Tuesday, 15 March 2016

حضرت امام حسن عسکری علیہ السّلام



حضرت امام حسن عسکری علیہ السّلام
نام ونسب
  ابو محمد علیہ السّلام کنیت حسن علیہ السّلام نام اور سامرہ کے محلہ عسکر میں قیام کی وجہ سے عسکری علیہ السّلام مشہور لقب ہے والد بزرگوار حضرت امام علی نقی علیہ السّلام اور والدہ سلیل خاتون تھیں جو عبادت , ریاضت عفت اور سخاوت کے صفات میں پانے طبقے کے لیے مثال کی حیثیت رکھتی تھیں .
ولادت
 01 ربیع الثانی 233ھئ مدینہ منورہ میںہوئی .
نشوو نما اور تربیت
 بچپن کے گیارہ سال تقریباً اپنے والد بزرگوار کے ساتھ وطن میں رہے جس کے لیے کہا جاسکتا ہے کہ زمانہ اطمینان سے گزرا . اس کے بعد امام علی نقی علیہ السّلام کو سفر عراق درپیش ہوگیا اور تمام متعلقین کے ساتھ ساتھ امام حسن عسکری علیہ السّلام اسی کم سنی کے عالم میں سفر کی زحمتوں کو اٹھا کر سامرے پہنچے . یہاں کبھی قید کبھی ازادی , مختلف دور سے گزرنا پڑا مگر ہر حال میں اپ اپنے بزرگ مرتبہ باپ کے ساتھ ہی رہے . اس طرح باطنی اور ظاہری طور پر ہر حیثیت سے اپ علیہ السّلام کو اپنے والد بزرگوار کی تربیت وتعلیم سے پورا پورا فائدہ اٹھانے کا موقع مل سکا .
زمانہ امامت
 452ھئ میں اپ کی عمر بائیس برس کی تھی جب اپ کے والد بزرگوار حضرت امام علی نقی علیہ السّلام کی وفات ہوئی حضرت علیہ السّلام نے اپنی وفات سے چار مہینہ قبل اپ کے متعلق اپنے وصی وجانشین ہونے کااظہار فر ما کر اپنے اصحاب کی گواہیاں لے لی تھیں . اب امامت کی ذمہ داریاں امام حسن عسکری علیہ السّلام کے متعلق جنھیں اپ باوجود شدیدمشکلات اور سخت ترین ماحول کے ادا فرماتے رہے .
سلاطین وقت اور ان کا رویہ
 جیسا کہ ا س سے پہلے ضمناً بیان ہوا امام حسن عسکری علیہ السّلام کی یہ خصوصیت ہے کہ اپ ان تمام تکالیف اور مصائب میںبھی شریک رہے جو اپ کے والد بزرگوور کو حراست اور نظر بندی کے ذیل میں بھی متعدد بار برداشت کرنا پڑے . ا س کے بعد جب اپ کا دور ُ امامت شروع ہوا ہے تو سلطنت بنی عباس کے تخت پر معتز بالله عباسی کا قیام تھا . معتز کی معزولی کے بعد مہدی کی سطنت ہوئی . گیارہ مہینے چند روز حکومت کرنے کے بعد اس کا خاتمہ ہوا اور معتمدکی حکومت قائم ہوئی , ان میں سے کوئی ایک بادشاہ بھی ایسا نہ تھا جس کے زمانہ میں امام حسن عسکری علیہ السّلام کو ارام وسکون ملتا , باوجود یہ کہ اس وقت بنی عباس بڑی سخت الجھنوں او رپیچیدگیوں میںگرفتار تھی مگر ان تمام سیاسی مسائل اور مشکلات کے ساتھ ہر حکومت نے امام حسن عسکری علیہ السّلام کو قید وبند میں رکھنا سب سے زیادہ ضروری سمجھا . اس کا خاص سبب رسول خدا کی یہ حدیث تھی کہ میرے بعد بارہ جانشین ہو ں گے اور ان میں سے اخری مہدی اخر الزمان اور قائمِ الِ محمد ہوگا . یہ حدیث برابر متواتر طریقہ سے عالم ُ اسلام میں گردش کرتی رہی تھی .
 خلفائے بنی عباس خوب جانتے تھے کہ سلسلہ الِ محمد کے وہ افراد جو رسول کی صحیح جانشینی کے مصداق ہوسکتے ہیں وہ یہی افراد ہیں جن میں سے گیارہویں ہستی امام حسن عسکری علیہ السّلام کی ہے اس لیے ان ہی کا فرزند وہ ہوسکتا ہے جس کے بارے میں رسول کی پشین گوئی صحیح قرارپاسکے . لٰہذا کوشش یہ تھی کہ ان کی زندگی کادنیا سے خاتمہ ہوجائے اس طرح کہ ان کا کوئی جانشین دنیا میں موجود نہ ہو . یہ سبب تھاکہ امام حسن عسکری علیہ السّلام کے لیے اس نظر بندی پر اکتفا نہیں کی گئی جو امام علی نقی علیہ السّلام کے لیے ضروری سمجھی گئی تھی بلکہ اپ کے لیے اپنے گھربار سے الگ قید تنہائی کو ضروری سمجھا گیا . یہ اور بات ہے کہ قدرتی انتظام کے تحت درمیان میں انقلاب سلطنت کے وقفے اپ کی قیدمسلسل کے بیچ میں قہری رہائی کے سامان پیدا کردیتے تھے مگر پھر بھی جو بادشاہ تخت سلطنت پر بیٹھتا تھا وہ اپنے پیش رو کے نظریہ کے مطابق اپ کو دوبارہ قید کرنے پر تیار ہوجاتا تھا. اس طرح اپ کی مختصر زندگی جو دور ُ امامت کے بعد اس کا بیشتر حصہ قید وبند ہی میں گزرا.
 اس قید کی سختی معتمد کے زمانے میں بہت بڑھ گئی تھی , اگر چہ وہ قتل دیگر سلاطین کے اپ کے مرتبہ اور حقانیت سے خوب واقف تھا چنانچہ جب قحط کے موقع پر ایک عیسائی راہب کے دعوے کے ساتھ پانی برسانے کی وجہ سے مسلمانوں میں ارتداد کا فتنہ برپا ہوا اور لوگ عیسائت کی طرف دوڑنے لگے تو مسلمانوں کو گمراہی سے بچانے کے لیے وہ امام حسن عسکری علیہ السّلام ہی تھے جو قید خانے سے باہر لائے گئے ,اپ نے مسلمانوں کے شکوک کو دور کرکے انھیں اسلام کے جادہ پر قائم رکھا . اس واقعہ کااثر اتنا ہوا کہ اب معتمد کو اپ کے پھر اسی کو قید خانے میں واپس کرنے میں خجالت دامنگیر ہوئی . اس لیے اپ کی قید کو اپ کے گھر میں نظر بندی کے ساتھ تبدیل کر دیا گیا مگر ازادی پھر بھی نصیب نہ ہوسکی .

مرقد مطهر حضرت امام حسن عسکری
سفرائ کاتقرر
 ائمہ اہل بیت جس حال میں بھی ہوں ہمیشہ کسی نہ کسی صورت سے امامت کے فرائض کو انجام دیتے رہتے تھے . امام حسن عسکری علیہ السّلام پر اتنی شدید پابندیاں عائد تھیں کہ علوم ُ اہل بیت علیہ السّلام کے طلبگاروں اور شریعت ُ جعفری کے مسائل دریافت کرنے والوں کا اپ تک پہنچنا کسی صور ت ممکن نہیں تھا . اس لیے حضرت علیہ السّلام نے اپنے زمانہ میں یہ انتظام کیا کہ ایسے افراد جو امانت ودیانت نیزعلمی و فقہی بصیرت کے اس درجہ حامل تھے کہ امام علیہ السّلام کے محل اعتماد ہوسکیں انھیں اپنی جانب سے اپ نے نائب مقرر کر دیا تھا .یہ حضرات جہاں تک کہ خود اپنے واقفیت کے حدود میںدیکھتے تھے اس حد تک مسائل خود ہی بتادیتے تھے اور وہ اہم مسائل جوان کی دسترس سے باہر ہوتے تھے انھیں اپنے پاس محفوظ رکھتے تھے او ر کسی مناسب موقع پر امام علیہ السّلام کی خدمت میں رسائی حاصل کرکے ان کو حل کرالیتے تھے کیونکہ ایک شخص کا کبھی کبھی امام علیہ السّلام سے ملاقات کو اجانا حکومت کے لیے اتنا ناقابل برداشت نہیںہوسکتا تھا جتنا کہ عوام کی جماعتوں کو مختلف اوقات میں حضرت علیہ السّلام تک پہنچنا.
  ان ہی سفرائ کے ذریعے سے ایک اہم خدمت بھی انجام پائی جاتی تھی. وہ یہ کہ خمس جو حکومت ُ الٰہیہ کے نمائندہ ہونے کی حیثیت سے اس نظام ُحکومت کو تسلیم کرنے والے ہمیشہ ائمہ معصومین علیہ السّلام کی خدمت میںپہنچاتے رہے او ران بزرگوں کی نگرانی میں وہ ہمیشہ دینی امور کے انصرام اور سادات کی تنظیم وپرورش میں صرف ہوتا رہا اب وہ راز دارانہ طریقہ پر ان ہی نائبوں کے پاس اتا تھا اور یہ امام علیہ السّلام سے ہدایت حاصل کرکے انھیں ضروری مصارف میںصرف کرتے تھے یہ افراد اس حیثیت میں بڑے سخت امتحان کی منزل میں تھے کہ ان کو ہ وقت سلطنت وقت کے جاسوں کی سراغرسانی کا ا ندیشہ رہتا تھا . اسی لیے عثمانرض بن سعید اور ان کے بیٹے ابو جعفر محمدرض بن عثمان نے جو امام حسن عسکری علیہ السّلام کے ممتاز نائب تھے ا ور عین دارلسلطنت بغداد میں مقیم تھے اپنے اس متعلقہ افراد کی امدورفت کو حق بجانب قرار دینے کے لیے ایک بڑی دکان روغنیات کی کھول رکھی تھی . اس طرح حکومت جو رکے شدید شکنجہ ظلم کے اندر بھی حکومتِ الٰہیہ کا ائینی نظام چل رہا تھا اور حکومت کا کچھ بس نہ چلتا تھا .
اخلاق واوصاف
 اپ اسی سلسلہ عصمت کی ایک لڑی تھے جس کا ہر حلقہ انسانی کمالات کے جواہر سے مرصع تھا , علم وحلم , عفو وکرم , سخاو ت وایثار سب ہی اوصاف بے مثال تھے . عبادت کا یہ عالم تھا کہ ا س زمانے میں بھی کہ جب اپ سخت قید میں تھے معتمد نے جس سے اپ کے متعلق دریافت کیا یہی معلوم ہوا کہ اپ دن بھر روزہ رکھتے ہیں اور رات بھر نمازیں پڑھتے ہیں اور سوائے ذکر الٰہی کے کسی سے کوئی کلام نہیں فرماتے , اگرچہ اپ کو اپنے گھر پر ازادی کے سانس لینے کا موقع بہت کم ملا . پھر بھی جتنے عرصہ تک قیام رہا اور دور دراز سے لوگ اپ کے فیض و عطا کے تذکرے سن کر اتے تھے اور بامراد واپس جاتے تھے .اپ کے اخلاق واوصاف کی عظمت کا عوام وخواص سب ہی کے دلوں پر سکہ قائم تھا . چنانچہ جب احمد بن عبدالله بن خاقان کے سامنے جو خلیفہ عباسی کی طرف سے شہر قم کے اوقات وصدقات کے شعبہ کا افسر اعلیٰ تھا سادات علوی کاتذکرہ اگیا تو وہ کہنے لگا کہ مجھے کوئی حسن علیہ السّلام عسکری سے زیادہ مرتبہ اور علم دورع , زہدو عبادت ,وقار وہیبت , حیاوعفت , شرف وعزت اور قدرومنزلت میں ممتاز اور نمایاں نہں معلوم ہوا . اس وقت جب امام علیہ السّلام علی نقی علیہ السّلام کا انتقال ہوا اور لوگ تجہیز وتکفین میں مشغول تھے تو بعض گھر کے ملازمین نے اثاث اللبیت وغیرہ میں سے کچھ چیزیں غائب کردیں اور انھیںخبر تک نہ تھی کہ امام علیہ السّلام کو اس کی اطلاع ہوجائے گی . جب تجہیز اور تکفین وغیرہ سے فراغت ہوئی تو اپ نے ان نوکروں کو بلایا اور فرمایا کہ جو کچھ پوچھتا ہوں اگر تم مجھ سے سچ سچ بیان کرو گے تو میں تمھیں معاف کردوں گا اور سزا نہ دوں گا لیکن اگر غلط بیانی سے کام لیا تو پھر میں تمھارے پاس سے سب چیزیں بر امد بھی کرالوں گا اور سزا بھی دوں گا . اس کے بعد اپ نے ہر ایک سے ان اشیا ئ کے متعلق جو اس کے پا س تھیں دریافت کیا اور جب انھوں نے سچ بیان کر دیا تو ان تمام چیزوں کو ان سے واپس لے کر اپ نے ان کو کسی قسم کی سزا نہ دی اور معاف فرمادیا .
علمی مرکزیت
 باوجود یہ کہ اپ کی عمر بہت مختصر ہوئی یعنی صرف اٹھائیس بر س مگر اس محدود اور مشکلات سے بھری ہوئی زندگی میں بھی اپ کے علمی فیوض کے دریا نے بڑے بڑے بلند پایہ علمائ کو سیراب ہونے کا موقع دیا نیز زمانے کے فلاسفہ کا جو دہریت اور الحاد کی تبلیغ کر رہے تھے مقابلہ فرمایا جس میں نمایاں کامیابی حاصل ہوئی .ان میں ایک اسحٰق کندی کاواقعہ یہ ہے کہ یہ شخص قران مجید کے ایات کے باہمی تناقص کے متعلق ایک کتاب لکھ رہاتھا . یہ خبر امام حسن عسکری علیہ السّلام کو پہنچی اور اپ موقع کے منتظر ہو گئے .اتفاق سے ایک روز ابو اسحٰق کے کچھ شاگرد اپ کی خدمت میں حاضر ہوئے . اپ نے فرمایا کہ تم میں کوئی اتنا سمجھدارادمی نہیں جو اپنے استاد کندی کو ا س فضول مشغلے سے روکے جو انھوں نے قران کے بارے میں شروع کر رکھا ہے , ان طلاّب نے کہا , حضور ! ہم تو ان کے شاگرد ہیں , ہم بھلا ان پر کیا اعتراض کرسکتے ہیں ?
 حضرت علیہ السّلام نے فرمایا ! اتنا تو تم کرسکتے ہو جو کچھ باتیں میں تمھیں بتاؤں وہ تم ان کے سامنے پیش کردو , طلاب نے کہا !جی ہاں ہم اتنا کرسکتے ہیں .

