امام مهدی کهاں هیں؟ آپ نے فرمایا: پھوپھی جان! اس کی
حضرت موسی علیه السلام کی طرح پوشیده طور پر حفاظت هوگی۔[21]
۵۔ امام عسکری علیه السلام کے بعد خود امام مهدی
علیه السلام نے کرامات اور سچے شواهد (معجزے یا شبیه معجزے) کے ذریعه اپنی امامت
امام عسکری علیه السلام کی شیعوں کے لئے ظاهر کیا اور ان کے اوپر حجت تمام کی۔
وکالت کا خفیه اداره جو امام صادق علیه السلام
کے زمانے سے اسی زمانے کے لئے شروع کیا گیا تھا، غیبت صغری میں اس کا اسب سے اهم
کام یهی تھا که شیعوں کے شک و حیرت کو برطرف کرے اور ان کو امام غائب اور نواب
اربعه کی نیابت کے بارے میں ان کو مطمئن کرے۔ امام کے وکیل اور نائبین نے سچے
شواهد لاکر اور ناحیه مقدسه سے حاصل کی هوئی کرامات اور علوم عالی کے ذریعه اس
سلسله میں اقدام کیا۔
کرامات اور شواهد صدق کبھی براه راست امام علیه
السلام کے ذریعه اور کبھی ان کے نائبین کے ذریعه بیان هوتی تھیں، تاکه شیعه حضرات
امام مهدی علیه السلام پر ایمان لانے کے علاوه نواب اربعه کی نیابت کے سلسله میں
بھی مطمئن هوجائیں کرامات اور شواهد صدق زیاده تر پهلے نائب امام زمانه علیه
السلام حضرت عثمان ابن سعید عمری کے ذریعه انجام پائے۔ کیونکه اس زمانے میں شیعه
حضرات حیرت و سرگردانی میں تھے اور امام مهدی کے وجود کو اچھی طرح محسوس نهیں
کرپائے تھے۔
سید ابن طاؤس لکھتے هیں: امام زمانه علیه
السلام کی آپ کے والد کے بهت سے اصحاب نے زیارت کی هے اور ان سے بهت سی روایتیں
اور احکام شرعی نقل کئے هیں۔ اس کے علاوه امام علیه السلام کے بهت سے وکیل تھے جن
کا نام، نسب اور وطن معلوم تھا اور انھوں نے ایسے معجزات، کرامات، اور احکام شرعی
کے جوابات اور بهت سی غیبی روایتوں کو نقل کیا هے جس کی امام علیه السلام نے اپنے
جد امجد حضرت رسول الله صصص سے روایت کی هے۔[22]
یهاں پر صرف چند نمونے بیان کیے جارهے هیں:
۱۔ سعد ابن عبد الله اشعری قمی کی روایت: وه
کهتے هیں: حسن ابن نضر جو قم کے شیعوں میں ایک ممتاز شخصیت کے حامل تھے وه امام
عسکری علیه السلام کے بعد حیران و پریشان تھے۔ وه، ابو صدام اور کچھ اور لوگوں نے
طے کیا که بعد کے امام کے بارے میں تحقیق کریں۔ حسن ابن نضر ابو صدام کے پاس آیا
اور کها که میں اس سال حض کے لئے جانا چاهتا هوں ابو صدام نے کها که اس سال نه
جاؤ۔ لیکن حسن ابن نضر نے کها که نهیں، میں نے ایک خواب دیکھا هے اور فکرمند هوں
لهذا میرا جانا ضروری هے۔ چلنے سے پهلے احمد ابن علی ابن حماد کو امام علیه السلام
سے متعلق اموال کے بارے میںوصیت کردی که اس کی حفاظت کرے یهاں تک امام عسکری علیه
السلام کا جانشین معین هوجائے۔ یه کهه کر بغداد چلے گئے وهاں ناحیه مقدس کی طرف سے
ایک توقیع انھیں ملی۔ اور اس کے ذریعه انھیں امام مهدی کی امامت اور عثمان ابن
سعید عمری کی وکالت کے سلسله میں اطمینان هوگیا۔