مرقد مطهر حضرت امام حسن عسکری
 حضرت نے کچھ ایتیں قران کی جن کے متعلق باہمی اختلاف کا تو ہم ّ ہورہا تھا پیش فرما کر ان سے کہا کہ تم اپنے استاد سے اتنا پوچھو کہ کیا ان الفاظ کے بس یہی معنی ہیں جن کے لحاظ سے وہ تنا قص ثابت کررہے ہیں اور اگر کلام ُ عرب کے شواہد سے دوسرے متعارف معنٰی کل ائیں جن کے بنا پر الفاظ قران میں باہم کوئی اختلافات نہ رہے تو پھر انھیں کیا حق ہے کہ وہ اپنے ذہنی خود ساخة معنی کو متکلم قرآنی کی طرف منسوب کرکے تناقص واختلاف کی عمارت کھڑی کریں , اس ذیل میں اپ نے کچھ شواہد کلامِ عرب کے بھی ان طلاّب کے ذہن نشین کرائے . ذہین طلاّ ب نے وہ پوری بحث اور شواہد کے حوالے محفوظ کرلیے اور اپنے استاد کے پاس جا کر ادھر اُدھر کی باتوں کے بعد یہ سوالات پیش کر دیئے .ادمی بہرحال وہ منصف مزاج تھا اس نے طلاّ ب کی زبانی وہ سب کچھ سنا اور کہا کہ یہ باتیں تمہاری قابلیت سے بالا تر ہیں . سچ سچ بتانا کہ یہ تمھیں معلوم کہاں سے ہوئیں پہلے تو ان طالب علموں نے چھپانا چاہا اور کہا کہ یہ چیزیں خو د ہمارے ذہن میں ائی ہیں مگر جب اس نے سختی کے ساتھ انکار کیا کہ یہ ہو ہی نہیںسکتا تو انھوں نے بتایا کہ ہمیں ابو محمد, حسن عسکری علیہ السّلام نے یہ باتیں بتائی ہیں یہ سن کر اس نے کہا کہ سوائے اس گھرانے کے اور کہیں سے یہ معلومات حاصل ہی نہیں ہوسکتے تھے .پھر اس نے اگ منگوائی اور جو کچھ لکھا تھا ,نذر اتش کردیا ایسے کتنے ہی علمی اور دینی خدمات تھے جو خاموشی کے ساتھ انجام پارہے تھے اور حکومت وقت جو محافظت اسلام کی دعویدار تھی . اپنے عیش وطرب کے نشے میں مدہوش تھی یا پھر چونکتی تھی بھی تو ایسے مخلص حامی اسلام کی طرف سے اپنی سلطنت کے لیے خطرہ محسوس کرکے ان پر کچھ پابندیاں بڑھادیئے جانے کے احکام نافذ کرتی تھی , مگر اس کو هِ گراں کے صبرو استقال میںفرق نہ ایا تھا .
 جو امع حدیث میں محدثین اسلام نے اپ کی سند سے احادیث نقل کیے ہیں ان میں سے ایک خاص حدیث شراب خواری کے متعلق ہے جس کے الفاظ یہ ہیں کہ شارب الخمر کعابد الصنم«» شراب پینے والا مثل بت پرست کے ہے .,,
 اس کو ابن الجوزی نے اپنی کتاب تحریم الخمر میںسند ُ متصل کے ساتھ درج کیا ہے اور ابو نعیم فضل بن وکیل نے کہ ہے کہ یہ حدیث صحیح ثابت ہے جس کی اہلبیت علیہ السّلام طاہرین نے روایت کی ہے اور صحابہ میں سے ایک گروہ نے بھی اس کی رسول خدا سے روایت کی ہے جیسے ابن عباس , ابو ہریرہ , احسان بن ثابت , سلمی اور دوسرے حضرات .
 سمعانی نے کتاب النساب میںلکھا ہے کہ »ابو محمد احمد بن ابراہیم بن ہاشم علوی بلاذری حافظ واعظ نے مکہ معظمہ میں امام اہل بیت ابو محمد حسن بن علی بن محمد بن علی موسیٰ الرضا علیہ السّلام سے احادیث سن کر قلم بند کیے -,,
 ان کے علاوہ حضرت علیہ السّلام کے تلامذہ میں سے چند باوقار ہستیوں کے نام درج ذیل ہیں جن میں سے بعض نے حضرت علیہ السّلام کے علمی افادات کو جمع کرکے کچھ کتابیں بھی تصنیف کیں .
1 . ابو ہاشم داؤد بن قاسم جعفری سن رسیدہ عالم تھے. انھوں نے امام رضا علیہ السّلام   سے امام حسن عسکری علیہ السّلام تک چار اماموں کی زیارت کی اور ان بزرگواروںسے فیوض بھی حاصل کیے وہ امام علیہ السلام کی طرف سے نیابت کے  درجہ پر فائز تھا.
2 . داؤد بن ابی زید نیشاپوری امام علی نقی علیہ السّلام کے بعد امام حسن عسکری علیہ السّلام کی صحبت سے شرف یاب ہوئے .
3 . ابو طاہر محمد بن علی بن بلال .
4. ابو العباس عبدالله بن جعفر حمیری قمی بڑے بلند پائہ عالم بہت سی کتابوں کے مصنف تھے .جن سے قرب السناد کتاب اس وقت تک موجود ہے اور کافی وغیرہ کے ماخذوں میںسے ہے .
5 . محمد بن احمد جعفر قمی حضرت علیہ السّلام کے خاص نائبین میں سے تھے .
6 . جعفر بن سہیل صقیل . یہ بھی نائب خاص ہونے کا شرف رکھتے تھے .
7 . محمد بن حسن صفارقمی , بڑے بلند مرتبہ کے عالم متعدد کتابوں کے مصنف ہیں جن میں سے بصائر الدرجات مشہور کتاب ہے , انھوں نے امام حسن عسکری علیہ السّلام کی خدمت میں تحریر ی مسائل بھیج کر ان کے جوابات حاصل کیے .
8. ابو جعفر ہامنی برمکی نے امام حسن عسکری علیہ السّلام سے مسائل ُ فقہ کے جوابات حاصل کرکے کتاب مرتب کی .
9 . ابراہیم بن ابی حفص ابو اسحٰق کاتب حضرت علیہ السّلام کے اصحاب میں سے ایک کتاب کے مصنف ہیں .
10 . ابراہیم بن مہر یار مصنف کتاب البشارت .
11 . احمد بن ابراہیم بن اسمعٰیل بن داؤد بن حمدان الکاتب الندیم علم لغتوادب کے مسلّم استاد تھے اور بہت سی کتابوں کے مصنف تھے , حضرت امام حسن عسکری علیہ السّلام سے خاص خصوصیت رکھتے تھے.
12 . احمد بن اسحٰق الاشعری ابو علی القمی بڑے پایہ کے مستند ومسلّم عالم تھے,ان کی تصانیف میں سے علل الصوم اور دیگر متعدد کتابیں تھیں .یہ چند نام بطور مثال درج کیے گئے ہیں اگر تمام ان افراد کاتذکرہ کیا جائے تو اس کے لیے مستقل تصنیف کی ضرورت ہے , خصوصیت کے ساتھ تفسیر قران میں ابو علی حسن بن خالد بن محمد بن علی برقی نے اپ کے افادیت سے ایک ضخیم کتاب لکھی جسے حقیقت میں خود حضرت علیہ السّلام ہی کی تصنیف سمجھنا چاہیے یعنی حضرت علیہ السّلام بولتے جاتے تھے اور وہ لکھتے جاتے تھے , علمائ نے لکھا ہے کہ یہ کتاب ایک سوبیس اجزا پر مستمل تھی .
 افسوس ہے کہ یہ علمی ذخیرہ اس وقت ہاتھوں میں موجود نہیںہے .ممکن ہے وہ اسی سے ماخوذ ہوں لیکن ایک کتاب جو تفسیر اما م حسن عسکری علیہ السّلام کے نام سے شائع شدہ موجود ہے اگر وہ مذکورہ بالاذخیرئہ علمی سے الگ ہے . اس کا پتہ صرف چوتھی صدی ہجری سے چلتا ہے اور شیخ صدوق محمد بن بابو یہ قمی رحمة الله نے اس کو معتبر سمجھا ہے مگر ان کے پیش رو افراد جن سے موصوف نے اس تفسیر کو نقل کیا ہے بالکل مجہول الحال ہیں . بہرحال اس تفسیر کے متعلق علامہ رجال مطمئن نہیں ہیں . جہاں تک غور کیا جاتا ہے اس کی نسبت امام حسن عسکری علیہ السّلام طرف صحیح نہیں معلوم ہوتی , ہاں بے شک اپ کا ایک طویل مکتوب اسحٰق بن اسمٰعیل اشعری کے نام اور کافی ذخیرہ مختصر حکیمانہ مقولات اور مواعظ وتعلیمات کتاب تحف العقول میں محفوظ ہے جو اس وقت بھی اہل نظر کے لیے سرمئہ چشم بصیرت ہے .
 یہ علمی کارنامے اس حالت میںہیں جب کہ مجموعی عمر اپ کی 82 برس سے زیادہ نہ ہوسکی اور اپنے والد بزرگوار کے بعد صرف چھ برس امامت کے منصب پر فائز رہے اور وہ بھی ان مشکلات کے شکنجہ میں جن کاتذکرہ ہوچکا ہے .
وفات
 اتنے علمی و دینی مشاغل میں مصروف انسان کو کہیں سلطنت وقت کے ساتھ مزاحمت کا کوئی خیال پیدا ہوسکتا ہے مگر ان کابڑھتا ہو روحانی اقتدار اور علمی مرجعیت ہی تو ہمیشہ ان حضرات کو سلاطین کے لیے ناقابل ُبرداشت ثابت کرتی رہی . وہی اب بھی ہوااور معتمد عباسی کے بھجوائے ہوئے زہر سے 8 ربیع الاوّل 062ھ میں اپ نے شہادت پائی اور اپنے والد بزرگوار کی قبر کے پاس سامرے میں دفن ہوئے جہاں حضرت علیہ السّلام کاروضہ باوجود نامواف ق ماحول کے مرجع خلائق بنا ہوا ہے

Sunday, 7 February 2016

واقعۂ عاشورا اعداد و شمار کے آئینے میں مرتبہ نسیم عباس نسیمی



واقعۂ عاشورا اعداد و شمار کے آئینے میں
مرتبہ

نسیم عباس نسیمی



ناشر


مکتبہ انوار الثقلین بمقام اتھر تحصیل پنڈدادنخان ضلع جہلم




















انتساب


قبلہ و کعبہ!
عزت مآب !!
والد گرامی !!!
مولانا غلام اکبر بلوچ (رح) کے نام !
جن کی علم دوستی صحرائے زیست میں میرے لئے زادِ راہ بنی۔
نسیم عباس نسیمی
03320591769
Naseemathar14@gmail.com























فہرست
    1 کوفیوں کے خطوط امام حسین(ع) کے نام
    2 سفیر امام کوفہ میں
        2.1 حضرت مسلم کےساتھ بیعت کرنے والے
        2.2 جنگ کے لئے تیارکوفیوں کی تعداد
        2.3 مسلم کے ساتھ قیام کرنے والے افراد
        2.4 مسلم کے محاصرہ کنندگان
    3 امام کے سفر کی مدت
        3.1 منازل کی تعداد
    4 اصحاب امام حسین(ع) کےاعداد و شمار
        4.1 مدینہ سے ہجرت کے وقت
        4.2 مکہ سے کربلا روانہ ہوتے وقت
        4.3 کربلا میں (عاشورا سے قبل)
        4.4 روز عاشورا
    5 عمر سعد کا لشکر
        5.1 لشکر کی تعداد
        5.2 ہالکین کی تعداد
    6 وہ جو اپنے والد کے سامنے شہید ہوئے
    7 متعلقہ مآخذ
    8 شہدائے کربلا کی تعداد
        8.1 تمام شہداء
        8.2 بنو ہاشم
    9 شہداء کی مائیں
    10 قیدی جو شہید ہوئے
    11 اصحاب جو امام حسین(ع) کے بعد شہید ہوئے
    12 وہ جو اپنے والد کے سامنے شہید ہوئے
    13 امام حسین(ع) کی سپاہ کا ڈھانچہ بلحاظ قبائل
    14 پہلے حملے کے شہداء
    15 جسم شریف پر گھوڑے دوڑانے والوں کے اعداد و شمار
    16 جسم شریف پر وارد ہونے والے زخم
    17 کربلا میں آنے والے خاندان
    18 کربلا میں شہادت پانے والے صحابہ
    19 سر جو جسموں سے جدا ہوئے
    20 قبائل کو ملنے والے سرہائے مبارک
    21 موالی جو شہید ہوئے
    22 امام(ع) کے اصحاب جو زخمی ہوئے
    23 اسراء اور وہ جو زندہ رہے
        23.1 مرد
        23.2 خواتین
    24 خواتین، جنہوں نے تحریک حسینی کا ساتھ دیا
    25 خواتین، جنہوں نے اعتراض کیا
    26 خاتون جو شہید ہوئیں
    27 کوفہ سے شام تک کی منزلیں
    28 شام میں قیام اور عزاداری کی مدت
    29 متعلقہ مآخذ
    30 حوالہ جات
    31 مآخذ
    32 بیرونی ربط







واقعہ کربلا، جس میں محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے نواسے امام حسین ابن علی اور ان کے رشتہ دار اور غلاموں کو 10 محرم الحرام، 61ھ میں عراق کے شہر کربلا میں اپنے ساتھیوں کے ساتھ بے دردی سے شہید کیا گيا۔ اس واقعہ نے آنے والی صدیوں میں مسلمانوں پر ڈھیروں دور رس اثرات مرتب کیے۔ جو ہنوز جاری ہیں۔ واقعہ کربلا کے پس منظر، عوامل اور تفصیلات میں تاریخی بنیادوں پر اہل سنت و جماعت اور اہل تشیع کے درمیان کئی باتوں میں اختلاف پایا جاتا ہے۔ اس بات پر سبھی متفق ہیں کہ یہ واقعہ 10 محرم کو کربلا میں پیش آیا، اور امام حسین، اہل بیت اور اصحاب کو شہیدکیا گیا۔

کوفیوں کے خطوط امام حسین(ع) کے نام
مؤرخین نے مکہ میں کوفیوں کی جانب سے امام حسین(ع) کو ملنے والے خطوط کی تعداد مختلف بتائی ہے:
    ایک جماعت نے لکھا ہے کہ ہر خط ایک، دو یا چار افراد نے لکھا تھا.[1].[2].[3].[4].[5].[6].[7].[8].[9].[10].[11]
    طبری نے لکھا ہے کہ خطوط کی تعداد 53 تھی[12] وہ لکھتے ہیں: "... فحملوا معہم نحواً من ثلاثۃ و خمسین صحیفۃ ... "، تا ہم بعض معاصر محققین نے لفظ "ثلاثہ" کو "مائہ" کی تصحیف[13] قرار دیا ہے اور طبری کی روایت میں خطوط کی تعداد کو 150 قرار دیا ہے. انھوں نے شیخ مفید، ابن اعثم کوفی، خوارزمی اور سبط بن جوزی کے قول کو اپنی اس توجیہ کی بنیاد قرار دیا ہے جنہوں نے لکھا ہے کہ خطوط کی تعداد 150 ہے؛ اور انھوں نے بظاہر اپنا یہ قول ابو مخنف سے اخذ کیا ہے.[14] لیکن متن میں ملاحظہ کیا جاسکتا ہے کہ بلاذری ـ جنہوں نے بظاہر اپنا قول ابو مخنف سے اخذ کیا ہے ـ خطوط کی تعداد 50 بتائی ہے؛ جبکہ سبط بن جوزی نے خطوط کی تعداد 150 بتائی ہے اور ان کا ماخذ ابن اسحق کا قول ہے نہ کہ ابو مخنف کا قول.[15]
    بلاذری نے خطوط کی تعداد 50 بتائی ہے.[16]
    ابن سعد نے خطوط لکھنے والے افراد کی تعداد 18000 ذکر کی ہے.[17]

مؤرخین کے اقوال سے نتیجہ لیا جاسکتا ہے کہ عدد "150" حقیقت سے قریب تر ہے کیونکہ اس عدد کے قائلین کی تعداد کثیر اور نقل کرنے والے مآخذ قدیم ہیں.

کوفہ میں
حضرت مسلم کےساتھ بیعت کرنے والے
مسلم بن عقیل کے ہاتھ پر بیعت کرنے والے کوفیوں کی تعداد مختلف تاریخی مآخذ میں مختلف، نقل ہوئی ہے:
    بہت سے مآخذ میں بیعت کرنے والے افراد کی تعداد 18000 بتائی گئی ہے،[18].[19].[20].[21].[22].[23].[24].[25].[26]
    بعض دیگر نے یہ تعداد 12000 ذکر کی ہے.[27].[28].[29].[30].[31] مسعودی .[32] اور سبط بن جوزی[33] نے عدد "18ہزار" کو "قول دیگر" کے عنوان سے ذکر کیا ہے،
    امام باقر(ع) سے منقولہ روایت کے حوالے سے بیعت کرنے والوں کی تعداد 20000 بیان ہوئی ہے.[34].[35] لیکن بعض دیگر مآخذ میں یہ تعداد 20 ہزار کے بجائے، 18 ہزار نقل ہوئی ہے.[36].[37] خواند میر[38] نے بھی اسی قول کی طرف اشارہ کیا ہے،[39]
    ابن اعثم اور خوارزمی کے مطابق بیعت کنندگان کی تعداد 20ہزار سے زائد تھی،[40].[41]
    ابن شہر آشوب کے بقول یہ تعداد 25000 تھی. انھوں نے مسلم بن عقیل کے ہانی بن عروہ کے گھر میں قیام کا واقعہ بیان کرنے کے بعد اس عدد نقل کرنے کے بعد یہ اعداد و شمار بیان کئے ہیں.[42]
    ابن قتیبہ دینوری [43] اور ابن عبدربہ[44] نے لکھا ہے کہ ان کی تعداد 30000 تھی،
    ابن عساکر [45] اور ابن نما حلی نے (دوسرے حوالے سے) یہ تعداد 40000 بیان کی ہے.[46]
ایک روایت کے مطابق زید بن علی نے "سلمہ بن کہیل" کا جواب دیتے ہوئے کہا ہے کہ 80000 افراد نے ان کے جد امجد امام حسین علیہ السلام کے ساتھ بیعت کی تھی[47] یہ تعداد اس تعداد کے قریب ہے جنہوں نے یزیدی لشکر کے خلاف جنگ لڑنے کے لئے آمادگی ظاہر کی تھی.
طبری نے ابو مخنف کے حوالے سے لکھا ہے کہ 18000 افراد نے مسلم بن عقیل کے ہاتھ پر بیعت کی تھیں، اور روایت زیادہ معتبر ہے کیونکہ قدیم مآخذ میں اس کی تائید ملتی ہے.



جنگ کے لئے تیارکوفیوں کی تعداد
بعض مآخذ میں منقول ہے کہ یزید کے خلاف لڑنے کے لئے تیار اور پا بہ رکاب افراد کی تعداد 100000 تھی.[48].[49].[50].[51].[52].[53].[54]
مسلم کے ساتھ قیام کرنے والے افراد
ابو الفرج اصفہانی لکھتے ہیں: مسلم بن عقیل کے قیام کے وقت کوفی ان کے گرد جمع ہوئے یہاں تک کہ کوفہ کا بازار اور مسجد میں سوئی پھینکنے کی جگہ نہ رہی.[55]
    ابن سعد [56] اور ذہبی [57] لکھتے ہیں کہ مسلم کے ساتھ اٹھنے والے کوفیوں کی تعداد 400 تھی. طبری نے بھی یہ قول عمار دہنی سے بحوالۂ ابو مخنف[58] اور شیخ مفید [59] نقل کیا ہے.
    ابن اعثم،[60] مسعودی[61] اور خوارزمی[62] نے یہ تعداد 18000 بیان کی ہے.
    ابن شہرآشوب، کے مطابق ان کی تعداد 8000 تھی.[63]
    و ابن حجر عسقلانی کے بقول مسلم کے ساتھ قیام کرنے والے افراد کی تعداد 40000 تھی.[64]
بايں حال، 4000 افراد کے حضرت مسلم کے ساتھ قیام کرنے کے حوالے سے طبری کا قول ـ جو انھوں نے ابو مخنف اور شیخ مفید سے نقل کیا ہے ـ زیادہ معتبر ہے.
مسلم کے محاصرہ کنندگان
مسلم بن عقیل کی گرفتاری کے لئے کوفی پولیس کے سربراہ کے ساتھ جانے والے افراد کی تعداد کے بارے میں روایات مختلف ہیں؛ بعض مآخذ نے ان افراد کی تعداد 60 اور بعض نے 70 بتائی ہے[65].[66].[67].[68].[69].[70] اور بعض کے مطابق ان کی تعداد 100[71] یا 300[72] تھی.
امام کے سفر کی مدت
امام حسین(ع) کا قیام، ـ یزید کی بیعت سے انکار سے عاشورا کے دن آپ(ع) کی شہادت تک ـ 175 دن تک جاری رہا:
    بیعت سے انکار سے مکہ کی طرف ہجرت تک 12 دن مدینہ میں رہے؛
    4 مہینے اور 10 دن مکہ میں قیام کیا؛
    23 دن کی مدت مکہ سے کربلا تک سفر میں صرف ہوئی؛
    2 حرام سے 10 محرم تک کربلا میں قیام کیا.

منازل کی تعداد
امام حسین(ع) نے مکہ سے کوفہ تک 18 منزلیں طے کیں. ایک منزل یا منزلگاہ سے دوسری منزل تک کا فاصلہ 3 فرسخ (= 18.72 کلومیٹر) تھا.
اصحاب امام حسین(ع) کےاعداد و شمار
افسوسناک امر ہے کہ امام حسین علیہ السلام کے اصحاب کے اصحاب کے صحیح اعداد و شمار کے تعین کے لئے کوئی بھی روش موجود نہیں ہے اور درجہ اول کے مستندات و شواہد ـ یعنی عینی شاہدین نے اصحاب امام حسین(ع) کی تعداد کے بارے میں مختلف روایات بیان کی ہیں؛ نیز تاریخ و حدیث کے مآخذ میں اصحاب کے ناموں کے ثبت و ضبط کرنے میں بھی کسی جانے پہچانے قاعدے اور نظم کو بروئے کار نہیں لایا گیا ہے. مثال کے طور پر ایک فرد کے نام، کنیت، والد یا والدہ کے نام، حتی کہ نسل اور قبیلے کے مد نظر رکھ کر مختلف ناموں سے متعارف کرایا گیا ہے اور دوسری طرف سے اصحاب سیدالشہداء(ع) کے اصحاب کی تعداد بھی تمام مراحل میں ایک جیسی نہیں تھی.
چنانچہ امکان کی حد تک واضح اور روشن اعداد و شمار پیش کرنے کے لئے، اوقات اور مقامات کے لحاظ سے قیام امام حسین(ع) کے چار مراحل کو مدن نظر رکھ کر اعداد و شمار کا جائزہ پیش کیا جاتا ہے:
مدینہ سے ہجرت کے وقت
بہت سے مآخذ نے اس مرحلے میں امام(ع) کے ساتھیوں کی تعداد کی طرف اشارہ نہیں کیا ہے.[73].[74].[75].[76].[77].[78].[79].[80]
واحد روایت جو آپ(ع) کے ساتھ مدینہ سے ہجرت کرنے والے افراد کی تعداد پر دلالت کرتی ہے وہی ہے جو شیخ صدوق نے امام صادق علیہ السلام سے نقل کی ہے. اس روایت کے مطابق اس ہجرت کے دوران امام(ع) کے ساتھ روانہ ہونے والے افراد کی تعداد 19 تھی جن میں اہل خانہ اور اصحاب شامل تھے.[81].[82]
مکہ سے کربلا روانہ ہوتے وقت
    ابن سعد کی روایت:
    ابن سعد کا کہنا ہے کہ مکہ سے عراق عزیمت کرتے وقت امام حسین علیہ السلام کے ہمراہ اصحاب میں سے 60 اور اہل بیت میں سے (مردوں، خواتین اور بچوں سمیت) 19 افراد تھے.[83]
    ابن عساکر اور ابن کثیر کی روایت:
    ان دو مؤرخین نے امام علیہ السلام کے خاندان کے افراد کی تعداد بیان کئے بغیر لکھا ہے کہ کوفہ کے 60 مرد آپ(ع) کے ہمراہ تھے.[84].[85]
    ابن قتیبہ دینوری اور ابن عبد ربہ کی روایت:
    ان دو مؤرخین نے لکھا ہے کہ مسلم بن عقیل کے حوالے سے لکھا ہے کہ انھوں نے اپنی شہادت کے وقت ـ جو مکہ سے امام(ع) کی روانگی کے وقت واقع ہوئی ـ بیان کیا تھا کہ کہ 90 افراد امام(ع) کے ساتھ آرہے ہیں جن میں مرد اور خواتین شامل ہیں.[86].[87]
    ابن اعثم، ابن طلحہ، اربلی اور ابن صباغ کی روایت:
    ابن اعثم، خوارزمی، محمد بن طلحہ شافعی، اربلی اور ابن صباغ مالکی نے لکھا ہے کہ امام علیہ السلام کی مکہ سے روانگی کے وقت آپ کے ساتھ 82 افراد تھے.[88].[89].[90].[91].[92]
    البتہ ان مآخذ نے لکھا ہے کہ امام(ع) کے تمام ساتھیوں کی تعداد اتنی تھی اور ان میں خواتین اور بچے اور افراد خاندان اور اصحاب، سب شامل تھے.
    ابن کثیر کا دوسرا قول:
    ابن کثیر ایک دوسری روایت کے ضمن میں کہتے ہیں کہ امام(ع) کے ساتھیوں کی تعداد تقریبا 300 تھی.[93]
کربلا میں (عاشورا سے قبل)
اس سلسلے میں بھی مؤرخین کے اقوال مختلف ہیں؛ جیسے:
    145 افراد:
    عمّار دہنی نے امام باقر علیہ السلام کے حوالے سے لکھا ہے کہ کربلا میں داخلے کے وقت 145 افراد امام حسین علیہ السلام کے ہمراہ تھے، (100 پیادے اور 45 سوار).[94].[95].[96].[97].[98].[99].[100] گوکہ ابن نما حلی کا کہنا ہے کہ امام باقر(ع) سے عمار دہنی کی منقولہ روایت کا تعلق روز عاشورا سے ہے.[101]
    89 افراد:
    بعض مؤرخین نے امام حسینعلیہ السلام کے ساتھ کربلا میں داخل ہونے والے افراد کی تعداد 89 بیان کی ہے؛ تفصیل یہ کہ 50 افراد امام(ع) کے اصحاب تھے، دشمن کی سپاہ سے 20 افراد آپ(ع) سے جاملے، اور 19 افراد کا تعلق آپ(ع) کے اپنے خاندان سے تھا.[102].[103].[104] ذہبی نے اس سے قبل اسی کتاب کی اسی جلد میں لکھا ہے کہ امام حسین علیہ السلام کے ساتھ سواروں کی تعداد 32 تھی.[105]
    62 یا 72 افراد:
    یعقوبی لکھتے ہیں کہ اصحاب اور خاندان [[امام حسین|امام(ع) سے مجموعی طور پر 62 یا 72 افراد آپ(ع) کے ساتھ کربلا آئے تھے.[106]
    500 افراد:
    مسعودی وہ واحد مؤرخ ہیں جنہوں نے لکھا ہے کہ حُرّ کے لشکر کے ساتھ کربلا روانہ ہوتے وقت 500 سوار اور 100 پیدل افراد امام(ع) کے ہمراہ تھے. ابن جوزی [107] اور مجلسی[108] نے یہ روایت مسعودی سے نقل کی ہے[109] لیکن امام(ع) کے ساتھیوں کی تعداد 500 سواروں کے بجائے 1000 سوار بیان کی ہے.
    82 افراد:
    ابن شہر آشوب نے امام علیہ السلام کے ساتھیوں کی تعداد (عاشورا سے قبل) 82، بیان کی ہے.[110]
    70 افراد:
    ابن أبار بَلَنْسی (متوفٰی 658ہجری[111] لکھتے ہیں کہ سواروں اور پیادوں کی تعداد 70 سے زیادہ تھی.[112]

مندرجہ بالا روایات اور دیگر روایات سے بحیثیت مجموعی یہی نتیجہ لیا جا سکتا ہے کہ امام حسین علیہ السلام کے ساتھیوں کی تعداد 70 سے 90 تک تھی.
روز عاشورا
    72 افراد:
    مشہور ترین ـ اور سب سے زیادہ نقل ہونے والے ـ کے قول کے مطابق امام حسین علیہ السلام کے ساتھی 72 تھے. ابو مخنف نے ضحّاک بن عبداللہ مشرقی، کے حوالے سے لکھا ہے کہ عاشورا کے دن امام حسین علیہ السلام کے ساتھیوں کی تعداد 72 تھی (32 سوار اور 40 پیادے).[113].[114] بہت سے مؤرخین اس قول کے قائل ہوئے ہیں: [115].[116].[117].[118].[119].[120].[121].[122].[123].[124].[125]
    100 افراد:
    "حصین بن عبدالرحمن" نے "سعد بن عبیدہ" کے حوالے سے کہا ہے کہ امام حسین علیہ السلام کی سپاہ عاشورا کے دن 100 کے قریب تھی.[126].[127].[128]
    300 افراد:
    طبری نے زید بن علی کے حوالے سے امام حسین علیہ السلام کے ساتھیوں کی تعداد 300 بیان کی ہے.[129].
    70 افراد:
    قاضی نعمان مغربی لکھتے ہیں کہ امام حسین علیہ السلام کے ساتھیوں کی تعداد 70 سے کم تھی.[130].[131]
    61 افراد:
    کتاب اثبات الوصیہ کے مؤلف علی بن حسین مسعودی کے مطابق اصحاب امام(ع) کی تعداد 61 تھی.[132]
    114 افراد:
    خوارزمی ایک روایت کے ضمن میں لکھتے ہیں کہ اصحاب مام(ع) کی تعداد 114 تھی.[133].[134]
    145 افراد:
    سبط بن جوزی لکھتے ہیں کہ روز عاشورا امام حسین(ع) کے ساتھیوں کی تعداد 145 تھی جن میں سے 45 سوار اور 100 پیادے تھے.[135]
    80 افراد:
    ابن حجر ہیتمی (متوفٰی 974 ہجری) کے قول کے مطابق 80 افراد عاشورا کے دن امام حسین علیہ السلام کے ساتھ تھے.[136]
بہرصورت عدد 72 افراد والی روایت چونکہ قدیم اور معتبر کتب میں نقل ہوئی ہے اور اس کے راویوں کی تعداد بھی کثیر ہے چنانچہ یہ روایت زیادہ قابل اعتماد اور قابل قبول ہے.
عمر سعد کا لشکر
لشکر کی تعداد
    22000 افراد:
    بعض مؤرخین نے دشمنان امام حسین(ع) کے سپہ سالاروں اور ان کے ماتحت افراد کی تعداد 22000 افراد بیان کی ہے.[137].[138].[139].[140]
    30000 افراد:
    شیخ صدوق امام سجاد(ع) اور امام صادق(ع) سے منقولہ روایات کے مطابق، عبید اللہ بن زیاد کے لشکر کی تعداد 30000 بیان کرتے ہیں.[141].[142]
    28000 افراد:
    صاحب کتاب اثبات الوصیہ نے یہ کتاب 28000 افراد نقل کی ہے.[143]
    14000 افراد:
    محمد بن جریر طبری شیعی [144] نے لکھا ہے کہ عمر بن سعد بن ابی وقاص کے لشکر کی تعداد 14000 تھی.[145]
    35000 افراد:
    ابن شہر آشوب نے لکھا ہے کہ یزیدی لشکر کی تعداد 35000 تھی لیکن وہ لشکر کے ہر حصے کے سالاروں اور ان کے زیر فرمان افراد کا ذکر کرتے ہوئے یہ تعداد 25000 تک گھٹا دیتے ہیں.[146]
    6000 افراد:
    سبط ابن جوزی نے لشکر ابن سعد کی تعداد 6000 بیان کی ہے.[147]
    20000 افراد:
    ابن صباغ مالکی لکھتے ہیں کہ چھ محرم الحرام تک دشمن کی سپاہ کی تعداد 20 تک پہنچ چکی تھی.[148]
    31000 افراد:
    ابن عنبہ کے مطابق لشکر یزید کی تعداد 31000 تھی.[149]
    32000 یا 17000 افراد:
    ملاحسین کاشفی 32 ہزار و 17 ہزار را نیز گزارش کردہ است.[150]
معلوم ہوتا ہے کہ اس سلسلے میں قابل اعتماد روایت شیخ طوسی کی ہے جس میں لشکر یزید کی تعداد 30000 بیان کی گئی ہے.
ہالکین کی تعداد
شیخ صدوق (متوفی 381 ہجری) ـ اور ان ہی کی پیروی کرتے ہوئے محمد بن فتال نیشابوری (متوفی 508 ہجری) ـ لکھتے ہیں کہ امام حسین علیہ السلام کے بعض ساتھیوں نے یزیدی لشکر کے متعدد افراد کو ہلاک کردیا تھا:
    حُرّ بن یزید: 18 افراد،
    زہیر بن قین: 19 افراد،
    حبیب بن مظاہر: 31 افراد،
    عبداللہ بن ابی عروہ غِفاری: 20 افراد،
    بُریر بن خُضَیر: 30 افراد،
    مالک بن انس کاہلی: 18 افراد،
    (یزید بن) زیاد بن مہاصر کندی (ابوالشعثاء): 9 افراد،بلاذری[151] اور طبری [152] نے ان کے ہاتھوں ہلاک ہونے والے اشقیاء کی تعداد 5 بتائی ہے.
    وَہْب بن وَہْب (یا عبداللہ بن عمیر کلبی): 7 (یا 8) افراد،
    نافع بن ہلال بن حجاج: 13 افراد،[153] طبری[154] نے نافع بن ہلال کے ہاتھوں ہلاک شدگان کی تعداد 12 بیان کی ہے.
    عبداللہ بن مسلم بن عقیل: 3 افراد،
    علی اکبر علیہ السلام: 54 افراد،
    قاسم بن حسن علیہ السلام: 3 افراد.[155].[156]
ان اعداد و شمار کے مطابق امام حسین علیہ السلام کے بعض اصحاب کے ہاتھوں دشمن کے 225 یا 226 افراد ہلاک ہوچکے ہیں.
ابن شہر آشوب، نے شیخ صدوق کی بیان کردہ تعداد کی نسبت زیادہ تعداد بیان کی ہے اور بعض اصحاب کے ہاتھوں ہلاک ہونے والے دشمن کے سپاہیوں کی تعداد یوں بیان کی ہے:
    حُرّ بن یزید ریاحی: 40 افراد سے زائد،
    حبیب بن مظاہر اسدی: 62 افراد،
    زہیر بن قین: 120 افراد،
    حجاج بن مسروق: 25 افراد،
    عون بن عبداللہ بن جعفر: 21 افراد،
    علی اکبر علی علیہ السلام 70 افراد،
    عبداللہ بن مسلم بن عقیل: 98 افراد.[157]