۲۔ محمد ابن ابراهیم ابن مهزیار: وه کهتے هیں:
امام عسکری علیه السلام کی رحلت کے بعد ان کی جانشینی کے بارے میں شک میں پڑگیا۔
میرے والد آپ کے وکیل تھے اور کافی اموال ان کے پاس تھے میرے والد نے اموال کو
اٹھایا اور مجھے بلایا اور چل پڑے۔ راسته میں میرے والد بیمار هوگئے اور اموال کے
بارے میں مجھ سے وصیت کی اور کها الله سے ڈرنا اور ان اموال کو اس کے مالک تک
پهنچانا، جو بھی ان نشانیوں کو بتلائے اموال کو اس کے سپرد کردینا۔ اور انھوں نے
یه کهه کر رحلت کی۔
چند دن تک عراق میں رها پھر عثمان ابن سعید کی
طرف سے ایک خط مجھے ملا جس میں
اموال کی تمام علامتیں ذکر تھیں۔ وه نشانیاں جس کے بارے میں والد اور میرے علاوه
کوئی نهیں جانتا تھا۔[23]
محمد ابن ابراهیم ابن مهزیار اس کرامت اور شاهد
کے ذریعه امام مهدی کی امامت اور عثمان ابن سعید کی نیابت کے سلسله میں مطمئن
هوگئے۔
۳۔ احمد دینوری سراج کی روایت: وه کهتے هیں:
امام حسن عسکری علیه السلام کی رحلت کے دو سال بعد حج کے لئے میں اردبیل سے چلا
اور دینور پهنچ گیا لوگ اما عسکری علیه السلام کے نائب کے سلسله میں حیران و
پریشان تھے دینور کے لوگ میرے آنے سے خوش هوئے وهاں کے شیعوں نے ۱۳هزار سهم
امام علیه السلام مجھے دیا که میں سامرا جاکر امام کے جانشین کے سپرد کردوں۔ میں
نے کها که امام علیه السلام کا جانشین میرے لئے بھی واضح نهیں هوا هے۔ کهنے لگے:
همیں آپ پر اعتبار هے جب بھی آپ کو جانشین ملے آپ ان کے سپرد کردیجے گا۔ میں ۱۳هزار دینار
لئے اور وهاں سے چلا آیا۔ کرمانشاه میں احمد ابن حسن ابن حسن سے ملاقات هوئی اس نے
بھی ایک هزار درهم اور کچھ تھیلے کپڑے مجھے دئے که انھیں ناحیه مقدسه تک پهنچا
دوں۔ بغداد میں نائب امام علیه السلام کی تلاش میں تھا۔ مجھے بتایا گیا که ۳لوگ نیابت
کے مدعی هیں۔ ان میں ایک کا نام باقطانی تھا میں اس کے پاس گیا اور اپنے مدعی پو
اس سے شاهد اور چاها لیکن اس کے پاس کوئی ایسی چیز نهیں تھی جو مجھے مطمئن کرتی۔
پھر میں اسحاق احمر نامی ایک اور شخص کے پاس گیا وه بھی میرے لئے برحق ثابت نه
هوسکا۔ عثمان ابن سعید عمری نام کے تیسرے فرد کے پاس گیا، احوال پرسی کے بعد اس سے
کها که لوگوں کے کچھ اموال میرے پاس هیں اور انھیں امام عسکری علیه السلام کے نائب
تک پهنچانا ضروری هے۔ بڑا فکرمند هوں اور سمجھ میں نهیں آتا که کیا کروں۔ اس نے
کها که سامرا جاؤ وهاں ابن الرضا (امام عسکری) کے گھر جاؤ وهاں تمهیں امام کا وکیل
مل جائے گا۔ میں سامرا گیا اور امام کے گھر میں امام کے وکیل کے بارے میں پوچھا۔
دربان نے کها ذرا انتظار کرو ابھی باهر آتے هوں گے کچھ لمحوں بعد ایک شخص آیا اس
نے میرا هاتھ تھاما اور گھر کے اندر لے گیا احوال پرسی کے بعد میں نے اس سے کها:
جبل کی طرف سے میں کچھ اموال لیکر آیا هوں اور دلیل و شاهد کی تلاش میں هوں۔ میں
مجبور هوں که جس شخص سے نیابت کے سلسله میں دلیل حاصل هو اسی کو یه اموال دوں۔ اس
وقت میرے لئے کھانا لایا گیا اس نے کها که کھانا کھالو اور جچھ دیر آرام کرلو پھر
تمهارا کام بھی دیکھ لیا جائےگا۔ کچھ رات گزرنے کے بعد اس شخص نے مجھے ایک خط لاکر
دیا جس میں لکھا تھا که: احمد ابن محمد دینوری آیا هوا هے اور اتنی مقدار میں رقم،
تھیلی اور تھیلے لایا هے اور تھیلی میں اتنی رقم هے اور اس کی تمام خصوصیتیں بیان
کردی تھیں۔ مثلا لکھا تھا که: فلاں زره ساز کے بیٹے کی تھیلی میں اتنی رقم هے۔
کرمان سے ایک تھیلی فلاں شخص کی هے اور فلاں تھیلا احمد ابن ادریس مادرانی کا هے جس
کا بھائی اون فروش هے وغیره۔ اس خط کے ذریعه میرا شک و شبهه ختم هوگیا اور اطمینان
هوگیا که عثمان ابن سعید هی امام کے نائب هیں۔ امام علیه السلام نے اس خط میں مجھے
حکم دیا تھا که ان اموال کو بغداد لے جاؤں اور اسی کے سپرد کردوں جس سے ملاقات
هوئی تھی[24]۔
۴۔ محمد ابن اسود کی روایت: وه کهتے هیں که غیبت
صغری کے آغاز میں میں ایک بڑھیا نے ایک کپڑا مجھے دیا اور کها که اسے ناحیه مقدسه
تک پهنچادوں میں اس کو دوسرے بهے سے کپڑوں کے ساتھ لایا۔ جب بغداد پهنچا تو عثمان
ابن سعید نے مجھ سے کها که تمام سامان کو محمد ابن عباس قمی کو دے دو میں نے سب
انھیں دے دیا لیکن بڑھیا کے کپڑے کو نه دیا تو بعد میں عثمان ابن سعید نے امام
علیه السلام کا یه پیغام پهنچایا که بڑھیا کے کپڑے کو بھی اسی کے سپرد کروں[25]۔
۵۔ اسحاق ابن یعقوب کی روایت: وه کهتے هیں که
عثمان ابن سعید کو میں نے کهتے سنا که عراق کا ایک شخص میرے پاس آیا اور امام علیه
السلام کے لئے کچھ سامان لایا تھا آپ نے اسے واپس کردیا اور فرمایا انے بھتیجه کے
چارسو درهم کو اس سے ادا کردو۔ وه شخص مبهوت حیرت زده ره یا اور اپنے مال کا حساب
کیا تو نتیجه نکلا که اس کے بھتیجه کے چارسو درهم اس پر نکلتے هیں۔ اس اسے واپس
کیا اور بقیه مال کو امام عع کی خدمت میں پیش کیا تو امام علیه السلام نے قبول
کرلیا[26]۔
۶۔ محمد ابن علی ابن شاذان کی روایت: کهتے هیں
که لوگوں کو کچھ مال میرے پاس جمع هوگیا تھا که میں اسے امام علیه السلام تک
پهنچاؤں میں نے ملاحظه کیا ۲۰ کم پانچ سو درهم هیں۔ میں پیس درهم اپنی طرف
سے بڑھاکر نائب امام عثمان ابن سعید تک پهنچادئے۔ خط میں بھی میں نے اس بارے میں
کچھ نهیں لکھا تھا۔ انھوں نے جواب میں لکھا: پانچ سو درهم وصول هوئے اس میں سے بیش
درهم آپ کے تھے[27]۔
ان روایتوں کے ذریعه غیبت صغری کی شروع میں
شواهد صدق اور کرامات کا ظهور هوا اور امام عسکری علیه السلام کے شیعه امام مهدی
علیه السلام کی امامت اور عثمانابن سعید کی نیابت سے واقف هوگئے۔ امام علیه السلام
کی کوشش اور وکالت کے خفیه سلسله کے ذریعه ولادت کے مخفی هونے اور غیبت کے پیش آنے
کے سبب شیعوں کو جو حیرت و سرگردانی درپیش تھی وه غیبت صغری کے شروع میں مکمل طور