وہ جو اپنے والد کے سامنے شہید ہوئے
اصحاب امام حسین علیہ السلام کے کئی اصحاب اپنے باپ کے سامنے شہید ہوئے:
    علی اکبر علیہ السلام
    علی اصغر(ع)
    عمرو بن جنادہ
    عبداللہ بن یزید
    مجمع بن عائذ
    عبدالرحمن بن مسعود

متعلقہ مآخذ
    امام حسین(ع)۔    حسینی عزیمت، مدینہ سے کربلا تک۔    واقعۂ عاشورا کی تقویم۔    محرم الحرام کے واقعات۔    اربعین حسینی۔    کربلا۔ اہل بیت۔   
    روز عاشورا۔    روز تاسوعا۔ حضرت عباس علیہ السلام۔        حضرت زینب سلام اللہ علیہا۔    شہدائے کربلا۔    حبیب بن مظاہر اسدی
شہدائے کربلا کی تعداد
: شہدائے کربلا
بعض مؤرخین نے شہدائے کربلا کی صحیح فہرست پیش کرنے کی کوشش کی ہے تحقیقی مآخذ محدود ہونے کے بموجب حقیقی اعداد و شمار پیش کرنے میں کامیاب نہیں ہوسکتے ہیں.
تمام شہداء
    مشہور ترین قول یہ ہے کہ شہدائے کربلا کی تعداد 72 ہے.[158].[159].[160].[161].[162].[163].[164]
    امام باقر اور امام صادق علیہما السلام میں سے فضیل بن زبیر نے روایت کی ہے کہ قیام کے آغاز سے آخر تک تمام شہداء کی تعداد 106 ہے جن میں وہ افراد بھی شامل ہیں جو زخمی تھے اور بعد میں شہید ہوئے ہیں: 86 اصحاب اور 20 ہاشمی،[165]
    ابو مخنف زحر بن قیس کے حوالے سے لکھتے ہیں کہ امام حسین علیہ السلام کے سوا باقی شہدا کی تعداد 78 ہے.[166].[167].[168].[169]..[170].[171].[172].[173] لیکن دوسرے مؤرخین نے زحر بن قیس ہی کے حوالے سے شہداء کی تعداد 32،[174] 70 سوار[175] نیز 77،[176] یا 82،[177] اور 88[178] بیان کی ہے.
    ابوزید احمد بن سہل بلخی (متوفی 322 ہجری قمری) اور[179] مسعودی نے [[شہدائے کربلا کی تعداد 87 بیان کی ہے.[180]
    علامہ سید محسن امین عاملی، نے قیام عاشورا کی ابتداء سے انتہا تک کے شہداء کی تعداد 139 لکھی ہے.[181]
    شیخ محمد مہدی شمس الدین نے اس سلسلے میں ایک تجزیاتی بحث پیش کی ہے اور شہداء کی تعداد 100 سے کچھ زیادہ بیان کی ہے.[182]
    شیخ ذبیح اللہ محلاتی نے ابتدائے قیام سے انتہا تک کے شہداء کی تعداد 228 بیان کی ہے. انھوں نے اسیران اہل بیت کی کوفہ میں موجودگی کے وقت عبداللہ بن عفیف کو شہدائے کربل میں شمار کیا ہے.[183]
    ایک مؤلف نے ابتدائے قیام سے انتہا تک کے شہداء کی تعداد 182 بیان کی ہے.[184]
تاہم وہ روایات جو دلالت کرتی ہیں کہ شہدائے کربلا کی تعداد 72 ہے، قدیم مآخذ میں نقل ہوئی ہیں اور زیادہ شہرت رکھتی ہیں چنانچہ یہ روایات زيادہ معتبر اور قابل قبول ہیں.
بنو ہاشم
شہدائے کربلا میں بنو ہاشم کے شہداء کی تعداد کے بارے میں واردہ روایات بہت مختلف ہیں حتی کہ ان کی تعداد 9 سے 30 تک بتائی گئی ہے.
مشہورترین روایت کے مطابق ان کی شہدائے بنی ہاشم کی تعداد 17 ہے.[185].[186].[187].[188].[189].[190].[191].[192].[193].[194].[195] البتہ ان میں سے زیادہ تر مآخذ میں امام حسین علیہ السلام کو شمار کئے بغیر، شہداء کی تعداد 17 بیان ہوئی ہے اور بعض اعداد و شمار ائمۂ معصومین علیہم السلام سے منقولہ روایات کے ضمن میں بیان ہوئے ہیں.
قدیم ترین تاریخ نصوص میں ہے کہ شہدائے بنی ہاشم کی تعداد 20 بتائی گئی ہے اور ان میں امام حسین علیہ السلام اور مسلم بن عقیل کے نام بھی دکھائی دیتے ہیں.[196] نیز شیخ صدوق،[197] ابن شہر آشوب،[198] اور ابن ابی الحدید .[199] نے یہ یہی اعداد و شمار پیش کئے ہیں جن میں مسلم بن عقیل کو شامل نہیں کیا گیا ہے.
دوسرے اعداد و شمار بھی ہیں جن میں یہ تعداد 9 سے 30 تک متغیر بتائی گئی ہے.[200]
تمام متعلقہ روایات کو مد نظر رکھا جائے تو وہ روایات، جو بنو ہاشم کے شہداء کی تعداد 17 بتاتی ہیں، زیادہ قابل قبول ہیں کیونکہ یہ روایات قدیم اور کثیر بھی ہیں اور پھر یہ تعداد ائمہ علیہم السلام سے منقولہ روایات میں بھی بیان ہوئی ہے.
شہداء کی مائیں
شہدائے کربلا میں سے آٹھ افراد کی مائیں کربلا میں حاضر و موجود تھیں اور اپنے بچوں کی شہادت کی عینی شاہد تھیں:
    حضرت علی اصغر کی والدہ، رباب بنت امرؤ القیس،
    عون بن عبداللہ بن جعفر کی والدہ حضرت زینب سلام اللہ علیہا،
    قاسم بن حسن(ع) کی والدہ رملہ،
    عبداللہ بن حسن کی والدہ بنت شلیل الجلیلیہ،
    عبداللہ بن مسلم کی والدہ رقیہ بنت علی(ع)،
    محمد بن ابی سعید بن عقیل کی والدہ عبدہ بنت عمرو بن جنادہ،
    عبداللہ بن وہب کلبی کی والدہ، ام وہب.
نیز بعض روایات کے مطابق علی اکبر علیہ السلام کی والدہ ليلی بنت ابي مرّہ بن عروہ بن مسعود ثقفی، بھی کربلا میں تھیں لیکن ان کی کربلا میں ان کی موجودگی ثابت نہیں ہے.
قیدی جو شہید ہوئے
امام حسین علیہ السلام کے اصحاب و انصار میں سے 2 افراد ابتداء میں یزیدی لشکر کے ہاتھوں اسیر ہوئے اور بعد میں شہید ہوئے:
    سوار بن منعم ہمدانی (زیارت رجبیہ میں ان کا نام "سوار بن ابي عمير نہمی‏" ہے).
    موقع بن ثمامہ صیداوی (ألمُوَقَّع یا "المُرَقَّع" بن ثمامہ الأسدي).
اصحاب جو امام حسین(ع) کے بعد شہید ہوئے
امام حسین علیہ السلام کے چار اصحاب آپ(ع) کی شہادت کے بعد جام شہادت نوش کرگئے:
    سعد بن الحرث اور ان کے بھائی
    ابو الحتوف بن الحرث،
    سوید بن ابی مطاع جو زخمی ہوگئے تھے،
    محمد بن ابی سعید بن عقیل
وہ جو اپنے والد کے سامنے شہید ہوئے
اصحاب امام حسین علیہ السلام کے کئی اصحاب اپنے باپ کے سامنے شہید ہوئے:
    علی اکبر علیہ السلام
    علی اصغر(ع)
    عمرو بن جنادہ
    عبداللہ بن یزید
    مجمع بن عائذ
    عبدالرحمن بن مسعود
امام حسین(ع) کی سپاہ کا ڈھانچہ بلحاظ قبائل

ایک معاصر محقق نے 113 شہداء کی فہرست تیار کی ہے جن کا تعلق بنو ہاشم اور دوسرے قبائل سے ہے:
    ہاشمی اور ان کے موالی (بمع مسلم بن عقیل): 26 افراد،
    اسدی : 7 افراد،
    ہَمْدانی: 14 افراد،
    مَذْحِجی: 8 افراد،
    انصاری: 7 افراد،
    بَجَلی اور خثعمی: 4 افراد،
    کندی: 5 افراد،
    غِفاری: 3 افراد،
    کلبی: 3 افراد،
    اَزْدی: 7 افراد،
    [[بنو عبدیان: 7 افراد،
    تیمی: 7 افراد،
    طائی: 2 افراد،
    تغلبی : 5 افراد،
    جُہَنی: 3 افراد،
    تمیمی: 2 افراد،
    متفرقہ: 3 افراد.[201]
پہلے حملے کے شہداء
بعض مآخذ نے لکھا ہے کہ یزیدی لشکر کے ابتدائی حملے میں امام حسین علیہ السلام کے 50 ساتھیوں نے جام شہادت نوش کیا.[202]
جسم شریف پر گھوڑے دوڑانے والوں کے اعداد و شمار
بعض مآخذ میں صرف امام حسین علیہ السلام کے جسم شریف پر گھوڑے دوڑائے جانے کا واقعہ بیان ہے اور اس قبیح اور بزدلانہ فعل میں شریک افراد کا نام نہیں لیا ہے،[203] لیکن زیادہ تر مآخذ نے ان کی تعداد 10 بیان کی ہے.[204].[205].[206].[207].[208].[209].[210].[211].[212]
جسم شریف پر وارد ہونے والے زخم
مؤرخین سید الشہداء علیہ السلام کے بدن مطہر پر وارد ہونے والے زخموں کی تعداد بھی بیان کی ہے اور ان کے درمیان اس سلسلے میں اختلاف ہے:
    امام صادق(ع) سے منقولہ روایت کے مطابق امام حسین علیہ السلام کے جسم مطہر پر نیزوں کے 33 اور تلواروں کے 34 زخم وارد ہوئے[213].[214].[215].[216].[217].[218] اور امام جعفر صادق علیہ السلام ہی سے مروی ایک روایت میں نیزوں کے 33 اور تلواروں اور تیروں کے 44 زخم بیان کئے گئے ہیں[219].[220] طبری کی روایت میں نیزوں کے 33 اور تلواروں کے 44 زخم بیان ہوئے ہیں اور ایک روایت میں امام صادق(ع) سے مروی ہے کہ سید الشہداء کے جسم شریف پر صرف تلواروں کے ستر زخم وارد ہوئے تھے.[221]
    امام باقر(ع) سے منقولہ ایک روایت میں آپ(ع) کے جسم مطہر پر وارد ہونے والے زخموں کی تعداد 320[222].[223].[224].[225].[226] ابن شہرآشوب اقوال دیگری نیز آوردہ است: 1ـ360 زخم؛ 2ـ1900 زخم؛ 3ـ33 ضربہ شمشیر بہ جز تیرہا[227] اور ایک روایت میں منقول ہے کہ سید الشہداء کے جسم مطہر کو تلواروں، نیزوں اور تیروں کے 63 زخم لگے تھے.[228].[229]
    در روایتی از امام سجاد(ع) تعداد جراحات 40 ضربہ شمشیر و زخم نیزہ نقل شدہ است. [230]
    بعض مآخذ میں منقول ہے کہ سید الشہداء(ع) کے جسم مطہر اور لباس میں تیروں، نیزوں اور تلواروں کے 110 نشانات پائے گئے.[231].[232].[233].[234].[235].[236] اسی طرح کی روایت ابن سعد نے بھی نقل کی ہے.[237]
    بعض مآخذ نے تلواروں، تیروں اور پتھروں کے 120 زخم نقل کئے ہیں.[238]
    ابن سعد 33 زخم نوشتہ است.[239].[240] قاضی نعمان نے بھی ایسی ہی روایت نقل کی ہے.[241]
    علی بن محمد عَمری اور ابن عنبہ (متوفی 828 ہجری قمری) نے زخموں کی تعداد 70[242].[243] اور سید ابن طاؤس نے 72، بیان کی ہے.[244]
لگتا ہے کہ جسم مطہر کو لگنے والے زخموں کی تعداد 100 سے زائد تھی. وہ روایات جو ظاہر کرتی ہیں کہ آپ(ع) کو اس قدر تیر لگے تھے کہ آپ(ع) کا جسم مطہر تیروں میں چھپا ہوا تھا، اسی قول کی تائید کرتی ہیں.[245].[246]
کربلا میں آنے والے خاندان
بعض معاصر قلمکاروں نے لکھا ہے کہ کربلا کے تین شہداء اپنے خاندان بھی ساتھ لائے تھے:[247]
    جنادہ بن کعب بن حرث (یا حارث) سلمانی انصاری،[248]
    عبداللہ بن عمیر کلبی،[249]
    مسلم بن عوسجہ.
اس موضوع کے جائزے سے ظاہر ہوتا ہے کہ مسلم بن عوسجہ کے خاندان کی کربلا آمد کی کوئی تاریخی سند موجود نہیں ہے گوکہ بعض مآخذ میں ہے کہ ان کی ایک کنیز عاشورا کے دن کربلا میں حاضر تھی.[250].[251].[252]
کربلا میں شہادت پانے والے صحابہ
اصحاب سید الشہداء(ع) میں رسول صلی اللہ علیہ و آلہ کے کئی صحابہ بھی تھے: فضیل بن زبیر کے مطابق امام حسین علیہ السلام کے رکاب میں شہادت پانے والے افراد میں صحابہ رسول(ص) کی تعداد 6[253] اور مسعودی کے بقول 4 تھی[254] اور یہ افراد امام حسین(ع) کے اصحاب و انصار میں سے تھے اور عاشورا کے دن کربلا میں شہید ہوئے. بعض معاصر مؤرخین و محققین نے صحابہ کی تعداد 5 بیان کی ہے:[255] از 5 نفر دیگر، یعنی:
    انس بن حارث کاہلی،[256].[257].[258].[259]
    حبیب بن مظاہر اسدی،[260]
    مسلم بن عوسجہ اسدی،[261]
    ہانی بن عروہ مرادی،[262].[263].[264]
    عبداللہ بن يقطر حمیری[265] جو امام حسین علیہ السلام کے رضاعی بھائی تھے.[266]

سر جو جسموں سے جدا ہوئے
یزید کے لشکر کے ہاتھوں شہدائے کربلا کے جسموں سے جدا کئے جانے والے سروں کے تعداد کے بارے میں بھی مؤرخین کا موقف یکسان نہیں ہے:
    بلاذری، دینوری، طبری، شیخ مفید، خوارزمی اور ابن نما، نے سروں کی تعداد (امام حسین علیہ السلام کے سر مبارک کو شامل کئے بغیر) 72 لکھی ہے..[267].[268].[269].[270].[271].[272] البتہ طبری[273] اور خوارزمی[274] نے امام حسین علیہ السلام کے سر مبارک کے تن سے جدا ہونے کا واقعہ بیان کیا ہے اور اگلے صفحے میں لکھا ہے کہ "باقی شہداء کے سر قلم کردیئے گئے"، چنانچہ ظاہر ہے کہ "باقی شہداء" سے سید الشہداء علیہ السلام کے سوا دوسرے شہداء مراد ہیں اور اس اعداد و شمار کے مطابق شہداء کے قلم ہونے والے سروں کی تعداد 73 بنتی ہے. دینوری، شیخ مفید اور ابن نما کے اقوال بھی اسی قول کی تائید کرتے ہیں کہ سروں کی تعداد 73 تھی.
    دینوری نے کہا ہے کہ [275] قبائل کے درمیان سروں کی تقسیم کے لحاظ سے سروں کی تعداد 75 تھی اور بلاذری[276] ابو مخنف کے حوالے سے لکھتے ہیں کہ شہداء (اور ان کے قلم شدہ سروں) کی تعداد 82 تھی.
    سبط ابن جوزی ہشام کلبی کا حوالہ دیتے ہیں اور لکھتے ہیں کہ قلم شدہ سروں کی تعداد 92 تھی.[277]
    سید ابن طاؤس،[278] محمد بن ابی طالب موسوی[279] اور مجلسی[280] کے مطابق، سروں کی تعداد 78 تھی.
    طبری،[281] اور ابن شہر آشوب[282] ابو مخنف اور ابن صباغ مالکی[283] کے حوالے سے لکھتے ہیں کہ کوفہ میں یزید کے والی ابن زیاد کے پاس لائے جانے والے سروں کی تعداد 70 تھی.
مندرجہ بالا اقوال میں، اول الذکر قول اپنے قدیم راویوں کے پیش نظر زیادہ معتبر ہے: سروں کی تعداد 72.
قبائل کو ملنے والے سرہائے مبارک
شہداء کے سروں کو لشکر یزید میں شامل قبائل میں ـ ذیل کی ترتیب سے ـ تقسیم کیا گیا:
    بنو کندہ کا رئیس قیس بن الاشعث: 13 سر،
    بنو ہوازن کا رئیس، شمر بن ذی الجوشن: 12 سر،
    بنو تمیم، 17 سر،
    بنو اسد، 17 سر،
    بنو مذحج 6 سر،
    دوسرے قبائل کے افراد: 13 سر.
وہ شہداء کے سروں کو غنیمت کے عنوان سے (!) لیتے تھے تا کہ انہیں ابن زیاد کی تحویل کرکے انعام حاصل کریں.
موالی جو شہید ہوئے
فضیل بن زبیر کہتے ہیں کہ امام حسین علیہ السلام کے 3 موالی.[284] کربلا میں شہید ہوئے،[285] لیکن ابن سعد[286] اور طبری[287] کے مطابق ان کی تعداد 2 تھی. فضیل نے لکھا ہے کہ حمزہ بن عبدالمطلب کا ایک غلام بھی شہدائے کربلا میں شامل تھا.[288]
ابن شہر آشوب اس سلسلے میں لکھتے ہیں: کہ کربلا میں امام حسین علیہ السلام کے 10 اور امیرالمؤمنین علیہ السلام کے 2 موالی شہید ہوئے.[289]
سماوی کے مطابق شہید ہونے والے موالی کی تعداد 15 تھی.[290]
امام(ع) کے اصحاب جو زخمی ہوئے
الف ـ وہ واحد زخمی جو میدان جنگ سے زندہ بچ کر نکلے، مؤرخین کے مطابق وہ حسن بن حسن بن علی(ع) (حسن مُثَنّٰی) تھے.[291].[292].[293].[294].[295].[296]
ب ـ وہ 3 زخمی جو شہید ہوئے:
    سوار بن حمیر جابری،[297]
    عمرو بن عبداللہ ہَمْدانی جنُدُعی،[298]
    مُرَقَّع بن ثمامہ اسدی،[299].[300] لیکن طبری.[301] اور بلاذری نے دوسری نقل کے ضمن میں.[302] نیز دینوری نے[303] لکھا ہے کہ مرقع کے قبیلے کے ایک فرد نے ان کے لئے امان نامہ حاصل کیا اور وہ اپنے قبیلے سے جاملے اور ابن زیادہ نے انہیں زرارہ جلا وطن کیا لیکن ان کی شہادت کی طرف اشارہ نہیں کیا ہے.
اسراء اور وہ جو زندہ رہے
مرد
تاریخ کے قدیم مآخذ کی ورق گردانی سے ظاہر ہوتا ہے کہ واقعۂ عاشورا کے پسماندگان میں کئی مرد بھی تھے جن کے نام حسب ذیل ہیں:
    امام سجادعلیہ السلام،
    حضرت باقرعلیہ السلام،
    عمر بن حسین علیہ ‌السلام،[304].[305]
    محمد بن حسین بن علی(علیہما السلام)،[306].[307]
    زید بن حسن،[308].[309]
    عمرو بن حسن،[310].[311].[312].[313].[314].[315].[316].[317] شیخ مفید نے انہیں شہدائے کربلا کے زمرے میں شمار کیا ہے.[318]
    محمد بن عمرو بن حسن،[319].[320].[321]
    جعفر طیار کے دو بیٹے،[322]
    عبداللہ بن عباس بن علی (علیہما السلام)،[323]
    قاسم بن عبداللہ بن جعفر، [324]
    قاسم بن محمد بن جعفر،[325]
    محمد بن عقیل اصغر،[326].[327].[328]
    رَباب بنت امرؤ القیس کا غلام عقبہ بن سمعان،[329].[330].[331]
    عبدالرحمن بن عبد ربہ انصاری کا غلام،[332]
    امیرالمؤمنین علیہ السلام کا غلام مسلم بن رباح،[333]
    علی بن عثمان مغربی.[334]


خواتین
ابن سعد کے مطابق، اہل بیت(ع) کی 6 خواتین،[335].[336] قاضی نعمان مغربی کے مطابق 4 خواتین،[337] اور ابو الفرج اصفہانی کے مطابق 3 خواتین[338] یزید کے لشکر کے ہاتھوں اسیر ہوئیں؛ جن کے نام درج ذیل ہیں:
امیرالمؤمنین علیہ السلام کی بیٹیاں:
    زینب بنت علی سلام اللہ علیہا،[339].[340].[341]
    فاطمہ بنت علی(ع)،[342].[343]
    ام کلثوم بنت علی(ع)،قاضی نعمان مغربی، شرح الاخبار، ج3، ص198.</ref>
    ام حسن بنت علی(ع).[344]
امام حسین بن علی علیہما السلام کی بیٹیاں:
    فاطمہ بنت حسین،[345].[346].[347].[348]
    سکینہ بنت حسین،[349].[350].[351].[352]
    فاطمہ صغری بنت حسین[353].[354].[355].[356]
دیگر خواتین:
    رباب بنت امرؤ القیس[357] جو سید الشہداء علیہ السلام کی زوجۂ مکرمہ اور سکینہ بنت حسین اور عبداللہ رضیع (علی اصغرع) کی والدہ تھیں؛
    امّ محمد [358] بنت حسن بن علی.