سے زائل هوگئی۔
امام مهدی علیه السلام کے کرامات اور آپ کی
غیبی علوم کے ذریعه شیعه دو باتوں تک پهنچ گئے: ایک یه که انھیں پته چل گیا که
رسول الله صصص کے زمانے اور علی علیه السلام سے شروع هونے والی امامت کا سلسله اب
تک صحیح چلا هے اور امام عسکری علیه السلام کے بعد امامت ان کے فرزند کی طرف منتقل
هوگئی هے اور اس غیبت صغری کے دور میں امام مهدی غیبت میں ره کر شیعوں کی رهنمائی
کررهے هیں۔
دوسرے یه که وکالت کا وه خفیه سلسله جو ائمه کے
زمانے سے فعال تھا وه اب بھی فعال هے اور عثمان ابن سعید عمری امام علیه السلام کی
طرف سے اس عظیم ادارے کے سربراه هیں۔ لهذا شیعه امام علیه السلام کی امامت تک بھی
پهنچ گئے اور عثمان ابن سعید کی نیابت سے بھی مطمئی هوگئے۔
عثمان ابن سعید کے انتقال کے بعد امام مهدی
علیه السلام کے حکم سے آپ کے بیٹے محمد ابن عثمان نے اس ذمه داری سنبھالا۔ اس موقع
پر کچھ شیعوں امام زمانه کے وجود میں نهیں بکه محمد ابن عثمان کی نیابت میں شک
هوا۔ تو امام علیه السلام نے کچھ کرامات اور شواهد صدق کے ذریعه شیعوں کو محمد ابن
عثمان ابن سعید کی نیابت کے بارے میں مطمئن کیا اور صرف لچھ لوگوں نے هواپرستی اور
اقتدار کی وجه سے محمد ابن عثمان کی مخالف کی۔ ان لوگوں نے نیابت کا جھوٹا دعوی
کیا اور محمد ابن عثمان نے کرامات اور سچے شواهد کے ذریعه ان کے دعوے کو باطل کیا۔
اور شیعوں کو محمد ابن عثمان کی نیابت کا اور زیاده یقین هوگیا[28]۔ پھر حسین ابن روح کے
زمانه نیابت میں بھی کچھ خواص نے ان کی مخالفت کی لیکن کرامات دیکھکر مخالفت سے
باز آگئے اور معذرت کرلی[29]۔
حسین ابن روح کے بعد ابولحسن ابن علی ابن محمد
سمری تک نیابت پهنچی اور غیبت صغری کی آخری توقیع کو کرامت شمار کیا جاتا هے۔ امام
مهدی علیه السلام نے ۹شعبان ۳۲۹ھ کو ایک اور توقیع صادر فرمائی اور ابوالحسن
علی ابن محمد سمری کو بتایا که: [تم چھ روز بعد دنیا سے چلے جاؤگے وکالت کے مسائل
کو سمیٹ کر لوگوں کے مال کو ان تک واپس پلٹادو اس کے بعد نیابت خاصه کے سلسله ختم
هے] راوی کهتا هے که میں ابوالحسن علی ابن محمد سمری کے پاس کے پاس گیا تو انھوں
نے یه توقیع مجھے دکھائی پھر میں متعلقه دن ان کے گھر گیا تو دیکھا که وه جانکنی
کے علم میں هیں[30]۔
یه خط شیعه کی حقانیت اور امام زمانه علیه
السلام کے وجود پر ایک اور دلیل هے۔
امام زمانه علیه السلام کے طولانی عمر
طول عمر کا مسئله، زندگی کے مسئله هی کی ایک
فرع هے۔ زندگی کی حقیقت انسان کے لئے مجهول هے اور ممکن هے انسان کبھی بھی اس
حقیقت تک نه پهنچ سکے۔ بڑھاپے کو اگر هم زندگی کے اوپر عارض مانیں یا اس کو ایک
فطری قانون سمجھیں جو زنده جسم پر عارض هوتا هے اور زمانے کے ساتھ ساتھ اسے
فرسودگی اور موت کے منھ میں ڈھکیل دیتا هے۔ اس کا لازمه یه نهیں هے که یه حقیقت،