خواتین، جنہوں نے تحریک حسینی کا ساتھ دیا
    ماریہ بنت سعد یا بنت منقذ عبدیہ، جن کا گھر شیعیان بصرہ کے اجتماع کا مقام تھا[359]،
    طوعہ، جو اشعث بن قیس کی کنیز تھیں اور جب مسلم بن عقیل تنہا رہ گئے تو انھوں نے انہیں اپنے گھر میں پناہ دی[360]،
    دیلم، جو زہیر بن قین کی زوجہ تھیں اور انھوں نے اپنے شوہر کو امام حسین علیہ السلام کی سپاہ سے جا ملنے کی ترغیب دلائی[361]،
    ایک کوفی خاتون جنہوں نے اسرائے اہل بیت کے لئے لباس اور مقنعے فراہم کئے.[362].[363].[364]
خواتین، جنہوں نے اعتراض کیا
پانچ خواتین نے تحریک عاشورا کے دوران سپاہ یزید کے اعمال پر اعتراض و احتجاج کیا:
    ام عبداللہ (بنت حرّ بدی کندی، زوجۂ مالک بن نُسَیر)،[365].[366] ان کے اعتراض و احتجاج کا سبب یہ تھا کہ ان کے شوہر نے امام حسین علیہ السلام کا ایک بُرْنُس (=ٹوپی والا جبہ یا چغہ) لوٹ لیا تھا،
    عبداللہ بن عفیف کندی کی بیٹی، جن کے والد کو جب یزیدی سپاہیوں نے گھیر لیا تو انھوں نے اپنے والد کا ساتھ دیا اور ان کا دفاع کیا[367].[368].[369]،
    قبیلہ بکر بن وائل کی ایک خاتون، کہ جب عمر بن سعد بن ابی وقاص کے لشکر نے خیام آل رسول(ص) کو لوٹنا شروع کیا تو اس نے اس عمل پر اعتراض کیا[370]،
    نوار، جو کعب بن جابر بن عمرو ازدی کی بیوی یا بیٹی تھیں اور ان کے اعتراض کا سبب یہ تھا کہ ان کے شوہر نے [[عمر بن سعد بن ابی وقاص کا ساتھ دیا تھا اور بریر بن خضیر ہمدانی کو شہید کیا تھا،
    نوار بنت مالک بن عقرب حضرمی، جو خولی بن یزید اصبحی کی زوجہ تھی. ان کے اعتراض کا سبب یہ تھا کہ ان کا شوہر امام حسین علیہ السلام کا سر مبارک گھر لایا تھا اور کہہ رہا تھا کہ وہ ایسی چیز گھر لایا ہے جس میں پورے زمانے سے بےنیازی مضمر ہے[371].[372].[373].[374].[375]،
خاتون جو شہید ہوئیں
کربلا میں ایک خاتون بھی ابا عبداللہ(ع) کے رکاب میں شہید ہوئیں. اس خاتون کا نام ام وہب تھا اور وہ شہید کربلا وَہْب بن وَہْب کی والدہ اور عبداللہ بن عمیر کلبی کی زوجہ تھیں.
کوفہ سے شام تک کی منزلیں
کوفہ سے شام تک کی ان منزلوں کی تعداد 14 تھی جنہیں اہل بیت علیہم السلام نے اسیری کی حالت میں طے کیا.
شام میں قیام اور عزاداری کی مدت
    ابن اعثم،[376] اور شیخ مفید[377] اور ان کی پیروی کرتے ہوئے شیخ طبرسی[378] نے اجمالی طور پر لکھا ہے کہ اسیران اہل بیت نے چند دن شام میں بسر کئے.
    محمد بن سعد،[379] محمد بن جریر طبری،[380] موفق بن احمد خوارزمی (بحوالۂ ابو مخنف)،[381] ابن عساکر،[382] سبط ابن جوزی،[383] ابوالفداء اسماعیل بن کثیر دمشقی[384] اور علامہ محمد باقر مجلسی[385] کا کہنا ہے کہ شام میں اہل بیت علیہم السلام نے تین دن تک عزاداری کی اور معاویہ کے خاندان کی عورتوں میں بھی عزاداری میں شرکت کی.
    قاضی نعمان مغربی (متوفی سنہ 363 ہجری قمری) لکھتے ہیں کہ اہل بیت علیہم السلام نے شام میں 45 دن تک قیام کیا.[386]
    سید ابن طاؤس (متوفی سنہ 664 ہجری قمری) نے لکھا ہے کہ اہل بیت علیہم السلام ایک مہینے تک دمشق کے قید خانے میں مقیم رہے.[387]
    عمادالدین طبری (زندہ تا سنہ 701 ہجری قمری) نیز مجلسی (دوسری روایت کے ضمن میں) لکھتے ہیں: اہل بیت علیہم السلام نے 7 دن تک عزاداری کی. مجلسی مزید لکھتے ہیں کہ آٹھویں دن یزید نے انہیں بلوایا اور ان کی دلجوئی کی اور ان کی مدینہ واپسی کا انتظام کیا.[388].[389].[390]
    شام میں ایک مہینہ یا 45 دن تک قیام پر مبنی روایات میں کچھ زیادہ قوت نہیں ہے کیونکہ ان اقوال کے قائلین متفرد (اور تنہا) ہیں اور چونکہ خاندان معاویہ کی عورتوں نے اہل بیت علیہم السلام کی عزاداری کو دیکھا تو ان کی حقانیت کا ادراک کیا تو وہی بھی پانچویں دن عزاداری کی اس مجلس میں شرکت کرنا شروع کردی چنانچہ یہی نتیجہ لیا جاسکتا ہے کہ اہل بیت علیہم السلام نے دمشق پہنچنے سے لے کر مدینہ واپسی تک، شام میں 10 روز سے زیادہ قیام نہیں کیا.
متعلقہ مآخذ:۔    امام حسین(ع)۔    حسینی عزیمت، مدینہ سے کربلا تک۔    واقعۂ عاشورا کی تقویم۔    واقعۂ عاشورا اعداد و شمار کے آئینے میں۔ محرم الحرام کے واقعات۔        اربعین حسینی۔    زیارت اربعین۔    اربعین کے جلوس۔    کربلا۔    اہل بیت۔    روز تاسوعا۔    روز عاشورا۔    حضرت عباس علیہ السلام۔
 حضرت زینب سلام اللہ علیہا۔        شہدائے کربلا۔    حبیب بن مظاہر اسدی
اصحاب امام حسین علیہ السلام
قیام کے بعد وفات پانے والے        
شریک بن الاعور
شہدائے کربلا عاشورا سے قبل      
مسلم بن عقیل  • میثم تمار  • ہانی بن عروہ  • ابورزین سلیمان  • عبداللہ بن یقطر  • قیس بن مسہر  • حنظلہ بن مروہ ہمدانی  • عمارہ بن صلخب ازدی  • عبداللہ بن حارث نوفلی • سلیمان غلام امام حسین  • عبدالاعلی بن یزید کلبی  • عباس بن جعدہ جدلی  • عبیداللہ بن عمرو کندی
روز عاشورا عمر سعد کے لشکر سے      
حر بن یزید  • سعد بن حرث  • ابوالحتوف  • نعمان بن عمرو  • حلاس بن عمرو  • بکر بن تمیم  • قاسم بن حبیب 
ابتدائی جنگ                             
مسلم بن عوسجہ  • عمرو بن خالد  • سعد بن عبداللہ  • سعد بن حارث  • مسعود بن حجاج  • نعیم بن عجلان  • سالم بن عمرو  • جندب بن حجیر  • جبلة بن علی  • کردوس بن زہیر  • عامر بن مسلم  • عمران بن کعب  • عمرو بن ضبیعة  • عمار بن مسلم  • مسلم بن کثیر  • قاسط بن زہیر  • خالد بن عمرو  • قارب بن عبداللہ  • زاہر بن عمرو  • ام وہب  • عمرو بن قرظة  • عبدالرحمن انصاری  • یزید بن ثبیط  • شبیب بن عبداللہ  • مجمع بن عبداللہ  • عائذ بن مجمع  • جنادة بن حرث  • سالم بن عمرو  • جوین بن مالک 
تن بتن لڑائی                            
نافع بن ہلال  • حنظلة بن اسعد  • عبداللہ ارحبی  • بریر بن خضیر  • حبیب بن مظاہر اسدی  • عبداللہ بن عمیر  • یحیی بن سلیم  • عمرو بن مطاع  • انیس بن معقل  • قرة بن ابی قرة  • انس بن حارث  • سعد بن حنظلة  • خلف بن مسلم بن عوسجہ  • جون  • سیف بن حارث  • مالک بن عبداللہ  • یزید بن حصین  • منحج بن سہم  • عمیر بن عبداللہ  • یزید بن مغفل جعفی  • عمرو بن جنادة انصاری  • عبدالرحمن بن عزرہ غفاری  • عبدالرحمن بن عبداللہ یزنی  • ابو شعثاء کندی 
نماز کا تحفظ                                
سعید بن عبداللہ حنفی
بعد از نماز                                
زہیر بن قین  • ابوثمامہ صائدی  • شؤذب  • حجاج بن مسروق جعفی  • بشیر بن عمرو حضرمی  • ضرغامة بن مالک تغلبی  • عابس بن ابی شبیب شاکری  • سیف بن مالک عبدی 
بنی ہاشم                                      
عباس بن علی  • علی اکبر  • علی اصغر  • عثمان بن علی  • عبداللہ بن علی  • جعفر بن علی  • محمد بن علی  • ابوبکر بن علی  • ابوبکر بن حسن  • قاسم بن حسن  • عبداللہ بن حسن  • عون بن عبداللہ  • محمد بن عبداللہ  • جعفر بن عقیل  • عبدالرحمن بن عقیل  • عبداللہ بن مسلم  • عبداللہ بن عقیل  • محمد بن ابی سعید 
امام(ع) کے بعد زخمی            
عمرو بن عبداللہ جندعی  • سوار بن منعم  • موقع بن ثمامہ اسدی  • ہفہاف بن مہند راسبی بصری  • سوید بن عمرو خثعمی 
عاشورا کے بعد                          
عبداللہ بن عفیف ازدی  • طفلان مسلم
کربلا سے نجات پانے والے  
علی بن الحسین  • ضحاک بن عبداللہ  • حسن مثنی  • عمر بن حسن بن علی  • عقبة بن سمعان 
کربل سے غائب افراد صحابہ             
عبداللہ بن جعفر  • سلیمان بن قیس • براء بن عازب • جابر بن عبداللہ انصاری • ابوبرزہ اسلمی • سہل بن سعد ساعدی
تابعین                                        
سلیمان بن صرد خزاعی  • محمد بن حنفیہ  • مختار • رفاعة بن شداد بجلی
حوالہ جات
1:.ابن اعثم، کتاب الفتوح، ج5، ص29.۔۔۔ 2:.شیخ مفید، الارشاد فی معرفۃ حجج اللہ علی العباد، ج2، ص38.۔۔۔ 3:.ابن شہرآشوب، مناقب آل ابی طالب، ج4، 98.
4:.ابن جوزی، المنتظم فی تاریخ الملوک و الامم، ج5 ص327.۔۔ 5:.خوارزمی، مقتل الحسین(علیہ‌السلام)، ج1، ص283.۔ 6:.اربلی، کشف الغمہ، ج2، ص253
7:.محمد بن طلحہ شافعی، مطالب السؤول فی مناقب الرسول(صلی اللہ علیہ وآلہ)، ج2، ص71.۔۔
 8:.سبط ابن جوزی، تذکرۃ الخواص من الامۃ بذکر خصائص الائمۃ(علیہم السلام)، ج2، ص146.۔ 9:.سید ابن طاووس، اللہوف علی قتلی الطفوف، ص24.
10ابن کثیر، البدایۃ و النہایہ، ج8، ص162.۔۔ 11ابن حجر عسقلانی، تہذیب التہذیب، ج2، ص302.۔۔ 12طبری، تاریخ الامم و الملوک، ج4، ص262.
13تصحیف کے معنی لغت میں خطا کے ہیں، تصحیف تحریف ہی کا ایک حصہ ہے، جس میں الفاظ میں لفظی اور تحریری شباہت کی وجہ سے لفظ کی تبدیلی معرض وجود میں آتی ہے؛ فَراہیدی، العین، ج3، ص120. ذیل لفظ "صحف".
14محمد ہادی یوسفی غروی، وقعۃ الطف، ص93.۔۔ 15محمد ہادی یوسفی غروی، وہی ماخذ، ص244.۔۔ 16بلاذری، انساب الاشراف، ج3، ص370.
17محمد بن سعد، ترجمۃ الحسین(علیہ‌السلام)، ص174.۔ 18طبری، تاریخ الامم و الملوک، ج4، ص275.۔۔ 19ابوحنیفہ دینوری، الاخبار الطوال، ص235
20شیخ مفید، الارشاد، ج2، ص41.۔۔ 21ابن جوزی، وہی ماخذ، ج5، ص325.۔۔ 22سبط ابن جوزی، تذکرۃ الخواص، ج2، ص141۔
23ابن نما حلی، مثیرالاحزان، ص21.۔۔ 24سید ابن طاووس، اللہوف علی قتلی الطفوف، ص25۔۔25ذہبی، سیر اعلام النبلاء، ج3، ص299.
26ابن عنبہ، عمدۃ الطالب فی أنساب آل ابی طالب، ص191ـ 192.۔۔ 27طبری، تاریخ الامم و الملوک، ج4، ص259 بحوالہ از عمار دہنی
28ابن عساکر، ترجمۃ الامام الحسین(علیہ‌السلام)، ص302.۔۔ 29ابن شہرآشوب، مناقب آل ابی طالب، ج4، ص99۔۔30ذہبی، سیر اعلام النبلاء، ج3، ص306.
31احمد بن حجر ہیتمی، الصواعق المحرقۃ فی ردّ اہل البدع و الزندقہ، ص196.۔ 32مسعودی، مروج الذہب و معادن الجوہر، ج3، ص65.۔
33سبط ابن جوزی، تذکرۃ الخواص، ج2، ص141.۔۔ 34ابن ابی الحدید، شرح نہج البلاغہ، ج11، ص43.۔۔ 35مجلسی، بحار الانوار، ج44، ص68
.
36سلیم بن قیس، کتاب سلیم بن قیس الہلالی، ص188.۔ 37مجلسی، بحارالانوار، ج27، ص212.۔ 38غیاث الدین بن ہمام الدین حسینی المعروف بہ خواند میر.
39تاریخ حبیب السیر فی اخبار افراد بشر، ج2، ص42.۔۔ 40ابن اعثم، وہی ماخذ، ج5، ص40.۔۔ 41خوارزمی، مقتل الحسین(علیہ‌السلام)، ج1، ص290.
42ابن شہرآشوب، وہی ماخذ، ج4، ص99.۔۔ 43ابن قتیبہ، الامامۃ والسیاسۃ، ج2، ص8.۔ 44احمدبن محمد بن عبد ربہ‌اندلسی، العقد الفرید، ج4، ص354.
45ابن عساکر، ترجمۃ الامام الحسین(علیہ‌السلام)، ص284.۔ 46ابن نما حلی، مثیرالاحزان، ص16۔۔.47طبری، وہی ماخذ، ج5، ص489 (سنہ 121 ہجری کے واقعات).
48ابن سعد، ترجمۃ الحسین ومقتلہ، ص174.۔ 49بلاذری، انساب الاشراف، ج3، ص422۔۔50طبری، تاریخ الامم والملوک، ج4، ص294.
51شیخ مفید، الارشاد، ج2، ص71.۔۔ 52ابن نما حلی، مثیرالاحزان، ص16۔۔53سبط ابن جوزی، تذکرۃ الخواص، ج2، ص133.
54ذہبی، سیر اعلام النبلاء، ج3، ص299.۔ 55ابوالفرج اصفہانی، مقاتل الطالبیین، ص70ـ71.۔۔ 56ابن سعد، وہی ماخذ، ص175
57ذہبی، سیراعلام النبلاء، ج3، ص299.۔ 58طبری، تاریخ الامم و الملوک، ج4، ص260۔۔59شیخ مفید، الارشاد، ج2، ص52۔۔60ابن اعثم، الفتوح، ج5، ص49.
61مسعودی، مروج الذہب ومعادن الجوہر، ج3، ص68.۔۔ 62خوارزمی، مقتل الحسین(علیہ‌السلام)، ج1، ص297.۔۔
۔ 63ابن شہر آشوب، مناقب آل ابی طالب، ج4، ص101.۔ 64عسقلانی، تہذیب التہذیب، ج2، ص303.۔ 65طبری، وہی ماخذ، ج4، ص279.
66ابوالفرج اصفہانی، مقاتل الطالبیین، ص69.۔۔ 67مسعودی، مروج الذہب، ج3، ص69۔۔.68شیخ مفید، الارشاد، ج2، ص57.
69طبرسی، اعلام الوری باعلام الہدی، ج1، ص443.۔ 70ابن نما حلی، مثیرالاحزان، ص24۔۔71دینوری، الاخبار الطوال، ص240۔۔72ابن اعثم، وہی ماخذ، ج5، ص53.
73دینوری، الاخبار الطوال، ص228.۔۔ 74طبری، تاریخ الامم والملوک، ج4، ص253۔۔75شیخ مفید، الارشاد، ج2، ص34.
76ابن اعثم، وہی ماخذ، ج5، ص22.۔۔ 77فتال نیشابوری، روضۃ الواعظین، ص171۔۔78طبرسی، اعلام الوری باعلام الہدی، ج1، ص435
79خوارزمی، وہی ماخذ، ج1، ص273.۔۔ 80سبط ابن جوزی، وہی ماخذ، ص236.۔۔ 81شیخ صدوق، الامالی، مجلس30، ح1، ص217
82مجلسی، بحارالانوار، ج44، ص313.۔۔ 83ابن سعد، وہی ماخذ، ص170۔۔84ابن عساکر، ترجمۃ الامام الحسین(علیہ‌السلام)، ص299
85ابن کثیر، وہی ماخذ، ج8، ص178.۔۔ 86ابن قتیبہ دینوری، الامامۃ و السیاسہ، ج2، ص10۔۔87ابن عبدربہ، العقد الفرید، ج4، ص355.
88ابن اعثم، وہی ماخذ، ج5، ص69.۔۔ 89خوارزمی، مقتل الحسین(علیہ‌السلام)، ج1، ص317.۔۔ 90محمد بن طلحہ شافعی، مطالب السؤول فی مناقب آل الرسول، ج2، ص73.
91اربلی، کشف الغمہ، ج2، ص253.۔۔ 92ابن صباغ مالکی، الفصول المہمہ، ج2، ص6۔۔93ابن کثیر، وہی ماخذ، ج6، ص259۔۔94طبری، تاریخ الامم والملوک، ج4، ص292
95یحیی بن حسین بن اسماعیل جرجانی شجری، الامالی الخمیسیہ، ج1، ص191ـ 192.۔۔ 96سید ابن طاووس، اللہوف فی قتلی الطفوف، ص60.
97ذہبی، سیر أعلام النبلاء، ج3، ص308.۔۔ 98ابن کثیر، وہی ماخذ، ج8، ص214۔۔99عسقلانی، الاصابۃ فی تمییز الصحابہ، ج2، ص71.
100عسقلانی، تہذیب التہذیب، ج2، ص304.۔۔ 101ابن نما، مثیر الاحزان، ص39۔۔102وہی ماخذ، ص178.۔۔ 103ابن عساکر، وہی ماخذ، ص329.
104ذہبی، سیر اعلام النبلاء، ج3، ص298 و 300.۔۔ 105وہی ماخذ، ص177.۔۔ 106یعقوبی، تاریخ یعقوبی، ج2، ص243۔۔107ابن جوزی، وہی ماخذ، ج2، ص161
108مجلسی، بحارالانوار، ج45، ص74.۔۔ 109مسعودی، مروج الذہب، ج3، ص71.۔۔ 110ابن شہرآشوب، مناقب آل ابی طالب، ج4، ص107
111بَلَنسیہ، ایک علاقے اور شہر کا نام ہے جو اسپانیا کے مشرق میں واقع ہے اور اس وقت "ویلنسیا" (València) کہلاتا ہے.
112ابن ابار، محمد بن عبداللہ بن ابی بکر قضاعی، دُرَرَ السمط فی خبر السبط، ص104.۔۔ 113طبری، وہی ماخذ، ج4، ص320
114شیخ مفید، وہی ماخذ، ج2، ص95۔۔.115بلاذری، انساب الاشراف، ج3، 395.۔۔ 116دینوری، الاخبار الطوال، ص256.
117ابن اعثم، کتاب الفتوح، ج5، ص101۔۔.118قاضی نعمان مغربی، شرح الاخبار، ج3، ص155.
119طبری، دلائل الامامہ، ص178.۔۔ 120فتال نیشابوری، روضۃ الواعظین، ص184.۔۔ 121طبرسی، اعلام الوری باعلام الہدی، ج1، ص457.
122خوارزمی، مقتل الحسین(علیہ‌السلام)، ج2، ص6.۔۔ 123ابن جوزی، المنتظم، ج5، ص339۔۔.124عماد الدین طبری، کامل بہائی (الکامل البہائی فی السقیفہ)، ج2، ص281
125ابن کثیر، وہی ماخذ، ج8، ص192.۔۔ 126طبری، تاریخ الامم و الملوک، ج4، ص295۔۔۔127بلاذری، انساب الاشراف، ج3، ص424
128شمس الدین ذہبی، تاریخ الاسلام، ج5، ص15.۔۔۔ 129شمس الدین ذہبی، ج5، ص489. (ذیل حوادث سال 121).
130وہی ماخذ، ج3، ص154.۔۔ 131ابوزید احمد بن سہل بلخی، البدء والتاریخ، ج2، ص241.۔ 132مسعودی، اثبات الوصیہ، ص166
. 133محمد بن ابی طالب حسینی موسوی، تسلیۃ المُجالس و زینۃ المَجالس، ج2، ص275۔۔134مجلسی، بحار الانوار، ج45، ص4
. 135تذکرۃ الخواص، ج2، ص160.۔۔ 136الصواعق المحرقہ، ص197.۔ 137ابن اعثم، وہی ماخذ، ج5، ص84 ـ 90 و ص101
. 138خوارزمی، وہی ماخذ، ج1، ص341ـ 345.۔۔ 139ابن عماد حنبلی، شذرات الذہب، ج1، ص67.۔
140مجلسی، وہی ماخذ، ج44، ص386.۔۔ 141شیخ صدوق، الامالی، مجلس 24، ص177، ح 3 و مجلس 70، ص547، ح 10.
142سید ابن طاووس، اللہوف، ص70.۔۔ 143علی بن حسین مسعودی، اثبات الوصیہ، ص166
144ابوجعفر، محمّد بن جرير بن رستم طبرى آملى مازندرانى المعروف بہ طبری شیعی کتاب "دلائل الامامہ" کے مؤلف ہیں اور وہ محمد بن جریر بن یزید طبری (متوفی 923ہجری) سے بھی مختلف ہیں جو جو اہل سنت کے علماء میں سے ہیں اور مشہور تفسیر اور تاریخ کے مالک ہیں. وہ شیعہ عالم دین محمد بن جریر طبری (چوتھی صدی ہجری کے ابتدائی برسوں میں وفات پاچکے ہیں اور) کتاب "المسترشد" کے مؤلف ہیں، سے بھی مختلف ہیں جن کو شیخ طوسی نے "کبیر" کا لقب دیا ہے. محمد بن جریر بن رستم طبری.
145ابي جعفر محمد بن جرير بن رستم الطبري، دلائل الامامہ، ص178.۔۔ 146مناقب آل ابی طالب، ج4، ص106۔۔147تذکرۃ الخواص، ج2، ص161
148ابن صباغ مالکی، الفصول المہمہ، ص191.۔۔ 149عمدۃ الطالب فی أنساب آل ابی طالب، ص192۔۔150ملاحسین کاشفی، روضۃ الشہداء، ص346
151بلاذری، وہی ماخذ، ج3، ص405۔۔152طبری، وہی ماخذ، ج4، ص340۔۔.153بلاذری، وہی ماخذ، ج3، ص404.
154طبری، وہی ماخذ، ج4، ص336.۔۔ 155الامالی، مجلس 30، ح1، ص223ـ226.۔۔ 156فتال نیشابوری، روضۃ الواعظین، ص186ـ 188
.
157ابن شہرآشوب، وہی ماخذ، ج4، ص109ـ114.۔۔ 158ابن سعد، ترجمۃ الحسین و مقتلہ، ص184۔۔159بلاذری، انساب الاشراف، ج3، ص411
. 160طبری، تاریخ الامم و الملوک، ج4، ص348.۔۔ 161ابوعلی مسکویہ رازی، تجارب الامم و تعاقب الہمم، ج2، ص73.
162طبرسی، تاج الموالید، ص31.۔۔ 163خوارزمی، وہی ماخذ، ج2، ص44۔۔164ابن کثیر، وہی ماخذ، ج8، ص205.
165فضیل بن زبیر کوفی اسدی، "تسمیۃ من قتل مع الحسین(علیہ‌السلام)"، بحوالہ فصلنامہ تراثنا، شمارہ 2، ص149ـ 156.
166طبری، تاریخ الامم و الملوک، ج4، ص351.۔۔ 167دینوری، وہی ماخذ، ص260۔۔168شیخ مفید، وہی ماخذ، ج2، ص118.
169ابن عساکر، تاریخ مدینۃ دمشق، ج18، ص445.۔۔ 170ابن کثیر، وہی ماخذ، ج8، ص208۔۔171صفدی، الوافی بالوفیات، ج14، ص189
172ابن صباغ مالکی، الفصول المہمہ، ص193.۔۔ 173میرخواند، تاریخ روضۃ الصفا، ج5، ص2270۔۔174ابن اعثم، وہی ماخذ، ج5، ص127
175سبط ابن جوزی، وہی ماخذ، ج2، ص193.۔۔ 176ابن عبد ربہ، العقد الفرید، ج4، ص328۔۔177خوارزمی، وہی ماخذ، ج2، ص62.
178ابن سعد، وہی ماخذ، ص190.۔۔ 179ابوزید احمد بن سہل بلخی، البدء والتاریخ، ج2، ص241.۔۔ 180مسعودی، مروج الذہب ومعادن الجوہر، ج3، ص72
181سید محسن امین عاملی، اعیان الشیعہ، ج1، ص610ـ612.۔۔ 182شیخ مہدی شمس الدین، انصار الحسین(علیہ‌السلام)، ص49 و 52.
183ذبیح اللہ محلاتی، فرسان الہیجاء، ج2، ص154.۔۔ 184غلامحسین زرگری نژاد، نہضت امام حسین(علیہ‌السلام) و قیام کربلا، ص291ـ386
185ابن سعد، وہی ماخذ، ص196، ح 305.۔۔ 186خلیفۃ بن خیاط عصفری، تاریخ خلیفۃ بن خیاط، ص179
187سلیمان بن احمد طبرانی، المعجم الکبیر، ج3، ص104 و 119.۔۔ 188شیخ صدوق، کمال الدین و تمام النعمہ، ص533
189ہمو، الامالی، مجلس 87، ص694.۔۔ 190شیخ مفید، الارشاد، ج2، ص125ـ126۔۔191محمد بن حسن طوسی، الامالی، ص162، ح 268.
192عماد الدین طبری، بشارۃ المصطفی، ص426۔۔193خوارزمی، وہی ماخذ، ج2، ص53.۔۔ 194اربلی، وہی ماخذ، ج2، ص267
195  ابن کثیر، وہی ماخذ، ج8، ص205. ۔۔196 تسمیۃ من قتل مع الحسین(علیہ‌السلام)، ص149ـ151.۔۔ 197  شیخ صدوق، الخصال، ص519.
198 مناقب آل ابی طالب، اخذ، ج4، ص179. ۔۔199    ابن ابی الحدید، شرح نہج البلاغہ، ج15، ص251.
200  ابن ابی حاتم رازی، السیرۃ النبویہ، ص588. ۔۔201 محمد سماوی، اِبصار العین فی انصار الحسین(علیہ‌السلام)، ص49 اور بعد کے صفحات.
202  خوارزمی، وہی ماخذ، ج2، ص11. ۔۔203مسعودی، مروج الذہب، ج3، ص73. ۔۔204بلاذری، وہی ماخذ، ج3، ص410.
 205 طبری، تاریخ الامم و الملوک، ج4، ص347. ۔  206 شیخ مفید، الارشاد، ج2، ص113۔۔207  طبرسی، اعلام الوری ...، ج1، 470.
208 خوارزمی، وہی ماخذ، ج2، ص44. ۔۔209ابن شہرآشوب، وہی ماخذ، ج4، 20ص121۔210 سید ابن طاؤس، وہی ماخذ، ص79
211    ابن نما، وہی ماخذ، ص59. ۔  212 مجلسی، بحارالانوار، ج45، ص59۔۔۔213  طبری، تاریخ الامم و الملوک، ج4، ص346
214 خوارزمی، وہی ماخذ، ج2، ص42۔۔. 215  ابن شہرآشوب، وہی ماخذ، ج4، ص120. ۔۔216 ابن نما، وہی ماخذ، ص58۔۔.
217  سید ابن طاووس، وہی ماخذ، ص76. ۔  218 حمید بن احمد مُحَلّی، وہی ماخذ، ج1، ص212. ۔۔219  قاضی نعمان مغربی، وہی ماخذ، ج3، ص164.
220 طبری، دلائل الامامہ، ص178. ۔۔221   شیخ طوسی، الامالی، ص677، ح 10۔۔  222 شیخ صدوق، الامالی، مجلس 31، ح 1، ص228.
۔223  فتال نیشابوری، وہی ماخذ، ص189۔۔224 طبرسی، تاج الموالید، ص31۔۔225 ابن شہرآشوب، وہی ماخذ، ج4، ص120
226 مجلسی، بحارالانوار، ج45، ص82. ۔۔227    (وہی ماخذ، ص120).۔۔ 228  شیخ کلینی، الکافی، ج6، ص452، ح 9
229  مجلسی، بحارالانوار، ج45، ص92، ح 36. ۔۔230  قاضی نعمان مغربی، دعائم الاسلام، ج2، ص154.۔۔
  231   قاضی نعمان، شرح الاخبار، ج3، ص164۔۔  232  طبری، دلائل الامامہ، ص178۔۔233  خوارزمی، وہی ماخذ، ج2، ص42.
  234 ابوالفرج عبدالرحمن بن جوزی، الرد علی المتعصّب العنید، ص39. ۔۔235  ابن نما، وہی ماخذ، ص57 ـ 58.
236حمید بن احمد مُحَلّی، وہی ماخذ، ج1، ص213. ۔237    ابن سعد، وہی ماخذ، ص184۔۔238 مُحَلّی، وہی ماخذ، ج1، ص213.
239   ابن سعد، وہی ماخذ، ص184. ۔240 ابن نما، وہی ماخذ، ص57 ـ 58.۔۔ 241  قاضی نعمان، وہی ماخذ، ج3، ص164.
242 محمد بن علی عمری، المجدی فی انساب الطالبیین، ص13. ۔۔243  جمال الدین حسینی، عمدۃ الطالب فی أنساب آل ابی طالب، ص192.
244 سید بن طاؤس، وہی ماخذ، ص71. ۔۔245    طبرسی، اعلام الوری ...، ج1، ص469. ۔۔246 ابن شہرآشوب، وہی ماخذ، ج4، ص120.
247  محمد بن طاہر سماوی، إبصار العین فی أنصار الحسین(علیہ‌السلام)، ص220ـ221. ۔۔  248 خوارزمی، وہی ماخذ، ج2، ص25.
249  طبری، وہی ماخذ، ج4، ص334. ۔۔ 250 طبری، وہی ماخذ، ص332. ۔۔251   خوارزمی، وہی ماخذ، ج1، ص19
252 مجلسی، بحار الانوار، ج45، ص20. ۔۔۔253    فضیل بن زبیر، "تسمیۃ من قتل مع الحسین(علیہ‌السلام)"، بحوالہ فصلنامہ تراثنا، ص153ـ154.
254 مسعودی، مروج الذہب و معادن الجوہر، ج3، ص72۔۔. 255 سماوی، وہی ماخذ، ص221۔۔۔256 فضیل بن زبیر، وہی ماخذ، ص152
257شیخ طوسی، رجال الطوسی، ص21. ۔۔258 ابن شہر آشوب، وہی ماخذ، ج1، ص184.
259محب الدین احمد بن عبداللہ الطبری، ذخائر العقبی فی مناقب ذوی القربی، ص146.
260 ابن حجر، تبصیر المنتبہ، ج4، ص1296.۔۔ 261 عبداللہ مامقانی، تنقیح المقال، ج3، ص214
262 ابن حجر عسقلانی، الاصابۃ فی تمییز الصحابہ، ج6، ص445، ش 9051. ۔۔263  خواند میر، تاریخ حبیب السیر فی اخبار افراد البشر، ج2، ص43
264 مامقانی، وہی ماخذ، ج3، ص288. ۔۔265  ابن حجر، وہی ماخذ، ج5، ص8۔۔266 سماوی، ابصار العین ص93
267طبری، تاریخ الامم و الملوک، ج4، ص349. ۔۔268 بلاذری، وہی ماخذ، ج3، ص412۔۔269  دینوری، وہی ماخذ، ص259
270 شیخ مفید، الارشاد، ج2، ص113. ۔۔271  خوارزمی، وہی ماخذ، ج2، ص45. ۔۔۔272 ابن نما، وہی ماخذ، ص65.
273  طبری، وہی ماخذ، ص348. ۔۔۔ 274 خوارزمی، وہی ماخذ، ص44۔۔275  دینوری، وہی ماخذ، ص259.
276 بلاذری، وہی ماخذ، ج3، ص412۔۔. 277  سبط ابن جوزی، تذکرۃ الخواص، ص256۔۔278 سید ابن طاؤس، وہی ماخذ، ص85
279  تسلیۃ المجالس و زینۃ المجالس، ج2، ص331. ۔۔280 مجلسی، بحار الانوار، ج45، ص62.۔۔ 2891طبری، تاریخ الامم والملوک، ج4، ص358
282 ابن شہرآشوب، مناقب آل ابی طالب، ج4، ص121. ۔۔283  ابن صباغ مالکی، الفصول المہمہ، ص198
284 موالی جمع ہے مولی کی، مولٰی کے معنی متضاد ہیں: مثلا سرور و آقا کو مولٰی کہا جاتا ہے جیسا کہ رسول خدا(ص) نے فرمایا: من کنت مولاہ فہذا علی مولاہ؛ جس کا میں مولٰی (مولا) ہوں یہ علی(ع) بھی اس کے مولٰی ہیں. نیز بندہ، غلام اور مطیع کو بھی مولٰی کہا جاتا ہے. مولا "ولاء" سے مشتق ہے جس کے معنی پیوند اور قرابت کے ہیں چنانچہ اس کے معانی مختلف ہیں. وہ بھی مولا ہے جو حامی ہے اور وہ بھی مولا ہے جو حمایت یافتہ ہے. اس ولاء کے ایک معنی ولائے عتق کے ہیں؛ وہ افراد جو پہلے کبھی غلام تھے اور بعد میں آزاد ہوجاتے ہیں انہیں اور ان کی اولاد کو موالی کہا جاتا ہے (یہاں بھی موالی سے یہی مراد ہے). جیسا کہ آزاد کرنے والے کو بھی مولٰی کہا جاتا ہے. دو معنای متضاد برای کلمہ مولٰی.
285 فضیل بن زبیر، وہی ماخذ، ص152. ۔۔286 ابن سعد، وہی ماخذ، ص186۔۔287  طبری، تاریخ الامم و الملوک، ج4، ص359
  288 فضیل بن زبیر، وہی ماخذ. ۔۔289ابن شہرآشوب، وہی ماخذ، ج4، 122۔۔290 سماوی، وہی ماخذ، ص221ـ222
291 فضیل بن زبیر، وہی ماخذ، ص150. ۔۔292 ابن سعد، وہی ماخذ، ص186۔۔293  طبری، تاریخ الامم و الملوک، ج4، ص359
294 ابن حبان، الثقات، ج2، ص310. ۔۔295  ابوالفرج اصفہانی، وہی ماخذ، ص79
296 ابن شہرآشوب، وہی ماخذ، ج4، ص122؛ وہ لکھتے ہیں کہ ان کا ہاتھ کٹ گیا تھا. ۔
۔297  فضیل بن زبیر، وہی ماخذ، ص156 و محلّی، الحدائق الوردیہ، ج1، ص212.
298 فضیل بن زبیر، وہی ماخذ و محلی، وہی ماخذ. ۔۔299  بلاذری نے انہیں مرقع بن قمامہ بن خویلد لکھا ہے: انساب الاشراف، ج11، ص183
300 ابن کثیر نے مرقع بن یمانہ لکھا ہے:وہی ماخذ، ج8، ص205. ۔۔301  وہی ماخذ، ج4، ص347
302 وہی ماخذ، ج3، ص411. ۔۔303  الاخبار الطوال، ص259. ۔۔304 دینوری، الاخبار الطوال، ص259.
305  و ابن کثیر، وہی ماخذ، ج8، ص212. ۔۔306 بلاذری، وہی ماخذ، ج3، ص411. ۔۔307 ابن عبد ربہ‌اندلسی، العقد الفرید، ج4، ص360.
308 ابوالفرج اصفہانی، وہی ماخذ، ص79.۔ 309 سید ابن طاؤس، وہی ماخذ، ص86۔۔310 ابن سعد، وہی ماخذ، ص186
311  طبری، تاریخ الامم والملوک، ج4، ص353 و 359. ۔312 ابن حبان، وہی ماخذ، ج2، ص310.
313 ابوالفرج اصفہانی، وہی ماخذ، ص79. ۔314 خوارزمی، وہی ماخذ، ج2، ص41۔۔315  ابن عساکر، تاریخ مدینۃ دمشق، ج45، ص484.
316 سبط ابن جوزی، تذکرۃ الخواص، ج2، ص178. ۔۔317 سید ابن طاؤس، وہی ماخذ، ص86۔۔318 الارشاد، ج2، ص26.
319  فضیل بن زبیر، وہی ماخذ، ص150 و 157. ۔۔320 ابوالصلاح حلبی، تقریب المعارف، ص252.
321  ابن کثیر، وہی ماخذ، ج8، ص205.۔۔ 322 ابن قتیبہ دینوری، الامامۃ و السیاسہ، ج2، ص8۔۔323  قاضی نعمان مغربی، وہی ماخذ، ج3، ص198
. 324 ابن سعد، وہی ماخذ، ص187 و ذہبی، وہی ماخذ، ج3، ص303۔۔325  قاضی نعمان مغربی، وہی ماخذ، ج3، ص197۔۔326 ابن سعد، وہی ماخذ.
327 ابن عساکر، وہی ماخذ، ج54، ص226۔۔328 و ذہبی، وہی ماخذ، ج3، ص303۔۔. 329  بلاذری، وہی ماخذ، ج3، ص411
330 دینوری، وہی ماخذ، ص259. 331 طبری، تاریخ الامم و الملوک، ج4، ص347. ۔۔332 طبری، وہی ماخذ، ج4، ص321.
333  ابن عساکر، تاریخ مدینۃ دمشق، ج14، ص223. ۔۔334 شیخ صدوق، کمال الدین و تمام النعمہ، ص546۔۔۔335ابن سعد، وہی ماخذ، ص187.   .
336 ذہبی، وہی ماخذ، ج3، ص303. ۔۔337 قاضی نعمان، شرح الاخبار، ج3، ص198ـ 199. ۔۔338 ابوالفرج اصفہانی، مقاتل الطالبیین، ص79.
339  ابن سعد، وہی ماخذ، ص187۔۔340 ابوالفرج اصفہانی، وہی ماخذ، ص79. ۔۔341  شیخ صدوق، الامالی، مجلس 31، ص229۔۔342 ابن سعد، وہی ماخذ.
343  شیخ صدوق، الامالی، ص231. ۔۔344 قاضی نعمان مغربی، وہی ماخذ، ج3، ص198.۔۔ 345  ابن سعد، وہی ماخذ، ص187.
346 طبرانی، المعجم الکبیر، ج3، 104. ۔۔347 قاضی نعمان مغربی، وہی ماخذ، ص198۔۔348 شیخ صدوق، الامالی، ص228
349  ابن سعد، وہی ماخذ؛ ابوالفرج اصفہانی، وہی ماخذ، ص79. ۔۔350 طبرانی، وہی ماخذ، ص104۔۔351  قاضی نعمان مغربی، وہی ماخذ، ص199
352 شیخ صدوق، وہی ماخذ، ص230. ۔۔353  طبرسی، الاحتجاج، ج2، ص27۔۔354 خوارزمی، وہی ماخذ، ج2، ص105.۔۔ 355  ابن نما، وہی ماخذ، ص67.
356 سید ابن طاؤس، وہی ماخذ، ص88. ۔۔357ابن سعد، وہی ماخذ، ص187. ۔۔358 ابن سعد، وہی ماخذ، ص187. ۔
 359  طبری، تاریخ الامم والملوک، ج4، ص263۔۔360 طبری، وہی ماخذ، ص277ـ278۔۔361 بلاذری، وہی ماخذ، ج3، ص378ـ379
362 ابن نما، وہی ماخذ، ص66. ۔۔363  سید ابن طاؤس، وہی ماخذ، ص190۔۔364 مجلسی، بحارالانوار، ج45، ص108۔۔365  طبری، وہی ماخذ، ج4، ص342
366 ابن نما، وہی ماخذ، ص57. ۔367  ابن نما، وہی ماخذ، ص73. ۔۔368 سید ابن طاؤس، وہی ماخذ، ص205۔