لچک اور تاخیر کو قبول نه کرتی هو۔ یه وجه هے که انسانی علوم نے بڑھاپے کے علاج کے
لئے خاص قدم اٹھائے هیں۔ انیسویں صدی کے اواخر میں علمی پیشرفت کے سببب لمبی عمر
کی امیدیں بڑھی هیں اور ممکن هے که مستقبل قریب میں یه شیریں خواب شرمنده تعبیر
هوجائے۔ امام مهدی علیه السلام کی طولانی عمر کے بارے میں کوئی حیرت کی بات نهیں
بچتی هے اور علمی و نظری اعتبار سے اس میں کوئی شک نهیں هے۔ حضرت حجت خدادادی علم
اور فطری اور علمی طریقوں سے دنیا میں طولانی مدت تک زنده ره سکتے هیں که ان میں
بڑھاپے کے آثار رونما نه هوں۔
دوسری طرف اگر هم عمر کے اختصار کو ایک عمومی
یا غالبی قانون مانیں تو هر چیز میں استثناء بھی اس دنیا کی فطرت کا جز هے جس کا
انکار نهیں کیا جاسکتا۔ جیسا که فطرت کے سائے میں درخت اور دیگر جاندار چیزیں لمبی
عمر اور پرانی تاریخ رکھتے هیں۔ تو کیا پریشانی هے که هم دنیا هی میں ایک انسان کو
الله کی حجت کے حفاطت کے لئے عدالت کے نفاذ اور ظلم و ستم کے اختتام کے عنوان سے
مستثنی مان لیں! اور اس کو هم فطرت اور ظاهری اسباب و علل سے بالاتر سمجھ لیں؟ که
اس کے سامنے فطری قوانین میں لچک هے اور وه ان سے بالاتر هے۔ یه بات ممکن هے اگرچه
عرف و عادت کے خلاف هے۔ علامه طباطبائی کے بقول [امام زمانه علیه السلام کی زندگی
کو خرق عادت کے طور پر مانا جاسکتا هے۔ البته خرق عادت اور محال الگ الگ باتیں هیں
اور علمی طریقوں سے خرق عادت کی نفی نهیں کی جاسکتی، اس لئے که کسی طرح بھی یه
دعوی نهیں کیا جاسکتا که دنیا میں صرف وهی اسباب و علل کارفرما جنھیں هم نے دیکھا
هے اور جنھیں هم پهچانتے هیں اور وه اسباب و علل موجود هی نهیں هیں جن کو هم دیکھا
نهیں هے یا هم ان سے واقف نهیں هیں۔ لهذا ممکن هے که کسی شخص میں ایسے اسباب و
عوامل پائے جائیں جو اس کے لئے طولانی عمر یا هزار بلکه کئی هزار سال کی عمر فراهم
کردیں۔[31]
دوسری جانب تاریخ میں بهت سے لمبی عمر پانے
والے پائے گئے هیں جن میں سب سے زیاده مسلم الثبوت جناب نوح علیه السلام هیں۔ قرآن
تصریح کرتا هے که وه ۹۵۰سال تو صرف پیغمبر تھے[32]۔ یقینا ان کی مکمل عمر
اس سے کهیں زیاده هوگی حضرت خضر علیه السلام کی عمر بھی اسی کا ایک مصداق هے[33]و[34]۔ اس بنیاد پر امام زمانه
علیه السلام کی طالانی عمر کو مانا جاسکتا هے اور عقلی اعتبار سے کوئی بعید نهیں
هے
[1] چوں کے
برھان عقلی اور دلیل عقلی کسی فرد کی معرف نھیں هو سکتی اور [جزءی نه کاسب هے نه
مکتسب] کامطلب بھی یھی هے ۔
[8] کچھ محققین
نے ایسے ۱۰۰ سے زیاده
اھل سنت دانشوروں کا ذکر کیا هے جنھوں نے امام مھدی کی ولادت کا تذکره کیا هے۔
[9] محمد بن
طلحه شافعی نے [مطالب السؤل] میں، ابن صباغ مالکی نے [الفصول المھمه] میں، ابن حجر
شافعی نے [الصواعق المحرقه] میں اور ابن خلکان نے العیان میں۔
http://www.islamquest.net/ur/archive/category/951