369  مجلسی، بحارالانوار، ج45، ص120. ۔۔370 ابن نما، وہی ماخذ، ص58 و سید ابن طاؤس، ص180۔۔371بلاذری، انساب الاشراف، ج3، ص411.
372 طبری، تاریخ الامم و الملوک، ج4، ص348. ۔۔373 خوارزمی، وہی ماخذ، ج2، ص114۔۔. 374 ابن نما، وہی ماخذ، ص65ـ66
375 ابن کثیر، وہی ماخذ، ج8، ص206. ۔۔376 ابن اعثم، کتاب الفتوح، ج5، ص133۔۔377 شیخ مفید، الارشاد، ج2، ص122. .
378 طبرسی، اعلام الوری ...، ج1، ص475. ۔۔ 379 ابن سعد، وہی ماخذ، ص192۔۔380 طبری، وہی ماخذ، ج4، ص353
381 خوارزمی، وہی ماخذ، ج2، ص81. ۔۔382 ابن عساکر، ترجمۃ الامام الحسین(علیہ‌السلام)، ص338. ۔۔383 سبط ابن جوزی، وہی ماخذ، ج2، ص199.
384 ابن کثیر، البدایۃ و النہایہ، ج8، ص212. ۔۔385 محمد باقر مجلسی، جلاء العیون، ص405۔۔
386 ابوحنیفہ نعمان بن محمد تمیمی مغربی، شرح الاخبار فی فضائل الائمۃ الاطہار، ج3، ص269. ۔۔387 سید بن طاؤس، الاقبال بالأعمال، ج3، ص101.
388 طبری، الکامل للبہائی فی السقیفہ، ج2، ص302۔۔۔ 389مجلسی، بحار الانوار، ج45، ص196. ۔۔.   390مجلسی، جلاء العیون، ص409
مآخذ.
ابن اَبّار، محمد بن عبداللہ بن ابی بکر قضاعی، دُرَرَ السمط فی خبر السبط، تحقیق عزالدین عمر موسی، چاپ اول: بیروت، دارالغرب الاسلامی، 1407ہجری قمری.
ابن ابی الحدید، شرح نہج البلاغہ، تحقیق محمد ابوالفضل ابراہیم، بیروت، داراحیاء الکتب العربیہ، 1378 ہجری قمری.
ابن اعثم، أبو محمد أحمد، الکوفی الکندی، کتاب الفتوح، تحقیق علی شیری، بیروت، دارالاضواء، 1411 ہجری قمری.
ابن جوزی، ابوالفرج عبدالرحمن علی بن محمد، المنتظم فی تاریخ الملوک و الامم، بیروت، دارالکتب العلمیہ، 1412ہجری قمری.
ابن حجر عسقلانی، الاصابہ فی تمییز الصحابہ، تحقیق شیخ عادل احمد عبدالموجود و شیخ علی محمد معوض، چاپ اول: بیروت، دارالکتب العلمیہ، 1415 ہجری قمری.
ابن حجر عسقلانی، تبصیر المنتبہ، قاہرہ، دارالقومیۃ العربیہ.
ابن حجر عسقلانی، تہذیب التہذیب، چاپ اول: بیروت، دارالفکر، 1404 ہجری قمری.
ابن سعد، «ترجمۃ الحسین و مقتلہ»، تحقیق سید عبدالعزیز طباطبایی، فصلنامہ تراثنا، سال سوم، شمارہ 10، 1408 ہجری قمری.
ابن شہرآشوب، مناقب آل ابی طالب، تحقیق یوسف بقاعی، بیروت، افست دارالاضواء، 1421ہجری قمری.
ابن صباغ مالکی، الفصول المہمہ، تہران، مؤسسۃ الاعلمی، [بی تا].
ابن عبد ربہ، احمد بن محمد، العقد الفرید، تحقیق علی شیری، چاپ اول: بیروت، داراحیاء التراث العربی، 1409 ہجری قمری.
ابن عبد ربہ، العقد الفرید، مطبعۃ اللجنۃ التألیف و الترجمۃ و النشر، 1365 ہجری قمری.
ابن عبدالبرّ قرطبی، الاستیعاب فی معرفۃ الاصحاب، تحقیق شیخ عادل احمد عبدالموجود و شیخ علی محمد معوض، چاپ اول: بیروت، دارالکتب العلمیہ، 1415 ہجری قمری.
ابن عساکر، تاریخ مدینۃ دمشق، تحقیق علی شیری، بیروت، دارالفکر، 1415 ہجری قمری.
ابن عساکر، ترجمۃ الامام الحسین، تحقیق محمد باقر محمودی، قم، مجمع احیاء الثقافۃ الاسلامیہ، 1414 ہجری قمری.
ابن عنبہ، سید جمال الدین احمد بن علی حسنی، عمدۃ الطالب فی أنساب آل ابی طالب، تصحیح محمد حسن آل طالقانی، نجف، مطبعۃ الحیدریہ، 1380ہجری قمری.
ابن قتیبہ دینوری، الامامۃ و السیاسہ، تحقیق علی شیری، بیروت، دارالاضواء، 1410ہجری قمری.
ابن کثیر دمشقی، ابوالفداء اسماعیل، البدایۃ و النہایہ، تحقیق علی شیری، بیروت، داراحیاء التراث العربی، 1408ہجری قمری.
ابن نما حلی، مثیرالأحزان، نجف، مطبعۃ الحیدریہ، 1369 ہجری قمری.
ابوالصلاح حلبی، تقریب المعارف، تحقیق فارس تبریزیان حسون، [بی جا ]، محقق، 1375ہجری شمسی.
ابوالفرج اصفہانی، مقاتل الطالبیین، قم، مؤسسہ دارالکتاب، 1385 ہجری قمری.
ابوحنیفہ دینوری، الأخبار الطوال، تحقیق عبدالمنعم عامر، قاہرہ، داراحیاء الکتب العربیہ، 1960 عیسوی.
اربلی، علی بن عیسی بن ابی الفتح، کشف الغمۃ فی معرفۃ الائمہ، بیروت، دارالأضواء، 1405 ہجری قمری.
ازدی غامدی کوفی، ابومخنف لوط بن یحیی، وقعۃ الطف، تحقیق محمد ہادی یوسفی غروی، چاپ سوم: قم، مؤسسۃ النشر الاسلامی، 1417 ہجری قمری.
  • باعونی، محمد بن احمد، جواہر المطالب فی مناقب الامام علی بن ابی طالب، تحقیق محمدباقر محمودی، قم، مجمع احیاء الثقافۃ الاسلامیہ، 1415 ہجری قمری.
  • بلاذری، احمد بن یحیی جابر، انساب الاشراف، تحقیق سہیل زکار و ریاض زرکلی، بیروت، دارالفکر، 1417 ہجری قمری.
  • بلخی، ابوزید احمد بن سہل، البدء والتاریخ، بیروت، دارالکتب العلمیہ، 1417ہجری قمری.
  • تستری، شیخ محمدتقی، قاموس الرجال، قم، مؤسسۃ النشر الاسلامی.
  • تمیمی بستی، محمد بن حبّان بن احمد، الثقات، چاپ اول: [بی جا]، مؤسسۃ الکتب الثقافیہ، 1393 ہجری قمری.
  • تمیمی مغربی، ابوحنیفہ نعمان بن محمد، شرح الأخبار فی فضائل الائمۃ الاطہار، تحقیق سید محمد حسینی جلالی، قم، مؤسسۃ النشر الاسلامی، [بی تا].
  • جرجانی شجری، یحیی بن حسین بن اسماعیل، الامالی الخمیسیہ، بیروت، عالم الکتب.
  • جعفریان، رسول، تأملی در نہضت عاشورا، چاپ دوم: قم، انصاریان، 1381ہجری شمسی.
  • حسینی موسوی، محمد بن ابی طالب، تسلیۃ المُجالس و زینۃ المَجالس، تحقیق فارس حسّون، چاپ اول: قم، مؤسسۃ المعارف الاسلامیہ، 1418ہجری قمری.
  • حلی، رضی الدین علی بن یوسف مطہر، العدد القویہ، تحقیق سید مہدی رجایی، چاپ اول: قم، مکتبۃ آیۃ اللہ * المرعشی النجفی، 1408ہجری قمری.
  • خوارزمی، موفق بن احمد، مقتل الحسین، تحقیق محمد طاہر سماوی، قم، دارانوار الہدی، 1418 ہجری قمری.
  • خواند میر، غیاث الدین بن ہمام الدین حسینی، تاریخ حبیب السیر فی اخبار افراد بشر، تہران، انتشارات کتابخانہ خیام، 1333.
  • دولابی، محمد بن احمد، الذریۃ الطاہرہ، تحقیق سعد مبارک حسن، کویت، دارالسلفیہ، 1407 ہجری قمری.
  • ذہبی، سیر اعلام النبلاء، بیروت، مؤسسۃ الرسالہ، 1413ہجری قمری.
  • ذہبی، شمس الدین، تاریخ الاسلام، تحقیق عمر عبدالسلام تدمُری، چاپ دوم: بیروت، دارالکتاب العربی، 1418ہجری قمری.
  • زرگری نژاد، غلامحسین، نہضت امام حسین و قیام کربلا، چاپ اول: تہران، سمت، 1383ہجری شمسی.
  • سبط ابن جوزی، تذکرۃ الخواص من الامۃ بذکر خصائص الائمہ، تحقیق حسین تقی زادہ، چاپ اول: [بی جا]، مرکز الطباعۃ و النشر للمجمع العالمی لأہل البیت، 1426 ہجری قمری.
  • سبط ابن جوزی، تذکرۃ الخواص، قدّم لہ سید صادق بحرالعلوم، تہران، مکتبۃ نینوی الحدیثہ، [بی تا].
  • سپہر، محمدتقی، ناسخ التواریخ، چاپ سوم: تہران، کتابفروشی اسلامیہ، 1368ہجری شمسی.
  • سلیم بن قیس، کتاب سلیم بن قیس الہلالی، تحقیق محمد باقر انصاری زنجانی، [بی جا، بی‌نا، بی‌تا].
  • سماوی، محمد بن طاہر، إبصار العین فی أنصار الحسین، تحقیق محمد جعفر سماوی، قم، مرکز الدراسات الاسلامیۃ لحرس * الثورہ، 1377 ہجری شمسی.
  • سید ابن طاؤس، الاقبال بالاعمال الحسنۃ فیما یعمل مرۃ فی السنہ، تحقیق جواد قیومی اصفہانی، [بی جا]، مکتب الاعلام الاسلامی، 1416 ہجری قمری.
  • سید ابن طاؤس، الملہوف علی قتلی الطفوف، تحقیق فارس حسّون، چاپ چہارم: تہران، دارالاسوہ، 1383 ہجری شمسی.
  • شافعی، محمد بن طلحہ، کفایۃ الطالب فی مناقب امیرالمؤمنین، تحقیق محمد ہادی امینی، تہران دار احیاء تراث اہل البیت، 1404 ہجری قمری.
  • شافعی، محمد بن طلحہ، مطالب السؤول فی مناقب الرسول، تحقیق ماجد بن احمد العطیہ، بیروت، مؤسسۃ‌ام القری، 1420 ہجری قمری.
  • شمس الدین، محمد مہدی، انصار الحسین، چاپ دوم:[بی جا]، الدار الاسلامیہ، 1401 ہجری قمری.
  • شیخ صدوق، الأمالی، تحقیق مؤسسۃ البعثہ، چاپ اول: قم، مؤسسۃ البعثہ، 1417 ہجری قمری.
  • شیخ صدوق، الخصال، تصحیح علی اکبر غفاری، قم، منشورات جماعۃ المدرسین، 1362 ہجری شمسی.
  • شیخ صدوق، عیون أخبار الرضا، تحقیق شیخ حسین اعلمی، بیروت، مؤسسۃ الاعلمی للمطبوعات، 1404 ہجری قمری.
  • شیخ صدوق، کمال الدین و تمام النعمہ، تصحیح علی اکبر غفاری، قم، مؤسسۃ النشر الاسلامی، 1405ہجری قمری.
  • شیخ طوسی، الامالی، تحقیق مؤسسۃ البعثہ، چاپ اول: قم، دارالثقافہ، 1414 ہجری قمری.
  • شیخ طوسی، رجال الطوسی، تحقیق جواد قیومی، قم، مؤسسۃ النشر الاسلامی، 1415 ہجری قمری.
  • شیخ کلینی، الکافی، تحقیق علی اکبر غفاری، تہران، دارالکتب الاسلامیہ، 1363 ہجری شمسی.
  • شیخ مفید، الارشاد فی معرفۃ حجج اللہ علی العباد، تحقیق مؤسسۃ آل البیت لاحیاء التراث، قم، دارالمفید، 1413 ہجری قمری.
  • شیخ مفید، مسارّ الشیعہ، (چاپ شدہ در جلد 7 مؤلفات شیخ مفید)، تحقیق مہدی نجف، چاپ دوم: بیروت، دارالمفید، 1414ہجری قمری.
  • صفدی، صلاح الدین خلیل بن أیبک، الوافی بالوفیات، بیروت، المعہد المانی.
  • طبرانی، سلیمان بن احمد، المعجم الکبیر، تحقیق حمدی عبدالمجید سلفی، چاپ دوم: قاہرہ، مکتبۃ ابن تیمیہ، [بی تا].
  • طبرسی، ابومنصور احمدبن علی بن ابی طالب، الاحتجاج، سید محمّد باقر خرسان، نجف، دارالنعمان، 1386 ہجری قمری.
  • طبرسی، فضل بن حسن، إعلام الوری بأعلام الہدی، چاپ اول: قم، مؤسسۃ آل البیت لاحیاء التراث، 1417ہجری قمری.
  • طبرسی، فضل بن حسن، تاج الموالید، قم، مکتبۃ آیۃ اللہ مرعشی نجفی، 1406ہجری قمری.
  • طبری، ابوجعفر محمد بن جریر، تاریخ الامم و الملوک، بیروت، مؤسسۃ الأعلمی للمطبوعات، 1409 ہجری قمری.
  • طبری، عماد الدین حسن بن علی، کامل بہائی (الکامل البہائی فی السقیفہ)، تہران، مکتبۃ المصطفوی، [بی تا].
  • طبری، عماد الدین، بشارۃ المصطفی، تحقیق جواد قیومی اصفہانی، چاپ اول: قم، مؤسسۃ النشر الاسلامی، 1420 ہجری قمری.
  • طبری، محب الدین احمد بن عبداللہ، ذخائر العقبی فی مناقب ذوی القربی، قاہرہ، مکتبۃ القدسی، 1356ہجری قمری.
  • طبری، محمد بن جریر بن رستم، دلائل الامامہ، تحقیق مؤسسۃ البعثہ، چاپ اول: قم، مؤسسۃ البعثہ، 1413 ہجری قمری.
  • طوسی، محمد بن حسن، مصباح المتہجّد و سلاح المتعبّد، چاپ اول: بیروت، مؤسسۃ فقہ الشیعہ، 1411 ہجری قمری.
  • عاملی، سید محسن امین، اعیان الشیعہ، بیروت، دارالتعارف للمطبوعات، 1406 ہجری قمری.
  • عصفری، خلیفۃ بن خیاط، تاریخ خلیفۃ بن خیاط، تحقیق سہیل زکار، بیروت، دارالفکر، 1414ہجری قمری.
  • عمری، علی بن محمد، المجدی فی انساب الطالبیین، چاپ اول: قم، مکتبۃ آیۃ اللہ مرعشی نجفی، 1409 ہجری قمری.
  • خلیل بن احمد الفراہیدی، ترتیب کتاب العین، تحقیق مہدی المخزومی،ابراہیم سامرائی؛ تصحیح اسعد الطبیب، ناشر: سازمان اوقاف و امور خیریہ،انتشارات اسوہ، چاپ اول، قم، 1414ہجری قمری.
  • قزوینی، زکریا محمد بن محمود، عجائب المخلوقات و غرائب الموجودات، چاپ شدہ در حاشیہ کتاب حیاۃ الحیوان دمیری، [بی جا، بی‌نا، بی‌تا].
  • کاشفی، ملاحسین، روضۃ الشہداء، قم، نوید اسلام، 1381 ہجری شمسی.
  • کفعمی، تقی الدین ابراہیم بن علی، المصباح، قم، منشورات الشریف الرضی و زاہدی.
  • کوفی اسدی، فضیل بن زبیر بن عمر بن درہم، «تسمیۃ من قتل مع الحسین»، تحقیق سید محمد رضا حسینی جلالی، فصلنامہ تراثنا، شمارہ 2، 1406ہجری قمری.
  • مامقانی، عبداللہ، تنقیح المقال، تہران، انتشارات جہان، [بی تا].
  • مجلسی، محمدباقر، بحار الانوار، چاپ دوم: بیروت، مؤسسۃ الوفاء، 1403ہجری قمری.
  • مجلسی، محمدباقر، جلاء العیون، چاپ اول: تہران، رشیدی، 1362 ہجری شمسی.
  • محلاتی، ذبیح اللہ، فرسان الہیجاء، چاپ دوم: تہران، مرکز نشر کتاب، 1390ہجری قمری.
  • مُحَلّی، حمید بن احمد، الحدائق الوردیہ فی مناقب ائمۃ الزیدیہ، تحقیق مرتضی بن زید محطوری حسنی، چاپ اول: صنعاء، مکتبۃ بدر، 1423ہجری قمری.
  • مسعودی، علی بن حسین، اثبات الوصیہ، قم، انتشارات انصاریان، 1417 ہجری قمری.
  • مسعودی، مروج الذہب و معادن الجوہر، تحقیق سعید محمد لحّام، بیروت، دارالفکر، 1421 ہجری قمری.
  • مسکویہ رازی، ابوعلی، تجارب الامم وتعاقب الہمم، تحقیق ابوالقاسم امامی، چاپ اول: تہران، سروش، 1366 ہجری شمسی.
  • مشہدی، المزار الکبیر، تحقیق جواد قیومی اصفہانی، چاپ اول: قم، مؤسسۃ النشر الاسلامی، 1419 ہجری قمری.
  • معلوف، لوئیس، المنجد فی الاعلام، چاپ دوازدہم: بیروت، افست دارالمشرق، [بی تا].
  • مغربی، قاضی نعمان، دعائم الاسلام، تحقیق آصف بن علی اصغر فیضی، قاہرہ، دارالمعارف، 1383 ہجری قمری.
  • موسوی خویی، ابوالقاسم، معجم رجال الحدیث و تفصیل طبقات الرواہ، چاپ پنجم: [بی جا، بی‌نا ]، 1413 ہجری قمری.
  • میرخواند، تاریخ روضۃ الصفا، تصحیح جمشید کیان فر، چاپ اول: تہران، اساطیر، 1380ہجری شمسی.
  • نویری، شہاب الدین احمد بن عبدالوہّاب، نہایۃ الارب فی فنون الادب، قاہرہ، مکتبۃ العربیہ، 1395 ہجری قمری.
  • نیشابوری، محمد بن فتال، روضۃ الواعظین، تحقیق سید محمد مہدی خرسان، قم، منشورات الشریف الرضی، [بی تا].
  • ہادی بن ابراہیم وزیر، نہایۃ التنویہ فی ازہاق التمویہ، تحقیق احمد بن درہم ابن عبداللہ حوریہ و ابراہیم بن مجد الدین بن محمد مؤیدی، چاپ اول: یمن، منشورات مرکز اہل البیت للدراسات الاسلامیہ، 1421 ہجری قمری.
  • ہیتمی، احمد بن حجر، الصواعق المحرقۃ فی ردّ اہل البدع و الزندقہ، تعلیق عبدالوہاب عبداللطیف، چاپ دوم: قاہرہ، مکتبۃ القاہرہ، 1385ہجری قمری.
  • یوسفی غروی، محمدہادی، وقعۃ الطف، چاپ سوم: قم، مؤسسۃ النشر الاسلامی، 1417 ہجری قمری.
بیرونی ربط
یہ مضمون مقالہ بعنوان "عاشورا در آینۂ آمار و ارقام سے اقتباس کیا گیا ہے جو مجلہ بعنوان "تاریخ در آیینۂ پژوہش" میں شائع ہوا ہے.
http://ur.wikishia.net/view/ واقعۂ_عاشورا_اعداد_و_شمار_کے_آئینے_میں
https://ur.wikipedia.org/wik i/واقعہ_کربلا_کے_اعداد_و_شمارi